HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

13750

13750- عن عبد الله بن عامر بن ربيعة أن عمر استعمل قدامة بن مظعون على البحرين، وهو خال حفصة وعبد الله بن عمر، فقدم الجارود سيد عبد القيس على عمر فقال: يا أمير المؤمنين، إن قدامة شرب فسكر وإني إذا رأيت حدا من حدود الله حقا علي أن أرفعه إليك، فقال عمر: من يشهد معك؟ قال: أبو هريرة، فقال: بم تشهد؟ قال: لم أره يشرب ولكني رأيته سكران يقيء، فقال عمر: لقد تنطعت بالشهادة ثم كتب إلى قدامة أن يقدم عليه من البحرين، فقدم فقام إليه الجارود فقال: أقم على هذا كتاب الله، قال: أخصم أنت أم شهيد؟ قال: بل شهيد، قال: قد أديت الشهادة، فصمت الجارود حتى غدا على عمر، فقال: أقم على هذا حد الله، فقال عمر: ما أراك إلا خصما وما شهد معك إلا رجل فقال الجارود أنا أنشدك الله، فقال عمر: لتمسكن لسانك أو لأسؤنك، فقال أبو هريرة: إن كنت تشك في شهادتنا، فأرسل إلى ابنة الوليد فسلها وهي امرأة قدامة فأرسل إلى هند بنت الوليد ينشدها، فأقامت الشهادة على زوجها، فقال عمر لقدامة: إني حادك: فقال: لو شربت كما يقولون ما كان لكم أن تجلدوني، فقال عمر: لم؟ قال قدامة قال الله عز وجل: {لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا} الآية، فقال عمر: إنك أخطأت التأويل، إن اتقيت الله اجتنبت ما حرم الله عليك، ثم أقبل عمر على الناس، فقال: ماذا ترون في جلد قدامة؟ فقال القوم: ما نرى أن تجلده ما كان مريضا فسكت عن ذلك أياما، ثم أصبح يوما وقد عزم على جلده، فقال لأصحابه: ما ترون في جلد قدامة، فقال القوم: ما نرى أن تجلده ما دام وجعا، فقال عمر: لأن يلقى الله على السياط أحب إلي من أن يلقى الله وهو في عنقي، ائتوني بسوط تام، فأمر عمر بقدامة فجلد فغاضب عمر قدامة وهجره، فحج، وحج قدامة معه مغاضبا له، فلما قفلا من حجهما، ونزل عمر بالسقيا نام، فلما استيقظ من نومه، فقال: عجلوا علي بقدامة فائتوني به إني لأرى أن آتيا أتاني فقال: سالم قدامة فإنه أخوك، فلما أتوه أبى أن يأتي، فأتى عمر إليه، واستغفر له، فكان ذلك أول صلحهما. "عب وابن وهب هق"
13750 عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے قدامۃ بن مظعون کو بحرین کا گورنر بنادیا۔ قدامہ حفصہ اور عبداللہ بن عمر کے ماموں یعنی حضرت عمر (رض) کے سالے تھے۔ جارود جو قبیلہ عبدالقیس کے سردار تھے وہ بحرین سے حضرت عمر (رض) کے پاس تشریف لائے۔ انھوں نے عرض کیا : یا امیر المومنین ! قدامہ نے شراب پی ہے اور نشہ میں دھت ہوئے ہیں۔ اور مجھ پر لازم ہے کہ جب میں حدود اللہ میں سے کوئی حد دیکھوں تو اس کو آپ تک پہنچاؤں ۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا : تمہارے ساتھ اور کون گواہی دیتا ہے ؟ جارود بولے : ابو ہریرہ ! پوچھا : تم کس بات کی شہادت دیتے ہو ؟ انھوں نے عرض کیا : میں نے قدامہ کو شراب پیتے نہیں دیکھا مگر نشہ کی حالت میں قے کرتے دیکھا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تم نے اپنی طرف سے پوری طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر شہادت ادا کردی ہے (اب تم زیادہ مبالغہ نہ کرو پھر حضرت عمر (رض)) نے قدامہ کو بحرین سے آنے کا لکھا۔ وہ تشریف لے آئے۔ چارود ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اٹھے : اس پر کتاب اللہ (کا حکم) نافذ کیجئے۔ حضرت عمر (رض) نے جارود کو فرمایا تم گواہ ہو یا دشمن ہو ؟ جارود بولے : گواہ۔ آپ نے فرمایا : تم بولے : میں تمہیں ان کا دشمن سمجھتا ہوں اور (اس طرح تمہاری گواہی معتبر نہیں رہی جبکہ) تمہارے ساتھ صرف ایک آدمی نے گواہی دی ہے۔ جارود بولے : میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں (کہ آپ ان پر اللہ کی حد کو جاری کریں) حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تم اپنی زبان تھام لو ورنہ میں تمہارے ساتھ براسلوک کروں گا۔ پھر حضرت ابو ہریرہ (رض) نے حضرت عمر (رض) کو فرمایا : اگر تم کو ہماری شہادت میں شک ہے تو ھندبنت الولید کے پاس پیغام بھیج کر ان سے معلوم کرلو، جو قدامہ کی بیوی ہے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ہند بنت الولید کے پاس پیغام بھیجا اس نے بھی اپنے شوہر کے خلاف شہادت پیش کردی۔ تب حضرت عمر (رض) نے قدامہ کو فرمایا : میں آپ پر حد لگاؤں گا۔ قدامہ بولے : اگر میں نے شراب پی ہے جیسا کہ یہ کہہ رہے ہیں تب بھی تمہارے لیے مجھے حد لگانے کی گنجائش نہیں ہے، حضرت عمر (رض) نے پوچھا : وہ کیوں ؟ حضرت قدامہ بولے : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
لیس علی الذین آمنووعملوا الصالحات جناح فیما طعموا
جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اچھے عمل کیے ان پر کوئی حرج نہیں ہے اس میں جو انھوں نے کھایا۔
حضرت عمر (رض) نے ان کو فرمایا : تم تاویل کرنے میں غلطی کررہے ہو۔ اگر تم تقویٰ اختیار کرتے تو اللہ کی حرام کردہ شے سے اجتناب کرتے ۔ پھر حضرت عمر نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا تم لوگ قدامہ کو حد لگانے میں کیا رائے دیتے ہو ؟ لوگوں نے کہا : جب تک یہ مریض ہیں ہمارا خیال ہے کہ تب تک آپ ان کو حد جاری نہ کریں۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) چند ایام تک اس مسئلے میں خاموش رہے۔ پھر ایک دن صبح کو حد لگانے کا پختہ عزم کرلیا۔ اور اپنے ساتھیوں سے پوچھا : اب تمہارا کیا خیال ہے قدامہ کو حد لگانے کے متعلق ؟ ساتھیوں نے وہی بات کی کہ جب تک وہ بیمار ہیں ان کو حد جاری کرنا درست نہیں۔ آپ (رض) نے فرمایا : یہ اللہ سے ملاقات ہی کرلیں کوڑے کھاتے ہوئے یہ مجھے زیادہ پسند ہے بنسبت اس بات کے کہ ان کو حد لگانا میری گردن پر باقی رہ جائے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے حکم دیا کہ ان کو حد لگائی جائے۔ اور آخر ان کو حد لگادی گئی۔ پھر حضرت عمر (رض) نے حج کیا تو قدامہ نے بھی ان کے ساتھ حج کیا لیکن ناراضگی اور ناگواری کے ساتھ۔ جب دونوں حضرات حج سے واپس ہوئے اور حضرت عمر (رض) سفیا مقام پر اترے تو وہاں آرام کرنے کے لیے سوگئے۔ جب نیند سے بیدار ہوئے تو بولے : قدامہ کو جلدی میرے پاس لاؤ۔ میں نے خواب دیکھا ہے کہ ایک آنے والا میرے پاس آیا اور بولا قدامہ سے صلح کرلو کیونکہ وہ تمہارا بھائی ہے۔ لیکن جب لوگ ان کو بلانے گئے تو انھوں نے آنے سے انکار کردیا۔ لہٰذا حضرت عمر (رض) خود ان کے پاس چل کر تشریف لے گئے اور ان کے لیے استغفار کیا۔ یہ ان کی باہمی صلح کا پہلا واقعہ تھا۔ مصنف عبدالرزاق، ابن وھب، السنن للبیہقی

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔