HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Sahih Bukhari

.

صحيح البخاري

344

صحیح
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِمْرَانَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا فِي سَفَرٍ مَعَ النَّبِيِّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّا أَسْرَيْنَا حَتَّى كُنَّا فِي آخِرِ اللَّيْلِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَعْنَا وَقْعَةً وَلَا وَقْعَةَ أَحْلَى عِنْدَ الْمُسَافِرِ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَمَا أَيْقَظَنَا إِلَّا حَرُّ الشَّمْسِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ فُلَانٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ فُلَانٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ فُلَانٌ يُسَمِّيهِمْ أَبُو رَجَاءٍ فَنَسِيَ عَوْفٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الرَّابِعُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ النَّبِيُّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏إِذَا نَامَ لَمْ يُوقَظْ حَتَّى يَكُونَ هُوَ يَسْتَيْقِظُ، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّا لَا نَدْرِي مَا يَحْدُثُ لَهُ فِي نَوْمِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ عُمَرُ وَرَأَى مَا أَصَابَ النَّاسَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ رَجُلًا جَلِيدًا، ‏‏‏‏‏‏فَكَبَّرَ وَرَفَعَ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا زَالَ يُكَبِّرُ وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ حَتَّى اسْتَيْقَظَ لِصَوْتِهِ النَّبِيُّ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ شَكَوْا إِلَيْهِ الَّذِي أَصَابَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا ضَيْرَ أَوْ لَا يَضِيرُ، ‏‏‏‏‏‏ارْتَحِلُوا، ‏‏‏‏‏‏فَارْتَحَلَ، ‏‏‏‏‏‏فَسَارَ غَيْرَ بَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ نَزَلَ فَدَعَا بِالْوَضُوءِ فَتَوَضَّأَ وَنُودِيَ بِالصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى بِالنَّاس، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا انْفَتَلَ مِنْ صَلَاتِهِ إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ مُعْتَزِلٍ لَمْ يُصَلِّ مَعَ الْقَوْمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا مَنَعَكَ يَا فُلَانُ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَ الْقَوْمِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ وَلَا مَاءَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ فَإِنَّهُ يَكْفِيكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَارَ النَّبِيُّ (ﷺ) فَاشْتَكَى إِلَيْهِ النَّاسُ مِنَ الْعَطَشِ، ‏‏‏‏‏‏فَنَزَلَ فَدَعَا فُلَانًا كَانَ يُسَمِّيهِ أَبُو رَجَاءٍ نَسِيَهُ عَوْفٌ وَدَعَا عَلِيًّا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اذْهَبَا فَابْتَغِيَا الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقَا، ‏‏‏‏‏‏فَتَلَقَّيَا امْرَأَةً بَيْنَ مَزَادَتَيْنِ أَوْ سَطِيحَتَيْنِ مِنْ مَاءٍ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَا لَهَا:‏‏‏‏ أَيْنَ الْمَاءُ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ عَهْدِي بِالْمَاءِ أَمْسِ هَذِهِ السَّاعَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَنَفَرُنَا خُلُوفًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَا لَهَا:‏‏‏‏ انْطَلِقِي، ‏‏‏‏‏‏إِذًا قَالَتْ:‏‏‏‏ إِلَى أَيْنَ ؟ قَالَا:‏‏‏‏ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ (ﷺ)، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ الَّذِي يُقَالُ لَهُ الصَّابِئُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ هُوَ الَّذِي تَعْنِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلِقِي فَجَاءَا بِهَا إِلَى النَّبِيِّ (ﷺ) وَحَدَّثَاهُ الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَاسْتَنْزَلُوهَا عَنْ بَعِيرِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَدَعَا النَّبِيُّ (ﷺ) بِإِنَاءٍ فَفَرَّغَ فِيهِ مِنْ أَفْوَاهِ الْمَزَادَتَيْنِ أَوْ سَطِيحَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَوْكَأَ أَفْوَاهَهُمَا وَأَطْلَقَ الْعَزَالِيَ وَنُودِيَ فِي النَّاسِ اسْقُوا وَاسْتَقُوا، ‏‏‏‏‏‏فَسَقَى مَنْ شَاءَ وَاسْتَقَى مَنْ شَاءَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ آخِرَ ذَاكَ أَنْ أَعْطَى الَّذِي أَصَابَتْهُ الْجَنَابَةُ إِنَاءً مِنْ مَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اذْهَبْ فَأَفْرِغْهُ عَلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏وَهِيَ قَائِمَةٌ تَنْظُرُ إِلَى مَا يُفْعَلُ بِمَائِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَايْمُ اللَّهِ لَقَدْ أُقْلِعَ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ لَيُخَيَّلُ إِلَيْنَا أَنَّهَا أَشَدُّ مِلْأَةً مِنْهَا حِينَ ابْتَدَأَ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ (ﷺ):‏‏‏‏ اجْمَعُوا لَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَجَمَعُوا لَهَا مِنْ بَيْنِ عَجْوَةٍ وَدَقِيقَةٍ وَسَوِيقَةٍ حَتَّى جَمَعُوا لَهَا طَعَامًا، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلُوهَا فِي ثَوْبٍ وَحَمَلُوهَا عَلَى بَعِيرِهَا وَوَضَعُوا الثَّوْبَ بَيْنَ يَدَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لَهَا:‏‏‏‏ تَعْلَمِينَ مَا رَزِئْنَا مِنْ مَائِكِ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنَّ اللَّهَ هُوَ الَّذِي أَسْقَانَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَتْ أَهْلَهَا وَقَدِ احْتَبَسَتْ عَنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ مَا حَبَسَكِ يَا فُلَانَةُ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ الْعَجَبُ، ‏‏‏‏‏‏لَقِيَنِي رَجُلَانِ فَذَهَبَا بِي إِلَى هَذَا الَّذِي يُقَالُ لَهُ الصَّابِئُ فَفَعَلَ كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَوَاللَّهِ إِنَّهُ لَأَسْحَرُ النَّاسِ مِنْ بَيْنِ هَذِهِ وَهَذِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَتْ بِإِصْبَعَيْهَا الْوُسْطَى وَالسَّبَّابَةِ:‏‏‏‏ فَرَفَعَتْهُمَا إِلَى السَّمَاءِ تَعْنِي السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ أَوْ إِنَّهُ لَرَسُولُ اللَّهِ حَقًّا، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَ ذَلِكَ يُغِيرُونَ عَلَى مَنْ حَوْلَهَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَلَا يُصِيبُونَ الصِّرْمَ الَّذِي هِيَ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ يَوْمًا لِقَوْمِهَا:‏‏‏‏ مَا أُرَى أَنَّ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ يَدْعُونَكُمْ عَمْدًا، ‏‏‏‏‏‏فَهَلْ لَكُمْ فِي الْإِسْلَامِ ؟ فَأَطَاعُوهَا، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلُوا فِي الْإِسْلَامِ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے، کہا کہ ہم سے عوف نے، کہا کہ ہم سے ابورجاء نے عمران کے حوالہ سے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ہم رات بھر چلتے رہے اور جب رات کا آخری حصہ آیا تو ہم نے پڑاؤ ڈالا اور مسافر کے لیے اس وقت کے پڑاؤ سے زیادہ مرغوب اور کوئی چیز نہیں ہوتی (پھر ہم اس طرح غافل ہو کر سو گئے) کہ ہمیں سورج کی گرمی کے سوا کوئی چیز بیدار نہ کرسکی۔ سب سے پہلے بیدار ہونے والا شخص فلاں تھا۔ پھر فلاں پھر فلاں۔ ابورجاء نے سب کے نام لیے لیکن عوف کو یہ نام یاد نہیں رہے۔ پھر چوتھے نمبر پر جاگنے والے عمر بن خطاب (رض) تھے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماتے تو ہم آپ کو جگاتے نہیں تھے۔ یہاں تک کہ آپ خودبخود بیدار ہوں۔ کیونکہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ پر خواب میں کیا تازہ وحی آتی ہے۔ جب عمر (رض) جاگ گئے اور یہ آمدہ آفت دیکھی اور وہ ایک نڈر دل والے آدمی تھے۔ پس زور زور سے تکبیر کہنے لگے۔ اسی طرح باآواز بلند، آپ اس وقت تک تکبیر کہتے رہے جب تک کہ نبی کریم ﷺ ان کی آواز سے بیدار نہ ہوگئے۔ تو لوگوں نے پیش آمدہ مصیبت کے متعلق آپ ﷺ سے شکایت کی۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی ہرج نہیں۔ سفر شروع کرو۔ پھر آپ ﷺ تھوڑی دور چلے، اس کے بعد آپ ﷺ ٹھہر گئے اور وضو کا پانی طلب فرمایا اور وضو کیا اور اذان کہی گئی۔ پھر آپ ﷺ نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے سے فارغ ہوئے تو ایک شخص پر آپ ﷺ کی نظر پڑی جو الگ کنارے پر کھڑا ہوا تھا اور اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ اے فلاں ! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونے سے کون سی چیز نے روکا۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہوگئی اور پانی موجود نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پاک مٹی سے کام نکال لو۔ یہی تجھ کو کافی ہے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے سفر شروع کیا تو لوگوں نے پیاس کی شکایت کی۔ آپ ﷺ ٹھہر گئے اور فلاں (یعنی عمران بن حصین رضی اللہ عنہما) کو بلایا۔ ابورجاء نے ان کا نام لیا تھا لیکن عوف کو یاد نہیں رہا اور علی (رض) کو بھی طلب فرمایا۔ ان دونوں سے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ پانی تلاش کرو۔ یہ دونوں نکلے۔ راستہ میں ایک عورت ملی جو پانی کی دو پکھالیں اپنے اونٹ پر لٹکائے ہوئے بیچ میں سوار ہو کر جا رہی تھی۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ملتا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ کل اسی وقت میں پانی پر موجود تھی (یعنی پانی اتنی دور ہے کہ کل میں اسی وقت وہاں سے پانی لے کر چلی تھی آج یہاں پہنچی ہوں) اور ہمارے قبیلہ کے مرد لوگ پیچھے رہ گئے ہیں۔ انہوں نے اس سے کہا۔ اچھا ہمارے ساتھ چلو۔ اس نے پوچھا، کہاں چلوں ؟ انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں۔ اس نے کہا، اچھا وہی جن کو لوگ صابی کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا، یہ وہی ہیں، جسے تم کہہ رہی ہو۔ اچھا اب چلو۔ آخر یہ دونوں حضرات اس عورت کو نبی کریم ﷺ کی خدمت مبارک میں لائے۔ اور سارا واقعہ بیان کیا۔ عمران نے کہا کہ لوگوں نے اسے اونٹ سے اتار لیا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے ایک برتن طلب فرمایا۔ اور دونوں پکھالوں یا مشکیزوں کے منہ اس برتن میں کھول دئیے۔ پھر ان کا اوپر کا منہ بند کردیا۔ اس کے بعد نیچے کا منہ کھول دیا اور تمام لشکریوں میں منادی کردی گئی کہ خود بھی سیر ہو کر پانی پئیں اور اپنے تمام جانوروں وغیرہ کو بھی پلا لیں۔ پس جس نے چاہا پانی پیا اور پلایا (اور سب سیر ہوگئے) آخر میں اس شخص کو بھی ایک برتن میں پانی دیا جسے غسل کی ضرورت تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا، لے جا اور غسل کرلے۔ وہ عورت کھڑی دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی سے کیا کیا کام لیے جا رہے ہیں اور اللہ کی قسم ! جب پانی لیا جانا ان سے بند ہوا، تو ہم دیکھ رہے تھے کہ اب مشکیزوں میں پانی پہلے سے بھی زیادہ موجود تھا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کچھ اس کے لیے (کھانے کی چیز) جمع کرو۔ لوگوں نے اس کے لیے عمدہ قسم کی کھجور (عجوہ) آٹا اور ستو اکٹھا کیا۔ یہاں تک کہ بہت سارا کھانا اس کے لیے جمع ہوگیا۔ تو اسے لوگوں نے ایک کپڑے میں رکھا اور عورت کو اونٹ پر سوار کر کے اس کے سامنے وہ کپڑا رکھ دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ ہم نے تمہارے پانی میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں سیراب کردیا۔ پھر وہ اپنے گھر آئی، دیر کافی ہوچکی تھی اس لیے گھر والوں نے پوچھا کہ اے فلانی ! کیوں اتنی دیر ہوئی ؟ اس نے کہا، ایک عجیب بات ہوئی وہ یہ کہ مجھے دو آدمی ملے اور وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جسے لوگ صابی کہتے ہیں۔ وہاں اس طرح کا واقعہ پیش آیا، اللہ کی قسم ! وہ تو اس کے اور اس کے درمیان سب سے بڑا جادوگر ہے اور اس نے بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر اشارہ کیا۔ اس کی مراد آسمان اور زمین سے تھی۔ یا پھر وہ واقعی اللہ کا رسول ہے۔ اس کے بعد مسلمان اس قبیلہ کے دور و نزدیک کے مشرکین پر حملے کیا کرتے تھے۔ لیکن اس گھرانے کو جس سے اس عورت کا تعلق تھا کوئی نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔ یہ اچھا برتاؤ دیکھ کر ایک دن اس عورت نے اپنی قوم سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ تمہیں جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ تو کیا تمہیں اسلام کی طرف کچھ رغبت ہے ؟ قوم نے عورت کی بات مان لی اور اسلام لے آئی۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے فرمایا کہ صباکے معنی ہیں اپنا دین چھوڑ کر دوسرے کے دین میں چلا گیا اور ابوالعالیہ نے کہا ہے کہ صابئین اہل کتاب کا ایک فرقہ ہے جو زبور پڑھتے ہیں اور سورة یوسف میں جو اصبکا لفظ ہے وہاں بھی اس کے معنی املکے ہیں۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔