HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

14175

14175- عن أبي سلمة بن عبد الرحمن ومحمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي وعبد الله بن البهي دخل حديث بعضهم في حديث بعض أن أبا بكر الصديق لما استعز بهدعا عبد الرحمن بن عوف وقال: أخبرني عن عمر بن الخطاب؟ فقال عبد الرحمن: ما تسألني عن أمر إلا وأنت أعلم به مني، فقال أبو بكر: وإن، فقال عبد الرحمن: هو والله أفضل من رأيك فيه، ثم دعا عثمان بن عفان فقال: أخبرني عن عمر، فقال: أنت أخبرنا به فقال على ذلك يا أبا عبد الله، فقال عثمان بن عفان: اللهم علمي به أن سريرته خير من علانيته وأنه ليس فينا مثله فقال أبو بكر: يرحمك الله والله لو تركته لما عدوتك وشاور معهما سعيد بن زيد أبا الأعور وأسيد بن الحضير وغيرهما من المهاجرين والأنصار فقال أسيد: اللهم أعلمه الخيرة بعدك يرضى للرضى ويسخط للسخط، الذي يسر خير من الذي يعلن ولم يل هذا الأمر أحد أقوى عليه منه، وسمع بعض أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بدخول عبد الرحمن وعثمان على أبي بكر وخلوتهما به؛ فدخلوا على أبي بكر فقال له قائل منهم: ما أنت قائل لربك إذا سألك عن استخلافك عمر علينا، وقد ترى غلظته، فقال أبو بكر: أجلسوني أبالله تخوفوني خاب من تزود من أمركم بظلم أقول: اللهم استخلفت عليهم خير أهلك، أبلغ عني ما قلت لك من وراءك، ثم اضطجع ودعا عثمان بن عفان فقال: اكتب بسم الله الرحمن الرحيم هذا ما عهد أبو بكر بن أبي قحافة في آخر عهده من الدنيا خارجا عنها وعند أول عهده بالآخرة داخلا فيها حيث يؤمن الكافر ويوقن الفاجر ويصدق الكاذب أني استخلفت عليكم بعدي عمر بن الخطاب فاسمعوا له وأطيعوا، وإني لم آل الله ورسوله ودينه ونفسي وإياكم خيرا، فإن عدل فذلك ظني به وعلمي فيه، وإن بدل فلكل امرئ ما اكتسب من الإثم، والخير أردت ولا أعلم الغيب: {وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ} والسلام عليكم ورحمة الله. ثم أمر بالكتاب فختمه فقال بعضهم: لما أملى أبو بكر صدر هذا الكتاب بقي ذكر عمر فذهب به قبل أن يسمي أحدا؛ فكتب عثمان أني قد استخلفت عمر بن الخطاب، ثم أفاق أبو بكر فقال: اقرأ علي ما كتبت، فقرأ عليه ذكر عمر فكبر أبو بكر وقال: أراك خفت [إن أقبلت] نفسي في غشيتيتلك فتختلف الناس فجزاك الله عن الإسلام وأهله خيرا، والله إن كنت لها لأهلا ثم أمره فخرج بالكتاب مختوما ومعه عمر بن الخطاب وأسيد بن سعيد القرظي فقال عثمان للناس: أتبايعون لمن في هذا الكتاب؟ قالوا: نعم فأقروا بذلك جميعا ورضوا به، وبايعوا ثم دعا أبو بكر عمر خاليا وأوصاه بما أوصاه به، ثم خرج من عنده فرفع أبو بكر يديه مدا فقال: اللهم إني لم أرد بذلك إلا صلاحهم: وخفت عليكم الفتنة فعملت فيهم ما أنت أعلم به واجتهدت لهم رأيي، فوليت عليهم خيرهم وأقواهم عليهم، وأحرصه على ما أرشدهم، وقد حضرني من أمرك ما حضر فاخلفني فيهم فهم عبادك ونواصيهم بيدك، أصلح لهم واليهم واجعله من خلفائك الراشدين يتبع هدي نبي الرحمة وهدي الصالحين بعده وأصلح له رعيته. "ابن سعد"
14175 ابوسلمۃ بن عبدالرحمن، محمد بن ابراہیم بن الحارث الیتمی اور عبداللہ بن البہی ان حضرات کے کلام کا خلاصہ ہے کہ :
جب حضرت ابوبکرصدیق (رض) کی وفات کا وقت قریب آگیا تو انھوں نے عبدالرحمن بن عوف کو بلایا اور فرمایا : مجھے عمر بن خطاب کے متعلق رائے دو ۔ حضرت عبدالرحمن نے فرمایا : آپ جس بات کے متعلق مجھ سے پوچھ رہے ہیں، آپ مجھ سے زیادہ اس کو بخوبی جانتے ہیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : پھر بھی تم کہو۔ حضرت عبدالرحمن (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! وہ آپ کی رائے سے بھی بڑھ کر افضل ہیں۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) نے عثمان (رض) بن عفان کو بلایا اور فرمایا : مجھے عمر کے متعلق اپنی رائے دو ۔ حضرت عثمان (رض) نے عرض کیا : آپ ہم سے زیادہ ان کے متعلق خبر رکھتے ہیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اس کے باوجود تم کہو اے ابوعبداللہ ! حضرت عثمان بن عفان (رض) نے عرض کیا : اللہ گواہ ہے، میں ان کے متعلق یہی علم رکھتا ہوں کہ ان کا باطن ان کے ظاہر سے اچھا ہے اور ہمارے درمیان ان جیسا۔ اچھا کوئی نہیں ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اللہ آپ رحم فرمائے۔ اللہ کی قسم ! اگر تم ان کا ذکر چھوڑ دیتے تو میں تمہاری مخالفت نہ کرتا۔ ان کے ساتھ حضرت ابوبکر (رض) نے ابوالا عور سعید بن زید، اسید بن حفیر اور دیگر مہاجرین اور انصار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی مشورہ کیا۔ حضرت اسید نے فرمایا : اللہ جانتا ہے میں ان کو آپ کے بعدسب سے بہتر سمجھتا ہوں جو رضائے الٰہی کے لیے راضی ہوتے ہیں اور پروردگار کی ناراضگی کی وجہ سے ناراض ہوتے ہیں۔ نیز ان کا اندر باہر سے اچھا ہے ، اس لیے اس حکومت پر ان سے بڑھ کر کوئی قوی شخص نہیں آسکتا۔
بعض صحابہ کرام نے عبدالرحمن اور عثمان کے حضرت ابوبکر (رض) کے پاس داخل ہونے کی اور تنہائی میں ان کے مشورہ کرنے کی خبر سنی تو وہ بھی حضرت ابوبکر (رض) کے پاس حاضر ہوگئے۔ ان میں سے ایک نے عرض کیا : اگر آپ کا پروردگار آپ سے پوچھ لے کہ آپ ہم پر عمر کو خلیفہ کیوں بنا کر آئے ہیں تو آپ اپنے رب کو کیا جواب دیں گے ؟ حالانکہ آپ ان کی سخت مزاجی کو خوب جانتے ہیں، حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا : مجھے بٹھا دو (پھر) فرمایا : کیا مجھے اللہ کا خوف دلاتے ہو، ستیاناس ہو اس کا جو تمہاری حکومت سے متعلق ظلم کا فیصلہ کرے۔ میں کہوں گا : اے اللہ ! میں نے ان پر تیرے بندوں میں سے سب اچھے کو خلیفہ چنا ہے۔ تم اپنے پیچھے والوں کو بھی میری طرف سے یہ خبر سنادینا۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) کروٹ پر لیٹ گئے پھر آپ (رض) نے عثمان بن عفان (رض) کو بلایا اور فرمایا : لکھو :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ وہ عہد نامہ ہے جو ابوبکر بن ابی قحافہ نے اپنی زندگی کے آخر میں دنیا سے نکلتے ہوئے اور اپنی اخروی زندگی کے شروع میں اس کے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا ہے، جس وقت کہ کافر بھی ایمان لے آتا ہے، فاجر (بھی خدا پر) یقین کرلیتا ہے، جھوٹا بھی سچ بولتا ہے، کہ میں اپنے بعدتم پر عمر بن خطاب کو خلیفہ منتخب کرتا ہوں، تم ان کی بات سننا اور ان کی اطاعت بجا لانا۔ میں نے (اس معاملے میں) اللہ سے، اس کے رسول سے، اس کے دین سے، اپنی جان سے اور تم سے بھلائی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی ہے۔ پس اگر وہ عدل و انصاف کرے گا تو یہی میرا اس کے متعلق گمان ہے اور یہی میں اس کے بارے میں جانتا ہوں۔ لیکن اگر وہ بدل جائے تو ہر انسان جو گناہ کرتا ہے اس کا خود ذمہ دار ہے۔ میں نے تو خیر کا ہی ارادہ کیا ہے اور میں غیب کا علم نہیں رکھتا۔
وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون۔
اور عنقریب وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا جان لیں گے کہ کس کروٹ پر پلٹتے ہیں۔
پھر آپ (رض) نے تحریر پر مہر لگانے کا حکم دیا۔
بعض راوی کہتے ہیں : جب حضرت ابوبکر (رض) نے تحریر کا پہلا حصہ کھلوالیا اور ابھی عمر (رض) کا ذکر باقی تھا کہ آپ (رض) پر بےہوشی طاری ہوگئی ابھی آپ نے کسی کا نام نہیں لکھوایا تھا۔ چنانچہ حضرت عثمان (رض) نے خود ہی لکھ دیا کہ ” میں عمر بن خطاب کو خلیفہ چنتا ہوں “ پھر حضرت ابوبکر (رض) کو بھی ہوش آگیا۔ آپ (رض) نے حضرت عثمان (رض) کو فرمایا : تم نے کیا لکھا ہے پڑھ کر سناؤ، چنانچہ حضرت عثمان (رض) نے ساری تحریر اور عمر (رض) کا نام بھی پڑھ کر سنادیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اللہ اکبر کا نعرہ مارا اور ارشاد فرمایا : میرے بےہوش ہوجانے پر تم کو میری جان کا خطرہ ہوگیا اور لوگوں کے اختلاف میں پڑجانے کا خطرہ تم نے بھانپ لیا۔ اللہ تم کو اسلام اور اہل اسلام کی طرف سے اچھا بدلہ نصیب کرے۔ اللہ کی قسم ! تم خود بھی اپنا نام لکھنے کے اہل تھے۔ تم سے اسی اچھائی کی توقع تھی۔
چنانچہ (تحریر مکمل کرنے اور مہر کرنے کے بعد آپ (رض)) نے حکم دیا اور حضرت عثمان (رض) تحریر لے کر باہر آئے۔ آپ (رض) کے ساتھ حضرت عمر بن خطاب اور اسید بن سعید القرظی بھی تھے۔ حضرت عثمان (رض) نے لوگوں سے پوچھا : کیا تم بیعت کرتے ہو اس شخص کی جس کا نام اس خط میں ہے ؟ لوگوں نے کہا : ہاں، سب نے اس کا اقرار کیا، اس پر راضی ہوگئے اور اس پر بیعت بھی کرلی ۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت عمر (رض) کو تنہائی میں بلایا اور نصیحتیں اور وصیتیں کیں جو بھی کیں۔ پھر حضرت عمر (رض) آپ کے پاس سے نکل آئے۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر دعا کی :
اے اللہ ! میں نے اس میں ان لوگوں کی خیر کا ارادہ کیا ہے، مجھے ان پر فتنے کا خوف تھا، اس لیے میں نے ان میں یہ تقرر کردیا ہے، جس کو آپ خوب جانتے ہیں۔ میں نے ان کے بارے میں اپنی اچھی رائے اختیار کی ہے۔ میں نے ان پر ان کے سب سے اچھے اور سب سے قوی شخص کو والی بنادیا ہے، جو ان میں سب سے زیادہ حریص ہے ان کی بھلائی کا۔ اب میرے پاس آپ کا حکم آچکا ہے آپ ان میں میرے نائب کو بہتر ثابت کیجئے گا۔ یہ سب تیرے بندے ہیں اور ان کی پیشانی آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اے اللہ ! ان کے لیے ان کے والی کو صالح بنادے اور اس والی کو اپنے خلفاء راشدین میں سے بنادے، جو نبی الرحمت کی ہدایت اور صالحین کے طریقے کی پیروی کرے اور ان کی رعایا کو بھی ان کے لیے صالح بنادے۔ ابن سعد

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔