HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

14056

14056- عن عمر مولى غفرة قال: لما توفى رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء مال من البحرين فقال أبو بكر: من كان له على رسول الله صلى الله عليه وسلم شيء أو عدة فليقم فليأخذ، فقام جابر فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن جاءني مال من البحرين لأعطينك هكذا وهكذا ثلاث حثا بيده، فقال له أبو بكر: قم فخذ بيدك فأخذ فإذا هي خمس مائة درهم فقال: عدوا له ألفا وقسم بين الناس عشرة دراهم عشرة دراهم، وقال: إنما هذه مواعيد وعدها رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس حتى إذا كان عام مقبل جاءه مال أكثر من ذلك المال فقسم بين الناس عشرين درهما عشرين درهما وفضلت منه فضلة فقسم للخدم خمسة دراهم خمسة دراهم وقال: إن لكم خداما يخدمون لكم ويعالجون لكم فرضخنا لهم فقالوا: لو فضلت المهاجرين والأنصار لسابقتهم ولمكانهم من رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أجر أولئك على الله، إن هذا المعاش للأسوة فيه خير من الأثرة فعمل بهذا ولايته، حتى إذا كان سنة ثلاث عشرة في جمادى الآخرة في ليال بقين منه مات رضي الله عنه فعمل عمر بن الخطاب ففتح الفتوح وجاءته الأموال فقال: إن أبا بكر رأى في هذا المال رأيا ولي فيه رأي آخر لا أجعل من قاتل رسول الله صلى الله عليه وسلم كمن قاتل معه ففرض للمهاجرين والأنصار ومن شهد بدرا خمسة آلاف خمسة آلاف، وفرض لمن كان له إسلام كإسلام أهل بدر ولم يشهد بدرا أربعة آلاف أربعة آلاف، وفرض لأزواج النبي صلى الله عليه وسلم اثنى عشر ألفا اثنى عشر ألفا إلا صفية وجويرية ففرض لهما ستة آلاف ستة آلاف فأبتا أن تقبلا، فقال لهما: إنما فرضت لهن للهجرة فقالتا، إنما فرضت لهن لمكانهن من رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان لنا مثله، فعرف ذلك عمر ففرض لهما اثنى عشر ألفا اثنى عشر ألفا وفرض للعباس اثنى عشر ألفا، وفرض لأسامة بن زيد أربعة آلاف وفرض لعبد الله ابن عمر ثلاثة آلاف، فقال: يا أبت لم زدته علي ألفا ما كان لأبيه من الفضل ما لم يكن لأبي، وما كان له ما لم يكن لي، فقال: إن أبا أسامة كان أحب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من أبيك وكان أسامة أحب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم منك، وفرض لحسن وحسين خمسة آلاف خمسة آلاف لمكانهما من رسول الله صلى الله عليه وسلم وفرض لأبناء المهاجرين والأنصار ألفين ألفين، فمر به عمر بن أبي سلمة فقال: زيدوه ألفا فقال له محمد بن عبد الله بن جحش: ما كان لأبيه ما لم يكن لأبينا وما كان له ما لم يكن لنا، فقال: إني فرضت له بأبيه أبي سلمة ألفين وزدته بأمه أم سلمة ألفا فإن كانت لكم أم مثل أمه زدتكم ألفا، وفرض لأهل مكة وللناس ثمانمائة ثمانمائة فجاءه طلحة بن عبيد الله بابنه عثمان ففرض له ثمان مائة فمر به النضر بن أنس فقال عمر: افرضوا له في ألفين فقال طلحة: جئتك بمثله ففرضت له ثمانمائة وفرضت لهذا ألفين، فقال: إن أبا هذا لقيني يوم أحد، فقال لي: ما فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقلت: ما أراه إلا قد قتل، فسل سيفه وكسر غمده، وقال: إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد قتل فإن الله حي لا يموت، فقاتل حتى قتل وهذا يرعى الشاة في مكان كذا وكذا فعمل عمر هذا خلافته. "ش والحسن بن سفيان والبزار ق" وروى ابن سعد صدره
14056 غفرۃ کے آزاد کردہ غلام عمر سے مروی ہے کہ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو بحرین سے کچھ مال آیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اعلان کروادیا کہ جس کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کچھ حساب ہو یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو کچھ دینے کا وعدہ کیا ہو تو وہ آکر اپنا حق وصول کرلے۔ حضرت جابر (رض) نے کھڑے ہو کر عرض کیا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تھا کہ اگر ہمارے پاس بحرین سے مال آیا تو میں تجھے اتنا اتنا مال دوں گا اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ کی مٹھی تین بار بھری۔ حضرت ابوبکر (رض) حضرت جابر (رض) کو فرمایا : اٹھ کھڑا ہو اور اپنے ہاتھ سے لے لے۔
انہوں نے ایک مٹھی درہم لے لیے وہ پانچ سو درہم نکلے۔ پھر آپ (رض) نے فرمایا : ان کو ایک ہزار درہم اور گن دو ۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر (رض) نے تمام لوگوں کے درمیان دس دس درہم تقسیم فرمادیئے اور ارشاد فرمایا : یہ وہ وعدے ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے فرمائے تھے۔ پھر جب آئندہ سال آیا تو اس سے زیادہ مال آیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اس سال بیس بیس درہم سب لوگوں میں تقسیم فرمائے۔ پھر بھی کچھ مال باقی بچ گیا تو آپ نے خادموں (غلاموں ) کو بھی پانچ پانچ درہم عطا فرمائے۔ اور ارشاد فرمایا : تمہارے خادم جو تمہاری خدمت کرتے ہیں اور تمہارے کام کاج میں مشغول رہتے ہیں ان کو بھی ہم نے مال دیا ہے۔ لوگوں نے کہا : اگر آپ مہاجرین اور انصار کو کچھ فضیلت دیں تو اچھا ہو کیونکہ یہ اسلام میں سبقت کرنے والے ہیں اور ان کا مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں زیادہ ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : ان کا اجر اللہ پر ہے۔ یہ مال تو محض ان کی تسلی کے لیے ہے یہ تھوڑا تھوڑا مال سب کو دینا کسی کسی کو ترجیح دینے سے بہتر ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر (رض) نے اپنے عہد حکومت میں یہی طرز عمل رکھا۔ حتیٰ کہ جب سن تیرہ ہجری کے جمادی الآخر کی چند راتیں رہ گئیں تو حضرت ابوبکر (رض) کی وفات ہوگئی۔ (رض) وارضاہ۔
حضرت عمر (رض) خلیفہ بنے اور فتوحات کیں، ان کے پاس بہت مال آیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اس مال میں حضرت ابوبکر (رض) کی اپنی رائے تھی، لیکن میری رائے اور ہے۔ میں اس شخص کو جس نے کبھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قتال کیا اور آپ کے مدمقابل ہوا اس کو میں اس شخص کے برابر ہرگز نہیں کرسکتا جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں آپ کی حفاظت کے لیے قتال کیا۔ پھر حضرت عمر (رض) نے مہاجرین، انصار اور ان لوگوں کے لیے جو جنگ بدر میں شریک ہوئے ان کے لیے پانچ ہزار پانچ ہزار درہم مقرر فرمائے۔ جن کا اسلام بدریوں کا اسلام تھا لیکن وہ جنگ بدر میں کسی مجبوری کی وجہ سے حاضر نہ ہوسکے ان کے لیے چار چار ہزار درہم مقررکیے۔
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات کے لیے بارہ بارہ ہزار درہم مقرر کیے، سوائے صفیہ اور جویریہ کے ان کے لیے چھ چھ ہزار درہم مقرر کیے۔ لیکن دونوں نے لینے سے انکار کردیا۔ آپ (رض) نے ان کو فرمایا : میں نے ان کے لیے دگنی مقدار ان کے ہجرت کرنے کی وجہ سے مقرر کی ہے۔ دونوں نے عرض کیا : نہیں، آپ نے ان کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک ان کے مرتبے کی وجہ سے یہ مقدار مقرر کی ہے۔ اور یہی مرتبہ ہمارا بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھا۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ان کے لیے بھی بارہ بارہ ہزار درہم مقرر فرمائے۔
اسامہ بن زید کے لیے چار ہزار درہم مقرر کیے جبکہ اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر کے لیے تین ہزار درہم مقرر کیے۔ بیٹے نے کہا : ابا جان ! ان کو آپ نے مجھ سے ایک ہزار درہم زیادہ کیوں عطا فرمائے۔ حالانکہ ان کا باپ میرے باپ سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتا، اس طرح یہ بھی مجھ سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتے۔ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اسامہ کا باپ زید حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تیرے باپ سے زیادہ محبوب تھا، اسی طرح اسامہ بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تجھ سے زیادہ محبوب تھا۔
پھر حضرت عمر (رض) نے حضرات حسنین (حسن و حسین) کے لیے پانچ پانچ ہزار درہم مقرر کیے کیونکہ ان کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں اپنا مقام تھا۔ اسی طرح مہاجرین اور انصار کے بیٹوں کے لیے دو دو ہزار درہم مقرر کیے۔ عمر بن ابی سلمہ کا آپ (رض) کے پاس سے گزر ہوا تو آپ (رض) نے فرمایا ان کے لیے ایک ہزار درہم زیادہ کردو۔ محمد بن عبداللہ بن جحش نے عرض کیا : ان کے باپ کی ہمارے باپ سے اور ان کی ہم سے زیادہ کیا فضیلت ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں ان کے باپ ابوسلمہ کی وجہ سے ان کے لیے دو ہزار درہم مقرر کیے پھر ان کی ماں ام سلمہ (رض) ام المومنین زوجہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے ایک ہزار درہم زیادہ کردیئے اگر تمہاری ماں کی بھی ایسی فضیلت ہو تو میں تمہارے لیے بھی ہزار ہزار درہم بڑھا دوں گا۔ حضرت عمر (رض) نے اہل مکہ اور عام لوگوں کے لیے آٹھ آٹھ سو درہم مقرر کیے۔ اس دوران طلحہ بن عبیداللہ اپنے بیٹے عثمان کو لے کر آئے، حضرت عمر (رض) نے ان کے لیے بھی آٹھ سو درہم مقرر کیے۔ پھر نضر بن انس (رض) آپ کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا ان کو دو ہزار والوں میں شامل کردو۔
طلحہ (رض) نے عرض کیا : میں بھی اس کے مثل (اپنے بیٹے عثمان کو) لایا تھا ان کے لیے آپ نے آٹھ سو درہم مقرر کیے اور اس کے لیے دو ہزار درہم مقرر کردیئے۔ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اس (نضر بن انس) کا باپ (انس) مجھے جنگ احد میں ملا تھا۔ اس نے مجھے سے پوچھا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کیا ہوا ؟ میں نے کہا : میرا خیال ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جام شہادت نوش کر گئے ہیں۔ یہ سن کر اس کے باپ نے تلوار نیام سے سونت لی، نیام توڑ ڈالی اور بولے : اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید ہوگئے ہیں تو اللہ تو زندہ ہے کبھی نہ مرے گا پھر وہ جنگ کی چکی میں گھس گئے اور قتال کرتے کرتے شہید ہوگئے۔ اس وقت یہ بچہ فلاں فلاں جگہ بکریاں چراتا تھا۔ پھر عمر کو یہ ذمہ داری مل گئی۔ مصنف ابن ابی شیبہ ، الحسن بن سفیان، مسند البزار، السنن للبیہقی
ابن سعد (رح) نے اس کا اول حصہ ذکر کیا ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔