HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

.

ابن أبي شيبة

31270

(۳۱۲۷۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ جَاوَانَ ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : قدِمْنَا الْمَدِینَۃَ وَنَحْنُ نُرِیدُ الْحَجَّ ، قَالَ الأَحْنَفُ : فَانْطَلَقْتُ فَأَتَیْتُ طَلْحَۃَ وَالزُّبَیْرَ ، فَقُلْتُ : مَنْ تَأْمُرَانِی بِہِ وَتَرْضَیَانِہِ لِی ؟ فَإِنِّی مَا أَرَی ہَذَا إلاَّ مَقْتُولاً ، یَعْنِی عُثْمَانَ ، قَالاَ : نَأْمُرُک بِعَلِیّ ، قُلْتُ تَأْمُرَانِی بِہِ وَتَرْضَیَانِہِ لِی ؟ قَالاَ : نَعَمْ ، قَالَ : ثُمَّ انْطَلَقْت حَاجًّا حَتَّی قَدِمْت مَکَّۃَ ، فَبَیْنَا نَحْنُ بِہَا إذْ أَتَانَا قَتْلُ عُثْمَانَ ، وَبِہَا عَائِشَۃُ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ ، فَلَقِیتُہَا ، فَقُلْتُ : مَنْ تَأْمُرِینِی بِہِ أَنْ أُبَایِعَ ؟ قَالَتْ : عَلِی ، قُلْتُ : أَتَأْمُرِینِی بِہِ وَتَرْضَیْنَہُ لِی ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ، فَمَرَرْت عَلَی عَلِیٍّ بِالْمَدِینَۃِ فَبَایَعْتہ ، ثُمَّ رَجَعْت إلَی الْبَصْرَۃِ وَأَنَا أَرَی أَنَّ الأَمْرَ قَدِ اسْتَقَامَ۔ فَبَیْنَا أَنَا کَذَلِکَ إذْا أَتَانِی آتٍ ، فَقَالَ : ہَذِہِ عَائِشَۃُ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ وَطَلْحَۃُ وَالزُّبَیْرُ قَدْ نَزَلُوا جَانِبَ الْخُرَیْبَۃِ ، قَالَ : فَقُلْتُ : مَا جَائَ بِہِمْ ؟ قَالُوا : أَرْسَلُوا إلَیْک یَسْتَنْصِرُونَک عَلَی دَمِ عُثْمَانَ ، قُتِلَ مَظْلُومًا ، قَالَ : فَأَتَانِی أَفْظَعُ أَمْرٍ أَتَانِی قَطُّ ، قَالَ : قُلْتُ : إنَّ خِذَلاَنِی ہَؤُلاَئِ وَمَعَہُمْ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ وَحَوَارِیُّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَشَدِیدٌ ، وَإِنَّ قِتَالِی ابْنِ عَمِّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَنْ أَمَرُونِی بِبَیْعَتِہِ لَشَدِیدٌ۔ قَالَ : فَلَمَّا أَتَیْتہمْ ، قَالوا : جِئْنَا نَسْتَنْصِرُک عَلَی دَمِ عُثْمَانَ قُتِلَ مَظْلُومًا ، قَالَ : قُلْتُ : یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ ، أُنْشِدُک بِاللہِ أَقُلْتُ لَکِ : مَنْ تَأْمُرِینِی فَقُلْتِ : عَلِیّ ، وَقُلْتُ : تَأْمُرِینِی بِہِ وَتَرْضِینَہُ لِی ؟ قُلْتُ : نَعَم ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ، وَلَکِنَّہُ بَدَّل ، فَقُلْتُ : یَا زُبَیْرُ یَا حَوَارِیَّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَا طَلْحَۃُ ، نَشَدْتُکُمَا بِاللہِ: أَقُلْت لَکُمَا : مَنْ تَأْمُرَانِی بِہِ ، فَقُلْتُمَا : عَلِیًّا ، فَقُلْتُ : تَأْمُرَانِی بِہِ وَتَرْضَیَانِہِ لِی ، فَقُلْتُمَا : نَعَمْ ؟ قَالاَ : بَلَی ، وَلَکِنَّہُ بَدَّلَ۔ قَالَ : قُلْتُ : لاَ أُقَاتِلُکُمْ وَمَعَکُمْ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ وَحَوَارِیُّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَلاَ أُقَاتِلُ ابْنَ عَمِّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرْتُمُونِی بِبَیْعَتِہِ ، اخْتَارُوا مِنِّی إِحْدَی ثَلاَثَ خِصَالٍ : إمَّا أَنْ تَفْتَحُوا لِی بَابَ الْجِسْرِ فَأَلْحَقَ بِأَرْضِ الأَعَاجِمِ حَتَّی یَقْضِیَ اللَّہُ مِنْ أَمْرِہِ مَا قَضَی ، أَوْ أَلْحَقَ بِمَکَّۃَ فَأَکُونَ بِہَا حَتَّی یَقْضِیَ اللَّہُ مِنْ أَمْرِہِ مَا قَضَی ، أَوْ أَعْتَزِلُ فَأَکُونَ قَرِیبًا ، قَالُوا : نَأْتَمر ، ثُمَّ نُرْسِلُ إلَیْک ، فَأْتَمَرُوا ، فَقَالُوا : نَفْتَحُ لَہُ بَابَ الْجِسْرِ یَلْحَقُ بِہِ الْمُفَارِقُ وَالْخَاذِلُ ، أَوْ یَلْحَقُ بِمَکَّۃَ فَیَتَعَجَّسَکُمْ فِی قُرَیْشٍ وَیُخْبِرُہُمْ بِأَخْبَارِکُمْ ، لَیْسَ ذَلِکَ بِرَأْی ، اجْعَلُوہُ ہَاہُنَا قَرِیبًا حَیْثُ تَطَؤُونَ عَلَی صِمَاخِہِ وَتَنْظُرُونَ إلَیْہِ۔ فَاعْتَزَلَ بِالْجَلْحَائِ مِنَ الْبَصْرَۃِ وَاعْتَزَلَ مَعَہُ زُہَائُ سِتَّۃِ آلاَفٍ ، ثُمَّ الْتَقَی الْقَوْمُ ، فَکَانَ أَوَّلُ قَتِیلٍ طَلْحَۃَ وَکَعْبَ بْنَ سُورٍ وَمَعَہُ الْمُصْحَفُ ، یُذَکِّرُ ہَؤُلاَئِ وَہَؤُلاَئِ حَتَّی قُتِلَ بَیْنَہُمْ ، وَبَلَغَ الزُّبَیْرُ سَفَوَانَ مِنَ الْبَصْرَۃِ کَمَکَانِ الْقَادِسِیَّۃِ مِنْکُمْ ، فَلَقِیَہُ النَّعِرُ : رَجُلٌ مِنْ مُجَاشِعٍ ، فَقَالَ : أَیْنَ تَذْہَبُ یَا حَوَارِیَّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ إلَیَّ ، فَأَنْتَ فِی ذِمَّتِی لاَ یُوصَلُ إلَیْک ، فَأَقْبَلَ مَعَہُ ، فَأَتَی إنْسَانٌ الأَحْنَفَ ، فَقَالَ : ہَذَا الزُّبَیْرُ قَدْ لَحِقَ بِسَفوَانَ ، قَالَ : فَمَا یَأْمَن ؟ جَمَعَ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ حَتَّی ضَرَبَ بَعْضُہُمْ حَوَاجِبَ بَعْضٍ بِالسُّیُوفِ ، ثُمَّ لَحِقَ بِبَیْتہِ وَأَہْلِہِ۔ قَالَ : فَسَمِعَہُ عُمَیْرُ بْنُ جُرْمُوزٍ ، وَغُوَاۃٌ مِنْ غُوَاۃِ بَنِی تَمِیمٍ ، وَفُضَالَۃُ بْنُ حَابِسٍ ، وَنُفَیْعٌ ، فَرَکِبُوا فِی طَلَبِہِ فَلَقُوہُ مَعَ النَّعِرِ ، فَأَتَاہُ عُمَیْرُ بْنُ جُرْمُوزٍ مِنْ خَلْفِہِ وَہُوَ عَلَی فَرَسٍ لَہُ ضَعِیفَۃ فَطَعَنَہُ طَعْنَۃً خَفِیفَۃً ، وَحَمَلَ عَلَیْہِ الزُّبَیْرُ وَہُوَ عَلَی فَرَسٍ لَہُ یُقَالَ لَہُ : ذُو الْخِمَارِ ، حَتَّی إذَا ظَنَّ ، أَنَّہُ نَائِلُہُ نَادَی صَاحِبَیْہ یَا نُفَیْعٌ ، یَا فُضَالَۃُ ، فَحَمَلُوا عَلَیْہِ حَتَّی قَتَلُوہُ۔
(٣١٢٧١) احنف بن قیس (رض) کہتے ہیں کہ ہم مدینہ آئے اور ہم حج کے لیے جانا چاہتے تھے، کہتے ہیں میں چل کر طلحہ (رض) اور زبیر (رض) کے پاس آیا اور کہا کہ تم مجھے کس کے ساتھ رہنے کا حکم دیتے ہو اور کس کو میرے لیے پسند کرتے ہو ؟ کیونکہ میرے خیال میں تو یہ صاحب یعنی حضرت عثمان (رض) قتل ہوجائیں گے، فرمانے لگے کہ ہم تمہیں علی (رض) کے ساتھ رہنے کا حکم دیتے ہیں، میں نے کہا کیا تم مجھے ان کے ساتھ رہنے کا حکم دیتے ہو اور ان کو میرے لیے پسند کرتے ہو ؟ فرمانے لگے جی ہاں ! کہتے ہیں کہ پھر میں حج کو چلا گیا یہاں تک کہ مکہ مکرمہ پہنچ گیا ، ہم وہیں تھے کہ ہمیں حضرت عثمان (رض) کے قتل کی خبر پہنچی، اور حضرت عائشہ (رض) بھی وہیں تھیں میں ان سے ملا اور پوچھا کہ آپ مجھے کس کی بیعت کا حکم فرماتی ہیں ؟ فرمانے لگیں کہ حضرت علی (رض) کی بیعت کا ، میں نے کہا کیا آپ مجھے ان کی بیعت کا حکم کرتی ہیں اور ان کو میرے لیے پسند کرتی ہیں ؟ فرمانے لگیں جی ہاں ! اس کے بعد میں مدینہ میں حضرت علی کے پاس سے گزرا تو میں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی، پھر میں بصرہ چلا گیا اور میرا خیال تھا کہ معاملہ صاف ہوگیا ہے۔
اس دوران ایک آنے والا میرے پاس آیا اور کہا کہ حضرت عائشہ (رض) حضرت طلحہ (رض) اور حضرت زبیر (رض) خُریبہ کے کنارے پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں میں نے کہا وہ کس لیے تشریف لائے ہیں ؟ لوگوں نے کہا کہ وہ آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں کہ آپ سے حضرت عثمان (رض) کے خون کے بارے میں مدد لیں، کیونکہ ان کو ظلماً قتل کیا گیا ہے، کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں اتنا گھبرا گیا کہ اس سے پہلے اتنی گھبراہٹ مجھ پر نہیں آئی تھی، اور میں نے سوچا کہ میرا ان حضرات کو چھوڑ دینا جن کے ساتھ ام المؤمنین اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حواری ہیں نہایت سخت بات ہے، اور اسی طرح میرا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد سے قتال کرنا بعد ازاں کہ یہ حضرات مجھے ان کی بیعت کا حکم بھی فرما چکے ہیں بہت ہی مشکل کام ہے۔
فرماتے ہیں کہ جب میں ان کے پاس پہنچا تو وہ فرمانے لگے کہ ہم آپ کے پاس آئے ہیں اور ہم آپ سے حضرت عثمان (رض) کے خون کے خلاف مدد لینا چاہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا اے ام المؤمنین ! میں آپ کو اللہ عزوجل کی قسم دیتا ہوں آپ بتائیں کہ کیا میں نے آپ سے یہ پوچھا تھا کہ آپ مجھے کس کی بیعت کا حکم دیتی ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ علی کی ، اور پھر میں نے آپ سے یہ بھی پوچھا تھا کہ کیا واقعی آپ مجھے ان کی بیعت کا حکم دیتی اور ان کو میرے لیے پسند کرتی ہیں ؟ آپ نے فرمایا تھا جی ہاں ! فرمانے لگیں ایسا ہی ہوا ہے لیکن حضرت علی بدل گئے ہیں ، پھر میں نے کہا اے زبیر ! اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حواری ! اے طلحہ ! میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ کیا میں نے تمہیں کہا تھا کہ آپ مجھے کس کی بیعت کا حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا تھا : علی کی، میں نے پوچھا تھا کہ کیا واقعی آپ مجھے ان کی بیعت کا حکم دیتے اور ان کو میرے لیے پسند کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا تھا جی ہاں ! کہنے لگے کیوں نہیں، ایسا ہی ہے ، لیکن وہ بدل گئے ہیں۔
کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ میں تمہارے ساتھ قتال نہیں کروں گا کیونکہ تمہارے ساتھ ام المؤمنین اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حواری ہیں، اور نہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد ہی سے لڑوں گا جن کی بیعت کا تم نے مجھے حکم دیا ہے۔ میری تین باتوں میں سے ایک قبول کرلو ! یا تو میرے لیے پل کا راستہ کھول دو ، میں عجمیوں کے علاقے میں چلا جاتا ہوں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ جو چاہیں فیصلہ فرمائیں، یا میں مکہ مکرمہ چلا جاؤں اور وہیں رہوں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق فیصلہ فرما دیں، یا میں علیحدگی اختیار کر کے قریب ہی کہیں رہنے لگوں، فرمانے لگے کہ ہم مشورہ کرتے ہیں، پھر ہم آپ کے پاس پیغام بھیج دیں گے، چنانچہ انھوں نے مشورہ کیا ، اور فرمایا کہ اگر ہم اس کے لیے پل کا راستہ کھول دیتے ہیں تو جو شخص لشکر سے جدا ہونا چاہے گا یا ناکام اور پسپا ہوجائے گا وہ اس کے پاس چلا جائے گا ، اور اگر اس کو مکہ مکرمہ بھیج دیا جائے تو قریش مکہ سے تمہاری خبریں لیتا رہے گا اور تمہاری خبریں انھیں پہنچاتا رہے گا، یہ کوئی درست فیصلہ نہیں ہے، اس کو یہیں قریب ہی رکھو جہاں تم اس کو اپنے لیے نرم گوش بھی رکھو گے اور اس کی نگرانی بھی کرسکو گے۔
چنانچہ وہ بصرہ سے مقام ” جلحائ “ میں علیحدہ ہوگئے اور ان کے ساتھ چھ ہزار کے لگ بھگ آدمی بھی مل گئے، پھر ان کی مڈبھیڑ ہوئی تو سب سے پہلے قتل ہونے والے حضرت طلحہ اور کعب بن مسور تھے جن کے پاس قرآن کریم کا نسخہ تھا جو دونوں جماعتوں کو نصیحت کر رہے تھے یہاں تک کہ انہی جماعتوں کے درمیان شہید ہوگئے، اور حضرت زبیر بصرہ کے مقام پر سفوان میں پہنچ گئے، اتنا دور جتنا کہ تم سے مقام قادسیہ ہے، چنانچہ ان کو قبیلہ مجاشع کا ایک نعر نامی آدمی ملا اور پوچھا اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حواری ! آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ میرے ساتھ آئیے آپ میرے ضمان میں ہیں، آپ تک کوئی نہیں پہنچ سکے گا، چنانچہ آپ اس کے ساتھ چلے گئے، چنانچہ ایک آدمی احنف کے پاس آیا اور کہا زبیر یہاں سفوان میں پہنچ گئے ہیں، اس نے کہا کہ اب وہ بےخوف کیسے رہ سکتے ہیں جبکہ انھوں نے مسلمانوں کو اس طرح جمع کردیا کہ ان میں سے بعض بعض کے سروں کو مارنے لگے پھر یہ اپنے گھر کو واپس چلے جارہے ہیں۔
یہ بات عمیر بن جرموذ اور بنو تمیم کے بدمعاشوں نے سن لی، اسی طرح فضالہ بن عبید اور نفیع نے بھی، چنانچہ وہ ان کا پیچھا کرنے لگے اور ان کی حضرت زبیر کے ساتھ ملاقات ہوئی جبکہ حضرت زبیر نعر کے ساتھ تھے، عمیر بن جرموذ ان کے پیچھے آیا جبکہ وہ ایک کمزور سے گھوڑے پر سوا ر تھا، اور آ کر ان کو ہلکی سی ضرب لگائی ، حضرت زبیر (رض) نے اس کا پیچھا کیا جبکہ وہ اپنے ذوالخمار نامی گھوڑے پر سوار تھے، جب اس کو یقین ہوگیا کہ وہ حضرت زبیر کی پہنچ میں آگیا ہے تو اپنے ساتھیوں کو آواز لگائی اے نفیع ! اے فضالہ ! چنانچہ انھوں نے حضرت زبیر پر حملہ کیا اور آپ کو قتل کردیا۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔