HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

14172

14172- "مسند الصديق" عن إسحاق بن بشر حدثنا ابن إسحاق عن الزهري حدثنا ابن كعب عن عبد الله بن أبي أوفى الخزاعي قال: لما أراد أبو بكر غزو الروم دعا عليا وعمر وعثمان وعبد الرحمن بن عوف وسعد ابن أبي وقاص وسعيد بن زيد وأبا عبيدة بن الجراح ووجوه المهاجرين والأنصار من أهل بدر وغيرهم، فدخلوا عليه وقال عبد الله بن أبي أوفى وأنا فيهم فقال: إن الله عز وجل لا تحصى نعماؤه وهو لا يبلغ جزاءها الأعمال، فله الحمد قد جمع الله كلمتكم وأصلح ذات بينكم وهداكم إلى الإسلام ونفى عنكم الشيطان، فليس يطمع أن تشركوا به ولا تتخذوا إلها غيره، فالعرب اليوم بنو أب وأم وقد رأيت أني أستنفر المسلمين إلى جهاد الروم بالشام ليؤيد الله المسلمين، ويجعل الله كلمته العليا مع أن للمسلمين في ذلك الحظ الأوفر لأنه من هلك منهم هلك شهيدا، وما عند الله خير للأبرار ومن عاش عاش مدافعا عن المسلمين مستوجبا على الله ثواب المجاهدين وهذا رأيي الذي رأيت، فأشار امرؤ علي برأيه. فقام عمر بن الخطاب فقال: الحمد لله الذي يخص بالخير من يشاء من خلقه والله ما استبقنا إلى شيء من الخير قط إلا سبقتنا إليه وذلك فضل الله يؤتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم، وقد والله أردت لقاءك بهذا الرأي الذي رأيت فما قضى أن يكون حتى ذكرته فقد أصبت أصاب الله بك سبل الرشاد سربإليهم الخيل في إثر الخيل وابعث الرجال بعد الرجال والجنود تتبعها الجنود فإن الله ناصر دينه معز الإسلام وأهله، ثم إن عبد الرحمن بن عوف قام فقال: يا خليفة رسول الله إنها الروم وبنو الأصفر حديد وركن شديد ما أرى أن تقتحم عليها اقتحاما، ولكن تبعث الخيل فتغير في قواصيأرضهم ثم ترجع إليك؛ فإذا فعلوا ذلك مرارا أضروا بهم وغنموا من أداني أرضهم فقووا بذلك على عدوهم ثم تبعث إلى أراضي أهل اليمن واقاصي ربيعة ومضر، ثم تجمعهم جميعا إليك، فإن شئت بعد ذلك غزوتهم بنفسك، وإن شئت أغزيتهم. ثم سكت الناس، قال: فقال لهم أبو بكر: ماذا ترون؟ فقال عثمان بن عفان: إني أرى أنك ناصح لأهل هذا الدين شفيق عليهم؛ فإذا رأيت رأيا تراه لعامتهم صلاحا فاعزم على إمضائه، فإنك غير ظنينفقال طلحة والزبير وسعد وأبو عبيدة وسعيد بن زيد ومن حضر ذلك المجلس من المهاجرين والأنصار: صدق عثمان ما رأيت من رأي فامضه، فإنا لا نخالفك ولا نتهمك وذكروا هذا وأشباهه وعلي في القوم لا يتكلم، قال أبو بكر: ماذا ترى يا أبا الحسن؟ فقال: أرى أنك إن سرت إليهم بنفسك أو بعثت إليهم نصرت عليهم إن شاء الله، فقال: بشرك الله بخير، ومن أين علمت ذلك؟ قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا يزال هذا الدين ظاهرا على كل من ناواهحتى يقوم الدين وأهله ظاهرون فقال: سبحان الله ما أحسن هذا الحديث لقد سررتني به سرك الله، ثم إن أبا بكر رضي الله عنه قام في الناس فذكر الله بما هو أهله، وصلى على نبيه صلى الله عليه وسلم ثم قال: يا أيها الناس إن الله قد أنعم عليكم بالإسلام وأكرمكم بالجهاد وفضلكم بهذا الدين على كل دين فتجهزوا عباد الله إلي غزو الروم بالشام فإني مؤمر عليكم أمراء وعاقد لهم، فأطيعوا ربكم ولا تخالفوا أمراءكم لتحسن نيتكم وشربكم وأطعمتكم {إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ} . قال: فسكت القوم فوالله ما أجابوا فقال عمر: والله يا معشر المسلمين مالكم لا تجيبون خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد دعاكم لما يحييكم؟ أما إنه لو كان عرضا قريبا وسفرا قاصدا لابتدرتموه. فقال عمرو بن سعيد: فقال: يا ابن الخطاب ألنا تضرب الأمثال أمثال المنافقين فما منعك إذ عبت علينا فيه أن تبتدئ به؟ فقال عمر: إنه يعلم أني أجيبه لو يدعوني وأغزو لو يغزيني قال عمرو بن سعيد: ولكن نحن لا نغزو لكم إن غزونا إنما نغزو لله، فقال عمر: وفقك الله، فقد أحسنت فقال أبو بكر لعمرو: اجلس رحمك الله؛ فإن عمر لم يرد بما سمعت أذى مسلم ولا تأنيبه إنما أراد بما سمعت أن ينبعث المتثاقلون إلى الأرض إلى الجهاد فقام خالد بن سعيد فقال: صدق خليفة رسول الله اجلس أي أخي فجلس وقال خالد: الحمد لله الذي لا إله إلا هو الذي بعث محمدا بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله ولو كره المشركون؛ فالله منجز وعده ومظهر دينه ومهلك عدوه ونحن غير مخالفين ولا مختلفين وأنت الوالي الناصح الشفيق ننفر إذا استنفرتنا ونطيعك إذا أمرتنا ففرح بمقالته أبو بكر وقال: جزاك الله خيرا من أخ وخليل فقد كنت أسلمت مرتغبا وهاجرت محتسبا قد كنت هربت بدينك من الكفار لكي ما يطاع الله ورسول الله وتعلو كلمته وأنت أمير الناس فسر يرحمك الله. ثم إنه رجع ونزل خالد بن سعيد فتجهز وأمر أبو بكر بلالا فأذن أن انفروا أيها الناس إلى جهاد الروم بالشام والناس يرون أن أميرهم خالد بن سعيد وكان الناس لا يشكون أن خالد بن سعيد أميرهم وكان أول خلق الله عسكر، ثم إن الناس خرجوا إلى معسكرهم من عشرة وعشرين وثلاثين وأربعين وخمسين ومائة كل يوم حتى اجتمع أناس كثير فخرج أبو بكر ذات يوم ومعه رجال من الصحابة حتى انتهى إلى عسكرهم؛ فرأى عدة حسنة لم يرض عدتها للروم، فقال لأصحابه: ما ترون في هؤلاء أن نشخصهمإلى الشام في هذه العدة؟ فقال عمر: ما أرضى هذه العدة لجموع بني الأصفر، فقال لأصحابه: ماذا ترون؟ فقالوا نحن نرى ما رأي عمر، فقال: ألا أكتب كتابا إلى أهل اليمن ندعوهم إلى الجهاد ونرغبهم في ثوابه؟ فرأى ذلك جميع أصحابه قالوا: نعم ما رأيت افعل، فكتب بسم الله الرحمن الرحيم من خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى من قريء عليه كتابي هذا من المؤمنين والمسلمين من أهل اليمن سلام عليكم فإني أحمد الله إليكم الذي لا إله إلا هو أما بعد فإن الله كتب على المؤمنين الجهاد وأمرهم أن ينفروا خفافا وثقالا ويجاهدوا بأموالهم وأنفسهم في سبيل الله، والجهاد فريضة مفروضة والثواب عند الله عظيم وقد استنفرنا المسلمين إلى جهاد الروم بالشام وقد سارعوا إلى ذلك وقد حسنت في ذلك نيتهم فسارعوا عباد الله ما سارعوا إليه ولتحسن نيتكم فيه، فإنكم إلى إحدى الحسنيين إما الشهادة، وإما الفتح والغنيمة، فإن الله تبارك وتعالى لم يرض لعباده بالقول دون العمل ولا يزال الجهاد لأهل عداوته حتى يدينوا بدين الحق ويقروا بحكم الكتاب حفظ الله لكم دينكم وهدى قلبكم وزكى أعمالكم ورزقكم أجر المجاهدين الصابرين وبعث بهذا الكتاب مع أنس رضي الله عنه. "كر".
14172 (مسند الصدیق) اسحاق بن بشر سے مروی ہے کہ ہم کو ابن اسحاق نے زہری سے بیان کیا، زہری کہتے ہیں : ہم کو ابن کعب نے عبداللہ بن ابی اوفی الخراعی (رض) سے نقل کیا :
عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) فرماتے ہیں : جب حضرت ابوبکر (رض) نے غزوہ روم کا ارادہ فرمایا تو علی، عمر، عثمان، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، سعید بن زید، ابوعبیدۃ بن الجراح اور بدری مہاجرین و انصاری صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہم کو بلایا۔ چنانچہ یہ سب حضرات حضرت ابوبکر (رض) کے پاس داخل ہوئے۔
راوی عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) فرماتے ہیں : میں بھی ان میں شامل تھا۔
حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا :
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا احصاء (شمار) ممکن نہیں ہے، اعمال ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے کلمہ کو جمع کردیا ہے، تمہیں آپس میں صلح جو بنادیا ہے ، تم کو اسلام کی ہدایت بخش دی ہے اور شیطان کو تم سے دور کردیا ہے۔ اب وہ اس بات کی طمع و لالچ نہیں کرسکتا کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ گے اور نہ تم کسی دوسرے الٰہ کو اپنا معبود بناسکتے ہو۔ پس عرب آج ایک ماں باپ کی اولاد ہیں۔ میں نے ارادہ کیا ہے کہ مسلمانوں کو شام کی طرف رومیوں سے جہاد کے لیے نکالوں تاکہ اللہ پاک مسلمانوں کو تقویت عطا کرے اور اپنے کلمے کو اونچا کرے، اس کے علاوہ اس میں خود مسلمانوں کے لیے بھی بڑا اجر اور بہت بڑا فائدہ ہے۔ اس لیے کہ جو اس جنگ میں ہلاک ہوا وہ شہادت کا رتبہ پائے گا اور پھر جو اللہ کے ہاں نیکوں کے لیے ذخیرہ ہے وہ بہت بہتر ہے۔ اور جو زندہ رہے گا وہ مسلمانوں کے لیے مدافعت کار اور اللہ کے ہاں مجاہدین کا اجر پانے والا ہوگا۔ میری یہی رائے ہے جو میں نے سوچی ہے۔ کوئی بھی آدمی مجھے اپنی رائے دے سکتا ہے۔
حضرت عمر (رض) کی تقریر
چنانچہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا :
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو جس کو چاہتا ہے خیر کے ساتھ مخصوص کردیتا ہے اللہ کی قسم ! ہم نے جب بھی کسی خیر کی طرف سبقت کی مگر آپ ہم سے ہمیشہ سبقت لے گئے۔ یہ محض اللہ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے عطا کردیتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے۔ اللہ کی قسم ! میں بھی آپ کے کے ساتھ بالکل اسی رائے کے ساتھ ملاقات کرنے والا تھا۔ ابھی آپ نے یہی بات ذکر فرمادی۔ بیشک آپ کی رائے درست ہے اللہ پاک بھی آپ کو سیدھی راہوں کی توفیق نصیب کرے۔
آپ کافروں پر گھوڑوں کے پیچھے گھوڑے دوڑادیں ، پیادوں کے پیچھے پیادوں کی قطار باندھ دیں اور لشکروں پر لشکر بھیجنا شروع کردیں بیشک اللہ پاک اپنے دین کی نصرت فرمائے گا، اسلام اور اہل اسلام کو عزت عطا کرے گا۔
پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) اٹھے اور ارشاد فرمایا : اے خلیفہ رسول اللہ ! وہ اہل روم ہیں، سرخ رنگ والے فولاد اور سخت جنگجو لوگ ہیں۔ میرا خیال ہے کہ آپ دفعتاً ساری طاقت ان پر نہ لاگیں، بلکہ گھڑ سواروں کا ایک لشکر ان کی طرف بھیج دیں جو ان کے مضافات میں غارت گری کریں اور پھر واپس آپ کے پاس آجائے، بار بار ایسا کیا جائے ، اس سے وہ کمزور پڑیں گے اور ان کے مصافات سے مال غنیمت بھی حاصل ہوگا، اس سے مسلمان اپنے دشمن پر مزید قوی ہوجائیں گے۔ پھر آپ یمن کے دوردراز علاقوں اور ربیعہ ومضر کے ادھر ادھر نکل جانے والے قبائل پر لشکر بھیجیں۔ پھر ان سب لشکروں کو اپنے پاس جمع کرلیں اس کے بعد اگر آپ کا خیال ہو تو آپ خود اپنی سربراہی میں اہل روم (کے قلب) پر ہلہ بول دیں اگر چاہیں تو کسی کی سالاری میں لشکروں کو روانہ کردیں۔
پھر لوگ خاموش ہوگئے۔
حضرت ابوبکر (رض) نے پھر پوچھا : تم لوگوں کا کیا خیال ہے (مجھے مزید رائے دو ) ۔ چنانچہ حضرت عثمان بن عفان (رض) اٹھے اور فرمایا : میں آپ کو اپنے دین والوں کے لیے خیر خواہ خیال کرتا ہوں اور ان پر مشقت کرنے والا۔ پس جب آپ نے کوئی رائے دیکھ لی ہے جو عامۃ المسلمین کے لیے باعث خیر ہے تو بس اللہ پر بھروسہ کرکے اس پر عمل کر گزرئیے۔ بیشک آپ پر کوئی قدغن نہیں۔
یہ سن کر طلحہ، زبیر، سعد، ابوعبیدۃ، سعید بن زید اور دیگر حاضرین مہاجرین اور انصار نے کہا : عثمان نے درست کہا۔
آپ جو رائے مناسب سمجھیں اس پر عمل کریں۔ ہم نہ آپ کی مخالفت کریں گے اور نہ آپ کو تہمت لگائیں گے۔ اور بھی اس طرح کی ذکر کیں۔
حضرت علی (رض) جو حاضرین میں موجود تھے ابھی تک خاموش تھے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اے ابوالحسن (علی) ! آپ کی کیا رائے ہے ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا : اگر آپ اہل روم کی طرف نکلیں گے یا کسی کو بھی سالار بناکر بھیجیں گے ان کی مدد کی جائے گی انشاء اللہ ! حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اللہ پاک تمہیں بھی خیر کی خوشخبری عطا کرے، تم کو کہاں سے اس بات کا علم ہوا ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا :
میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے :
یہ دین ہر اس پر غالب ہو کر رہے گا جو اس سے دشمنی مول لے گا حتیٰ کہ یہ دین اور اس کے ماننے والے غالب آجائیں گے۔
حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : سبحان اللہ ! کیسی عمدہ حدیث ہے یہ، تم نے مجھے خوش کردیا اللہ بھی تمہیں خوش کرے۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمدوثناء کی جس کا وہ اہل ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجا اور پھر ارشاد فرمایا :
اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے تم پر اسلام کا انعام کیا ہے، جہاد کے ساتھ تمہارا اکرام کیا ہے اس دین کے ساتھ تم کو سارے ادیان پر فضیلت بخشی ہے۔ پس اے بندگان خدا شام ملک کی طرف اہل روم سے جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔ میں تم پر امیروں کو مقرر کردوں گا اور ان کے لیے جھنڈے بھی باندھ دوں گا۔ پس اپنے رب کی اطاعت کرو، اپنے امراء کی مخالفت نہ کرو اور اپنی نیتوں کو اور اپنے کھانے پینے کو درست رکھو۔
فان اللہ مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون،
بےشک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور وہ احسان کرنے والے ہیں۔
یہ سن کر لوگ خاموش ہوگئے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : واللہ ! اے مسلمانو کی جماعت ! کیا بات ہے تم خلیفہ رسول اللہ کو جواب نہیں دے رہے ؟ حالانکہ وہ تم کو اس کام کی طرف بلا رہے ہیں جس میں تمہاری بقاء ہے۔ ہاں اگر قریب کا سفر ہوتا اور آسان سفر ہوتا تو تم جلدی سے جواب دیتے۔
حضرت عمرو بن سعید (رض) نے فرمایا : اے ابن خطاب ! تو ہم کو مثالیں دیتے ہو منافقین کی مثالیں۔ تم ہم پر عیب لگاتے ہو، تم کو کیا رکاوٹ ہے تم نے کیوں جلدی نہیں کی ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : وہ جانتے ہیں کہ میں لبیک کہوں گا صرف ان کے پکارنے کی دیر ہے۔ اور وہ مجھے غزوہ پر بھیجیں تو میں بالکل تیار ہوں ۔ حضرت عمرو بن سعید نے فرمایا : ہم تمہارے لیے جنگ نہیں کریں گے بلکہ ہم اللہ کے لیے جنگ کریں گے ۔ حضرت عمر (رض) نے ان کو دعا دی : اللہ تم کو اچھی توفیق دے۔ تم نے اچھا کہا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت عمرو بن سعید کو فرمایا : بیٹھ جاؤ، اللہ تم پر رحم کرے ! عمر کے کہنے کا مقصد کسی مسلمان کو ایذاء دینا یا اس کو ملامت کرنا نہ تھا ان کا مقصد تو محض یہ تھا کہ زمین کی طرف جھکنے والے لوگ جہاد کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ۔
حضرت خالد بن سعید (رض) اٹھے اور فرمایا : خلیفہ رسول اللہ نے سچ کہا ۔ پھر عمرو بن سعید کو فرمایا : اے بھائی بیٹھ جاؤ۔ پھر حضرت خالد (رض) نے ارشاد فرمایا :
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جس نے محمد کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ وہ اس حق دین کو ہر دین پر غالب کردے۔ خواہ مشرکین کو برا کیوں نہ لگے۔ بیشک اللہ اپنے وعدے کو پورا کرنے والا ہے، اپنے دین کو غالب کرنے والا ہے، اپنے دشمن کو ہلاکت میں ڈالنے والا ہے۔ ہم مخالفت کرنے والے نہیں ہیں اور نہ اختلاف کرنے والے ہیں۔ آپ خیر خواہ شفیق اور مہربان حاکم ہیں۔ آپ جب بھی ہم سے کوچ کا تقاضا کریں گے ہم نکل پڑیں گے اور جب بھی آپ حکم کریں گے ہم اطاعت کریں گے۔
ان کی بات سن کر حضرت ابوبکر (رض) خوش ہوگئے اور فرمایا : اللہ تمہیں بھائی اور دوست کا اچھا بدلہ دے۔ تم رغبت کے ساتھ اسلام لائے، ثواب کی خاطر ہجرت کی۔ تم اپنے دین کو لے کر کفار سے بھاگے تھے تاکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرسکو۔ اللہ کا کلمہ بلند ہوجائے۔ پس اب تم لشکروالوں کے امیر ہو خوش ہوجاؤ اللہ تم پر رحم کرے۔ پھر عمرو واپس لوٹ گئے اور حضرت خالد بن سعید نیچے اتر گئے اور لشکر کی تیاری میں لگ گئے۔
حضرت ابوبکر (رض) نے بلال (رض) کو حکم فرمایا : لوگوں کو اعلان کرو کہ اے لوگو ! ملک شام میں رومیوں سے جہاد کے لیے نکلو۔ لوگوں نے دیکھ لیا تھا کہ ان کے امیر خالد بن سعید ہوں گے اور اس میں ان کو کچھ شک نہ تھا۔ پھر پہلا لشکر ترتیب دیدیا گیا۔ پھر دوسرے لوگ بھی معسکر میں اکٹھے ہونے لگے دس، بیس، تیس، چالیس، پچاس اور سو سو ہو کر لوگ ہر روز جمع ہونے لگے حتیٰ کہ ایک کثیر تعداد جمع ہوگئی۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) ایک دن لشکر گاہ میں آئے۔ آپ (رض) کے ساتھ دیگر صحابہ (رض) بھی تھے۔ آپ (رض) ان کے ہمراہ لشکر گاہ معسکر میں پہنچے۔ آپ (رض) نے وہاں ایک اچھی تعداد دیکھی، لیکن روم کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے ان کو کافی نہ سمجھا۔ چنانچہ آپ (رض) نے اپنے ساتھیوں کو فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے ، کیا اسی قدر لوگوں کو رومیوں سے جہاد کے لیے بھیجا جائے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں بھی تمام رومیوں کے لیے اتنی تعداد پر مطمئن نہیں ہوں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے دوسرے ساتھیوں سے پوچھا : تمہارا کیا خیال ہے ؟ انھوں نے عرض کیا : جو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : درست ہے ہمارا بھی یہی خیال ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : میں اہل یمن کے مسلمانوں کو خط نہ لکھوں ، ان کو ہم جہاد کی طرف بلاتے ہیں اور جہاد کے ثواب کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہ بات تمام ساتھیوں نے درست سمجھی اور عرض کیا آپ کا خیال بہت اچھا ہے، ایسا ہی کیجئے۔
چنانچہ حضرت ابوبکر (رض) نے لکھا :
اہل یمن کے نام ترغیبی خط
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خلیفہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے یمن کے ان مسلمانوں کی طرف جن پر یہ خط پڑھا جائے۔
تم سب کو سلام ہو۔
میں تم پر اللہ کی حمد کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اما بعد !
اللہ تعالیٰ نے مومنین پر جہاد کو فرض کردیا ہے، ان کو حکم دیا ہے کہ ہلکے ہوں یا بوجھل اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلیں ۔ اور اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کریں۔ جہاد ایک فریضہ ہے۔ جس کا ثواب اللہ کے ہاں عظیم ہے۔ ہم نے مسلمانوں سے تقاضا کیا ہے کہ وہ رومیوں سے جہاد کے لیے ملک شام کی طرف کوچ کریں۔ چنانچہ مسلمان اس کے لیے بہت جلد تیار ہوگئے ہیں اور ان کی نیت بھی اچھی ہے۔ پس اے بندگان خدا ! تم بھی جلدی اس طرف نکلو جہاں کے لیے دوسرے مسلمان تیار ہوچکے ہیں اور اپنی نیتوں کو درست رکھو بیشک تم دو نیکیوں میں سے ایک ضرور پانے والے ہو یا شہادت یا فتح اور غنیمت۔ بیشک اللہ پاک اپنے بندوں سے صرف ان کی بات پر راضی نہیں ہوتا بغیر عمل کے۔ اور جہاد دشمنوں کے لیے ہمیشہ جاری رہے گا حتیٰ کہ وہ دین حق پر آجائیں اور کتاب اللہ کے حکم پر اپنی گردنوں کو خم کردیں۔ پس اللہ تمہارے دین کی حفاظت فرمائے تمہارے قبول کو نور ہدایت سے منور فرمائے ، تمہارے اعمال کو پاکیزہ کرے اور تم کو صبر کرنے والے ثابت قدم مہاجرین کا ثواب عنایت کرے۔
پھر آپ (رض) نے یہ خط حضرت انس (رض) کے ہاتھوں ان کی طرف بھیج دیا۔ ابن عساکر

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔