HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

.

ابن أبي شيبة

38228

(۳۸۲۲۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَۃَ ، وَیَحْیَی بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ ، وَأَشْیَاخٌ ، قَالَوا: رَأَی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِی الْمَنَامِ ، فَقَالَ: رَأَیْتُ دِیکًا أَحْمَرَ نَقَرَنِی ثَلاَثَ نَقَرَاتٍ، بَیْنَ الثَّنِیَّۃِ وَالسُّرَّۃِ ، قَالَتْ أَسْمَائُ بِنْتُ عُمَیْسٍ ، أُمُّ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ : قُولُوا لَہُ فَلِیُوصِ ، وَکَانَتْ تَعْبُرُ الرُّؤْیَا ، فَلاَ أَدْرِی أَبَلَغَہُ ذَلِکَ ، أَمْ لاَ ، فَجَائَہُ أَبُو لُؤْلُؤَۃَ الْکَافِرُ الْمَجُوسِیُّ ، عَبْدُ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ ، فَقَالَ : إِنَّ الْمُغِیرَۃَ قَدْ جَعَلَ عَلَیَّ مِنَ الْخَرَاجِ مَا لاَ أُطِیقُ ، قَالَ : کَمْ جَعَلَ عَلَیْک ؟ قَالَ ، کَذَا وَکَذَا ، قَالَ : وَمَا عَمَلُک ؟ قَالَ : أَجُوبُ الأَرْحَائَ ، قَالَ : وَمَا ذَاکَ عَلَیْک بِکَثِیرٍ ، لَیْسَ بِأَرْضِنَا أَحَدٌ یَعْمَلُہَا غَیْرُک ، أَلاَ تَصْنَعُ لِی رَحًی ؟ قَالَ : بَلَی ، وَاللہِ لأَجْعَلَنَّ لَک رَحًی یَسْمَعُ بِہَا أَہْلُ الآفَاقِ۔ فَخَرَجَ عُمَرُ إِلَی الْحَجِّ ، فَلَمَّا صَدَرَ اضْطَجَعَ بِالْمُحَصَّبِ ، وَجَعَلَ رِدَائَہُ تَحْتَ رَأْسِہِ ، فَنَظَرَ إِلَی الْقَمَرِ فَأَعْجَبَہُ اسْتِوَاؤُہُ وَحُسْنُہُ ، فَقَالَ : بَدَأَ ضَعِیفًا ، ثُمَّ لَمْ یَزَلِ اللَّہُ یَزِیدُہُ وَیُنْمِیہِ حَتَّی اسْتَوَی ، فَکَانَ أَحْسَنَ مَا کَانَ ، ثُمَّ ہُوَ یَنْقُصُ حَتَّی یَرْجِعَ کَمَا کَانَ ، وَکَذَلِکَ الْخَلْقُ کُلُّہُ ، ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ إِنَّ رَعِیَّتِی قَدْ کَثُرَتْ وَانْتَشَرَتْ ، فَاقْبِضْنِی إِلَیْک غَیْرَ عَاجِزٍ ، وَلاَ مُضَیِّعٍ۔ فَصَدَرَ إِلَی الْمَدِینَۃِ ، فَذُکِرَ لَہُ أَنَّ امْرَأَۃً مِنَ الْمُسْلِمِینَ مَاتَتْ بِالْبَیْدَائِ ، مَطْرُوحَۃً عَلَی الأَرْضِ ، یَمُرُّ بِہَا النَّاسُ لاَ یُکَفِّنُہَا أَحَد ، وَلاَ یُوَارِیہَا أَحَدٌ ، حَتَّی مَرَّ بِہَا کُلَیْبُ بْنُ الْبُکَیْرِ اللَّیْثِی ، فَأَقَامَ عَلَیْہَا ، حَتَّی کَفَّنَہَا وَوَارَاہَا ، فَذُکِرَ ذَلِکَ لِعُمَرَ ، فَقَالَ : مَنْ مَرَّ عَلَیْہَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ ؟ فَقَالُوا : لَقَدْ مَرَّ عَلَیْہَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، فِیمَنْ مَرَّ عَلَیْہَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، فَدَعَاہُ ، وَقَالَ : وَیْحَکَ ، مَرَرْتَ عَلَی امْرَأَۃٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ مَطْرُوحَۃً عَلَی ظَہْرِ الطَّرِیقِ ، فَلَمْ تُوَارِہَا وَلَمْ تُکَفِّنْہَا ؟ قَالَ : مَا شَعَرْتُ بِہَا ، وَلاَ ذَکَرَہَا لِی أَحَدٌ ، فَقَالَ : لَقَدْ خَشِیتُ أَنْ لاَ یَکُونَ فِیک خَیْرٌ ، فَقَالَ : مَنْ وَارَاہَا وَمَنْ کَفَّنَہَا ؟ قَالَوا : کُلَیْبُ بْنُ بُکَیْر اللَّیْثِیُّ ، قَالَ : وَاللہِ لَحَرِیٌّ أَنْ یُصِیبَ کُلَیْبٌ خَیْرًا۔ فَخَرَجَ عُمَرُ یُوقِظُ النَّاسَ بِدِرَّتِہِ لِصَلاَۃِ الصُّبْحِ ، فَلَقِیَہُ الْکَافِرُ أَبُو لُؤْلُؤَۃَ ، فَطَعَنْہُ ثَلاَثَ طَعَنْاتٍ بَیْنَ الثَّنِیَّۃِ وَالسُّرَّۃِ ، وَطَعَنْ کُلَیْبَ بْنَ بُکَیْر فَأَجْہَزَ عَلَیْہِ ، وَتَصَایَحَ النَّاسُ ، فَرَمَی رَجُلٌ عَلَی رَأْسِہِ بِبُرْنُسٍ ، ثُمَّ اضْطَبَعَہُ إِلَیْہِ ، وَحُمِلَ عُمَرُ إِلَی الدَّارِ ، فَصَلَّی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ بِالنَّاسِ ، وَقِیلَ لِعُمَرَ : الصَّلاَۃُ ، فَصَلَّی وَجُرْحُہُ یَثْعَبُ ، وَقَالَ : لاَ حَظَّ فِی الإِسْلاَمِ لِمَنْ لاَ صَلاَۃَ لَہُ ، فَصَلَّی وَدَمُہُ یَثْعَبُ ، ثُمَّ انْصَرَفَ النَّاسُ عَلَیْہِ ، فَقَالُوا : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، إِنَّہُ لَیْسَ بِکَ بَأْسٌ ، وَإِنَّا لَنَرْجُو أَنْ یُنْسِئَ اللَّہُ فِی أَثَرِکَ ، وَیُؤَخِّرَک إِلَی حِینٍ ، أَوْ إِلَی خَیْرٍ۔ فَدَخَلَ عَلَیْہِ ابْنُ عَبَّاسٍ ، وَکَانَ یُعْجَبُ بِہِ ، فَقَالَ : اُخْرُجْ ، فَانْظُرْ مَنْ صَاحِبِی ؟ ثُمَّ خَرَجَ فَجَائَ ، فَقَالَ : أَبْشِرْ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، صَاحِبُک أَبُو لُؤْلُؤَۃَ الْمَجُوسِیُّ ، غُلاَمُ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ ، فَکَبَّرَ حَتَّی خَرَجَ صَوْتُہُ مِنَ الْبَابِ ، ثُمَّ قَالَ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی لَمْ یَجْعَلْہُ رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِینَ ، یُحَاجُّنِی بِسَجْدَۃٍ سَجَدَہَا لِلَّہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی الْقَوْمِ ، فَقَالَ : أَکَانَ ہَذَا عَنْ مَلأٍ مِنْکُمْ ؟ فَقَالُوا : مَعَاذَ اللہِ ، وَاللہِ لَوَدِدْنَا أَنَّا فَدَیْنَاک بِآبَائِنَا ، وَزِدْنَا فِی عُمْرِکَ مِنْ أَعْمَارِنَا ، إِنَّہُ لَیْسَ بِکَ بَأْسٌ۔ قَالَ : أَیْ یَرْفَأُ وَیْحَک ، اسْقِنِی ، فَجَائَہُ بِقَدَحٍ فِیہِ نَبِیذٌ حُلْوٌ فَشَرِبَہُ ، فَأَلْصَقَ رِدَائَہُ بِبَطْنِہِ ، قَالَ : فَلَمَّا وَقَعَ الشَّرَابُ فِی بَطْنِہِ خَرَجَ مِنَ الطَّعَنْاتِ ، قَالَوا : الْحَمْدُ لِلَّہِ ، ہَذَا دَمٌ اسْتَکَنَ فِی جَوْفِکَ ، فَأَخْرَجَہُ اللَّہُ مِنْ جَوْفِکَ ، قَالَ : أَیْ یَرْفَأُ ، وَیْحَک اسْقِنِی لَبَنًا ، فَجَائَ بِلَبَنٍ فَشَرِبَہُ ، فَلَمَّا وَقَعَ فِی جَوْفِہِ خَرَجَ مِنَ الطَّعَنَاتِ ، فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِکَ عَلِمُوا أَنَّہُ ہَالِکٌ۔ قَالَوا: جَزَاک اللَّہُ خَیْرًا ، قَدْ کُنْتَ تَعْمَلُ فِینَا بِکِتَابِ اللہِ ، وَتَتَّبِعُ سُنَّۃَ صَاحِبَیْک ، لاَ تَعْدِلُ عَنْہَا إِلَی غَیْرِہَا، جَزَاک اللَّہُ أَحْسَنَ الْجَزَائِ ، قَالَ : بِالإِمَارَۃِ تَغْبِطُونَنِی ، فَوَاللہِ لَوَدِدْتُ أَنِّی أَنْجُو مِنْہَا کَفَافًا لاَ عَلَیَّ ، وَلاَ لِی، قُومُوا فَتَشَاوَرُوا فِی أَمْرِکُمْ ، أَمِّرُوا عَلَیْکُمْ رَجُلاً مِنْکُمْ ، فَمَنْ خَالَفَہُ فَاضْرِبُوا رَأْسَہُ ، قَالَ : فَقَامُوا، وَعَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ مُسْنِدُہُ إِلَی صَدْرِہِ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : أَتُؤَمِّرُونَ وَأَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ حَیٌّ ؟ فَقَالَ عُمَرُ : لاَ ، وَلِیُصَلِّ صُہَیْبٌ ثَلاَثًا ، وَانْتَظِرُوا طَلْحَۃَ ، وَتَشَاوَرُوا فِی أَمْرِکُمْ ، فَأَمِّرُوا عَلَیْکُمْ رَجُلاً مِنْکُمْ ، فَإِنْ خَالَفَکُمْ فَاضْرِبُوا رَأْسَہُ ، قَالَ : اذْہَبْ إِلَی عَائِشَۃَ ، فَاقْرَأْ عَلَیْہَا مِنِّی السَّلاَمَ ، وَقُلْ : إِنَّ عُمَرَ یَقُولُ : إِنْ کَانَ ذَلِکَ لاَ یَضُرُّ بِکِ ، وَلاَ یَضِیقُ عَلَیْکِ ، فَإِنِّی أُحِبُّ أَنْ أُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَی ، وَإِنْ کَانَ یَضُرُّ بِکِ وَیَضِیقُ عَلَیْکِ ، فَلَعَمْرِی لَقَدْ دُفِنَ فِی ہَذَا الْبَقِیعِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِینَ مَنْ ہُوَ خَیْرٌ مِنْ عُمَرَ ، فَجَائَہَا الرَّسُولُ ، فَقَالَتْ : إِنَّ ذَلِکَ لاَ یَضُرُّ ، وَلاَ یَضِیقُ عَلَیَّ ، قَالَ : فَادْفِنُونِی مَعَہُمَا ، قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ : فَجَعَلَ الْمَوْتُ یَغْشَاہُ ، وَأَنَا أُمْسِکُہُ إِلَی صَدْرِی ، قَالَ : وَیْحَک ضَعْ رَأْسِی بِالأَرْضِ ، قَالَ : فَأَخَذَتْہُ غَشْیَۃٌ ، فَوَجَدْتُ مِنْ ذَلِکَ ، فَأَفَاقَ ، فَقَالَ : وَیْحَک ، ضَعْ رَأْسِی بِالأَرْضِ ، فَوَضَعْتُ رَأْسَہُ بِالأَرْضِ ، فَعَفَّرَہُ بِالتُّرَابِ ، فَقَالَ : وَیْلُ عُمَرَ ، وَوَیْلُ أُمِّہِ إِنْ لَمْ یَغْفِرَ اللَّہُ لَہُ۔ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو: وَأَہْلُ الشُّورَی: عَلِیٌّ، وَعُثْمَان، وَطَلْحَۃُ، وَالزُّبَیْرُ، وَسَعْدٌ، وَعَبْدُالرَّحْمَن بْنُ عَوْفٍ۔
(٣٨٢٢٩) حضرت یحییٰ بن عبدالرحمن بن حاطب اور دوسرے بزرگ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے شہادت سے پہلے خواب میں دیکھا کہ ایک مرغے نے ان کی ناف اور سینے کے درمیان چونچ ماری ہے۔ حضرت اسماء بنت عمیس تعبیر کی ماہر تھیں، انھوں نے یہ خواب سنا تو فرمایا کہ ان سے کہو کہ وصیت کردیں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ تعبیر ان تک پہنچی یا نہیں۔ کچھ دنوں بعد مغیرہ بن شعبہ کا غلام ابو لؤلؤ ، حضرت عمر کے پاس آیا اور حضرت عمر نے پوچھا کہ تم کیا کرتے ہو ؟ اس نے کہا میں چکیاں بناتا ہوں۔ حضرت عمر نے کہا کہ پھر تو بہت زیادہ نہیں کیونکہ یہاں تمہارے علاوہ کوئی یہ کام نہیں کرتا، کیا تم مجھے ایک چکی بنا کردو گے ؟ اس نے کہا میں آپ کو ایسی چکی بنا کر دوں گا کہ اس کی شہرت سارے عالم میں ہوگی۔
٢۔ پھر حضرت عمر حج کے لیے چل پڑے پس جب آپ پہنچے تو آپ رمی جمار کی جگہ لیٹ گئے اور اپنی چادر کو اپنے سر کے نیچے رکھ لیا۔ آپ نے چاند کی طرف دیکھا تو آپ کو اس کی خوبصورتی اور برابری بہت پیاری لگی اس پر آپ نے فرمایا۔ یہ ابتداء میں کمزور ساظاہر ہوتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اس میں اضافہ کرتے رہتے ہیں اور اس کو بڑھاتے رہتے ہیں یہاں تک کہ یہ برابر ہوجاتا ہے۔ اور پھر یہ کمال حسن تک پہنچ جاتا ہے۔ پھر یہ کم ہونا شروع ہوتا ہے یہاں تک دوبارہ ویسا ہی (پہلے جیسا) ہوجاتا ہے۔ ساری مخلوق کی حالت ایسی ہی ہے۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور عرض کیا۔ اے اللہ ! میری رعایا بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ اور بہت پھیل گئی ہے پس تو مجھے اپنی طرف واپس بلا لے عاجز اور ضائع کیے بغیر۔
٣۔ پھر حضرت عمر مدینہ واپس آئے تو ان کے سامنے ذکر کیا گیا کہ مسلمانوں کی ایک عورت مقام بیداء میں مرگئی تھی، وہ زمین پر پڑی ہوئی تھی اور لوگ اس کے پاس سے گزرتے جا رہے تھے۔ کسی نے بھی اس کو کفن نہ دیا اور نہ ہی اس کو دفنایا یہاں تک کہ حضرت کلیب بن بکیر لیثی اس عورت کے پاس سے گزرے تو وہ اس کے پاس ٹھہرے رہے یہاں تک کہ انھوں نے اس کو کفنایا اور دفنایا۔ یہ بات حضرت عمر کے سامنے ذکر کی گئی تو آپ نے پوچھا۔ مسلمانوں میں سے کون لوگ اس کے پاس سے گزرے تھے ؟ لوگوں نے جواب دیا۔ اس کے پاس سے گزرنے والے لوگوں میں حضرت عبداللہ بن عمر بھی تھے۔ چنانچہ آپ نے ابن عمر کو بلایا اور فرمایا۔ تو ہلاک ہوجائے۔ تو ایک مسلمان عورت پر سے جو راستہ میں زمین پر گری پڑی تھی گزرا اور تو نے اس کو کفنایا، دفنایا کیوں نہیں ؟ انھوں نے جواب دیا۔ مجھے تو اس کا پتہ ہی نہیں چلا اور نہ ہی مجھ سے کسی نے اس کے بارے میں ذکر کیا۔ حضرت عمر نے فرمایا۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں تو خیر سے خالی نہ ہو۔ پھر حضرت عمر نے پوچھا۔ اس عورت کو کس نے کفنایا اور دفنایا ؟ لوگوں نے جواب دیا کہ کلیب بن بکیر لیثی نے۔ آپ نے فرمایا : خدا کی قسم ! کلیب اس بات کا حق دار ہے کہ اس کو خیر پہنچے۔
٤۔ پھر حضرت عمر لوگوں کو صبح کی نماز کے لیے بیدار کرنے کے لیے نکلے تھے کہ آپ کو ابو لؤلؤ کافر ملا اور اس نے آپ کی ناف اور سینے کے درمیان تین وار کئے۔ اور حضرت کلیب بن بکیر کو مارا اور ان کا کام تمام کردیا۔ لوگوں نے آوازیں بلند کیں تو ایک آدمی نے اس پر بڑی چادر پھینک دی۔ اور حضرت عمر کو اٹھا کر گھر لے جایا گیا۔ اور حضرت عبد الرحمن بن عوف نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ اور حضرت عمر سے کہا گیا۔ نماز ! تو آپ نے اس حالت میں نماز پڑھی کہ آپ کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا ۔ اور آپ نے ارشاد فرمایا۔ جس آدمی کی نماز نہیں، اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں۔ پس آپ نے اس حالت میں نماز ادا فرمائی کہ آپ کا خون ٹپک رہا تھا۔ پھر لوگ حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے۔ اے امیر المؤمنین ! آپ کو کوئی زخم نہیں ہیں۔ اور یقیناً ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے فیض کو مزید باقی رکھے گا اور آپ کو مزید ایک وقت تک یا ایک خیر (کے کام) تک مہلت دے گا۔
٥۔ پھر حضرت عمر کی خدمت میں حضرت ابن عباس حاضر ہوئے ۔۔۔ حضرت عمر کو ابن عباس سے محبت تھی ۔۔۔ حضرت عمر نے فرمایا۔ تم دیکھو کہ مجھے قتل کرنے والا کون ہے ؟ چنانچہ ابن عباس باہر چلے گئے پھر واپس آئے تو فرمایا۔ اے امیر المؤمنین ! آپ کو خوشخبری ہو کہ آپ کا قاتل حضرت مغیرہ بن شعبہ کا غلام ابو لؤلؤ مجوسی ہے۔ اس پر حضرت عمر نے اللہ اکبر کہا۔ یہاں تک (بلند آواز میں کہا کہ) آپ کی آواز دروازے سے باہر نکل گئی پھر حضرت عمر نے فرمایا۔ تمام تعریفیں اس خدا کے لیے ہیں جس نے قاتل کو مسلمان آدمی نہیں بنایا کہ بروز قیامت وہ میرے ساتھ کسی ایسے سجدہ کی وجہ سے مخاصمت کرتا جو اس سے صرف خدا کے لیے کیا ہوتا۔ پھر حضرت عمر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا۔ کیا یہ آدمی تمہارے قوم میں سے ہے ؟ لوگوں نے کہا۔ اللہ کی پناہ ! ہم تو اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ ہم آپ پر اپنے آباء کو فداء کردیں اور آپ کی عمر میں اپنی عمروں سے اضافہ کردیں۔ آپ کو کوئی زیادہ زخم نہیں ہیں۔
٦۔ حضرت عمر نے کہا۔ اے یرفائ ! تو مرجائے ! مجھے کچھ پلاؤ۔ چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں ایک پیالہ لے کر حاضر ہوا جس میں بیٹھی نبیذ تھی پس آپ نے اس کو پیا۔ اور آپ نے اپنی چادر کو اپنے پیٹ کے ساتھ چمٹا لیا۔ راوی کہتے ہیں : پس جب یہ مشروب آپ پیٹ میں پہنچا تو یہ زخموں سے باہر نکل آیا۔ لوگوں نے کہا۔ الحمد للہ۔ یہ خون آپ کے پیٹ میں ٹھہرا ہوا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو آپ کے پیٹ سے باہر نکال دیا ہے۔ حضرت عمر نے کہا۔ اے یرفائ ! تو مرجائے۔ مجھے دودھ پلاؤ۔ چنانچہ وہ دودھ لے کر حاضر ہوا ۔ آپ نے اس کو نوش فرمایا۔ پس جب وہ بھی آپ کے پیٹ میں پہنچا تو زخموں سے باہر آگیا۔ چنانچہ لوگوں نے یہ منظر دیکھا تو انھیں معلوم ہوگیا کہ حضرت عمر (اب) فوت ہوجائیں گے۔
٧۔ لوگوں نے کہا : اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین بدلہ عطا کرے۔ یقیناً آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب پر عمل کرتے تھے اور اپنے دو پیشواؤں کی سُنَّت کی پیروی کرتے تھے۔ اس کے سوا آپ کسی چیز کی طرف نہیں جھکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین بدلہ عطا کرے۔ حضرت عمر نے پوچھا۔ کیا تم لوگ امارت کی وجہ سے مجھ پر رشک کر رہے ہو ؟ خدا کی قسم ! مجھے تو یہ بات محبوب ہے کہ میں امارت (کے حساب) سے برابر برابر نکل جاؤں۔ نہ مجھے کوئی نفع ہو نہ کوئی نقصان ہو۔ تم اٹھ جاؤ اور اپنے معاملہ میں مشاورت کرو۔ تم اپنے میں سے ایک آدمی کو خود پر امیر بنا لو۔ پھر جو کوئی اس کی مخالفت کرے تو تم اس کی گردن مار دو ۔ راوی کہتے ہیں : پس لوگ اٹھ گئے اور حضرت عبداللہ بن عمر کے سینہ کی طرف آپ نے تکیہ لگایا ہوا تھا۔ حضرت عبداللہ نے کہا۔ کیا تم امیر مقرر کر رہے ہو جبکہ امیر المؤمنین زندہ ہیں ؟ حضرت عمر نے کہا : نہیں ! اور صہیب کو چاہیے کہ تین دن لوگوں کو نماز پڑھائے۔ اور حضرت طلحہ کا انتظار کرو اور (پھر) تم اپنے معاملہ میں باہم مشاورت کرو۔ اور تم خود پر اپنے میں سے ایک آدمی کو امیر مقر کرلو پھر اگر (کوئی) تمہارے مخالفت کرے تو اس کے سر کو اڑا دو ۔
٨۔ حضرت عمر نے کہا۔ تم جاؤ امی عائشہ کی طرف اور انھیں میری طرف سے سلام کہو اور کہو کہ عمر کہہ رہا ہے اگر آپ کو تکلیف اور تنگی نہ ہو تو میں اس بات کو پسند کرتا ہوں۔ کہ میں اپنے دو ساتھیوں (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابو بکر ) کے ساتھ دفن کیا جاؤں ۔ اور اگر آپ کو تکلیف اور تنگی ہو تو میری عمر کی قسم ! بقیع میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ اور امہات المؤمنین میں سے ایسے لوگ دفن ہوئے ہیں جو عمر سے بہتر تھے۔ پس قاصد حضرت عائشہ کی خدمت میں پہنچاتو حضرت عائشہ نے کہا۔ مجھے اس بات میں قطعاً کوئی تکلیف اور تنگی نہیں ہے۔ پھر حضرت عمر نے فرمایا۔ تم لوگ مجھے ان دونوں کے ہمراہ دفن کردینا۔
٩۔ حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں۔ پھر موت نے ان کو آ ڈھانپا اور میں نے ان کو اپنے سینہ کی طرف اٹھایا ہوا تھا۔ حضرت عمر نے کہا۔ تو مرجائے۔ میرا سر زمین پر رکھ دے۔ ابن عمر کہتے ہیں۔ پھر حضرت عمر کو غشی طاری ہوگئی تو میں اسی طرح رہا۔ پھر آپ کو افاقہ ہوا ۔ تو آپ نے فرمایا۔ تو مرجائے۔ میرا سر زمین پر رکھ دے۔ پس میں نے آپ کا سر زمین پر رکھ دیا اور آپ نے سر کو خاک آلود کرلیا۔ اور فرمایا : اگر اللہ تعالیٰ نے عمر کو معاف نہ کیا تو عمر ہلاک ہوجائے گا اور اس کے ماں ہلاک ہوجائے گی۔
١٠۔ محمد بن عمرو کہتے ہیں : اہل شوریٰ یہ تھے۔ حضرت علی ، حضرت عثمان ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر ، حضرت سعد ، حضرت عبد الرحمن بن عوف ۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔