HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

.

ابن أبي شيبة

33538

(۳۳۵۳۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ : حدَّثَنِی أَبُو مَعْشَرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عُمَرُ مَوْلَی غُفْرَۃَ وَغَیْرُہُ ، قَالَ : لَمَّا تُوُفِّیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَائَہُ مَالٌ مِنَ الْبَحْرَیْنِ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : مَنْ کَانَ لَہُ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئٌ ، أَوْ عِدَّۃٌ فَلْیَقُمْ فَلْیَأْخُذْ ، فَقَامَ جَابِرٌ ، فَقَالَ : إنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنْ جَائَنِی مَالٌ مِنَ الْبَحْرَیْنِ لأعْطَیْتُک ہَکَذَا وَہَکَذَا ثَلاَثَ مِرَارٍ وَحَثَی بِیَدِہِ ، فَقَالَ لَہُ أَبُو بَکْرٍ : قُمْ فَخُذْ بِیَدِکَ فَأَخَذَ فَإِذَا ہِیَ خَمْسُمِئَۃِ دِرْہَمٍ فَقَالَ : عُدُّوا لَہُ أَلْفًا ، وَقَسَمَ بَیْنَ النَّاسِ عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ ، وَقَالَ : إنَّمَا ہَذِہِ مَوَاعِیدُ وَعَدَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسَ ۲۔ حَتَّی إذَا کَانَ عَامٌ مُقْبِلٌ ، جَائَہُ مَالٌ أَکْثَرُ مِنْ ذَلِکَ الْمَالِ ، فَقَسَمَ بَیْنَ النَّاسِ عِشْرِینَ دِرْہَمًا عِشْرِینَ دِرْہَمًا، وَفَضَلَتْ مِنْہُ فَضْلَۃٌ، فَقَسَمَ لِلْخَدَمِ خَمْسَۃَ دَرَاہِمَ خَمْسَۃَ دَرَاہِمَ، وَقَالَ: إنَّ لَکُمْ خُدَّامًا یَخْدُمُونَکُمْ وَیُعَالِجُونَ لَکُمْ، فَرَضَخْنَا لَہُمْ، فَقَالُوا: لَوْ فَضَّلْت الْمُہَاجِرِینَ وَالأَنْصَارَ لِسَابِقَتِہِمْ، وَلِمَکَانِہِمْ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَجْرُ أُولَئِکَ عَلَی اللہِ ، إنَّ ہَذَا الْمَعَاشَ للأُسْوَۃُ فِیہِ خَیْرٌ مِنَ الأَثَرَۃِ ، قَالَ: فَعَمِلَ بِہَذَا وِلاَیَتَہُ حَتَّی إذَا کَانَتْ سَنَۃُ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ فِی جُمَادَی الآخِرَۃِ فی لَیَالٍ بَقِینَ مِنْہُ مَاتَ رضی اللَّہُ عَنْہُ۔ ۳۔ فَعَمِلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَفَتَحَ الْفُتُوحَ وَجَائَتْہُ الأَمْوَالُ ، فَقَالَ : إنَّ أَبَا بَکْرٍ رَأَی فِی ہَذَا الأَمْرِ رَأْیًا ، وَلِی فِیہِ رَأْیٌ آخَرُ لاَ أَجْعَلُ مَنْ قَاتَلَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَنْ قَاتَلَ مَعَہُ ، فَفَرَضَ لِلْمُہَاجِرِینَ وَالأَنْصَارِ مِمَّنْ شَہِدَ بَدْرًا خَمْسَۃَ آلاَفٍ خَمْسَۃَ آلاَفٍ ، وَفَرَضَ لِمَنْ کَانَ لَہُ الإِسْلاَمُ کَإِسْلاَمِ أَہْلِ بَدْرٍ وَلَمْ یَشْہَدْ بَدْرًا أَرْبَعَۃَ آلاَفٍ أَرْبَعَۃَ آلاَفٍ۔ ۴۔ وَفَرَضَ لأَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا إِلاَّ صَفِیَّۃَ وَجُوَیْرِیَۃَ ، فَرَضَ لَہُمَا سِتَّۃَ آلاَفٍ سِتَّۃَ آلاَفٍ ، فَأَبَتَا أَنْ تَقْبَلا فَقَالَ لَہُمَا : إنَّمَا فَرَضْت لَہُنَّ لِلْہِجْرَۃِ ، فَقَالَتَا : إنَّمَا فَرَضْت لَہُنَّ لِمَکَانِہِنَّ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَانَ لَنَا مِثْلُہُ ، فَعَرَفَ ذَلِکَ عُمَرُ فَفَرَضَ لَہُمَا اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا۔ ۵۔ وَفَرَضَ لِلْعَبَّاسِ اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا ، وَفَرَضَ لأسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ أَرْبَعَۃَ آلاَفٍ ، وَفَرَضَ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ثَلاَثَۃَ آلاَفٍ ، فَقَالَ : یَا أَبَتِ ، لِمَ زِدْتہ عَلَیَّ أَلْفًا مَا کَانَ لأَبِیہِ مِنَ الْفَضْلِ مَا لَمْ یَکُنْ لأَبِی ، وَمَا کَانَ لَہُ لَمْ یَکُنْ لِی، فَقَالَ : إنَّ أَبَا أُسَامَۃَ کَانَ أَحَبَّ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ أَبِیک وَکَانَ أُسَامَۃُ أَحَبَّ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْک وَفَرَضَ لِحَسَنٍ وَحُسَیْنٍ خَمْسَۃَ آلاَفٍ خَمْسَۃَ آلاَفٍ ، أَلْحَقَہُمَا بِأَبِیہِمَا لِمَکَانِہِمَا مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ ۶۔ وَفَرَضَ لأَبْنَائِ الْمُہَاجِرِینَ وَالأَنْصَارِ أَلْفَیْنِ أَلْفَیْنِ ، فَمَرَّ بِہِ عُمَرُ بْنُ أَبِی سَلَمَۃَ ، فَقَالَ : زِیدُوہُ أَلْفًا ، فَقَالَ لَہُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَحْشٍ : مَا کَانَ لأَبِیہِ مَا لَمْ یَکُنْ لأبِینا ، وَمَا کَانَ لَہُ مَا لَمْ یَکُنْ لَنَا ، فَقَالَ : إنِّی فَرَضْت لَہُ بِأَبِیہِ أَبِی سَلَمَۃَ أَلْفَیْنِ ، وَزِدْتہ بِأُمِّہِ أُمِّ سَلَمَۃَ أَلْفًا ، فَإِنْ کَانَتْ لَکَ أُمٌّ مِثْلُ أُمِّہِ زِدْتُک الْفًا ۔ ۷۔ وَفَرَضَ لأَہْلِ مَکَّۃَ وَلِلنَّاسِ ثَمَانِمِئَۃٍ ثَمَانِمِئَۃٍ ، فَجَائَہُ طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللہِ بِأَخِیہِ عُثْمَانَ ، فَفَرَضَ لَہُ ثَمَانِمِئَۃٍ ، فَمَرَّ بِہِ النَّضْرُ بْنُ أَنَسٍ ، فَقَالَ عُمَرُ : افْرِضُوا لَہُ فِی أَلْفَیْنِ ، فَقَالَ طَلْحَۃُ : جِئْتُک بِمِثْلِہِ فَفَرَضْت لَہُ ، ثَمَانِمِئَۃِ دِرْہَمٍ وَفَرَضْت لِہَذَا أَلْفَیْنِ ، فَقَالَ : إنَّ أَبَا ہَذَا لَقِیَنِی یَوْمَ أُحُدٍ فَقَالَ لِی : مَا فَعَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ : مَا أُرَاہُ إِلاَّ قَدْ قُتِلَ ، فَسَلَّ سَیْفَہُ فَکَسَرَ غِمْدَہُ وَقَالَ : إِنْ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ قُتِلَ فَإِنَّ اللَّہَ حَیٌّ لاَ یَمُوتُ ، فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ ، وَہَذَا یَرْعَی الشَّائَ فِی مَکَانِ کَذَا وَکَذَا۔ ۸۔ فَعَمِلَ عُمَرُ بَدَء خِلاَفَتِہِ حَتَّی کَانَتْ سَنَۃُ ثَلاَثٍ وَعِشْرِینَ حَجَّ تِلْکَ السَّنَۃَ فَبَلَغَہُ أَنَّ النَّاسَ یَقُولُونَ : لَوْ مَاتَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ قُمْنَا إلَی فُلاَنٍ فَبَایَعْنَاہُ ، وَإِنْ کَانَتْ بَیْعَۃُ أَبِی بَکْرٍ فَلْتَۃً ، فَأَرَادَ أَنْ یَتَکَلَّمَ فِی أَوْسَطِ أَیَّامِ التَّشْرِیقِ ، فَقَالَ لَہُ عَبْدُ الرَّحْمَن بْنُ عَوْفٍ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، إنَّ ہَذَا مَکَانٌ یَغْلِبُ عَلَیْہِ غَوْغَائُ النَّاسِ وَدَہْمُہُمْ وَمَنْ لاَ یَحْمِلُ کَلاَمُک مَحْمَلَہُ ، فَارْجِعْ إلَی دَارِ الْہِجْرَۃِ وَالإِیمَانِ ، فَتَکَلَّمْ فَیُسْتَمَعُ کَلاَمُک ، فَأَسْرَعَ فَقَدِمَ الْمَدِینَۃَ فَخَطَبَ النَّاسَ ، وَقَالَ : ۹۔ أَیُّہَا النَّاسُ ، أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَلَغَنِی قَالَۃُ قَائِلُکُمْ : لَوْ مَاتَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ قُمْنَا إلَی فُلاَنٍ فَبَایَعْنَاہُ وَإِنْ کَانَتْ بَیْعَۃُ أَبِی بَکْرٍ فَلْتَۃً ، وَایْمُ اللہِ إِنْ کَانَتْ لَفَلْتَۃً وَقَانَا اللَّہُ شَرَّہَا فَمِنْ أَیْنَ لَنَا مِثْلُ أَبِی بَکْرٍ نَمُدُّ أَعْنَاقَنَا إلَیْہِ کَمَدِّنَا إلَی أَبِی بَکْرٍ ، إنَّمَا ذَاکَ تَغِرَّۃٌ لِیُقْتَلَ ، مَنْ انتزع أُمُورِ الْمُسْلِمِینَ مِنْ غَیْرِ مَشُورَۃٍ فَلاَ بَیْعَۃَ لَہُ۔ ۱۰۔ أَلاَ وَإِنِّی رَأَیْت رُؤْیَا ، وَلاَ أَظُنُّ ذَاکَ إِلاَّ عِنْدَ اقْتِرَابِ أَجَلِی ، رَأَیْت دِیکًا تراء ی لِی فَنَقَرَنِی ثَلاَثَ نَقَرَاتٍ ، فَتَأَوَّلَتْ لِی أَسْمَائُ بِنْتُ عُمَیْسٍ ، قَالَتْ : یَقْتُلُک رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ ہَذِہِ الْحَمْرَائِ ، فَإِنْ أَمُتْ فَأَمْرُکُمْ إلَی ہَؤُلاَئِ السِّتَّۃِ الَّذِینَ تُوُفِّیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ عَنْہُمْ رَاضٍ : إلَی عُثْمَانَ وَعَلِیٍّ وَطَلْحَۃَ وَالزُّبَیْرِ ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَسَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ ، فَإِنَ اخْتَلَفُوا فَأَمْرُہُمْ إلَی عَلِی ، وَإِنْ أَعِشْ فَسَأُوصِی۔ ۱۱۔ وَنَظَرْت فِی الْعَمَّۃِ وَبِنْتِ الأَخِ مَا لَہُمَا ، تُورِثَانِ ، وَلاَ تَرِثَانِ ، وَإِنْ أَعِشْ فَسَأَفْتَحُ لَکُمْ أَمْرًا تَأْخُذُونَ بِہِ ، وَإِنْ أَمُتْ فَسَتَرَوْنَ رَأْیَکُمْ ، وَاللَّہُ خَلِیفَتِی فِیکُمْ ، وَقَدْ دَوَّنْت لَکُمْ الدَّوَاوِینَ ، وَمَصَّرْت لَکُمُ الأَمْصَارَ ، وَأَجْرَیْت لَکُمُ الطَّعَامَ إِلَی الْخَان وَتَرَکْتُکُمْ عَلَی وَاضِحَۃٍ ، وَإِنَّمَا أَتَخَوَّفُ عَلَیْکُمْ رَجُلَیْنِ رَجُلاً قَاتَلَ عَلَی تَأْوِیلِ ہَذَا الْقُرْآنِ یُقْتَلُ ، وَرَجُلاً رَأَی أَنَّہُ أَحَقُّ بِہَذَا الْمَالِ مِنْ أَخِیہِ فَقَاتَلَ عَلَیْہِ حَتَّی قُتِلَ۔ ۱۲۔ فَخَطَبَ نَہَارَ الْجُمُعَۃِ وَطُعِنَ یَوْمَ الأَرْبِعَائِ۔ (بیہقی ۳۵۰۔ بزار ۱۷۳۶)
(٣٣٥٣٩) حضرت عمر جو کہ حضرت غفرہ (رض) کے آزاد کردہ غلام ہیں فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو بحرین سے بہت سا مال آیا ۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : جس شخص کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کچھ قرض ہو یا مال ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ کھڑا ہو اور اس مال میں سے لے لے۔ حضرت جابر (رض) کھڑے ہوئے اور فرمایا : بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا : اگر میرے پاس بحرین سے مال آیا تو میں ضرور تمہیں اتنا اور اتنا مال عطا کروں گا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار فرمایا : اور ہاتھ سے چلو بھرا تھا۔ لہٰذا حضرت ابوبکر (رض) نے ان سے فرمایا : کھڑے ہو جاؤ اور اپنے ہاتھ سے لے لو۔ پس آپ (رض) نے لے لیا تو وہ پانچ سو درہم تھے۔ آپ (رض) نے فرمایا : اس کو ہزار گن کر دے دو ۔ اور آپ (رض) نے لوگوں کے درمیان دس دس دراہم تقسیم فرما دیے۔ اور فرمایا : یہ وہ وعدے ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے کیے تھے۔
٢۔ یہاں تک کہ جب اگلا سال ہوا تو اس سے کہیں زیادہ مال آیا۔ تو آپ (رض) نے لوگوں کے درمیان بیس بیس دراہم تقسیم فرما دیے اور پھر بھی مال باقی بچ گیا۔ لہٰذا آپ (رض) نے غلاموں میں بھی پانچ پانچ دراہم تقسیم فرمائے اور فرمایا : بیشک تمہارے خادمین تمہاری خدمت کرتے ہیں اور تمہارے معاملات نمٹاتے ہیں اس لیے ہم نے ان کو بھی کچھ مال عطا کردیا لوگوں نے کہا : اگر آپ (رض) مہاجرین اور انصار کو سبقت لے جانے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک بہتر مرتبہ کی وجہ سے فضیلت دیتے تو اچھا ہوتا ! آپ (رض) نے فرمایا : ان لوگوں کا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے۔ بیشک اس مال میں برابری بہتر ہے کسی کو ترجیح دینے سے۔ راوی کہتے ہیں : آپ (رض) نے اپنے دورخلافت میں اسی طرح عمل کیا یہاں تک کہ ہجرت کے تیرہویں سال جمادی الاخری کی آخری راتوں میں آپ (رض) کی وفات ہوگئی۔
٣۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے خلافت سنبھالی اور بہت سی فتوحات ہوئیں۔ اور بہت سارا مال آیا۔ آپ (رض) نے فرمایا : بیشک حضرت ابوبکر (رض) نے اس معاملہ میں ایک رائے اختیار کی اور میری اس معاملہ میں دوسری رائے ہے۔ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قتال کرنے والے کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ قتال کرنے والے کے برابر نہیں کروں گا۔ اور آپ (رض) نے مہاجرین اور انصار میں سے جن صحابہ (رض) نے غزوہ بدر میں شرکت کی تھی ان کے لیے پانچ پانچ ہزار مقرر فرمائے۔ اور وہ مسلمان جو اسلام لانے میں بدریین ہی کی طرح تھے مگر غزوہ بدر میں نہ حاضر ہو سکے ان کے لیے آپ (رض) نے چار چار ہزار مقرر فرمائے۔
٤۔ اور آپ (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات (رض) کے لیے بارہ بارہ ہزار مقرر فرمائے سوائے حضرت صفیہ اور حضرت جویریہ (رض) کے۔ ان دونوں کے لیے چھ چھ ہزار مقرر فرمائے۔ ا ن دونوں نے یہ قبول کرنے سے انکار کردیا۔ تو حضرت عمر (رض) نے ان دونوں سے فرمایا : بیشک میں نے ان سب کے لیے ہجرت کی وجہ سے اتنا مال مقرر فرمایا : اس پر ان دونوں نے فرمایا : کہ تم نے ان سب کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک ہونے کی وجہ سے مقرر فرمایا ہے اور ہمارے لیے بھی ان ہی کی طرح ہوگا۔ حضرت عمر (رض) نے یہ سمجھ لیا اور پھر ان دونوں کے لیے بھی بارہ بارہ ہزار مقرر فرما دیے۔
٥۔ اور حضرت عباس (رض) کے لیے بھی بارہ ہزار مقرر فرمائے۔ اور حضرت اسامہ بن زید (رض) کے لیے چار ہزار مقرر فرمائے اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے لیے تین ہزار مقرر فرمائے۔ اس پر حضرت ابن عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اے ابا جان ! آپ نے اس کے لیے مجھ سے زیادہ ایک ہزار کیوں بڑھائے ؟ حالانکہ اس کے والد کو وہ فضیلت نہیں ہے جو میرے والد کو ہے اور اس کو وہ فضیلت حاصل نہیں ہے جو مجھے ہے۔ اس پر حضرت عمر (رض) نے فرمایا : بیشک اسامہ کا باپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک تیرے باپ سے زیادہ محبوب تھا ، اور خود اسامہ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک تیرے سے زیادہ محبوب تھا۔ اور آپ (رض) نے حضرت حسن اور حضرت حسین (رض) کے لیے پانچ پانچ ہزار مقرر فرمائے۔ اور ان دونوں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت کی وجہ سے ان کو ان کے والد سے ملا دیا۔
٦۔ اور آپ (رض) نے مہاجرین اور انصار صحابہ (رض) کے بیٹوں کے لیے دو دو ہزار مقرر فرمائے، پس حضرت عمر بن ابی سلمہ (رض) آپ (رض) کے پاس سے گزرے تو آپ (رض) نے فرمایا : اس کے لیے ایک ہزار بڑھا دو ۔ اس پر حضرت محمد بن عبداللہ بن جحش (رض) نے ان سے فرمایا : جو اس کے باپ کو مرتبہ حاصل ہے وہ ہمارے باپ کو نہیں اور جو اس کو مرتبہ حاصل ہے وہ ہمارے لیے نہیں ؟ آپ (رض) نے فرمایا : بیشک میں نے اس کے والد حضرت ابو سلمہ (رض) کی وجہ سے اس کے لیے دو ہزار مقرر فرمائے۔ اور اس کی والدہ حضرت ام سلمہ (رض) کی وجہ سے اس کے لیے اضافہ کردیا پس اگر تیری والدہ بھی اس کی والدہ کی طرح ہوتی تو میں تیرے لیے بھی ایک ہزار کا اضافہ کردیتا۔
٧۔ اور آپ (رض) نے مکہ والوں کے لیے اور دیگر لوگوں کے لیے آٹھ آٹھ سو مقرر فرمائے ۔ پس حضرت طلحہ بن عبید اللہ (رض) اپنے بھائی عثمان کو لے کر آئے تو آپ (رض) نے اس کے لیے آٹھ سو مقرر کیے۔ اور حضرت نضر بن انس (رض) آپ (رض) کے پاس سے گزرے تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اس کے لیے دو ہزار مقرر کردو۔ اس پر حضرت طلحہ (رض) نے فرمایا : میں آپ (رض) کے پاس اس جیسا شخص لایا تو آپ (رض) نے اس کے لیے آٹھ سو مقرر فرمائے اور اس کے لیے آپ (رض) نے دو ہزار مقرر فرما دیے۔ آپ (رض) نے فرمایا : بیشک اس کے والد مجھے غزوہ احد کے دن ملے اور مجھ سے پوچھا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کیا ہوا ؟ میں نے کہا : میرے خیال میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شہید کردیا گیا ہے تو انھوں نے اپنی تلوار سونت لی اور تلوار کی میان توڑ ڈالی اور فرمایا : اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شہید کردیا گیا تو بیشک اللہ زندہ ہے وہ نہیں مرے گا۔ پھر انھوں نے قتال کیا یہاں تک کہ ان کو قتل کردیا گیا اور یہ اس وقت فلاں فلاں جگہ میں بکریاں چراتا تھا۔
٨۔ حضرت عمر (رض) نے اپنی خلافت کی ابتداء میں یہ کام کیا یہاں تک کہ ہجرت کا تیئسواں سال (23 ) آیا تو آپ (رض) نے اس سال حج کیا۔ آپ (رض) کو وہاں یہ بات پہنچی کہ لوگ یوں کہہ رہے ہیں : اگر امیر المؤمنین فوت ہوگئے تو ہم فلاں آدمی کے پاس جا کر اس کی بیعت کرلیں گے ۔ اس لیے کہ حضرت ابوبکر (رض) کی بیعت تو ہم نے بغیر سوچے سمجھے عجلت میں کی تھی ! پس حضرت عمر (رض) نے ایام تشریق کے درمیان میں ہی بات کرنے کا ارادہ فرمایا۔ تو حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) نے ان سے فرمایا : اے امیر المؤمنین ! بیشک یہ ایسی جگہ ہے کہ یہاں عام لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے یہ لوگ آپ (رض) کی بات کو صحیح معنی پر محمول نہیں کریں گے۔ پس آپ (رض) دارالھجرت اور دارالایمان کی طرف لوٹ جائیں اور وہاں بات کریں پس آپ (رض) کی بات سنی جائے گی۔ آپ (رض) نے جلدی کی اور مدینہ آئے اور لوگوں کو خطاب کیا اور فرمایا :
٩۔ اے لوگو ! حمدو صلوۃ کے بعد، تحقیق مجھے تمہارے میں سے کہنے والوں کی بات پہنچی ہے کہ اگر امیر المؤمنین فوت ہوگئے تو ہم فلاں آدمی کے پاس جا کر اس کی بیعت کرلیں گے۔ اس لیے کہ حضرت ابوبکر (رض) کی بیعت تو بےسوچے سمجھے عجلت میں ہوئی تھی۔ اللہ کی قسم ! اگر یہ بےسوچے سمجھے عجلت میں ہوئی تھی تو اللہ نے ہمیں اس کے شر سے محفوظ رکھا۔ پس کون شخص ہوسکتا ہے ہمارے میں سے حضرت ابوبکر (رض) کی طرح کہ ہم اس کی طرف اپنی گردنوں کو بڑھا دیں گے جیسا کہ ہم حضرت ابوبکر (رض) کی طرف بڑھاتے تھے ۔ بیشک یہ تو دھوکا دہی ہے تاکہ قتل و قتال کیا جائے۔ جو شخص مسلمانوں کے معاملات بغیر مشورے کے چھین لے تو اس کے لیے بیعت درست نہیں۔
١٠۔ خبردار ! بیشک میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور میں اس کی تعبیر گمان نہیں کرتا مگر یہ کہ میری موت کا وقت قریب ہے۔ میں نے ایک مرغے کو دیکھا کہ اس نے مجھ پر نظر ڈالی اور مجھے تین مرتبہ ٹھونگ ماری۔ حضرت اسماء بنت عمیس (رض) نے مجھے یہ تاویل بیان کی ہے : کہ آپ (رض) کو اہل حمراء میں سے ایک آدمی قتل کرے گا ۔ پس اگر میں مر جاؤں تو تمہارا معاملہ ان چھ لوگوں کے سپرد ہوگا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات اس حال میں ہوئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے راضی تھے۔ اور وہ یہ ہیں : حضرت عثمان (رض) ، حضرت علی (رض) ، حضرت طلحہ (رض) ، حضرت زبیر (رض) ، حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) اور حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) ۔ اگر یہ آپس میں اختلاف کریں تو ان کا معاملہ حضرت علی (رض) کے سپرد ہوگا ۔ اور اگر میں زندہ رہا تو عنقریب وصیت کروں گا۔
١١۔ اور میں نے پھوپھی اور بھتیجی میں غور کیا نہ ان دونوں کو وارث بنایا جائے گا اور نہ یہ دونوں وارث بنیں گی۔ اور اگر میں زندہ رہا تو میں عنقریب تمہارے لیے ایک معاملہ کھولوں گا کہ تم اس کو پکڑو گے ۔ اور اگر میں مرگیا ، تو تم لوگ اپنی رائے اختیار کرلینا۔ اللہ کی قسم ! تم پر میری خلافت کے دوران تحقیق میں نے دیوان مدوّن کروائے۔ اور میں نے تمہارے لیے شہروں کو بسایا۔ اور میں نے تمہارے لیے مسافر خانوں میں کھانا جاری کیا۔ اور میں نے تمہیں بالکل واضح صورت حال میں چھوڑا ، اور بیشک میں تم پر دو آدمیوں سے خوف کھاتا ہوں۔ ایک وہ شخص جو اس قرآن کے معنی پر قتال کرے اس کو قتل کردیا جائے۔ اور دوسرا وہ شخص جس کی یہ رائے ہو کہ وہ اپنے بھائی سے زیادہ اس مال کا حقدار ہے۔ پس وہ اس مال پر قتال کرے یہاں تک کہ اسے قتل کردیا جائے۔
١٢۔ آپ (رض) نے جمعہ کے دن یہ خطبہ ارشاد فرمایا : اور بدھ کے دن آپ (رض) کو نیزے سے مارا گیا۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔