HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

14077

14077- عن ابن عمر وعائشة وسعيد بن المسيب وصبيحة التيمي ووالد أبي وجزة وغير هؤلاء دخل حديث بعضهم في بعض قالوا: بويع أبو بكر الصديق يوم قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الاثنين لاثنتي عشرة ليلة خلت من شهر ربيع الأول سنة إحدى عشرة من مهاجر رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان منزله بالسنحعند زوجته حبيبة بنت خارجة ابن زيد بن أبي زهير من بني الحارث بن الخزرج، وكان قد حجرعليه حجرة من سعففما زاد على ذلك حتى تحول إلى منزله بالمدينة، فأقام هناك بالسنح بعد ما بويع له ستة أشهر يغدو على رجليه إلى المدينة، وربما ركب على فرس له وعليه إزار ورداء ممشقفيوافي المدينة فيصلي الصلوات بالناس، فإذا صلى العشاء رجع إلى أهله بالسنح، فكان إذا حضر صلى بالناس وإذا لم يحضر صلى بهم عمر بن الخطاب، وكان يقيم يوم الجمعة في صدر النهار بالسنح يصبغ لحيته ورأسه ثم يروح لقدر الجمعة فيجمع بالناس، وكان رجلا تاجرا، فكان يغدو كل يوم السوق فيبيع ويبتاع وكانت له قطعة غنم يروحعليها وربما خرج هو بنفسه فيها، وربما كفيها فرعيت له، وكان يحلب للحي أغنامهم، فلما بويع له بالخلافة، قالت جارية من الحي: الآن لا تحلب لنا منائح دارنا؛ فسمعها أبو بكر، فقال: بلى لعمري لأحلبنها لكم، وإني لأرجو أن لا يغيرني ما دخلت فيه عن خلق كنت عليه؛ فكان يحلب لهم فربما قال للجارية من الحي يا جارية أتحبين أن أرغي لك أو أصرح؛ فربما قالت: أرغ وربما قالت: صرح فأي ذلك قالت: فعل؛ فمكث كذلك بالسنح ستة أشهر، ثم نزل بالمدينة، فأقام بها ونظر في أمره فقال: لا والله ما يصلح أمر الناس التجارة وما يصلح لهم إلا التفرغ والنظر في شأنهم وما بد لعيالي مما يصلحهم، فترك التجارة واستنفق من مال المسلمين ما يصلحه ويصلح عياله يوما بيوم ويحج ويعتمر، وكان الذي فرضوا له في كل سنة ستة آلاف درهم فلما حضرته الوفاة قال: ردوا ما عندنا من مال المسلمين؛ فإني لا أصيب من هذا المال شيئا وإن أرضي التي بمكان كذا وكذا للمسلمين بما أصبت من أموالهم؛ فدفع ذلك إلى عمر ولقوحاوعبدا صيقلا وقطيفة ما تساوي خمسة دراهم. فقال عمر: لقد أتعب من بعده، قالوا: واستعمل أبو بكر على الحج سنة إحدى عشرة عمر بن الخطاب ثم اعتمر أبو بكر في رجب سنة اثنتي عشرة، فدخل مكة ضحوة فأتى منزله وأبو قحافة جالس على باب داره ومعه فتيان أحداث يحدثهم إلى أن قيل له: هذا ابنك، فنهض قائما، وعجل أبو بكر أن ينيخ راحلته، فنزل عنها وهي قائمة فجعل يقول: يا أبت لا تقم، ثم لاقاه فالتزمه وقبل بين عيني أبي قحافة، وجعل الشيخ يبكي فرحا بقدومه، وجاؤوا إلى مكة عتاب بن أسيد وسهيل بن عمرو وعكرمة بن أبي جهل والحارث بن هشام فسلموا عليه، سلام عليك يا خليفة رسول الله، وصافحوه جميعا فجعل أبو بكر يبكي حين يذكرون رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم سلموا على أبي قحافةفقال أبو قحافة: يا عتيق هؤلاء الملأ فأحسن صحبتهم، فقال أبو بكر: يا أبت لا حول ولا قوة إلا بالله طوقت أمرا عظيما من الأمر لا قوة لي به، ولا يدان إلا بالله، ثم دخل فاغتسل وخرج وتبعه أصحابه فنحاهم، ثم قال: امشوا على رسلكم ولقيه الناس يتمشون في وجهه ويعزونه بنبي الله صلى الله عليه وسلم، وهو يبكي، حتى انتهى إلى البيت، فاضطبعبردائه، ثم استلم الركن ثم طاف سبعا وركع ركعتين، ثم انصرف إلى منزله، فلما كان الظهر خرج فطاف أيضا بالبيت، ثم جلس قريبا من دار الندوة، فقال: هل من أحد يشتكي من ظلامةأو يطلب حقا، فما أتاه أحد وأثنى الناس على واليهم خيرا، ثم صلى العصر، وجلس فودعه الناس، ثم خرج راجعا إلى المدينة، فلما كان وقت الحج سنة اثنتي عشرة حج أبو بكر بالناس تلك السنة وأفرد الحج واستخلف على المدينة عثمان بن عفان. "ابن سعد" قال ابن كثير: هذا سياق حسن وله شواهد من وجوه أخر ومثل هذا تقبله النفوس وتتلقاه بالقبول
14077 ابن عمر (رض) ، عائشہ (رض) ، سعید بن المسیب (رح) ، صحیۃ الیتمی (رح) اور ابو وجزۃ کے والد (رح) وغیرہ حضرات سے مروی ہے اور ان سب حضرات کی گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ :
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وافت بروز پیر بارہ ربیع الاول سن گیارہ ہجری کو ہوئی۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر (رض) کی (خلافت پر) بیعت کی گئی۔ آپ (رض) کا گھر سخ (مدینہ کے مضافات میں ایک مقام) پر تھا۔ جہاں قبیلہ بنی حارث بن خزرج کی آپ کی بیوی حبیبہ بنت خارجہ بن زید بن ابی زہیر رہا کرتی تھیں۔
آپ (رض) نے اس کو کھجور کی شاخوں سے ایک حجرہ بنا کر دے رکھا تھا۔ اس گھر میں مزید کچھ اضافہ نہ ہوا تھا کہ آپ (رض) مدینہ منتقل ہوگئے۔ لیکن اس سے قبل اور خلافت کے بعد آپ (رض) چھ ماہ سخ میں قیام پذیر رہے۔ اس دوران آپ (رض) ہر صبح پیدال مدینے تشریف لے جاتے تھے۔ کبھی کبھار اپنے گھوڑے پر بھی چلے جاتے تھے۔ آپ کے جسم پر ایک ازار اور ایک رنگی ہوئی چادر ہوتی تھی۔ آپ (رض) مدینہ جاکر لوگوں کو نماز پڑھاتے : پھر عشاء کی نماز پڑھا کر سخ واپس چلے جاتے تھے۔ جب آپ مدینہ میں حاضر ہوجاتے تو آپ ہی نماز پڑھاتے تھے ورنہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نماز پڑھاتے تھے ۔ جمعہ کے دن آپ شروع دن میں گھر پہنچ جاتے اور لوگوں کو جمعہ پڑھاتے تھے۔ آپ (رض) تجارت پیشہ تھے۔ اس لیے آپ ہر روز صبح کو بازار جاتے اور خریدو فروخت کرتے۔ اسی طرح آپ (رض) کا بکریوں کا ایک ریوڑ تھا۔ آپ شاک کو اسے دیکھنے جاتے تھے اور کبھی کبھار خود بھی بکریوں کو لے کر چرانے نکل جاتے تھے۔ ورنہ اکثر اوقات آپ کی بکریاں کوئی اور چراتا تھا۔ آپ (رض) ایک خاندان کی بکریوں کا دودھ بھی دوہا کرتے تھے۔ جب آپ (رض) کی بیعت کرلی گئی تو اس خاندان کی ایک بچی نے کہا : اب تو شاید ہماری بکریوں کا دودھ نہیں نکلا کرے گا۔ یہ بات حضرت ابوبکر (رض) نے سن لی تو آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : نہیں بلکہ میری عمر کی قسم ! میں ان کے لیے دودھ دوہوں گا۔ اور مجھے امید ہے کہ میرا یہ نیا کام پرانے کاموں پر اثر انداز نہ ہوگا۔ چنانچہ آپ (رض) پھر بھی ان کے لیے دودھ نکالتے رہے۔ بسا اوقات آپ اس گھرانے کی بچی کو کہتے : تجھے اونٹ کی آواز نکال کر دکھاؤں یا مرغے کی آواز نکال کر دکھاؤں۔ تو وہ جو کہتی آپ اس کو سناتے۔ آپ نے (اسی طرح لوگوں میں گم ہو کر) چھ ماہ بتادیئے۔ پھر آپ مستقل مدینہ آکر رہنے لگے۔ اور نظام حکومت کو مستقل دیکھنے لگے۔ تب آپ (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! لوگوں کی فلاح کے لیے مجھے اپنی تجارت چھوڑنا پڑے گی۔ ان کے لیے (اپنے دوسرے کام کاج سے) فارغ ہونا ضروری ہے۔ اور مستقل ان کی اصلاح و فلاح میں لگنے کی ضرورت ہے، لیکن اپنے اہل خانہ کے لیے بھی معاشی گزر بسر کا انتظام لازمی ہے۔ تب آپ (رض) نے تجارت ترک فرمادی اور آپ (رض) مسلمانوں کے بیت المال میں سے اپنے اہل خانہ کا خرچ لینے لگے۔ آپ (رض) (بیت المال سے) حج اور عمرہ بھی فرماتے۔ صحابہ کرام نے آپ کے لیے سالانہ چھ ہزار درہم مقرر فرمادیئے تھے۔ جب آپ (رض) کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ (رض) نے وصیت کی کہ ہمارے پاس جو بیت المال کا مال ہے وہ لوٹا دو ۔ کیونکہ میں اس مال میں سے کچھ بھی لینا نہیں چاہتا۔ اور میری فلاں فلاں جگہ والی جائیداد مسلمانوں کے لیے ہے اس مال کے بدلے جو میں نے بیت المال میں سے لیا ہے۔ چنانچہ آپ (رض) نے وہ اموال، دودھ والی اونٹنی، ایک غلام اور پانچ درہم کی قیمت کی ایک چادر حضرت عمر (رض) کو واپس بھجوادی۔
حضرت صدیق اکبر (رض) کی اپنے والد سے ملاقات
حضرت عمر (رض) نے فرمایا : انھوں نے اپنے بعد والوں کو سخت مشقت میں ڈال دیا۔ راوی حضرات کہتے ہیں : سن گیارہ ہجری کو حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو امیر حج بنا کر بھیجا تھا۔ پھر بارہ ہجری ماہ رجب میں حضرت ابوبکر (رض) نے عمرہ ادا کیا۔ چاشت کے وقت مکہ میں داخل ہوئے۔ وہہاں اپنے گھر میں تشریف لائے جہاں آپ کے والد حضرت ابوقحافہ (رض) (انتہائی ضعیف العمر) اپنے دروازے پر بیٹھے تھے اور ان کے ساتھ کم سن لڑکے بیٹھے تھے جن کو وہ باتیں سنا رہے تھے۔ ان کو کسی نے بتایا کہ یہ آپ کا بیٹا آیا ہے۔ یہ سن کر وہ (خوشی سے) کھڑے ہونے لگے۔ جبکہ حضرت ابوبکر (رض) جو ابھی سواری پر تھے جلدی جلدی سواری سے اترنے لگے اور ابھی اونٹنی بیٹھی بھی نہ تھی آپ (رض) اوپر سے کود آئے اور اپنے باپ کو آواز دینے لگے : ابا جان ! آپ کھڑے نہ ہوں۔ پھر دونوں باپ بیٹے بغل گیر ہوئے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اپن باپ کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ ابوقحافہ (رض) اپنے بیٹے کی آمد کی خوشی میں روپڑے۔ مکہ کی طرف عتاب بن اسید، سہیل بن عمرو، عکرمہ بن ابی جھل اور حارث بن ہشام (سرداران قوم) بھی آگئے تھے۔ انھوں نے آپ (رض) کو سلام کیا سلام علیکم اے خلیفہ رسول اللہ ! پھر سب نے آپ (رض) کے ساتھ مصافحہ کیا۔ جب ان کے آپس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کی یادوں) کا ذکر ہوا تو حضرت ابوبکر (رض) رونے لگے۔ پھر آنے والے معززین نے حضرت ابی قحافہ (رض) کے سلام کی دعا کی۔ حضرت ابوقحافہ (رض) نے اپنے بیٹے کو فرمایا : اے عتیق (ابوبکر (رض) کا لقب ! ) ان سرداروں کے ساتھ اچھی صحبت رکھا کر۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اباجان ! اللہ کی مدد کے بغیر نہ بدی سے اجتناب ممکن ہے اور نہ ہی کوئی نیکی اس کی مدد کے بغیر پوری ہوسکتی ہے۔ مجھے ایک عظیم ذمہ داری گلے کا ہار بنادی گئی ہے جس کے اٹھانے کی مجھ میں قوت نہیں ہے۔ اور نہ اللہ کے بغیر کچھ توفیق ممکن ہے۔
پھر حضرت ابوبکر (رض) گھر میں داخل ہوئے۔ غسل کیا اور نکلے۔ آپ کے پیچھے آپ کے اصحاب بھی چلنے لگے۔ آپ (رض) نے فرمایا : اپنے اپنے راستے چلو۔ لوگ آ آ کر بالمشافہ آپ (رض) سے ملتے رہے اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات پر بھی تعزیت کا اظہار کرتے رہے۔ جس کو سن سن کر حضرت ابوبکر (رض) رونے لگے۔ حتیٰ کہ آپ (رض) بیت اللہ شریف پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے اپنی چادر کا اضطباع کیا (الٹا کر زیب تن کی) ۔ پھر رکن (یمانی) کا استلام کیا (بوسہ لیا) پھر سات چکر کعبۃ اللہ کے گرد کاٹے اور دوگانہ نماز ادا کی۔ پھر واپس اپنے گھر چلے گئے۔ جب ظہر کا وقت ہوا تو پھر نکلے اور بیت اللہ کا طواف کیا پھر قریب ہی دارالندوہ کے بیٹھ گئے اور اعلان کیا : کوئی ہے جس کو کسی ظلم کی شکایت کرنا ہو یا کسی کو اپنے حق کا مطالبہ کرنا ہو۔ لیکن پھر کوئی نہ آیا بلکہ لوگوں نے (امن وامان کے حوالے سے) اپنے والی کی بھلائی اور تعریف بیان کی۔ پھر آپ (رض) نے نماز عصر ادا کی اور بیٹھ گئے پھر لوگ آپ سے الوداع ہوئے اور آپ (رض) مدینے کی طرف کوچ کرنے نکل پڑے۔ پھر جب اسی سال یعنی بارہ ہجری کو حج کا وقت آیا تو حضرت ابوبکر (رض) نے خود لوگوں کو حج کروایا اور حج افراد (بغیر عمرے کے) ادا کیا جبکہ مدینہ پر آپ حضرت عثمان (رض) کو خلیفہ بنا آئے تھے۔ ابن سعد
امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں : یہ اچھی روایت ہے اس کے متعدد شواہد مزید ہیں اور اس کی مثل روایت قبول عام پاتی ہے اور لوگ اس کو قبول کرتے ہیں۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔