HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

.

ابن أبي شيبة

39068

(۳۹۰۶۹) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ سِیَاہٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَبِیبُ بْنُ أَبِی ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : أَتَیْتُہُ فَسَأَلْتُہُ عَنْ ہَؤُلاَئِ الْقَوْمِ الَّذِینَ قَتَلَہُمْ عَلِیٌّ ، قَالَ : قُلْتُ : فِیمَ فَارَقُوہُ ، وَفِیمَ اسْتَحَلُّوہُ ، وَفِیمَ دَعَاہُمْ ، وَفِیمَ فَارَقُوہُ ، ثُمَّ اسْتَحَلَّ دِمَائَہُمْ ؟ قَالَ : إِنَّہُ لَمَّا اسْتَحَرَّ الْقَتْلُ فِی أَہْلِ الشَّامِ بِصِفِّینَ ، اعْتَصَمَ مُعَاوِیَۃُ وَأَصْحَابُہُ بِجَبَلٍ ، فَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ : أَرْسِلْ إِلَی عَلِیٍّ بِالْمُصْحَفِ ، فَلاَ وَاللہِ لاَ یَرُدُّہُ عَلَیْکَ ، قَالَ : فَجَائَ بِہِ رَجُلٌ یَحْمِلُہُ یُنَادِی : بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ کِتَابُ اللہِ {أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ أُوتُوا نَصِیبًا مِنَ الْکِتَابِ یُدْعَوْنَ إِلَی کِتَابِ اللہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ یَتَوَلَّی فَرِیقٌ مِنْہُمْ وَہُمْ مُعْرِضُونَ} ، قَالَ : فَقَالَ عَلِیٌّ : نَعَمْ ، بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ کِتَابُ اللہِ ، أَنَا أَوْلَی بِہِ مِنْکُمْ ۔ ۲۔ قَالَ : فَجَائَتِ الْخَوَارِجُ ، وَکُنَّا نُسَمِّیہِمْ یَوْمَئِذٍ الْقُرَّائَ ، قَالَ : فَجَاؤُوا بِأَسْیَافِہِمْ عَلَی عَوَاتِقِہِمْ ، فَقَالُوا : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، أَلاَ نَمْشِی إِلَی ہَؤُلاَئِ الْقَوْمِ حَتَّی یَحْکُمَ اللَّہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ ، فَقَامَ سَہْلُ بْنُ حُنَیْفٍ ، فَقَالَ :اَیُّہَا النَّاسُ ، اتَّہِمُوا أَنْفُسَکُمْ ، لَقَدْ کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ ، وَلَوْ نَرَی قِتَالاً لَقَاتَلْنَا ، وَذَلِکَ فِی الصُّلْحِ الَّذِی کَانَ بَیْنَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَیْنَ الْمُشْرِکِینَ ، فَجَائَ عُمَرُ فَأَتَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللہِ، أَلَسْنَا عَلَی حَقٍّ، وَہُمْ عَلَی بَاطِلٍ؟ قَالَ : بَلَی ، قَالَ : أَلَیْسَ قَتْلاَنَا فِی الْجَنَّۃِ ، وَقَتْلاَہُمْ فِی النَّارِ ؟ قَالَ : بَلَی ، قَالَ : فَفِیمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا ، وَنَرْجِعُ ، وَلَمَّا یَحْکُمِ اللَّہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ ؟ فَقَالَ : یَا ابْنَ الْخَطَّابِ ، إِنِّی رَسُولُ اللہِ ، وَلَنْ یُضَیِّعَنِی اللَّہُ أَبَدًا ۔ ۳۔ قَالَ: فَانْطَلَقَ عُمَرُ، وَلَمْ یَصْبِرْ مُتَغَیِّظًا، حَتَّی أَتَی أَبَا بَکْرٍ، فَقَالَ: یَا أَبَا بَکْرٍ، أَلَسْنَا عَلَی حَقٍّ، وَہُمْ عَلَی بَاطِلٍ؟ فَقَالَ: بَلَی، قَالَ: أَلَیْسَ قَتْلاَنَا فِی الْجَنَّۃِ، وَقَتْلاَہُمْ فِی النَّارِ؟ قَالَ: بَلَی، قَالَ: فَعَلاَمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا وَنَرْجِعُ، وَلَمَّا یَحْکُمِ اللَّہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ؟ فَقَالَ: یَا ابْنَ الْخَطَّابِ، إِنَّہُ رَسُولُ اللہِ، وَلَنْ یُضَیِّعَہُ اللَّہُ أَبَدًا۔ ۴۔ قَالَ : فَنَزَلَ الْقُرْآنُ عَلَی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْفَتْحِ ، فَأَرْسَلَ إِلَی عُمَرَ ، فَأَقْرَأَہُ إِیَّاہُ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَوَ فَتْحٌ ہُوَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، فَطَابَتْ نَفْسُہُ وَرَجَعَ۔ ۵۔ فَقَالَ عَلِیٌّ : أَیُّہَا النَّاسُ ، إِنَّ ہَذَا فَتْحٌ ، فَقَبِلَ عَلِیٌّ الْقَضِیَّۃَ وَرَجَعَ ، وَرَجَعَ النَّاسُ ۔ ۶۔ ثُمَّ إِنَّہُمْ خَرَجُوا بِحَرُورَائَ ، أُولَئِکَ الْعِصَابَۃُ مِنَ الْخَوَارِجِ ، بِضْعَۃَ عَشَرَ أَلْفًا ، فَأَرْسَلَ إِلَیْہِمْ یُنَاشِدُہُمُ اللَّہَ ، فَأَبَوْا عَلَیْہِ ، فَأَتَاہُمْ صَعْصَعَۃُ بْنُ صُوحَانَ ، فَنَاشَدَہُمُ اللَّہَ ، وَقَالَ : عَلاَمَ تُقَاتِلُونَ خَلِیفَتَکُمْ ؟ قَالُوا : نَخَافُ الْفِتْنَۃَ ، قَالَ : فَلاَ تُعَجِّلُوا ضَلاَلَۃَ الْعَامِ ، مَخَافَۃَ فِتْنَۃِ عَامٍ قَابِلٍ ، فَرَجَعُوا ، فَقَالُوا : نَسِیرُ عَلَی نَاحِیَتِنَا ، فَإِنْ عَلِیًّا قَبِلَ الْقَضِیَّۃَ ، قَاتَلْنَا عَلَی مَا قَاتَلْنَاہُمْ یَوْمَ صِفِّینَ ، وَإِنْ نَقَضَہَا قَاتَلْنَا مَعَہُ ۔ ۷۔ فَسَارُوا حَتَّی بَلَغُوا النَّہْرَوَانَ ، فَافْتَرَقَتْ مِنْہُمْ فِرْقَۃٌ ، فَجَعَلُوا یَہُدُّونَ النَّاسَ قَتْلاً، فَقَالَ أَصْحَابُہُمْ: وَیْلَکُمْ، مَا عَلَی ہَذَا فَارَقْنَا عَلِیًّا ، فَبَلَغَ عَلِیًّا أَمْرُہُمْ ، فَقَامَ فَخَطَبَ النَّاسَ ، فَقَالَ : مَا تَرَوْنَ ، أَتَسِیرُونَ إِلَی أَہْلِ الشَّامِ ، أَمْ تَرْجِعُونَ إِلَی ہَؤُلاَئِ الَّذِینَ خَلَّفُوا إِلَی ذَرَارِیکُمْ ؟ فَقَالُوا : لاَ ، بَلْ نَرْجِعُ إِلَیْہِمْ ، فَذَکَرَ أَمْرَہُمْ ، فَحَدَّثَ عَنْہُمْ مَا قَالَ فِیہِمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّ فِرْقَۃً تَخْرُجُ عِنْدَ اخْتِلاَفٍ مِنَ النَّاسِ ، تَقْتُلُہُمْ أَقْرَبُ الطَّائِفَتَیْنِ بِالْحَقِّ ، عَلاَمَتُہُمْ رَجُلٌ فِیہِمْ ، یَدُہُ کَثَدْیِ الْمَرْأَۃِ۔ ۸۔ فَسَارُوا حَتَّی الْتَقَوْا بِالنَّہْرَوَانِ ، فَاقْتَتَلُوا قِتَالاً شَدِیدًا ، فَجَعَلَتْ خَیْلُ عَلِیٍّ لاَ تَقُومُ لَہُمْ ، فَقَامَ عَلِیٌّ ، فَقَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ، إِنْ کُنْتُمْ إِنَّمَا تُقَاتِلُونَ لِی ، فَوَاللہِ مَا عِنْدِی مَا أَجْزِیکُمْ بِہِ ، وَإِنْ کُنْتُمْ إِنَّمَا تُقَاتِلُونَ للہِ ، فَلاَ یَکُنْ ہَذَا قِتَالَکُمْ، فَحَمَلَ النَّاسُ حَمْلَۃً وَاحِدَۃً شَدِیدَۃً، فَانْجَلَتِ الْخَیْلُ عَنْہُمْ وَہُمْ مُکِبُّونَ عَلَی وُجُوہِہِمْ، فَقَالَ عَلِیٌّ : اطْلُبُوا الرَّجُلَ فِیہِمْ ، قَالَ : فَطَلَبَ النَّاسُ ، فَلَمْ یَجِدُوہُ ، حَتَّی قَالَ بَعْضُہُمْ : غَرَّنَا ابْنُ أَبِی طَالِبٍ مِنْ إِخْوَانِنَا حَتَّی قَتَلْنَاہُمْ ، فَدَمَعَتْ عَیْنُ عَلِیٍّ ، قَالَ : فَدَعَا بِدَابَّتِہِ فَرَکِبَہَا ، فَانْطَلَقَ حَتَّی أَتَی وَہْدَۃً فِیہَا قَتْلَی ، بَعْضُہُمْ عَلَی بَعْضٍ ، فَجَعَلَ یَجُرُّ بِأَرْجُلِہِمْ ، حَتَّی وَجَدَ الرَّجُلَ تَحْتَہُمْ ، فَاجْتَرُّوہُ ، فَقَالَ عَلِیٌّ : اللَّہُ أَکْبَرُ ، وَفَرِحَ النَّاسُ وَرَجَعُوا ، وَقَالَ عَلِیٌّ : لاَ أَغْزُو الْعَامَ ، وَرَجَعَ إِلَی الْکُوفَۃِ وَقُتِلَ ، وَاسْتُخْلِفَ حَسَنٌ ، فَسَارَ بِسِیرَۃِ أَبِیہِ ، ثُمَّ بَعَثَ بِالْبَیْعَۃِ إِلَی مُعَاوِیَۃَ۔ (ابویعلی ۴۶۹)
(٣٩٠٦٩) حضرت حبیب بن ابی ثابت فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو وائل کے پاس آیا اور میں نے ان سے اس قوم کے بارے میں سوال کیا جن سے حضرت علی نے قتال کیا تھا۔ میں نے کہا کہ انھوں نے حضرت علی کو کیوں چھوڑا ؟ ان کے خون کو حلال کیوں سمجھا ؟ اور حضرت علی نے انھیں کس چیز کی دعوت دی تھی ؟ پھر حضرت علی نے ان کے خون کو کس بنا پر حلال قرار دیا ؟ انھوں نے فرمایا کہ جب صفین کے مقام پر اہل شام میں قتل زور پکڑ گیا تو حضرت معاویہ اور ان کے ساتھیوں نے ایک پہاڑ کو ٹھکانا بنایا۔ حضرت عمرو بن عاص نے فرمایا کہ حضرت علی کی طرف مصحف بھیجو، خدا کی قسم ! وہ اس کا انکار نہیں کریں گے۔ پس ایک آدمی مصحف لایا اور وہ یہ اعلان کررہا تھا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ہے { أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ أُوتُوا نَصِیبًا مِنَ الْکِتَابِ یُدْعَوْنَ إِلَی کِتَابِ اللہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ یَتَوَلَّی فَرِیقٌ مِنْہُمْ وَہُمْ مُعْرِضُونَ } اس پر حضرت علی نے فرمایا کہ ہاں، ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ہے اور میں اس پر عمل کرنے کا تم سے زیادہ پابند ہوں۔
(٢) پھر خوارج آئے اور ان دنوں ہم انھیں ” قرائ “ کہا کرتے تھے۔ وہ اپنی تلواروں کو کندھے پر لٹکا کر لائے اور کہنے لگے اے امیر المؤمنین ! کیا ہم ان لوگوں کی طرف پیش قدمی نہ کریں کہ اللہ ان کے اور ہمارے درمیان فیصلہ فرما دے۔ اس پر حضرت سہل بن حنیف نے فرمایا کہ اے لوگو ! اپنے نفوس کی مذمت کرو، ہم حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ اگر ہم قتال کو مستحسن سمجھتے تو قتال کرتے۔ یہ وہ صلح کا معاہدہ تھا جو مشرکین اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان ہوا تھا۔ اس موقع پر حضرت عمر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے ؟ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیوں نہیں۔ ایسا ہی ہے۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایسا ہی ہے۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ پھر ہم اپنے دین میں ذلت کو کیوں قبول کریں، اور واپس لوٹ جائیں جبکہ اللہ نے ان کے اور ہمارے درمیان فیصلہ نہیں فرمایا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے ابن خطاب ! میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ مجھے ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔
(٣) پھر حضرت عمر غصے کی حالت میں حضرت ابوبکر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اے ابوبکر ! کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا کیوں نہیں۔ ایسا ہی ہے۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ ایسا ہی ہے۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ پھر ہم اپنے دین میں ذلت کو کیوں قبول کریں، اور واپس لوٹ جائیں جبکہ اللہ نے ان کے اور ہمارے درمیان فیصلہ نہیں فرمایا ہے۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ اے ابن خطاب ! وہ اللہ کے رسول ہوں، اللہ انھیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔
(٤) پھر اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سورة الفتح کو نازل کیا، آپ نے کسی کو بھیج کو حضرت عمر کو بلایا اور ان کے سامنے اس سورت کی تلاوت فرمائی۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا یہ فتح ہے ؟ آپ نے فرمایا جی ہاں۔ پھر وہ خوش ہوگئے اور واپس چلے گئے۔
(٥) اس کے بعد حضرت علی نے فرمایا کہ اے لوگو ! یہ فتح ہے۔ پھر حضرت علی نے اس فیصلے کو قبول فرمالیا اور واپس چلے گئے اور لوگ بھی واپس چلے گئے۔
(٦) حضرت علی کے اس فیصلے کو قبول کرنے کے بعد خوارج کے دس ہزار سے زیادہ لوگ حروراء چلے گئے۔ حضرت علی نے انھیں اللہ کا واسطہ دے کر واپس آنے کو کہا لیکن انھوں نے انکار کردیا۔ پھر ان کے پاس صعصعہ بن صوحان آئے اور اللہ کا واسطہ دیا اور ان سے پوچھا کہ تم کس بنیاد پر اپنے خلیفہ سے قتال کرو گے ؟ انھوں نے کہا کہ ہمیں فتنہ کا خوف ہے۔ اس نے کہا کہ آنے والے سال کے فتنے سے عوام کو ابھی سے گمراہ مت کرو۔ وہ واپس چلے گئے اور انھوں نے کہا کہ ہم اپنے علاقے میں جارہے ہیں کیونکہ حضرت علی نے فیصلے کو قبول کرلیا ہے۔ ہم نے اسی وجہ سے قتال کیا جس وجہ سے صفین کی جنگ میں قتال کیا تھا اور اگر وہ فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کردیں تو ہم ان کے ساتھ قتال کریں گے۔
(٧) پھر وہ لوگ چلے اور جب وہ نہروان پہنچے تو ایک جماعت ان سے الگ ہوگئی اور لوگوں کو قتل کی دھمکی دینے لگی۔ ان کے ساتھیوں نے کہا کہ تمہارا ناس ہو کیا ہم نے اس بات پر حضرت علی سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ حضرت علی کو ان کی یہ خبر پہنچی تو آپ نے لوگوں میں کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں فرمایا کہ تم کیا دیکھتے ہو ؟ کیا تم شام کی طرف جارہے ہو یا تم ان لوگوں کی طرف لوٹ رہے ہو ؟ انھوں نے کہا نہیں بلکہ ہم ان لوگوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ پھر انھوں نے ان کے معاملے کا تذکرہ کیا اور ان کے بارے میں وہ بات بیان کی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے بارے میں فرمائی تھی کہ لوگوں کے اختلاف کے وقت ایک فرقہ کا خروج ہوگا، انھیں حق کے سب سے قریب تر فرقہ قتل کرے گا۔ اس خروج کرنے والے فرقے میں ایک آدمی کا ہاتھ عورت کے پستان کی طرح ہوگا۔
(٨) پھر یہ لوگ چلے اور نہروان جا کر ایک دوسرے سے مل گئے۔ وہاں شدید قتال ہوا، حضرت علی کے بھیجے ہوئے گھڑ سوار اس جنگ کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہورہے تھے، آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اے لوگو ! اگر تم میری خاطر لڑ رہے ہو تو خدا کی قسم میرے پاس تمہیں دینے کے لیے کچھ نہیں اور اگر تم اللہ کے لیے لڑ رہے ہو تو یہ قتال تمہارا نہیں یہ لڑائی اللہ کی ہے۔ پھر حضرت علی کے ساتھیوں نے بھرپور حملے کئے اور خارجیوں کے گھوڑے ان کے ہاتھوں سے نکل گئے اور وہ زمین پر منہ کے بل گرپڑے۔ حضرت علی نے فرمایا کہ اس آدمی (جس کا ہاتھ عورت کے پستان کی طرح ہے) کو تلاش کرو۔ لوگوں نے تلاش کیا لیکن وہ آدمی نہ ملا۔ اس پر کچھ لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ علی نے ہمیں ہمارے بھائیوں سے لڑوا دیا اور ہم نے اپنے بھائیوں کو مار ڈالا (کیونکہ ان میں پیشین گوئی کے مطابق وہ آدمی نہیں ہے) یہ بات سن کر حضرت علی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آپ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور اس جگہ آئے جہاں مقتولین پڑے تھے۔ آپ انھیں ان کے پاؤں سے کھینچنے لگے تو ان میں وہ آدمی مل گیا جس کی پیشین گوئی کی گئی تھی۔ یہ دیکھ کر حضرت علی نے اللہ اکبر کہا، لوگ بھی خوش ہوئے اور واپس آگئے۔ حضرت علی نے فرمایا کہ میں اس سال جنگ نہیں کروں گا۔ پھر آپ کوفہ کی طرف واپس چلے گئے اور وہاں شہید کردیئے گئے۔ پھر حضرت حسن کو خلیفہ بنایا گیا اور آپ اپنے والد ماجد کے نقش قدم پر چلتے رہے، پھر حضرت معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی گئی۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔