HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

.

ابن أبي شيبة

37950

(۳۷۹۵۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : خَرَجْتُ یَوْمَ الْخَنْدَقِ أَقْفُو آثَارَ النَّاسِ ، فَسَمِعْتُ وَئِیدَ الأَرْضِ وَرَائِی ، فَالْتَفَتُّ ، فَإِذَا أَنَا بِسَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ وَمَعَہُ ابْنُ أَخِیہِ الْحَارِثُ بْنُ أَوْسٍ ، یَحْمِلُ مِجَنَّہُ ، فَجَلَسْتُ إِلَی الأَرْضِ ، قَالَتْ : فَمَرَّ سَعْدٌ وَعَلَیْہِ دِرْعٌ ، قَدْ خَرَجَتْ مِنْہَا أَطْرَافُہُ ، فَأَنَا أَتَخَوَّفُ عَلَی أَطْرَافِ سَعْدٍ ، قَالَتْ : وَکَانَ مِنْ أَعْظَمِ النَّاسِ وَأَطْوَلِہِمْ ، قَالَتْ: فَمَرَّ یَرْتَجِزُ ، وَہُوَ یَقُولُ : لَبِّثْ قَلِیلاً یُدْرِکِ الْہَیْجَا حَمَلْ مَا أَحْسَنَ الْمَوْتَ إِذَا حَانَ الأَجَلْ قَالَتْ : فَقُمْتُ ، فَاقْتَحَمْتُ حَدِیقَۃً ، فَإِذَا فِیہَا نَفَرٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، فِیہِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، وَفِیہِمْ رَجُلٌ عَلَیْہِ تَسْبِغَۃٌ لَہُ ، تَعْنِی الْمِغْفَرَ ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : وَیْحَکِ ، مَا جَائَ بِکِ ؟ وَیْحَکِ ، مَا جَائَ بِکِ ؟ وَاللہِ إِنَّکِ لَجَرِیئَۃٌ ، مَا یُؤَمِّنُکِ أَنْ یَکُونَ تَحَوُّزٌ وَبَلاَئٌ ؟ قَالَتْ : فَمَا زَالَ یَلُومُنِی حَتَّی تَمَنَّیْتُ أَنَّ الأَرْضَ انْشَقَّتْ فَدَخَلْتُ فِیہَا ، قَالَتْ : فَرَفَعَ الرَّجُلُ التَّسْبِغَۃَ عَنْ وَجْہِہِ ، فَإِذَا طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللہِ ، قَالَ ، فَقَالَ : یَا عُمَرُ ، وَیْحَک ، قَدْ أَکْثَرْتَ مُنْذُ الْیَوْمَ ، وَأَیْنَ التَّحَوُّزُ ، أَوِ الْفِرَارُ إِلاَّ إِلَی اللہِ۔ قَالَتْ : وَیَرْمِی سَعْدًا رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ مِنْ قُرَیْشٍ یُقَالُ لَہُ : حِبَّانُ بْنُ الْعَرِقَۃِ بِسَہْمٍ ، فَقَالَ : خُذْہَا وَأَنَا ابْنُ الْعَرِقَۃِ ، فَأَصَابَ أَکْحَلَہُ فَقَطَعَہُ ، فَدَعَا اللَّہَ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ لاَ تُمِتْنِی حَتَّی تُقِرَّ عَیْنِی مِنْ قُرَیْظَۃَ ، وَکَانُوا حُلَفَائَہُ وَمَوَالِیَہُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، قَالَتْ : فَرَقَأَ کَلْمُہُ ، وَبَعَثَ اللَّہُ الرِّیحَ عَلَی الْمُشْرِکِینَ : (وَکَفَی اللَّہُ الْمُؤْمِنِینَ الْقِتَالَ وَکَانَ اللَّہُ قَوِیًّا عَزِیزًا) فَلَحِقَ أَبُو سُفْیَانَ بِتِہَامَۃَ ، وَلَحِقَ عُیَیْنَۃُ بْنُ بَدْرِ بْنِ حِصْنٍ وَمَنْ مَعَہُ بِنَجْدٍ ، وَرَجَعَتْ بَنُو قُرَیْظَۃَ فَتَحَصَّنُوا فِی صَیَاصِیہِمْ ، وَرَجَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی الْمَدِینَۃِ ، فَأَمَرَ بِقُبَّۃٍ ، فَضُرِبَتْ عَلَی سَعْدٍ فِی الْمَسْجِدِ ، وَوُضِعَ السِّلاَحُ۔ قَالَتْ : فَأَتَاہُ جِبْرِیلُ ، فَقَالَ : أَقَدْ وَضَعْتَ السِّلاَحَ ؟ وَاللہِ مَا وَضَعَتِ الْمَلاَئِکَۃُ السِّلاَحَ ، فَاخْرُجْ إِلَی بَنِی قُرَیْظَۃَ فَقَاتِلْہُمْ ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالرَّحِیلِ وَلَبِسَ لاَمَتَہُ ، فَخَرَجَ فَمَرَّ عَلَی بَنِی غَنْمٍ ، وَکَانُوا جِیرَانَ الْمَسْجِدِ ، فَقَالَ : مَنْ مَرَّ بِکُمْ ؟ فَقَالُوا : مَرَّ بِنَا دِحْیَۃُ الْکَلْبِی ، وَکَانَ دِحْیَۃُ تُشْبِہُ لِحْیَتُہُ وَسِنَّتُہُ وَوَجْہُہُ بِجِبْرِیلَ ، فَأَتَاہُمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَحَاصَرَہُمْ خَمْسَۃً وَعِشْرِینَ یَوْمًا ، فَلَمَّا اشْتَدَّ حَصْرُہُمْ وَاشْتَدَّ الْبَلاَئُ عَلَیْہِمْ ، قِیلَ لَہُمْ : انْزِلُوا عَلَی حُکْمِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَاسْتَشَارُوا أَبَا لُبَابَۃَ ، فَأَشَارَ إِلَیْہِمْ بِیَدِہِ أَنَّہُ الذَّبْحُ ، فَقَالُوا : نَنْزِلُ عَلَی حُکْمِ ابْنِ مُعَاذٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : انْزِلُوا عَلَی حُکْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ، فَنَزَلُوا ، وَبَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی سَعْدٍ ، فَحُمِلَ عَلَی حِمَارٍ لَہُ إِکَافٌ مِنْ لِیفٍ ، وَحَفَّ بِہِ قَوْمُہُ ، فَجَعَلُوا یَقُولُونَ : یَا أَبَا عَمْرٍو ، حُلَفَاؤُکَ وَمَوَالِیکَ ، وَأَہْلُ النِّکَایَۃِ وَمَنْ قَدْ عَلِمْتَ ، قَالَتْ : لاَ یَرْجِعُ إِلَیْہِمْ قَوْلاً ، حَتَّی إِذَا دَنَا مِنْ دَارِہِمَ الْتَفَتَ إِلَی قَوْمِہِ ، فَقَالَ : قَدْ أَنَی لِسَعْدٍ أَنْ لاَ یُبَالِیَ فِی اللہِ لَوْمَۃَ لاَئِمٍ ، فَلَمَّا طَلَعَ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ أَبُو سَعِیدٍ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قُومُوا إِلَی سَیِّدِکُمْ فَأَنْزِلُوہُ ، قَالَ عُمَرُ : سَیِّدُنَا اللَّہُ ، قَالَ : أَنْزِلُوہُ ، فَأَنْزَلُوہُ۔ قَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اُحْکُمْ فِیہِمْ ، قَالَ : فَإِنِّی أَحْکُمُ فِیہِمْ أَنْ تُقْتَلَ مُقَاتِلَتُہُمْ ، وَتُسْبَی ذَرَارِیُّہُمْ ، وَتُقَسَّمَ أَمْوَالُہُمْ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَقَدْ حَکَمْتَ فِیہِمْ بِحُکْمِ اللہِ وَحُکْمِ رَسُولِہِ ، قَالَ : ثُمَّ دَعَا اللَّہَ سَعْدٌ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ إِنْ کُنْتَ أَبْقَیْتَ عَلَی نَبِیِّکَ مِنْ حَرْبِ قُرَیْشٍ شَیْئًا فَأَبْقِنِی لَہَا ، وَإِنْ کُنْتَ قَطَعْتَ الْحَرْبَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُمْ فَاقْبِضْنِی إِلَیْکَ ، فَقَالَ : فَانْفَجَرَ کَلْمُہُ ، وَکَانَ قَدْ بَرَأَ حَتَّی مَا بَقِیَ مِنْہُ إِلاَّ مِثْلُ الْخُرْصِ۔ قَالَتْ : فَرَجَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَرَجَعَ سَعْدٌ إِلَی قُبَّتِہِ الَّتِی کَانَ ضَرَبَ عَلَیْہِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ : فَحَضَرَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَبُو بَکْرٍ ، وَعُمَرُ ، قَالَتْ : فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، إِنِّی لأَعْرِفُ بُکَائَ أَبِی بَکْرٍ مِنْ بُکَائِ عُمَرَ وَأَنَا فِی حُجْرَتِی ، وَکَانُوا کَمَا قَالَ اللَّہُ تَعَالَی : {رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ} قَالَ عَلْقَمَۃُ : فَقُلْتُ : أَیْ أُمَّہْ ، فَکَیْفَ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصْنَعُ؟ قَالَتْ : کَانَتْ عَیْنُہُ لاَ تَدْمَعُ عَلَی أَحَدٍ ، وَلَکِنَّہُ کَانَ إِذَا وَجَدَ فَإِنَّمَا ہُوَ آخِذٌ بِلِحْیَتِہِ۔
(٣٧٩٥١) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ میں خندق کے دن، لوگوں کے آثار قدم کی پیروی کرتے ہوئے باہر نکلی۔ پس میں نے اپنے پیچھے لوگوں کی آہٹ سُنی۔ میں نے توجہ کی تو وہ سعد بن عبادہ تھے اور ان کے ساتھ ان کے بھتیجے حارث بن اوس تھے۔ جنہوں نے اپنی ڈھال اٹھائی ہوئی تھی۔ پس میں زمین پر بیٹھ گئی ۔ فرماتی ہیں : پس حضرت سعد گزر گئے اور انھوں نے زرہ پہنی ہوئی تھی۔ اور اس کے کنارے باہر نکلے ہوئے تھے۔ اور مجھے حضرت سعد کے کناروں سے خوف آ رہا تھا۔ فرماتی ہیں : یہ صاحب لوگوں میں سے بڑے جثہ والے اور لمبے تھے۔ فرماتی ہیں : پھر وہ رجز پڑھتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے گزر گئے۔
” تھوڑی دیر ٹھہر جاؤ جنگ کو زور پکڑنے دو ۔ جب وقت مقرر آجائے تو موت کتنی اچھی ہوتی ہے۔ “
٢۔ فرماتی ہیں۔ پھر میں کھڑی ہوئی اور ایک باغیچہ میں گھس گئی تو وہاں مسلمانوں کے چند افراد تھے۔ جن میں عمر بن خطاب بھی تھے اور ان میں ایک آدمی وہ بھی تھا جس پر خود تھی ۔ راوی کہتے ہیں۔۔۔ حضرت عمر نے کہا : عجیب بات ہے ! تمہیں کیا چیز لے آئی ہے ؟ عجیب بات ہے ! تمہیں کیا چیز لے آئی ہے ؟ بخدا ! تم بہت جری ہو۔ تمہیں کس چیز نے فرار اور آزمائش سے مامون کردیا ہے ؟ عائشہ فرماتی ہیں : حضرت عمر مجھے مسلسل ملامت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے تمنا کی کہ زمین شق ہوجائے اور میں اس میں داخل ہو جاؤں۔ فرماتی ہیں۔ پھر (دوسرے) آدمی نے اپنے چہرے سے خود اتاری تو وہ طلحہ بن عبید اللہ تھے۔ راوی کہتے ہیں : انھوں نے کہا : اے عمر ! تم پر افسوس ہے آج تم نے بہت زیادہ ملامت کی ہے۔ فرار اور آزمائش اللہ کے سوا کس کی طرف ہوسکتا ہے۔
٣۔ عائشہ فرماتی ہیں۔ مشرکین قریش میں سے ایک آدمی نے، جس کو حبان بن العرقۃ کہا جاتا تھا۔ حضرت سعد کو تیر مارا اور کہا۔ اس کو لے لو۔ میں ابن العرقۃ ہوں۔ وہ تیر حضرت سعد کی بازو کی رگ میں لگا اور اس نے وہ رگ کاٹ دی۔ سعد نے اللہ سے دعا کی ۔ اے اللہ ! تو مجھے موت نہ دینا یہاں تک کہ تو بنو قریظہ سے میری آنکھوں کو ٹھنڈا کر دے۔ یہ لوگ سعد کے جاہلیت میں حلیف اور ساتھی تھے۔ عائشہ کہتی ہیں۔ پھر ان کے زخم کا خون بند ہوگیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے مشرکین پر ہوا بھیج دی۔ وکفی اللّٰہ المؤمنین القتال وکان اللّٰہ قویاً عزیزاً ۔
پس ابو سفیان تہامہ کے علاقہ کے ساتھ جا ملا اور عیینہ بن بدر بن حصن اور اس کے ساتھی نجد کے علاقہ کے ساتھ جا ملے اور بنو قریظہ واپس ہوگئے اور اپنے قلعوں میں قلعہ بند ہوگئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ کی طرف واپس تشریف لے آئے اور حکم دیا تو حضرت سعد کے لیے مسجد میں خیمہ لگایا گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسلحہ وغیرہ رکھ دیا۔
٤۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حضرت جبرائیل آئے اور عرض کیا۔ کیا آپ نے اسلحہ اتار دیا ہے ؟ بخدا ! فرشتوں نے تو اسلحہ نہیں اتارا۔ پس آپ بنو قریظہ کی طرف چلئے اور ان سے قتال کیجئے۔ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ کا حکم دیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا سامانِ حضر زیب تن فرمایا اور نکل پڑے ۔ اور (جب) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو غنم کے پاس سے گزرے۔۔۔ یہ لوگ مسجد کے پڑوسی تھے ۔۔۔ تو پوچھا : کون تمہارے پاس سے گزرا ہے ؟ انھوں نے جواباً عرض کیا۔ ہمارے پاس سے حضرت دحیہ کلبی گزرے ہیں۔ حضرت دحیہ کی داڑھی اور چہرے کی شکل حضرت جبرائیل سے مشابہ تھی پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، بنو قریظہ کے پاس پہنچے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پچیس دن تک ان کا محاصرہ فرمایا۔ پس جب بنو قریظہ کا محاصرہ شدید ہوگیا اور ان پر مصیبت سخت ہوگئی تو انھیں کہا گیا ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ پر تسلیم ہو جاؤ۔ انھوں نے ابو لبابہ سے مشورہ کیا تو انھوں نے اپنے ہاتھ سے انھیں یہ اشارہ کیا کہ فیصلہ تو ذبح کا ہے۔ بنو قریظہ نے کہا۔ ہم ابن معاذ کے فیصلہ پر اترتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم سعد بن معاذ کے فیصلہ پر (ہی) اُتر آؤ۔ پس وہ لوگ اتر آئے۔
٥۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سعد کی طرف کسی کو بھیجا اور انھیں گدھے پر سوار کیا گیا جس پر کھجور کی چھال کا پالان تھا اور ان کی قوم نے انھیں گھیر لیا۔ اور یہ کہنے لگے۔ اے ابو عمرو ! (یہ لوگ) تیرے حلیف اور تیرے ساتھی ہیں۔ اور تیری پہچان کے لوگ ہیں۔ عائشہ کہتی ہیں۔ حضرت سعد نے ان کو کچھ جواب نہیں دیا۔ یہاں تک کہ جب سعد ان کے گھروں کے پاس پہنچے تو فرمایا : اب سعد کے لیے وہ وقت آپہنچا ہے کہ سعد ، اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرے۔
٦۔ پھر جب وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ہوئے ابو سعید کہتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنے سردار کے لیے کھڑے ہو جاؤ اور اس کو نیچے اتارو۔ حضرت عمر نے کہا۔ ہمارا سردار اللہ تعالیٰ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انھیں اتارو۔ پس لوگوں نے انھیں نیچے اتارا۔
٧۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سعد سے فرمایا : ان کے بارے میں فیصلہ کرو۔ انھوں نے عرض کیا : میں ان کے بارے میں یہ فیصلہ صادر کرتا ہوں کہ ان کے لڑنے والوں کو قتل کردیا جائے اور ان کی عورتوں ، بچوں کو قیدی بنایا جائے اور ان کے اموال کو تقسیم کرلیا جائے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ بیشک تو نے ان کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے مطابق (ہی) فیصلہ کیا ہے۔ راوی کہتے ہیں : پھر حضرت سعد نے اللہ سے دعا کی۔ اور فرمایا۔ اے اللہ ! اگر تو نے اپنے نبی کے خلاف قریش کی کوئی جنگ باقی رکھی ہوئی ہے تو تُو مجھے بھی اس کے لیے باقی رکھ۔ اور اگر تو نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قریش کے درمیان جنگ ختم کردی ہے تو تو مجھے اپنی طرف اٹھا لے۔ راوی کہتے ہیں۔ پس ان کا زخم پھوٹ پڑا۔ اور وہ زخم (پہلے) ختم ہوگیا تھا اور صرف ایک چھوٹے سے سوراخ جتنا رہ گیا تھا۔
٨۔ عائشہ کہتی ہیں۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس تشریف لے آئے اور حضرت سعد بھی اس خیمہ میں واپس آگئے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے لگوایا تھا۔ فرماتی ہیں : پھر سعد کے پاس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر حضرت عمر حاضر ہوئے۔ کہتی ہیں : قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں حضرت ابوبکر کے رونے کو حضرت عمر کے رونے سے علیحدہ پہچان لیتی تھی حالانکہ میں حجرہ میں ہوتی تھی ۔ اور یہ صحابہ ایسے تھے جیسا اللہ کا ارشاد ہے۔ رحماء بینھم علقمہ کہتے ہیں۔ میں نے کہا۔ اماں جان ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا کرتے تھے ؟ عائشہ نے فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھں ل کسی پر آنسو نہیں بہاتی تھیں لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کسی کا غم ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی داڑھی پکڑتے تھے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔