HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

.

ابن أبي شيبة

38213

(۳۸۲۱۴) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، قَالَ : جِئْتُ وَإِذَا عُمَرُ وَاقِفٌ عَلَی حُذَیْفَۃَ ، وَعُثْمَانَ بْنِ حُنَیْفٍ ، فَقَالَ : تَخَافَانِ أَنْ تَکُونَا حَمَّلْتُمَا الأَرْضَ مَا لاَ تُطِیقُ ، فَقَالَ : حُذَیْفَۃُ : لَوْ شِئْتُ لأَضْعَفْتُ أَرْضِی ، وَقَالَ عُثْمَان : لَقَدْ حَمَّلْتُ أَرْضِی أَمْرًا ہِیَ لَہُ مُطِیقَۃٌ، وَمَا فِیہَا کَثِیرُ فَضْلٍ ، فَقَالَ : اُنْظُرَا مَا لَدَیْکُمَا ، أَنْ تَکُونَا حَمَّلْتُمَا الأَرْضَ مَا لاَ تُطِیقُ ، ثُمَّ قَالَ : وَاللہِ لَئِنْ سَلَّمَنِی اللَّہُ ، لأَدَعَنْ أَرَامِلَ أَہْلِ الْعِرَاقِ لاَ یَحْتَجْنَ بَعْدِی إِلَی أَحَدٍ أَبَدًا ، قَالَ : فَمَا أَتَتْ عَلَیْہِ إِلاَّ أَرْبَعَۃٌ حَتَّی أُصِیبَ۔ قَالَ: وَکَانَ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ قَامَ بَیْنَ الصُّفُوفِ ، فَقَالَ : اسْتَوُوا ، فَإِذَا اسْتَوَوْا تَقَدَّمَ فَکَبَّرَ ، قَالَ: فَلَمَّا کَبَّرَ طُعِنَ مَکَانَہُ، قَالَ فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ: قَتَلَنِی الْکَلْبُ، أَوْ أَکَلَنِی الْکَلْبُ، قَالَ عَمْرٌو: مَا أَدْرِی أَیُّہُمَا قَالَ؟ وَمَا بَیْنِی وَبَیْنَہُ غَیْرَ ابْنِ عَبَّاسٍ ، فَأَخَذَ عُمَرُ بِیَدِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ فَقَدَّمَہُ ، وَطَارَ الْعِلْجُ وَبِیَدِہِ سِکِّینٌ ذَاتُ طَرَفَیْنِ، مَا یَمُرُّ بِرَجُلٍ یَمِینًا، وَلاَ شِمَالاً إِلاَّ طَعَنَہُ حَتَّی أَصَابَ مِنْہُمْ ثَلاَثَۃَ عَشَرَ رَجُلا ، فَمَاتَ مِنْہُمْ تِسْعَۃٌ، قَالَ : فَلَمَّا رَأَی ذَلِکَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ طَرَحَ عَلَیْہِ بُرْنُسًا لِیَأْخُذَہُ ، فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّہُ مَأْخُوذٌ نَحَرَ نَفْسَہُ۔ قَالَ : فَصَلَّیْنَا الْفَجْرَ صَلاَۃً خَفِیفَۃً ، قَالَ : فَأَمَّا نَوَاحِی الْمَسْجِدِ فَلاَ یَدْرُونَ مَا الأَمْرُ إِلاَّ أَنَّہُمْ حَیْثُ فَقَدُوا صَوْتَ عُمَرَ ، جَعَلُوا یَقُولُونَ : سُبْحَانَ اللہِ ، مَرَّتَیْنِ ، فَلَمَّا انْصَرَفُوا کَانَ أَوَّلَ مَنْ دَخَلَ عَلَیْہِ ابْنُ عَبَّاسٍ ، فَقَالَ : اُنْظُرْ مَنْ قَتَلَنِی ؟ قَالَ : فَجَالَ سَاعَۃً ، ثُمَّ جَائَ ، فَقَالَ : غُلاَمُ الْمُغِیرَۃِ الصَّنَّاعُ ، وَکَانَ نَجَّارًا ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی لَمْ یَجْعَلْ مُنْیَتِی بِیَدِ رَجُلٍ یَدَّعِی الإِسْلاَمَ ، قَاتَلَہُ اللَّہُ ، لَقَدْ أَمَرْتُ بِہِ مَعْرُوفًا ، قَالَ : ثُمَّ قَالَ لابْنِ عَبَّاسٍ : لَقَدْ کُنْتَ أَنْتَ وَأَبُوک تُحِبَّانِ أَنْ تَکْثُرَ الْعُلُوج بِالْمَدِینَۃِ ، قَالَ : فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : إِنْ شِئْتَ فَعَلْنَا ، فَقَالَ : بَعْدَ مَا تَکَلَّمُوا بِکَلاَمِکُمْ وَصَلَّوْا صَلاَتَکُمْ وَنَسَکُوا نُسُکَکُمْ ؟۔ قَالَ: فَقَالَ لَہُ النَّاسُ: لَیْسَ عَلَیْک بَأْسٌ ، قَالَ: فَدَعَا بِنَبِیذٍ فَشَرِبَ ، فَخَرَجَ مِنْ جُرْحِہِ ، ثُمَّ دَعَا بِلَبَنٍ فَشَرِبَہُ، فَخَرَجَ مِنْ جُرْحِہِ ، فَظَنَّ أَنَّہُ الْمَوْتُ ، فَقَالَ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ : اُنْظُرْ مَا عَلَیَّ مِنَ الدَّیْنِ فَاحْسِبْہُ ، فَقَالَ : سِتَّۃً وَثَمَانِینَ أَلْفًا ، فَقَالَ : إِنْ وَفَی بِہَا مَالُ آلِ عُمَرَ فَأَدِّہَا عَنِّی مِنْ أَمْوَالِہِمْ ، وَإِلاَّ فَسَلْ بَنِی عَدِیِّ بْنِ کَعْبٍ، فَإِنْ تَفِی مِنْ أَمْوَالِہِمْ وَإِلاَّ فَسَلْ قُرَیْشًا ، وَلاَ تَعْدُہُمْ إِلَی غَیْرِہِمْ ، فَأَدِّہَا عَنِّی۔ اذْہَبْ إِلَی عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ ، فَسَلِّمْ وَقُلْ : یَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، وَلاَ تَقُلْ : أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ ، فَإِنِّی لَسْتُ لَہُمُ الْیَوْمَ بِأَمِیرٍ ، أَنْ یُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَیْہِ ، قَالَ : فَأَتَاہَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ فَوَجَدَہَا قَاعِدَۃً تَبْکِی ، فَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ : یَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنْ یُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَیْہِ ، قَالَتْ : قَدْ وَاللہِ کُنْتُ أُرِیدُہُ لِنَفْسِی ، وَلأُوثِرَنَّہُ الْیَوْمَ عَلَی نَفْسِی ، فَلَمَّا جَائَ ، قِیلَ : ہَذَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : فَقَالَ : ارْفَعَانِی ، فَأَسْنَدَہُ رَجُلٌ إِلَیْہِ ، فَقَالَ: مَا لَدَیْک ؟ قَالَ : أَذِنَتْ لَک ، قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : مَا کَانَ شَیْئٌ أَہَمَّ عِنْدِی مِنْ ذَلِکَ ، ثُمَّ قَالَ : إِذَا أَنَا مِتُّ فَاحْمِلُونِی عَلَی سَرِیرِی ، ثُمَّ اسْتَأْذِنْ ، فَقُلْ : یَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، فَإِنْ أَذِنَتْ لَک ؛ فَأَدْخِلْنِی ، وَإِنْ لَمْ تَأْذَنْ فَرُدَّنِی إِلَی مَقَابِرِ الْمُسْلِمِینَ ، قَالَ : فَلَمَّا حُمِلَ کَأَنَّ النَّاسَ لَمْ تُصِبْہُمْ مُصِیبَۃٌ إِلاَّ یَوْمَئِذٍ ، قَالَ : فَسَلَّمَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، وَقَالَ : یَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، فَأَذِنَتْ لَہُ ، حَیْثُ أَکْرَمَہُ اللَّہُ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَ أَبِی بَکْرٍ۔ فَقَالُوا لَہُ حِینَ حَضَرَہُ الْمَوْتُ : اسْتَخْلِفْ ، فَقَالَ : لاَ أَجِدُ أَحَدًا أَحَقُّ بِہَذَا الأَمْرِ مِنْ ہَؤُلاَئِ النَّفَرِ ، الَّذِینَ تُوُفِّیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ عَنْہُمْ رَاضٍ ، فَأَیَّہُمُ اسْتَخْلَفُوا فَہُوَ الْخَلِیفَۃُ بَعْدِی ، فَسَمَّی عَلِیًّا ، وَعُثْمَانَ ، وَطَلْحَۃَ ، وَالزُّبَیْرَ ، وَعَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ عَوْفٍ ، وَسَعْدًا ، فَإِنْ أَصَابَتْ سَعْدًا فَذَلِکَ ، وَإِلاَّ فَأَیُّہُمُ اسْتُخْلِفَ فَلْیَسْتَعِنْ بِہِ ، فَإِنِّی لَمْ أَنْزَعْہُ عَنْ عَجْزٍ ، وَلاَ خِیَانَۃٍ ، قَالَ : وَجَعَلَ عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ یُشَاوِرُ مَعَہُمْ ، وَلَیْسَ لَہُ مِنَ الأَمْرِ شَیْئٌ۔ قَالَ : فَلَمَّا اجْتَمَعُوا ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ : اجْعَلُوا أَمْرَکُمْ إِلَی ثَلاَثَۃِ نَفَرٍ ، قَالَ : فَجَعَلَ الزُّبَیْرُ أَمْرَہُ إِلَی عَلِیٍّ، وَجَعَلَ طَلْحَۃُ أَمْرَہُ إِلَی عُثْمَانَ، وَجَعَلَ سَعْدٌ أَمْرَہُ إِلَی عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: فَأَتْمِرُوا أُولَئِکَ الثَّلاَثَۃَ حِینَ جُعِلَ الأَمْرُ إِلَیْہِمْ ، قَالَ : فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ : أَیُّکُمْ یَتَبَرَّأُ مِنَ الأَمْرِ وَیَجْعَلُ الأَمْرَ إِلَیَّ ، وَلَکُمُ اللَّہُ عَلَیَّ أَنْ لاَ آلُو عَنْ أَفْضَلِکُمْ وَخَیْرِکُمْ لِلْمُسْلِمِینَ؟ فَأُسْکِتَ الشَّیْخَانِ عَلِیٌّ وَعُثْمَان، فَقَالَ عَبْدُالرَّحْمَنِ: تَجْعَلاَنِہِ إِلَیَّ وَأَنَا أَخْرُجُ مِنْہَا ، فَوَاللہِ لاَ آلُوکُمْ عَنْ أَفْضَلِکُمْ وَخَیْرِکُمْ لِلْمُسْلِمِینَ؟ قَالَوا: نَعَمْ، فَخَلاَ بِعَلِیٍّ، فَقَالَ: إِنَّ لَک مِنَ الْقَرَابَۃِ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالْقَدَمِ ، وَلِی اللَّہُ عَلَیْک لَئِنِ اسْتُخْلِفْتَ لَتَعْدِلَنَّ ، وَلَئِنِ اسْتُخْلِفَ عُثْمَان لَتَسْمَعَن وَلَتُطِیعُنَّ ؟ قَالَ : فَقَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : وَخَلاَ بِعُثْمَانَ ، فَقَالَ : مِثْلَ ذَلِکَ ، فَقَالَ لَہُ عُثْمَان : نَعَمْ ، ثُمَّ قَالَ : یَا عُثْمَان ، أَبْسِطْ یَدَک ، فَبَسَطَ یَدَہُ فَبَایَعَہُ ، وَبَایَعَہُ عَلِیٌّ وَالنَّاسُ۔ ثُمَّ قَالَ عُمَرُ : أُوصِی الْخَلِیفَۃَ مِنْ بَعْدِی بِتَقْوَی اللہِ ، وَالْمُہَاجِرِینَ الأَوَّلِینَ أَنْ یَعْرِفَ لَہُمْ حَقَّہُمْ ، وَیَعْرِفَ لَہُمْ حُرْمَتَہُمْ ، وَأُوصِیہِ بِأَہْلِ الأَمْصَارِ خَیْرًا ، فَإِنَّہُمْ رِدْئُ الإِسْلاَمِ ، وَغَیْظُ الْعَدُوِّ ، وَجُبَاۃِ الأَمْوَالِ ، أَنْ لاَ یُؤْخَذَ مِنْہُمْ فَیْؤُہُمْ إِلاَّعَنْ رِضًا مِنْہُمْ ، وَأُوصِیہِ بِالأَنْصَارِ خَیْرًا ؛ الَّذِینَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالإِیمَانَ ، أَنْ یَقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِہِمْ وَیَتَجَاوَزَ عَنْ مُسِیئِہِمْ ، وَأُوصِیہِ بِالأَعْرَابِ خَیْرًا ، فَإِنَّہُمْ أَصْلُ الْعَرَبِ وَمَادَّۃُ الإِسْلاَمِ ، أَنْ یُؤْخَذَ مِنْ حَوَاشِی أَمْوَالِہِمْ فَتُرَدُّ عَلَی فُقَرَائِہِمْ ، وَأُوصِیہِ بِذِمَّۃِ اللہِ وَذِمَّۃِ رَسُولِہِ ، أَنْ یُوفِیَ لَہُمْ بِعَہْدِہِمْ ، وَأَنْ لاَ یُکَلَّفُوا إِلاَّ طَاقَتَہُمْ ، وَأَنْ یُقَاتِلَ مَنْ وَرَائَہُمْ۔ (بخاری ۱۳۹۲)
(٣٨٢١٤) حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ میں آیا تو میں نے دیکھا کہ حضرت عمر ، حضرت حذیفہ اور عثمان بن حنیف کے پاس کھڑے ہوئے ہیں اور فرما رہے ہیں۔ تم خوف کرو کہ تم نے زمین کو اس قدر عوض پر دیا ہے جو وسعت سے زیادہ ہے۔ حضرت حذیفہ نے کہا۔ اگر میں چاہوں تو اپنی زمین کو دو چند (عوض پر) کر دوں اور حضرت عثمان نے کہا۔ میں نے اپنی زمین کو ایسے معاملہ کے عوض میں رکھا جو اس کے مطابق ہے اور اس میں بہت زیادہ اضافہ نہیں ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے سلامت رکھا تو میں اہل عراق کے محتاجوں کو ایسی حالت میں چھوڑوں گا کہ میرے بعد وہ کسی اور کے محتاج نہیں ہوں گے۔ راوی کہتے ہیں : پھر حضرت عمر چار دن ہی گزرے تھے کہ انھیں شہید کردیا گیا۔
٢۔ راوی کہتے ہیں : حضرت عمر جب مسجد میں داخل ہوتے تو آپ صفوں کے درمیان کھڑے ہوجاتے اور فرماتے۔ (صفوں میں) سیدھے ہو جاؤ۔ پس جب لوگ سیدھے ہوجاتے تو آپ تکبیر کہتے ۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر (جب ایک صبح) آپ نے نماز شروع کی تو آپ کی جگہ وار کیا گیا۔ راوی کہتے ہیں : پس میں نے آپ کو کہتے سُنا۔ مجھے کتے نے قتل کر ڈالا۔۔۔ یا ۔۔۔مجھے کُتّے نے کھالیا۔ راوی عمروکہتے ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ کیا کہا ؟ میرے اور ان کے درمیان حضرت ابن عباس کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ پھر حضرت عمر نے عبد الرحمن بن عوف کو ہاتھ سے پکڑا اور آگے کر دیا۔۔۔وہ قاتل دوڑنے لگا جبکہ اس کے ہاتھ میں دو دھاری چھری تھی وہ دائیں بائیں جس آدمی کے پاس سے گزرتا اس کو مارتا جاتا یہاں تک کہ اس نے تیرہ لوگوں کو زخمی کردیا۔ پھر ان زخمیوں میں سے نو افراد وفات بھی پا گئے۔ راوی کہتے ہیں۔ پس جب یہ منظر ایک مسلمان نے دیکھا تو اس نے اس کو پکڑنے کے لیے اس پر ایک بڑی چادر ڈال دی۔ پھر جب اس قاتل کو یہ یقین ہوگیا کہ وہ پکڑا جائے گا تو اس نے خود کو ذبح کرلیا۔
٣۔ راوی کہتے ہیں : پس ہم نے فجر کی ہلکی سی نماز ادا کی۔ راوی کہتے ہیں : مسجد کے کناروں والے لوگوں کو پتہ ہی نہیں لگا کہ کیا معاملہ ہوا ہے۔ ہاں جب انھوں نے حضرت عمر (کی آواز) کو نہ پایا تو یہ کہنا شروع کیا۔ سبحان اللہ ! سبحان اللہ ! پھر جب لوگ چلے گئے تو پہلا شخص جو حضرت عمر کے پاس آیا وہ حضرت ابن عباس تھے۔ حضرت عمر نے (ان سے) کہا۔ دیکھو (معلوم کرو) مجھے کس نے قتل کیا ہے ؟ راوی کہتے ہیں : حضرت ابن عباس تھوڑا سا گھوم کر واپس آئے اور بتایا۔ حضرت مغیرۃ کے کاریگر غلام نے ۔ اور یہ غلام بڑھئی تھا۔ راوی کہتے ہیں۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا : تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے میری موت کسی ایسے آدمی کے ہاتھ سے واقع نہیں کی جو اسلام کا دعویدار ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کو ہلاک کرے۔ یقیناً میں نے اس کو بھلائی کا حکم دیا تھا۔ راوی کہتے ہیں : پھر حضرت عمر نے ابن عباس سے کہا۔ تحقیق تم اور تمہارے والد اس بات کو پسند کرتے تھے کہ مدینہ منورہ میں علوج زیادہ ہوں۔ راوی کہتے ہیں۔ ابن عباس نے کہا۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو ہم یہ کرتے۔” انھوں نے کہا کہ بعد اس کے کہ تم اپنی بات کرچکے، اپنی نماز پڑھ چکے اور اپنے نسک ادا کرچکے۔ “
٤۔ راوی کہتے ہیں : لوگوں نے حضرت عمر سے کہا۔ آپ کو کوئی (بڑا) مسئلہ نہیں ہے۔ راوی کہتے ہیں : پھر حضرت عمر نے نبیذ منگوائی اور اس کو پیا لیکن وہ آپ کے زخموں سے باہر نکل گئی۔ پھر حضرت عمر نے دودھ منگوایا اور اس کو پیا لیکن وہ بھی آپ کے زخموں سے باہر نکل گیا۔ چنانچہ آپ کو موت کا یقین ہوگیا ۔ تو آپ نے عبداللہ بن عمر سے کہا۔ مجھ پر جو قرض ہے اس کو دیکھو اور اس کا حساب کرو۔ ابن عمر نے کہا۔ چھیاسی ہزار ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا۔ اگر یہ قرض آلِ عمر کے مال سے پورا ہوجائے تو میری طرف سے ان کے اموال میں سے اس قرض کو ادا کردو۔ وگرنہ بنو عدی بن کعب سے مانگ لینا۔ پھر اگر یہ قرض ان کے اموال سے پورا ہوجائے تو ٹھیک وگرنہ قریش سے مانگ لینا اور ان کے سوا اور کسی سے نہ مانگنا۔ اور یہ میری طرف سے قرضہ ادا کردینا۔
٥۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ کی طرف جاؤ اور (انہیں) سلام کرو اور کہو۔ عمر بن خطاب ۔۔۔ امیر المؤمنین کا لفظ نہ کہنا کیونکہ میں اس وقت لوگوں کا امیر نہیں ہوں ۔۔۔اپنے دونوں ساتھیوں (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر ) کے ساتھ دفن کئے جانے کی اجازت مانگتا ہے۔ راوی کہتے ہیں : پس حضرت عائشہ کے پاس عبداللہ بن عمر آئے تو انھوں نے حضرت عائشہ کو بیٹھے روتے پایا۔ ابن عمر نے سلام کیا پھر کہا۔ عمر بن خطاب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ فن کئے جانے کی اجازت مانگتے ہیں۔ حضرت عائشہ نے کہا۔ خدا کی قسم ! میں تو اس بات کو اپنے لیے چاہتی تھی (یعنی حجرہ میں دفن ہونا) لیکن میں آج اس رات (حجر ہ میں دفن ہونا) میں عمر فاروق کو اپنے اوپر ترجحب دیتی ہوں۔ پھر جب حضرت عبداللہ بن عمر واپس آئے تو کہا گیا۔ یہ عبداللہ بن عمر (واپس آگئے) ہیں۔ راوی کہتے ہیں : حضرت عمر نے فرمایا : مجھے اٹھا دو پس ایک آدمی نے انھیں اپنی جانب ٹیک لگا کر اٹھایا تو انھوں نے پوچھا۔ تمہارے پاس کیا (خبر) ہے ؟ حضرت عبداللہ بن عمر نے جواب دیا۔ انھوں نے آپ کے لیے اجازت دے دی ہے۔ راوی کہتے ہیں : حضرت عمر نے کہا۔ میرے نزدیک اس سے زیادہ اہم چیز کوئی نہیں تھی۔ پھر آپ نے فرمایا : جب مں گ مر جاؤں تو تم مجھے میری چارپائی پر سوار کر کے پھر اجازت طلب کرنا اور کہنا۔ عمر بن خطاب اجازت مانگ رہا ہے۔ پس اگر وہ مجھے اجازت دے دیں تو تم مجھے اندر داخل کرنا اور اگر وہ مجھے اجازت نہ دیں تو تم مجھے مسلمانوں کے قبرستان کی طرف لوٹا دینا۔ راوی کہتے ہیں : پس جب آپ (کی میت کو) اٹھایا گیا تو (حالت یہ تھی) گویا مسلمانوں اس دن کے سوا کبھی کوئی مصیبت پہنچی ہی نہیں ہے۔ راوی کہتے ہیں : چنانچہ (میت لے جا کر) حضرت عبداللہ بن عمر نے سلام کیا اور پوچھا۔ عمر بن خطاب اجازت طلب کر رہے ہیں۔ حضرت عائشہ نے آپ کے لیے اجازت دے دی اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر کی معیت کا اعزاز بخشا تھا۔
٦۔ جب حضرت عمر کی موت کا وقت قریب آیا تو لوگوں نے آپ سے کہا۔ آپ کسی کو خلیفہ مقرر کردیں۔ حضرت عمر نے جواب دیا، میں اس منصب کا حق دار ان لوگوں سے زیادہ کسی کو نہیں پاتا کہ جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات کے وقت راضی تھے۔ پس ان میں سے جو بھی خلیفہ بن جائے تو وہی میرے بعد خلیفہ ہوگا۔ پھر حضرت عمر نے حضرت علی ، حضرت عثمان ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر ، حضرت عبد الرحمن بن عوف اور حضرت سعد کا نام لیا۔ پس اگر یہ منصب حضرت سعد کو مل جائے تو ٹھیک ہے وگرنہ ان تمام میں سے جو بھی خلیفہ بنے وہ حضرت سعد سے معاونت حاصل کرے ۔ کیونکہ میں نے ان سے یہ چیز کسی عجز یا خیانت کی وجہ سے نہیں چھینی تھی اور مزید فرمایا۔ عبداللہ بن عمر کو ان سے مشاورت کرنے کا حق ہے لیکن ان کو امر خلافت میں کوئی اختیار نہیں ہوگا۔
٧۔ راوی کہتے ہیں : پھر جب یہ حضرات باہم اکٹھے ہوئے تو حضرت عبد الرحمن بن عوف نے فرمایا۔ تم لوگ اپنا اختیار تین افراد کو دے دو ۔ چنانچہ ۔۔۔راوی کہتے ہیں ۔۔۔حضرت زبیر نے اپنا اختیار حضرت علی کے سپرد کردیا اور حضرت طلحہ نے اپنا اختیار حضرت عثمان کے سپرد کردیا اور حضرت سعد نے اپنا اختیار حضرت عبد الرحمن ابن عوف کے حوالہ کردیا۔ راوی کہتے ہیں : پس یہ تین لوگ ۔۔۔ جب اختیار ان کے حوالہ ہوگیا تو ۔۔۔ بااختیار ہوگئے۔ راوی کہتے ہیں : پھر حضرت عبد الرحمن نے فرمایا۔ تم میں سے کون (اپنے) اختیار سے دست بردار ہوتا ہے اور اختیار میرے سپرد کرتا ہے۔ اور میں تمہیں خدا کو گواہ بنا کر یقین دلاتا ہوں کہ میں مسلمانوں کے لیے تم میں بہتر اور افضل کو نظر انداز کر کے یہ (خلافت) نہیں دوں گا ؟ اس پر شیخین ۔۔۔ علی ، عثمان ۔۔۔ خاموش کردیئے گئے تو حضرت عبد الرحمن نے پوچھا۔ تم دونوں اس (امر) کو میرے حوالہ کرتے ہو تاکہ میں اس سے نکلنے کی راہ پیدا کروں۔ خدا کی قسم ! میں مسلمانوں کے لیے تم میں سے بہتر اور افضل شخص کو نظر انداز کر کے یہ (خلافت) حوالہ نہیں کروں گا ؟ ان دونوں نے کہا۔ ٹھیک ہے پھر حضرت عبد الرحمن بن عوف نے حضرت علی کو خلوت میں لے کر کہا۔ یقیناً تمہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بنائے قرابت اور فضیلت حاصل ہے تم مجھ سے خدا کو گواہ بنا کر کہو کہ اگر تمہیں خلیفہ بنایا جائے تو تم ضرور بالضرور انصاف کرو گے۔ اور اگر حضرت عثمان کو خلیفہ بنایا جائے تو تم ضرور بالضرور سمع وطاعت کرو گے ؟ راوی کہتے ہیں : حضرت علی نے جواب دیا۔ ہاں ! راوی کہتے ہیں : حضرت عبد الرحمن نے حضرت عثمان کے ساتھ تنہائی میں ایسی بات کہی ۔ تو حضرت عثمان نے بھی عبد الرحمن کو جواب دیا۔ ہاں ! پھر حضرت عبد الرحمن نے کہا۔ اے عثمان ! ہاتھ پھیلاؤ۔ چنانچہ حضرت عثمان نے ہاتھ پھیلایا اور حضرت عبد الرحمن نے ان کی بیعت کرلی پھر حضرت علی اور دیگر لوگوں نے بھی حضرت عثمان کی بیعت کی۔
٨۔ پھر حضرت عمر نے فرمایا۔ میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں اور مہاجرین اولین کے بارے میں یہ وصیت کرتا ہوں کہ خلیفہ ان کے حق کو پہچانے اور ان کے احترام کو جانے اور میں خلیفہ کو شہروں والوں کے بارے میں بہتر رویہ کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ لوگ اسلام کے پشت پناہ ہوتے ہیں اور دشمن کا غصہ ہوتے ہیں۔ اور اموال کے وصول کنندہ ہوتے ہیں اور یہ کہ ان کے رضا مندی کے بغیر ان سے ان کے فئی نہ لی جائے۔ اور میں خلیفہ کو انصار کے ساتھ اچھائی کی وصیت کرتا ہوں۔ وہ انصار جنہوں نے کہ ان کی اچھائیوں کو قبول کرلے اور ان کی غلطیوں سے درگزر کرے اور میں اس خلیفہ کو دیہاتوں کے ساتھ بہتری کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ عرب کی اصل اور اسلام کا مادہ ہیں۔ (اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ) ان کے اموال سے لے کر ان کے فقراء کی طرف رد کیا جائے۔ اور میں اس خلیفہ کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ ذمیوں کے ساتھ ان کے عہد کو نبھایا جائے اور انھیں ان کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہ بنایا جائے اور خلیفہ ان کے اہل خانہ کے (دفاع میں) لڑے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔