HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

.

ابن أبي شيبة

37752

(۳۷۷۵۳) حدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ ہِلاَلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : خَرَجْنَا مِنْ قَوْمِنَا غِفَارٍ أَنَا وَأَخِی أُنَیْسٌ وَأُمُّنَا ، وَکَانُوا یُحِلُّونَ الشَّہْرَ الْحَرَامَ ، فَانْطَلَقْنَا حَتَّی نَزَلْنَا عَلَی خَالٍ لَنَا ، ذِی مَالٍ وَذِی ہَیْئَۃٍ طَیِّبَۃٍ ، قَالَ : فَأَکْرَمَنَا خَالُنَا وَأَحْسَنَ إِلَیْنَا ، فَحَسَدَنَا قَوْمُہُ ، فَقَالُوا : إِنَّک إِذَا خَرَجْتَ مِنْ أَہْلِکَ خَالَفَ إِلَیْہِمْ أُنَیْسٌ ، قَالَ : فَجَائَ خَالُنَا فَنَثَی عَلَیْنَا مَا قِیلَ لَہُ ، قَالَ : قُلْتُ : أَمَّا مَا مَضَی مِنْ مَعْرُوفِکَ فَقَدْ کَدَّرْتَہُ ، وَلاَ جِمَاعَ لَک فِیمَا بَعْدُ ، قَالَ : فَقَرَّبْنَا صِرْمَتَنَا فَاحْتَمَلْنَا عَلَیْہَا ، قَالَ : وَغَطَّی رَأْسَہُ فَجَعَلَ یَبْکِی۔ قَالَ : فَانْطَلَقْنَا حَتَّی نَزَلْنَا بِحَضْرَۃِ مَکَّۃَ ، قَالَ : فَنَافَرَ أُنَیْسٌ عَنْ صِرْمَتِنَا وَعَنْ مِثْلِہَا ، قَالَ : فَأَتَیَا الْکَاہِنَ فَخَیَّرَ أُنَیْسًا ، قَالَ : فَأَتَانَا أُنَیْسٌ بِصِرْمَتِنَا وَمِثْلِہَا مَعَہَا ، قَالَ : وَقَدْ صَلَّیْتُ یَا ابْنَ أَخِی قَبْلَ أَنْ أَلْقَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِثَلاَثِ سِنِینَ ، قَالَ : قُلْتُ : لِمَنْ ؟ قَالَ : لِلَّہِ ، قَالَ : قُلْتُ : فَأَیْنَ کُنْتَ تُوَجِّہُ ؟ قَالَ: حَیْثُ وَجَّہَنِی اللَّہُ أُصَلِّی عِشَائً ، حَتَّی إِذَا کَانَ آخِرَ اللَّیْلِ أُلْقِیتُ کَأَنِّی خِفَائٌ حَتَّی تَعْلُونِی الشَّمْسُ۔ قَالَ : قَالَ أُنَیْسٌ : لِی حَاجَۃٌ بِمَکَّۃَ فَاکْفِنِی حَتَّی آتِیَکَ ، قَالَ : فَانْطَلَقَ فَرَاثَ عَلَیَّ ، ثُمَّ أَتَانِی ، فَقُلْتُ : مَا حَبَسَک ؟ قَالَ : لَقِیتُ رَجُلاً بِمَکَّۃَ عَلَی دِینِکَ ، یَزْعُمُ أَنَّ اللَّہَ أَرْسَلَہُ ، قَالَ : قُلْتُ : فَمَا یَقُولُ النَّاسُ لَہُ ؟ قَالَ : یَزْعُمُونَ أَنَّہُ سَاحِرٌ ، وَأَنَّہُ کَاہِنٌ ، وَأَنَّہُ شَاعِرٌ ، قَالَ أُنَیْسٌ : فَوَاللہِ لَقَدْ سَمِعْت قَوْلَ الْکَہَنَۃِ فَمَا ہُوَ بِقَوْلِہِمْ ، وَلَقَدْ وَضَعْتُ قَوْلَہُ عَلَی أَقْرَائِ الشِّعْرِ فَلاَ یَلْتَئِمُ عَلَی لِسَانِ أَحَدٍ أَنَّہُ شِعْرٌ ، وَاللہِ إِنَّہُ لَصَادِقٌ ، وَإِنَّہُمْ لَکَاذِبُونَ ، وَکَانَ أُنَیْسٌ شَاعِرًا۔ قَالَ : قُلْتُ : اکْفِنِی أَذْہَبُ فَأَنْظُرُ ، قَالَ : نَعَمْ ، وَکُنْ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ عَلَی حَذَرٍ فَإِنَّہُمْ قَدْ شَنَّفُوا لَہُ ، وَتَجَہَّمُوا لَہُ ، قَالَ : فَانْطَلَقْتُ حَتَّی قَدِمْتَ مَکَّۃَ ، قَالَ : فَتَضَیَّفْتُ رَجُلاً مِنْہُمْ ، قَالَ : قُلْتُ : أَیْنَ ہَذَا الَّذِی تَدْعُونَہُ الصَّابِئَ ؟ قَالَ : فَأَشَارَ إِلَیَّ ، قَالَ : الصَّابِء ، قَالَ : فَمَالَ عَلَیَّ أَہْلُ الْوَادِی بِکُلِّ مَدَرَۃٍ وَعَظْمٍ ، حَتَّی خَرَرْتُ مَغْشِیًّا عَلَیَّ ، قَالَ : فَارْتَفَعْتُ حِینَ ارْتَفَعْتُ وَکَأَنِّی نُصُبٌ أَحْمَرُ ، قَالَ : فَأَتَیْتُ زَمْزَمَ فَغَسَلْتُ عَنِّی الدِّمَائَ وَشَرِبْتُ مِنْ مَائِہَا۔ قَالَ : فَبَیْنَمَا أَہْلُ مَکَّۃَ فِی لَیْلَۃٍ قَمْرَائَ ، إِضْحِیَانٍ إِذْ ضَرَبَ اللَّہُ عَلَی أَصْمِخَتِہِمْ ، قَالَ : فَمَا یَطُوفُ بِالْبَیْتِ أَحَدٌ مِنْہُمْ غَیْرَ امْرَأَتَیْنِ ، قَالَ : فَأَتَتَا عَلَیَّ وَہُمَا یَدْعُوَانِ إِسَافًا وَنَائِلَۃَ ، قُلْتُ : أَنْکِحَا أَحَدَہُمَا الأُخْرَی ، قَالَ : فَمَا ثَنَاہُمَا ذَلِکَ عَنْ قَوْلِہِمَا ، قَالَ : فَأَتَتَا عَلَیَّ ، فَقُلْتُ : ہَنٌ مِثْلُ الْخَشَبَۃِ غَیْرَ أَنِّی لَمْ أَکْنِ ، قَالَ : فَانْطَلَقَتَا تُوَلْوِلاَنِ ، وَتَقُولاَنِ : لَوْ کَانَ ہَاہُنَا أَحَدٌ مِنْ أَنْفَارِنَا۔ قَالَ : فَاسْتَقْبَلَہُمَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَبُو بَکْرٍ وَہُمَا ہَابِطَانِ مِنْ الْجَبَلِ ، قَالَ : مَا لَکُمَا ؟ قَالَتَا : الصَّابِئُ بَیْنَ الْکَعْبَۃِ وَأَسْتَارِہَا ، قَالاَ : مَا قَالَ لَکُمَا ؟ قَالَتَا : قَالَ لَنَا کَلِمَۃً تَمْلأُ الْفَمَ۔ قَالَ : وَجَائَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی انْتَہَی إِلَی الْحَجَرِ فَاسْتَلَمَہُ ہُوَ وَصَاحِبُہُ ، قَالَ : وَطَافَ بِالْبَیْتِ ، ثُمَّ صَلَّی صَلاَتَہُ ، قَالَ : فَأَتَیْتُہُ حِینَ قَضَی صَلاَتَہُ ، قَالَ : فَکُنْتُ أَوَّلَ مَنْ حَیَّاہُ بِتَحِیَّۃِ الإِسْلاَمِ ، قَالَ : وَعَلَیْک وَرَحْمَۃُ اللہِ ، مِمَّنْ أَنْتَ ؟ قُلْتُ : مِنْ غِفَارٍ ، قَالَ : فَأَہْوَی بِیَدِہِ نَحْوَ رَأْسِہِ ، قَالَ : قُلْتُ فِی نَفْسِی کَرِہَ أَنِّی انْتَمَیْتُ إِلَی غِفَارٍ ، قَالَ : فَذَہَبْتُ آخُذُ بِیَدِہِ ، قَالَ : فَقَدَعَنِی صَاحِبُہُ ، وَکَانَ أَعْلَمَ بِہِ مِنِّی ، فَرَفَعَ رَأْسَہُ ، فَقَالَ : مَتَی کُنْتَ ہَہُنَا ؟ قَالَ : قُلْتُ : قَدْ کُنْت ہَہُنَا مُنْذُ عَشْرٍ مِنْ بَیْنِ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ ، قَالَ : فَمَنْ کَانَ یُطْعِمُک ؟ قَالَ : قُلْتُ : مَا کَانَ لِی طَعَامٌ غَیْرُ مَائِ زَمْزَمَ ، فَسَمِنْتُ حَتَّی تَکَسَّرَتْ عُکَنُ بَطْنِی ، وَمَا وَجَدْتُ عَلَی کَبِدِی سُخْفَۃَ جُوعٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّہَا مُبَارَکَۃٌ ، إِنَّہَا طَعَامُ طُعْمٍ ، قَالَ : فَقَالَ صَاحِبُہُ : ائْذَنْ لِی فِی إِطْعَامِہِ اللَّیْلَۃَ۔ فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ ، فَانْطَلَقْت مَعَہُمَا ، قَالَ : فَفَتَحَ أَبُو بَکْرٍ بَابًا ، فَقَبَضَ إِلَیَّ مِنْ زَبِیبِ الطَّائِفِ ، قَالَ : فَذَاکَ أَوَّلُ طَعَامٍ أَکَلْتُہُ بِہَا ، قَالَ : فَلَبِثْتُ مَا لَبِثْتُ ، أَوْ غَبَّرْتُ ، ثُمَّ لَقِیتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنِّی قَدْ وُجِّہْتُ إِلَی أَرْضٍ ذَاتِ نَخْلٍ ، وَلاَ أَحْسَبُہَا إِلاَّ یَثْرِبَ ، فَہَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّی قَوْمَک ، لَعَلَّ اللَّہَ أَنْ یَنْفَعَہُمْ بِکَ ، وَأَنْ یَأْجُرَک فِیہِمْ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ۔ فَانْطَلَقْتُ حَتَّی أَتَیْتُ أُنَیْسًا ، فَقَالَ : مَا صَنَعْتَ ؟ قُلْتُ : صَنَعْتُ أَنِّی أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ ، قَالَ أُنَیْسٌ : وَمَا بِی رَغْبَۃٌ عَنْ دِینِکَ ، إِنِّی قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ ، قَالَ : فَأَتَیْنَا أُمَّنَا ، فَقَالَتْ : مَا بِی رَغْبَۃٌ عَنْ دِینِکُمَا ، فَإِنِّی قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ ، قَالَ : فَاحْتَمَلْنَا حَتَّی أَتَیْنَا قَوْمَنَا غِفَارًا ، قَالَ : فَأَسْلَمَ بَعْضُہُمْ قَبْلَ أَنْ یَقْدَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَۃَ ، قَالَ : وَکَانَ یَؤُمُّہُمْ إِیْمَائُ بْنُ رَحَضَۃَ ، وَکَانَ سَیِّدَہُمْ ، قَالَ : وَقَالَ بَقِیَّتُہُمْ إِذَا قَدِمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَسْلَمْنَا ، قَالَ : فَقَدِمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَۃَ ، فَأَسْلَمَ بَقِیَّتُہُمْ۔ قَالَ : وَجَائَتْ أَسْلَمُ ، فَقَالُوا : إِخْوَانُنَا نُسْلِمُ عَلَی الَّذِی أَسْلَمُوا عَلَیْہِ ، قَالَ : فَأَسْلَمُوا ، قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : غِفَارٌ غَفَرَ اللَّہُ لَہَا ، وَأَسْلَمُ سَالَمَہَا اللَّہُ۔ (مسلم ۱۹۱۹۔ احمد ۱۷۴)
(٣٧٧٥٣) حضرت ابو ذر بیان فرماتے ہیں کہ میں، میرا بھائی اُنیس اور میری والدہ ہم اپنی قوم غفار سے نکلے ۔ قوم والے حرمت والے مہینوں کو حلال سمجھتے تھے۔ پس ہم چل دیئے یہاں تک کہ ہم اپنے ایک مالدار اور اچھی حالت والے ماموں کے ہاں اترے۔ فرماتے ہیں : انھوں نے ہمارا اکرام کیا اور ہمارے ساتھ اچھا معاملہ کیا۔ ان کی قوم ہم سے حسد کرنے لگی اور انھوں نے کہا۔ اگر تم اپنے اہل خانہ سے نکلو تو انیس ان کے ساتھ تمہارے (معاملہ کے) برخلاف معاملہ کرے گا۔ ابو ذر کہتے ہیں۔ پس ہمارے ماموں ہمارے پاس آئے اور جو انھیں کہا گیا تھا انھوں نے وہ ہمیں بیان کردیا۔ ابو ذر کہتے ہیں : میں نے کہا : آپ نے پہلے جو اچھا کام کیا تھا (اکرام اور احسان) آپ نے (اب) اس کو مکدر کردیا ہے (ہم) آپ کے پاس اب کے بعد جمع نہیں ہوں گے۔ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے اونٹوں کے قریب ہوئے اور ہم ان پر سوار ہوگئے۔ ابو ذر کہتے ہیں۔ انھوں نے (ماموں نے) اپنا سر ڈھانپ لیا اور رونا شروع کردیا۔
٢۔ ابو ذر کہتے ہیں : ہم چلتے رہے یہاں تک کہ ہم شہر مکہ میں آ کر اترے۔ ابو ذر کہتے ہیں۔ پس انیس نے اپنے اونٹوں کے گلہ اور ویسے ہی دوسرے اونٹوں کے گلہ کے درمیان مفاخرت کی۔ ابو ذر کہتے ہیں۔ پھر وہ دونوں (اُنیس اور دوسرے گلہ کا مالک) ایک کاہن کے پاس گئے تو اس نے انیس کو درست قرار دیا۔ فرماتے ہیں کہ پھر انیس ہمارے پاس اپنے اونٹوں کا گلہ اور اسی جیسا ایک اور گلہ لے کر آئے۔
٣۔ ابو ذر فرماتے ہیں : اے بھتیجے ! ت حقیقی میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ملاقات کرنے سے تین سال قبل نماز پڑھی ہے۔ راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا۔ (آپ نے) کس کے لیے نماز پڑھی ؟ انھوں نے فرمایا : اللہ کے لئے۔ راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : آپ کس طرف رُخ کرتے تھے ؟ انھوں نے فرمایا : جس طرف اللہ تعالیٰ میرا رُخ فرما دیتے میں عشاء پڑھ لیتا۔ یہاں تک کہ جب رات کا آخری حصہ ہوتا تو میں یوں پایا جاتا جیسا کہ میں چادر ہوں یہاں تک کہ مجھ پر سورج بلند ہوتا۔
٤۔ ابو ذر فرماتے ہیں کہ (مجھے) اُنیس نے کہا : مجھے مکہ میں کام ہے پس تم میرے واپس آنے تک میری ذمہ داریاں نبھاؤ۔ فرماتے ہیں : پس وہ چلے گئے اور انھوں نے دیر کردی۔ میرے پاس آئے اور میں نے کہا : تمہیں کس چیز نے روکے رکھا ؟ انھوں نے کہا : میں نے مکہ میں ایک آدمی سے ملاقات کی ہے جو تیرے (والے) دین پر ہے اور اس کا خیال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو رسول بنایا ہے۔ ابو ذر کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا : لوگ انھیں کیا کہتے ہیں ؟ اُنیس نے کہا : لوگوں کا گمان یہ ہے کہ وہ جادو گر ہے، وہ کاہن ہے، اور وہ شاعر ہے۔ اُنیس نے کہا : بخدا ! میں نے کاہنوں کا کلام سُنا (ہوا) ہے لیکن وہ (کلام) کاہنوں کا کلام نہیں ہے۔ اور میں نے ان کے کلام کو شعر کی انواع میں رکھ کر دیکھا ہے تو وہ کسی کی زبان سے (بھی) شعر کے طور پر اداء ہونا مشکل ہے۔ بخدا ! وہ آدمی سچا ہے اور لوگ جھوٹے ہیں۔ حضرت انیس شاعر (بھی) تھے۔
٥۔ ابو ذر کہتے ہیں : میں نے کہا : تم میری جگہ کفایت (ذمہ داری) کرو۔ میں جا کر دیکھتا ہوں۔ بھائی نے کہا : ٹھیک ہے۔ لیکن اہل مکہ سے بچ کر رہنا کیونکہ وہ اس آدمی کو ناپسند کرتے ہیں اور ان کے ساتھ بد کلامی سے پیش آتے ہیں ابو ذر فرماتے ہیں۔ میں چل دیا یہاں تک کہ میں مکہ میں پہنچا۔ فرماتے ہیں۔ میں ان میں سے ایک آدمی کے پاس مہمان بن گیا۔ فرماتے ہیں میں نے پوچھا : وہ شخص کہاں ہے جس کو تم صابی کہہ کر پکارتے ہو۔ ابو ذر فرماتے ہیں : اس نے (لوگوں کو) میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ (پکڑو اس) صابی کو۔ ابو ذر فرماتے ہیں کہ پس اہل وادی نے مجھ پر مٹی کے ڈھیلے اور لوہے وغیرہ ہر چیز کے ساتھ برس پڑے یہاں تک کہ میں بےہوش ہر کر گرپڑا۔ فرماتے ہیں : پس جب مجھ سے اٹھا گیا۔ میں اٹھا۔ تو (مجھے یوں لگا) گویا کہ میں سُرخ تصویر ہوں۔ ابو ذر فرماتے ہیں۔ پس میں زمزم کے پاس آیا اور میں نے خود سے خون کو دھویا اور مائِ زمزم کو پیا۔
٦۔ ابو ذر کہتے ہیں؛: پس ایک روشن و صاف چاندنی رات کو اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ پر نیند طاری کردی۔ فرماتے ہیں : اہل مکّہ میں سے دو عورتوں کے سوا کوئی بیت اللہ کا طواف کرنے نہ آیا۔ ابو ذر کہتے ہیں : وہ دونوں عورتیں میرے پاس آئیں جبکہ وہ اساف اور نائلہ کو پکار رہی تھیں۔ میں نے کہا : ان دونوں میں سے ایک کا نکاح دوسرے سے کردو۔ فرماتے ہیں : یہ بات (بھی) انھیں ان کی گفتگو سے نہ روک سکی ۔ فرماتے ہیں : پھر دونوں میرے پاس آئیں تو میں نے کہا : لکڑی کی طرح ہیں۔ یہ بات میں نے صاف صاف کہہ دی۔ ابو ذر کہتے ہیں : پس وہ دونوں عورتیں چل پڑیں۔ چیخ و پکار کرتی ہوئی کہتی جا رہی تھیں۔ اگر یہاں پر ہماری قوم میں سے کوئی ہوتا تو ۔۔۔
٧۔ ابو ذر کہتے ہیں : ان عورتوں کو آگے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر ملے جبکہ یہ عورتیں پہاڑ سے اتر رہی تھیں۔ انھوں نے پوچھا۔ تمہیں کیا ہوا ہے ؟ عورتوں نے جواب دیا۔ ایک صابی کعبہ کے پردوں میں موجود ہے۔ انھوں نے پوچھا : اس نے تمہیں کیا کہا ہے ؟ عورتوں نے جواب دیا : اس نے ایسی بات کہی ہے جس سے منہ بھر جاتا ہے۔
٨۔ ابو ذر کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجر اسود کے پاس پہنچے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور ابوبکر نے حجر اسود کا استلام کیا۔ ابو ذر کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ کا طواف کیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھی۔ ابو ذر کہتے ہیں۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی نماز مکمل کرلی تو میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ابو ذر کہتے ہیں : میں پہلا شخص تھا جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسلام کا سلام پیش کیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواباً فرمایا : تم پر بھی سلام اور اللہ کی رحمت ہو۔ تم کس (قبیلہ) سے ہو ؟ میں نے عرض کیا : غفار سے۔ ابو ذر کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک سے اپنے سر کی طرف اشارہ کیا۔ فرماتے ہیں : میں نے دل میں کہا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری قبیلہ غفار کی نسبت کرنے کو ناپسند کیا ہے۔ کہتے ہیں : میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ پکڑنے کے لیے بڑھا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی (ابو بکر ) نے مجھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روک دیا۔ وہ مجھ سے زیادہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے واقف تھے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور کہا : تم یہاں پر کب سے ہو ؟ فرماتے ہیں : میں نے کہا۔ میرے یہاں قیام کی رات ، دن ملا کر دس کی گنتی پوری ہوچکی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : تمہیں کھانا کون کھلاتا تھا ؟ فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا۔ زمزم کے پانی کے سوا میرے لیے کوئی کھانا نہیں م ہے۔ میں (اس کے استعمال سے) موٹا ہوگیا ہوں یہاں تک کہ میرے پیٹ کی سلوٹیں ٹوٹ گئی ہیں۔ اور مجھے بھوک کی وجہ سے اپنے کلیجہ میں کمزوری محسوس نہیں ہوتی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ بابرکت پانی ہے یہ پانی خوراک والا کھانا ہے۔ ابو ذر کہتے ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی نے کہا۔ آپ مجھے اس کی مہمان نوازی کی آج رات کے لیے اجازت عنایت فرما دیں۔
٩۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر چل پڑے اور میں بھی ان کے ہمراہ چل پڑا۔ ابو ذر کہتے ہیں۔ پھر ابوبکر نے ایک دوروازہ کھولا اور میرے لیے طائف کا کشمش پکڑا ۔ ابو ذر فرماتے ہیں۔ یہ میرا پہلا کھانا تھا جو میں نے مکہ میں کھایا۔ فرماتے ہیں : پھر میں ٹھہرا جتنا ٹھہرا۔ یا فرمایا : جتنا ٹھہرنا تھا۔ پھر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ تحقیق مجھے ایک کھجوروں والی زمین کی طرف متوجہ کیا ہے۔ اور میرے گمان کے مطابق وہ یثرب ہی ہے۔ پس کیا تم اپنی قوم کو میری طرف سے تبلیغ کرو گے ؟ ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ ا ن کو آپ کے ذریعہ سے نفع دیں اور آپ کا ان کو اجر دیں ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں !
١٠۔ پھر میں چل پڑا یہاں تک کہ میں (بھائی) اُنیس کے پاس پہنچا۔ انھوں نے پوچھا : تم نے کیا کیا ہے ؟ میں نے کہا۔ میں نے یہ کیا ہے کہ اسلام لے آیا ہوں اور تصدیق (رسالت) کی ہے۔ اُنیس نے کہا۔ مجھے تمہارے دین سے کوئی اعراض نہیں ہے۔ میں بھی اسلام لے آیا ہوں اور میں نے بھی تصدیق کردی ہے۔ ابو ذر کہتے ہیں۔ پس ہم اپنی والدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو والدہ نے (بھی) کہا۔ مجھے تم دونوں کے دین سے کوئی اعراض نہیں ہے۔ میں بھی اسلام لا چکی ہوں اور میں نے بھی تصدیق کردی ہے۔ ابو ذر فرماتے ہیں : پھر ہم لوگ سواریوں پر سوار ہوئے یہاں تک کہ ہم اپنی قوم غفار میں پہنچے۔ ابو ذر کہتے ہیں۔ بعض قوم غفار کے لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے اسلام لے آئے۔ ابو ذر کہتے ہیں۔ ان مسلمانوں کو أیماء بن رَخَصہ، جو کہ قوم کے سردار تھے۔ امامت کرواتے تھے۔ فرماتے ہیں : باقی لوگوں نے کہا : جب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائیں گے تو ہم اسلام لے آئیں گے۔ ابو ذر کہتے ہیں : پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ تشریف لائے تو بقیہ لوگ بھی مسلمان ہوگئے۔
١١۔ ابو ذر کہتے ہیں : قبیلہ اسلم آیا تو انھوں نے کہا : (تم) ہمارے بھائی ہو۔ جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اسلام لائے ہیں ہم ان پر سلامتی (کی دعا) کرتے ہیں۔ ابو ذر کہتے ہیں : پھر تمام لوگ مسلمان ہوگئے۔ ابو ذر کہتے ہیں : پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو فرمایا : (قبیلہ) غفار ؟ اللہ اس کی مغفرت کرے۔ اور (قبیلہ) اسلم ! اللہ اس کو سلامت رکھے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔