HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

18539

18539- عن ابن مسعود قال: كنت إذا رأيت وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم قلت كأنه دينار هرقلي. "كر".
حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی زبان کے موتیوں کو خزانہ کرتے تھے ہاں مگر جہاں کسی کی مدد مقصود ہوتی تھی وہاں ان موتیوں کو نچھاور کرتے تھے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے دلوں کو محبت کے رشتے میں جوڑتے تھے ۔ ان کو تفرقہ میں پڑنے سے بچاتے تھے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قوم کے سردار کی عزت و تکریم فرماتے تھے اور اسی کو ان پر دوبارہ سردار مقرر فرما دیتے تھے ۔ لوگوں کو تکلیف اور اذیت سے بچاتے اور ان کی حفاظت وچوکیداری فرماتے تھے اور کسی کے ساتھ بدخلقی یا سختی سے پیش نہ آتے تھے ۔ اپنے اصحاب کی خبر گیری کرتے تھے ۔ لوگوں سے ان کے مشاغل ومصروفیات کو پوچھتے رہتے تھے ۔ اچھے اور بھلے مانس کی تحسین اور اچھائی کرتے اس کو تقویت پہنچاتے ۔ بد کو برائی سے ڈانٹتے اس کو برائی میں پڑنے سے کمزور کرتے ۔ اعتدال کو سامنے رکھتے ۔ اختلاف سے اجتناب برتتے تھے ۔ کبھی غافل وبے پروانہ ہوتے تھے اس ڈر سے کہ کہیں لوگ غفلت کا شکار نہ ہوجائیں برائی کی طرف مائل نہ ہوجائیں ۔ ہر حال آپ کے ہاں انجام کو پہنچتا تھا ۔ حق سے کوتاہی برتتے اور نہ اس سے تجاوز کرتے تھے ۔ لوگوں میں شریف اور عمدہ لوگ آپ کے قریب ترین رہتے تھے ۔ آپ کے ہاں سب سے زیادہ فضیلت والا وہ ہوتا تھا جو سب کے لیے زیادہ خیر خواہ اور نفع رساں ہوتا ۔ اور آپ کے نزدیک عظیم ترین شخص وہ ہوتا تھا جو لوگوں کے ساتھ غمخواری برتنے والا اور ان کے دکھ سکھ بانٹنے والا ہوتا تھا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی نشست وبرخاست صرف خدا کو یاد کرنے والوں کے پاس رکھتے تھے ۔ ادھر ادھر خود بیٹھتے تھے اور نہ اپنے اصحاب کو بیٹھنے دیتے تھے ۔ جب کسی منعقد مجلس میں پہنچتے تو جہاں بیٹھنے کی جگہ ملتی بیٹھ جاتے تھے اور دوسروں کو بھی اسی کا حکم دیتے تھے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی مجلس کے سارے شرکاء کو ان کی عزت و مرتبہ دیتے تھے چنانچہ کوئی شخص یہ گمان نہ کرسکتا تھا کہ فلاں شخص حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک مجھ سے زیادہ عزت و مرتبہ والا ہے۔ جو کوئی شخص آپ کے پاس آکر بیٹھتا یا کسی ضرورت کے تحت آپ کے پاس آتا تو آپ اپنے آپ کو اس کے ساتھ روکے رکھتے حتی کہ وہ خود ہی خوشدلی کے ساتھ لوٹ جاتا ۔ جو کوئی شخص کسی حاجت کا آپ سے سوال کرتا اس کو رد نہ فرماتے اور اس کی حاجت پوری نہ فرما سکتے تو نرمی و محبت کے میٹھے بول کے ساتھ اس کو جواب دیتے ۔ سب لوگ آپ کے ہاں سے فراخی و کشادگی اور اچھے اخلاق کا برتاؤ پاتے تھے ۔ جس کے نتیجے میں آپ ان کے شفیق باپ اور وہ آپ کے بیٹے بن گئے تھے ۔ حقیقت میں تمام لوگ آپ کے ہاں برابر رتبہ والے تھے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس بردباری شرم وحیاء صبر اور امانت داری کی مجلس ہوا کرتی تھی ۔ آپ کی مجلس میں آواز بلند ہوتی تھی اور نہ کسی کی عزت پر آنچ آتی تھی اور نہ کسی کی لغزش پر نوک جھونک ہوا کرتی تھی ، سب لوگ تقوی و تواضع کے ساتھ باہم برابری ، ہمدردی وغم خواری کا برتاؤ کرتے تھے ۔ سب لوگ بڑے کی تعظیم کرتے تھے اور چھوٹے پر شفقت کرتے تھے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ کشادہ روئی اور نرم اخلاق کے ساتھ ملتے جلتے تھے ۔ نرم گوشہ اور نرم رویہ رہتے تھے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بد خلق نہ تھے ۔ نہ سخت خو تھے ، نہ شوروشغب کرنے والے ، نہ فحش بات کرنے والے تھے ، نہ عیب لگانے والے تھے اور نہ خوش آمد ومدح کرنے والے تھے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ناپسند چیزوں سے غفلت برتتے تھے ۔ کوئی امید وآسرا رکھنے والا آپ سے ناامید نہ ہوتا تھا ۔ اور نہ ناکام ہو کر واپس لوٹتا تھا ۔ لوگوں کو تین باتوں میں آزاد چھوڑ دیا تھا ۔ یعنی کسی کی مذمت کرتے تھے اور نہ اس کو عار دلاتے تھے نہ کسی کی بری بات کی ٹوہ میں رہتے تھے اور ہمیشہ اسی موضوع میں گفتگو فرماتے تھے جس میں کسی ثواب کی امید ہوتی تھی ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کلام ارشاد فرماتے تو حاضرین مجلس اپنے سروں کو جھکا لیتے تھے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بات کرتے تو سب خاموش ہوجاتے ، اور جب آپ خاموش ہوتے ۔ تب ہی لوگ اپنی بات کرتے ۔ حاضرین مجلس آپ ی موجودگی میں کسی بات پر تنازع نہ کرتے تھے ۔ جو کوئی آپ کی خدمت میں کوئی بات کرتا تو سب خاموش ہوجاتے جب تک وہ فارغ نہ ہو، سب کی بات آپ کے ہاں بڑے کی بات ہوتی تھی ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات پر ہنستے تھے جس پر دوسرے ہنستے تھے ۔ اور اس پر تعجب فرماتے تھے جس پر دوسرے تعجب فرماتے تھے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غریب کی بات پر صبر کرتے خواہ وہ بولنے میں ظلم کرتا ، اور آپ کے اصحاب اس کو آپ کے پاس سے کھینچتے ، آپ ان کو فرماتے جب کوئی حاجت والا اپنی حاجت کا سوال کرے تو (اس کو زجر و تنبیہ کے بجائے) صحیح بات کی طرف رہنمائی کرو ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی سے تعریف کو قبول نہ فرماتے تھے ہاں مگر اس شخص سے جو کسی احسان کا بدلہ اتارنا چاہتا ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کی بات کو کاٹتے نہ تھے حتی کہ وہ (خودہ ہی بات پوری کرلیتا) یا ناجائز بات کرتا تب آپ اس کو منع فرما دیتے یا اٹھ کھڑے ہوتے ۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔