HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

.

ابن أبي شيبة

38197

(۳۸۱۹۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : کُنْتُ أَخْتَلِفُ إِلَی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، وَنَحْنُ بِمِنًی مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، أُعَلِّمُ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ عَوْفٍ الْقُرْآنَ ، فَأَتَیْتُہُ فِی الْمَنْزِلِ ، فَلَمْ أَجِدْہُ ، فَقِیلَ : ہُوَعِنْدَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ ، فَانْتَظَرْتُہُ حَتَّی جَائَ ، فَقَالَ لِی : قَدْ غَضِبَ ہَذَا الْیَوْمَ غَضَبًا مَا رَأَیْتہ غَضِبَ مِثْلَہُ مُنْذُ کَانَ ، قَالَ : قُلْتُ لِمَ ذَاکَ ؟ قَالَ : بَلَغَہُ أَنَّ رَجُلَیْنِ مِنَ الأَنْصَارِ ذَکَرَا بَیْعَۃَ أَبِی بَکْرٍ ، فَقَالاَ : وَاللہِ مَا کَانَتْ إِلاَّ فَلْتَۃً ، فَمَا یَمْنَعُ امْرَئًا إِنْ ہَلَکَ ہَذَا أَنْ یَقُومَ إِلَی مَنْ یُحِبُّ ، فَیَضْرِبُ عَلَی یَدِہِ ، فَتَکُونُ کَمَا کَانَتْ ، قَالَ : فَہَمَّ عُمَرُ أَنْ یُکَلِّمَ النَّاسَ ، قَالَ : فَقُلْتُ : لاَ تَفْعَلْ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، فَإِنَّک بِبَلَدٍ قَدِ اجْتَمَعَتْ إِلَیْہِ أَفْنَائُ الْعَرَبِ کُلُّہَا ، وَإِنَّک إِنْ قُلْتَ مَقَالَۃً حُمِلَتْ عَنْک وَانْتَشَرَتْ فِی الأَرْضِ کُلِّہَا ، فَلَمْ تَدْرِ مَا یَکُونُ فِی ذَلِکَ ، وَإِنَّمَا یُعِینُک مَنْ قَدْ عَرَفْتَ أَنَّہُ سَیَصِیرُ إِلَی الْمَدِینَۃِ۔ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ رُحْتُ مَہْجَرًا ، حَتَّی أَخَذْتُ عِضَادَۃَ الْمِنْبَرِ الْیُمْنَی ، وَرَاحَ إِلَیَّ سَعِیدُ بْنُ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ ، حَتَّی جَلَسَ مَعِی ، فَقُلْتُ : لَیَقُولَنَّ ہَذَا الْیَوْمَ مَقَالَۃً ، مَا قَالَہَا مُنْذُ اُسْتُخْلِفَ ، قَالَ : وَمَا عَسَی أَنْ یَقُولَ ؟ قُلْتُ : سَتَسْمَعُ ذَلِکَ۔ قَالَ: فَلَمَّا اجْتَمَعَ النَّاسُ خَرَجَ عُمَرُ حَتَّی جَلَسَ عَلَی الْمِنْبَرِ، ثُمَّ حَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ، ثُمَّ ذَکَرَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَصَلَّی عَلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّ اللَّہَ أَبْقَی رَسُولَہُ بَیْنَ أَظْہُرِنَا ، یَنْزِلُ عَلَیْہِ الْوَحْیُ مِنَ اللہِ، یُحِلُّ بِہِ وَیُحَرِّمُ ، ثُمَّ قَبَضَ اللَّہُ رَسُولَہُ ، فَرَفَعَ مِنْہُ مَا شَائَ أَنْ یَرْفَعَ ، وَأَبْقَی مِنْہُ مَا شَائَ أَنْ یُبْقِی ، فَتَشَبَّثْنَا بِبَعْضٍ ، وَفَاتَنَا بَعْضٌ ، فَکَانَ مِمَّا کُنَّا نَقْرَأُ مِنَ الْقُرْآنِ : لاَ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِکُمْ ، فَإِنَّہُ کُفْرٌ بِکُمْ أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِکُمْ ، وَنَزَلَتْ آیَۃُ الرَّجْمِ ، فَرَجَمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا مَعَہُ ، وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ ، لَقَدْ حَفِظْتُہَا وَعَلِمْتُہَا وَعَقَلْتہَا ، وَلَوْلاَ أَنْ یُقَالَ : کَتَبَ عُمَرُ فِی الْمُصْحَفِ مَا لَیْسَ فِیہِ ، لَکَتَبْتہَا بِیَدِی کِتَابًا ، وَالرَّجْمُ عَلَی ثَلاَثَۃِ مَنَازِلَ : حَمْلٌ بَیِّنٌ ، أَوِ اعْتِرَافٌ مِنْ صَاحِبِہِ ، أَوْ شُہُود عَدْلٌ ، کَمَا أَمَرَ اللَّہُ۔ وَقَدْ بَلَغَنِی أَنَّ رِجَالاً یَقُولُونَ فِی خِلاَفَۃِ أَبِی بَکْرٍ : أَنَّہَا کَانَتْ فَلْتَۃً ، وَلَعَمْرِی إِنْ کَانَتْ کَذَلِکَ ، وَلَکِنَّ اللَّہَ أَعْطَی خَیْرَہَا ، وَوَقَی شَرَّہَا ، وَأَیَّکُمْ ہَذَا الَّذِی تَنْقَطِعُ إِلَیْہِ الأَعَنْاقُ کَانْقِطَاعِہَا إِلَی أَبِی بَکْرٍ۔ إِنَّہُ کَانَ مِنْ شَأْنِ النَّاسِ : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تُوُفِّیَ ، فَأَتَیْنَا ، فَقِیلَ لَنَا : إِنَّ الأَنْصَارَ قَدِ اجْتَمَعَتْ فِی سَقِیفَۃِ بَنِی سَاعِدَۃَ مَعَ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ یُبَایِعُونَہُ ، فَقُمْتُ ، وَقَامَ أَبُو بَکْرٍ ، وَأَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ نَحْوَہُمْ ، فَزِعِینَ أَنْ یُحْدِثُوا فِی الإِسْلاَمِ فَتْقًا ، فَلَقِیَنَا رَجُلاَنِ مِنَ الأَنْصَارِ ؛ رَجُلُ صِدْقٍ ، عُوَیْمُ بْنُ سَاعِدَۃَ ، وَمَعْن بْنُ عَدِی ، فَقَالاَ : أَیْنَ تُرِیدُونَ ؟ فَقُلْنَا : قَوْمَکُمْ ، لِمَا بَلَغَنَا مِنْ أَمْرِہِمْ ، فَقَالاَ : ارْجِعُوا فَإِنَّکُمْ لَنْ تُخَالِفُوا ، وَلَنْ یُؤْتَ شَیْئٌ تَکْرَہُونَہُ ، فَأَبَیْنَا إِلاَّ أَنْ نَمْضِی ، وَأَنَا أَزوّر کَلاَمًا أُرِیدُ أَنْ أَتَکَلَّمَ بِہِ ، حَتَّی انْتَہَیْنَا إِلَی الْقَوْمِ ، وَإِذَا ہُمْ عَکَر ہُنَالِکَ عَلَی سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ ، وَہُوَ عَلَی سَرِیرٍ لَہُ مَرِیضٌ ، فَلَمَّا غَشَیْنَاہُمْ ، تَکَلَّمُوا فَقَالُوا : یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ ، مِنَّا أَمِیرٌ وَمِنْکُمْ أَمِیرٌ ، فَقَامَ الْحُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، فَقَالَ : أَنَا جُذَیْلُہَا الْمُحَکَّکُ ، وَعُذَیْقُہَا الْمُرَجَّبُ ، إِنْ شِئْتُمْ وَاللہِ رَدَدْنَاہَا جَذَعَۃً۔ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : عَلَی رِسْلِکُمْ ، فَذَہَبْتُ لأَتَکَلَّمَ ، فَقَالَ : أَنْصِتْ یَا عُمَرُ ، فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ قَالَ : یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ، إِنَّا وَاللہِ مَا نُنْکِرُ فَضْلَکُمْ ، وَلاَ بَلاَئَکُمْ فِی الإِسْلاَمِ ، وَلاَ حَقَّکُمُ الْوَاجِبَ عَلَیْنَا ، وَلَکِنَّکُمْ قَدْ عَرَفْتُمْ أَنَّ ہَذَا الْحَیَّ مِنْ قُرَیْشٍ بِمَنْزِلَۃٍ مِنَ الْعَرَبِ ، لَیْسَ بِہَا غَیْرُہُمْ ، وَأَنَّ الْعَرَبَ لَنْ تَجْتَمِعَ إِلاَّ عَلَی رَجُلٍ مِنْہُمْ ، فَنَحْنُ الأُمَرَائُ وَأَنْتُمُ الْوُزَرَائُ ، فَاتَّقُوا اللَّہَ ، وَلاَ تَصَدَّعُوا الإِسْلاَمَ ، وَلاَ تَکُونُوا أَوَّلَ مَنْ أَحْدَثَ فِی الإِسْلاَمِ ، أَلاَ وَقَدْ رَضِیتُ لَکُمْ أَحَدَ ہَذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ ، لِی وَلأَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ ، فَأَیُّہُمَا مَا بَایَعْتُمْ فَہُوَ لَکُمْ ثِقَۃٌ ، قَالَ : فَوَاللہِ مَا بَقِیَ شَیْئٌ کُنْتُ أُحِبُّ أَنْ أَقُولَہُ إِلاَّ وَقَدْ قَالَہُ ، یَوْمَئِذٍ ، غَیْرَ ہَذِہِ الْکَلِمَۃِ، فَوَاللہِ لأَنْ أُقْتَلَ ، ثُمَّ أُحْیَی ، ثُمَّ أُقْتَلَ ، ثُمَّ أُحْیَی ، فِی غَیْرِ مَعْصِیَۃٍ ، أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَکُونَ أَمِیرًا عَلَی قَوْمٍ فِیہِمْ أَبُو بَکْرٍ۔ قَالَ ، ثُمَّ قُلْتُ : یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ، یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ ، إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِأَمْرِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ بَعْدِہِ : {ثَانِیَ اثْنَیْنِ إِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ} أَبُو بَکْرٍ السَّبَّاقُ الْمَتِینُ ، ثُمَّ أَخَذْتُ بِیَدِہِ ، وَبَادَرَنِی رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَضَرَبَ عَلَی یَدِہِ قَبْلَ أَنْ أَضْرِبَ عَلَی یَدِہِ ، ثُمَّ ضَرَبْتُ عَلَی یَدِہِ ، وَتَتَابَعَ النَّاسُ ، وَمِیلَ عَلَی سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ ، فَقَالَ النَّاسُ : قُتِلَ سَعْدٌ ، فَقُلْتُ : اُقْتُلُوہُ ، قَتَلَہُ اللَّہُ ، ثُمَّ انْصَرَفْنَا ، وَقَدْ جَمَعَ اللَّہُ أَمْرَ الْمُسْلِمِینَ بِأَبِی بَکْرٍ ، فَکَانَتْ لَعَمْرُ اللہِ فَلْتَۃٌ کَمَا قُلْتُمْ ، أَعْطَی اللَّہُ خَیْرَہَا وَوَقَی شَرَّہَا ، فَمَنْ دَعَا إِلَی مِثْلِہَا ، فَہُوَ الَّذِی لاَ بَیْعَۃَ لَہُ ، وَلاَ لِمَنْ بَایَعَہُ۔ (بخاری ۲۴۸۴۔ ابوداؤد ۴۴۱۷)
(٣٨١٩٨) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ میں عبد الرحمن بن عوف کے پاس آتا جاتا رہتا تھا اور (اس وقت) ہم حضرت عمر بن خطاب کے ساتھ مقام منیٰ میں تھے۔ میں عبد الرحمن بن عوف کو قرآن پڑھا تا تھا پس میں ان کے پاس منزل میں آیا تو میں نے انھیں نہیں پایا۔ کہا گیا کہ وہ امیر المؤمنین کے پاس ہیں۔ چنانچہ میں ان کا انتظار کرنے لگا یہاں تک کہ وہ آگئے اور انھوں نے بتایا۔ آج حضرت عمر کو اتنا شدید غصہ آیا تھا کہ اس سے پہلے کبھی ان کو اتنا غصہ نہیں آیا۔ ابن عباس کہتے ہیں : میں نے پوچھا : یہ کیوں ؟ عبد الرحمن بن عوف نے جواب دیا۔ حضرت عمر کو یہ بات پہنچی کہ انصار میں سے دو آدمیوں نے حضرت ابوبکر کی بیعت کا ذکر کیا تو پھر ان دونوں نے کہا۔ بخدا ! ان کی بیعت تو اچانک ہوگئی تھی۔
وہ اس کے ہاتھ پر مارتا پھر جو ہوتا سو ہوتا۔ راوی کہتے ہیں : پھر حضرت عمر نے لوگوں سے گفتگو کرنے کا ارادہ کیا۔ راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا۔ اے امیر المؤمنین ! آپ (ابھی) گفتگو نہ کریں کیونکہ آپ (اس وقت) ایسے شہر میں ہیں کہ آپ کے پاس تمام عرب کے دور دراز غیر معروف علاقوں کے لوگ جمع ہیں۔ اور آپ اگر (اب) کوئی بھی بات کریں گے تو وہ آپ سے منسوب ہو کر تمام زمین میں پھیل جائے گی۔ پھر آپ کو نہیں معلوم کہ کیا ہوگا۔ آپ کے مطلب کے لوگ تو وہی ہیں جن کو آپ جانتے ہیں کہ وہ مدینہ واپس جائیں گے۔
٢۔ پھر جب ہم مدینہ میں آئے تو میں سویرے سویرے چلا گیا یہاں تک کہ میں نے منبر کے دائیں پائے (کے ساتھ جگہ) پکڑ لی۔ پھر حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل بھی میری طرف آئے یہاں تک کہ وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ گئے ۔ میں نے (ان سے) کہا۔ آج کے دن حضرت عمر ایسی گفتگو کریں گے کہ ویسی گفتگو انھوں نے خلیفہ بننے کے بعد سے کبھی نہیں کی۔ سعید نے پوچھا۔ وہ کیسی بات کریں گے ؟ میں نے جواب دیا، ابھی تم وہ بات سُن لو گے۔
ٍ ٣۔ راوی کہتے ہیں : پھر جب لوگ جمع ہوگئے تو حضرت عمر باہر تشریف لائے یہاں تک کہ آپ منبر پر بیٹھ گئے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کی پھر آپ نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھا۔ پھر آپ نے فرمایا : یقیناً اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہمارے درمیان باقی رکھا ان پر اللہ کی جانب سے وحی نازل ہوتی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے ذریعہ حلال و حرام بیان کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو (کی روح کو) قبض کرلیا پس جو کچھ ان کے ہمراہ اللہ نے اٹھانا چاہا وہ اٹھا لیا ۔ اور جس کو اللہ نے باقی رکھنا چاہا تھا اس کو باقی رکھا۔ چنانچہ بعض باتوں کے ساتھ تو ہم وابستہ رہے اور بعض باتیں ہم سے فوت ہوگئیں۔ پس ہم قرآن میں سے جو کچھ پڑھتے تھے اس میں یہ بھی تھا۔ ولا ترغبوا عن آباء کم فانہ کفر بکم ان ترغبوا عن آباء کم۔ اور رجم کی آیت بھی نازل ہوئی تھی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم بھی کیا تھا اور ہم نے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ رجم کیا تھا۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے ! بلاشبہ میں نے (خود) اس آیت کو یاد کیا تھا اور اس کو سمجھا تھا اور معلوم کیا تھا۔ اگر اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ کہا جائے گا۔ عمر نے قرآن میں اس بات کو لکھا جو اس میں سے نہیں ہے تو البتہ میں اس آیت رجم کو اپنے ہاتھوں سے لکھتا۔ رجم کی تین حالات ہیں۔ واضح حمل ہو۔ یا زانی کی طرف سے اقرار ہو یا عادل گواہ ہوں۔ جیسا کہ حکم خداوندی ہے۔
٤۔ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ کچھ لوگوں نے حضرت ابوبکر کی خلافت کے بارے میں یہ بات کہی ہے کہ یہ تو اچانک ہوگئی تھی۔ میری عمر کی قسم ! اگرچہ بات ایسی ہی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی خلافت کی خیر و برکت عطا فرمائی اور اس کے شر سے محفوظ فرما لیا۔ تم میں سے کون سا آدمی ہے جس کے لیے (لوگوں کی) گردنیں یوں خم ہوجائیں جیسا کہ حضرت ابوبکر کے لیے خم ہوگئیں تھیں۔
٥۔ یقیناً لوگوں کا معاملہ کچھ ایسا تھا کہ (جب) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پا گئے تو ہمارے پاس معاملہ لایا گیا اور ہمیں کہا گیا۔ انصار، سعد بن عبادہ کے پاس بنو ساعدہ میں جمع ہیں اور سعد کی بیعت کر رہے ہیں۔ چنانچہ میں، حضرت ابوبکر ، حضرت ابو عبیدہ بن جرا ح ان کی طرف پریشانی کے عالم میں اٹھ کھڑے ہوئے کہ (مبادا) وہ اسلام میں کوئی دراڑ پیدا کردیں۔ پس ہمیں انصار ہی میں سے دو سچے آدمی ملے ۔ عویم بن ساعدہ اور معن بن عدی۔ انھوں نے پوچھا : تم کہاں جا رہے ہو ؟ ہم نے کہا : تمہاری قوم کے پاس، کیونکہ ہمیں ان کے بارے میں کوئی بات پہنچی ہے۔ ان دونوں نے کہا۔ واپس چلے جاؤ کیونکہ تمہاری مخالفت نہیں کی جائے گی اور ایسی چیز نہیں لائی جائے گی جس کو تم ناپسند کرو۔ لیکن ہم نے آگے جانے پر ہی اصرار کیا۔ اور میں (عمر ) وہ کلام تیار کررہا تھا جس کے بارے میں میرا ارادہ بیان کا تھا ۔ یہاں تک کہ ہم ان لوگوں کے پاس پہنچ گئے وہ لوگ تو سارے کے سارے حضرت سعد بن عبادہ پر جھکے ہوئے تھے اور حضرت سعد بن عبادہ اپنے تخت پر تشریف فرما تھے۔ اور بیمار تھے۔ پس جب ہم اوپر سے ان لوگوں کے پاس پہنچے تو انھوں نے بات شروع کی اور کہنے لگے ۔ اے گروہ قریش ! ایک امرن ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم میں سے ہوگا۔ اس پر حضرت حباب بن منذر کھڑے ہوئے اور فرمایا۔ میں ذی رائے اور معتمد لوگوں میں سے ہوں۔ اگر تم چاہو۔
٦۔ پھر حضرت ابوبکر نے کہا۔ اپنی حالت پر رہو۔ پس میں نے گفتگو کرنا چاہی تو حضرت ابوبکر نے فرمایا : اے عمر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! خاموش رہو، پھر حضرت ابوبکر نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی اور پھر کہا۔ اے گروہ انصار ! خدا کی قسم ! ہم تمہاری فضیلت کے منکر نہیں ہیں اور نہ ہی اسلام کے بارے میں تمہاری محنت و مشقت کے منکر ہیں۔ اور نہ ہی خود پر واجب تمہارے حق کے منکر ہیں۔ لیکن یقیناً تم جانتے ہو کہ یہ قبیلہ قریش پورے عرب میں اس مقام پر ہے جس پر اس کے علاوہ کوئی قبیلہ نہیں ہے۔ اور عرب کے لوگ قریش ہی کے کسی آدمی پر جمع ہوں گے۔ پس ہم (میں سے) امراء ہوں گے اور تم (میں سے) وزراء ہوں گے۔ پس اللہ سے ڈرو اور اسلام میں دراڑ نہ ڈالو۔ اور اسلام میں نئی بات ایجاد کرنے والے نہ بنو۔ اور بغور یہ بات سنو کہ مجھے تمہارے لیے ان دو افراد میں سے کسی ایک پر راضی ہوں۔ مراد میں (عمر ) تھا اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح ۔ پس ان دونوں میں سے جس پر بھی تم بیعت کرلو تو وہ تمہارے لیے ثقہ ہے۔ حضرت عمر کہنے لگے۔ خدا کی قسم ! جو بات کہنا مجھے پسند تھا حضرت ابوبکر نے ان میں سے کوئی بات نہ چھوڑی بلکہ سب کہہ دی۔ سوائے آخری بات کے ۔ خد ا کی قسم ! میں غیر معصیت کی حالت میں قتل کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں تو بھی مجھے یہ بات اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں ایسی قوم پر امیر بنوں جس میں حضرت ابوبکر موجود ہوں۔
٨۔ حضرت عمر کہتے ہیں : پھر میں نے عرض کیا۔ اے گروہ انصار ! اے گروہ مسلمین ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملہ (یعنی خلافت) کا لوگوں میں سے سب سے زیادہ حق دار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد وہ ہیں جو غاز میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمرا ہ تھے۔ یعنی حضرت ابوبکر جو ہر میدان میں سبقت رکھنے والے اور مضبوط ہیں۔ پھر میں نے آپ کا ہاتھ پکڑا (پکڑنا چاہا) لیکن انصار میں سے ایک آدمی مجھ سے پہل کر گیا پس اس نے حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر ہاتھ مارا قبل اس کے کہ میں حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر ہاتھ مارتا۔ پھر میں نے حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر ہاتھ مارا (یعنی بیعت کی) اور پھر دیگر لوگوں نے تسلسل کے ساتھ بیعت کی۔ اور حضرت سعد بن عبادہ کے ساتھ ایسے زیادتی ہوگئی اور لوگوں نے کہا۔ حضرت سعد قتل ہوگئے ۔ میں نے کہا۔ ان کو قتل (ہی) کردو۔ اللہ ان کو قتل کرے۔ پھر ہم (وہاں سے) واپس پلٹ گئے اور تحقیق اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے معاملہ کو حضرت ابوبکر (کے ہاتھ) پر جمع کردیا تھا۔ پس خدا کی قسم ! خلافتِ (صدیقی) تھی تو اچانک ہی جیسا کہ تم کہتے ہو (لیکن) اللہ تعالیٰ نے اسی کی خیر و برکت (امت کو) عطا کردی اور اس کے شر سے (امت کو) بچا لیا۔ پس (اب) جو آدمی ایسی بیعت (خلافت) کا داعی ہو تو اس کی بیعت نہ ہوگی اور نہ ہی بیعت کرنے والوں کی بیعت ہوگی۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔