HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

18768

18768- عن مالك بن أوس بن الحدثان قال: أرسل إلي عمر بن الخطاب فجئته حين تعالى النهار، قال: فوجدته في بيته جالسا على سرير مفضيا إلى رماله متكئا على وسادة من أدم، فقال لي: يا مال إنه قد دف3 أهل أبيات من قومك وقد أمرت فيهم برضخ فخذه فاقسمه بينهم، قال فقلت: لو أمرت بهذا غيري، قال: فخذه يا مال قال: فجاء يرفأ1، فقال: هل لك يا أمير المؤمنين في عثمان وعبد الرحمن بن عوف والزبير وسعد، فقال عمر: نعم فأذن لهم، فدخلوا، ثم جاء فقال: هل لك في عباس وعلي؟ قال: نعم، فأذن لهما، قال عباس: يا أمير المؤمنين اقض بيني وبين هذا، فقال بعض القوم: أجل يا أمير المؤمنين فاقض بينهم وأرحهم، قال مالك: فخيل إلي أنهم كانوا قدموهم لذلك، قال عمر: اتئد أنشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض أتعلمون أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا نورث ما تركنا صدقة؟ قالوا: نعم.فأقبل على عباس وعلي فقال: أنشدكما بالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض أتعلمان أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا نورث ما تركنا صدقة؟ قالا: نعم، قال عمر: فإن الله خص رسوله صلى الله عليه وسلم بخاصة لم يخص بها أحدا غيره قال: {مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى} ما أدري هل قرأ الآية التي قبلها أم لا؟ قال: فقسم رسول الله صلى الله عليه وسلم بينكم أموال بني النضير، فوالله ما استأثر بها عليكم ولا أخذها دونكم حتى بقي هذا المال، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يأخذ منه نفقة سنة، ثم يجعل ما بقي أسوة المال، ثم قال: أنشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض أتعلمون ذلك؟ قالوا: نعم، ثم نشد عليا وعباسا بمثل ما نشد به القوم أتعلمان ذلك؟ قالا: نعم، قال: فلما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أبو بكر: أنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجئتما تطلب ميراثك من ابن أخيك ويطلب هذا ميراث امرأته من أبيها، فقال أبو بكر: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا نورث ما تركنا صدقة، فرأيتماه [كاذبا آثما غادرا خائنا] والله يعلم إنه لصادق بار راشد تابع للحق، ثم توفي أبو بكر، فقلت: أنا ولي رسول الله وولي أبي بكر، فرأيتماني كاذبا آثما غادرا خائنا والله يعلم إني لصادق بار راشد تابع للحق فوليتها ثم جئتني أنت وهذا وأنتما جميع وأمركما واحد، فقلتما: ادفعها إلينا، فقلت إن شئتما دفعتها إليكما على أن عليكما عهد الله وميثاقه أن تعملا فيها بالذي كان يعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر، فأخذتماها بذلك، فقال: أكذلك كان؟ قالا: نعم قال: ثم جئتماني لأقضي بينكما لا والله، لا أقضي بينكما بغير ذلك حتى تقوم الساعة، فإن عجزتما عنها فرداها إلي. "عب حم وأبو عبيد في الأموال، وعبد بن حميد خ م د ت ن وأبو عوانة حب وابن مردويه هق".
18768 ۔۔۔ مالک بن اوس بن الحدثان سے مروی ہے کہ مجھے سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے بلایا میں دن میں آپ کے پاس حاضر ہوا ۔ میں نے آپ کو اپنے گھر میں چارپائی پر لیٹے دیکھا ، وہ چارپائی کھجور کی چھال سے بنی ہوئی تھی اور ایک چمڑے کے تکیے پر آپ نے ٹیک لگا رکھی تھی ۔ آپ (رض) نے مجھے دیکھ کر فرمایا : اے مال (مالک کا مخفف) تیری قوم والے میرے پاس دیر کردیتے ہیں آنے میں ، میں نے ان کے لیے اس تھوڑے سے مال کا حکم دیا تھا تم یہ مال مجھ سے وصول کرلو اور اپنی قوم والوں کے درمیان تقسیم کردینا ۔ میں نے عرض کیا : اگر آپ مجھے کوئی اور حکم دیتے ۔ لیکن آپ (رض) نے فرمایا : تم لے لو ۔ مالک (رض) (پھر اصل واقعہ جو مقصود بیان ہے) بیان فرماتے ہیں پھر سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) کا غلام یرفا آیا اور عرض کیا یا امیر المؤمنین عثمان (رض) ، عبدالرحمن بن عوف (رض) ، زبیر (رض) اور سعد (رض) آنا چاہتے ہیں۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے فرمایا : ہاں ان کو (اجازت دو ) غلام نے ان کو اندر آنے کی اجازت دی ، یہ سب حضرات اندر تشریف لائے ، غلام دوبارہ حاضر ہوا اور عرض کیا : حضرت علی (رض) ، اور عباس (رض) اندر آنا چاہتے ہیں۔ فرمایا ہاں ۔ چنانچہ غلام نے ان کو بھی بلایا ۔ حضرت عباس (رض) نے عرض کیا : یا امیر المؤمنین ! میرے اور اس کے درمیان فیصلہ فرما دیں ۔ پہلے آنے والے لوگوں میں سے کسی نے کہا ہاں امیر المؤمنین ان کے درمیان فیصلہ کرکے ان کو راحت دے دیں ، راوی مالک (رض) فرماتے ہیں میرا خیال ہوا کہ انھوں نے ان حضرات کو پہلے اس کام کے لیے اندر بھیجا تھا ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے فرمایا : صبر ! صبر ! میں تم کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں جس کی اجازت اور مشیت کے ساتھ آسمان و زمین اپنی اپنی جگہ پر قائم ہیں ! کیا تم جانتے ہو کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا : ہمارا کوئی وارث نہیں بنتا ۔ ہم (انبیاء) جو چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ لوگوں نے کہا : ہاں (ایسا ہی فرمایا تھا) پھر سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) حضرت عباس (رض) اور سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کو بھی یونہی واسطہ دیا کہ میں تم کو واسطہ دیتا ہوں اللہ کا جس کی مشیت کے ساتھ آسمان و زمین اپنی اپنی جگہ قائم ہیں کیا تم دونوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا تھا کہ ہم کسی کو وارث نہیں بناتے ، ہم جو چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ دونوں نے کہا : ہاں ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے فرمایا : اللہ پاک نے اپنے رسول کو ایسی خصوصیات کے ساتھ خاص فرمایا تھا جو کسی اور کو مرحمت نہیں ہوئی تھیں ۔ فرمان خداوندی ہے : (آیت)” ما افاء اللہ علی رسولہ من اھل القری فللہ وللرسول ولذی القربی “۔ للہ پاک اپنے رسول پر جو بستی والوں کی غنیمتیں اتارے وہ اللہ اور رسول اور قرابت داروں کے لیے ہیں۔ مالک (رض) فرماتے ہیں : مجھے معلوم نہیں آپ (رض) نے اس سے پہلی والی آیت بھی تلاوت فرمائی تھی یا نہیں ۔ خیر تو پھر ارشاد فرمایا : پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی نضیر کے اموال تمہارے درمیان تقسیم فرمائے ۔ اللہ کی قسم ! تم پر کسی کو ترجیح نہیں دی اور نہ تم سے چھپا کر کچھ لیا ، حتی کہ یہ مال باقی بچ گیا ۔ (یہ مال ایک باغ تھا) پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے سال بہ سال خرچہ لیتے تھے اور بقیہ بچ جانے والا مال اصل مال میں شامل کردیتے تھے ۔ (جس سے اس کی باغبانی ونگہداشت انجام پذیر ہوتی) پھر سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : میں تم لوگوں کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم اس بات کو جانتے ہو ؟ لوگوں نے کہا : ہاں ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علی (رض) کو عباس (رض) کو بھی اسی طرح اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا انھوں نے بھی اثبات بھی جواب دیا ۔ پھر سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام کا والی بنتا ہوں ۔ (یعنی جس مال سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سال سال کا نفقہ لے ک گھر کا خرچ چلاتے تھے اب سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) اس مال سے آپ کی بیویوں کا خرچ چلاتے تھے) ۔ پھر تم دونوں سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس آئے ، تم (اے عباس) اپنے بھتیجے کی میراث لینے آئے تھے اور تم (اے علی) اپنی بیوی کے باپ کی میراث لینے آئے تھے ۔ لیکن سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : ہم کسی کو وارث نہیں بناتے ، جو ہم چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ لیکن تم نے ان کو جھوٹا ، گناہ گار ، عذر کرنے والا ، اور خائن سمجھا ، حالانکہ اللہ جانتا ہے میں سچا ، نیکو کار ، سیدھی راہ پر قائم اور حق کی اتباع کرنے والا ہوں ۔ پھر میں اس مال کا والی بنا پھر تم دونوں میرے پاس بھی آئے اور اس وقت تم دونوں میں اتفاق تھا تم دونوں کی ایک بات تھی ، تم نے کہا وہ مال ہمیں دے دو ، میں نے کہا : اگر تم چاہو تو میں تم کو دے دیتا ہوں اس شرط پر کہ تم اللہ کو عہد ومثیاق دود کہ تم اس مال میں وہی تصرف اور کام کرو گے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کرتے رہے ۔ پھر تم نے اس مال کو لے لیا ، کیا ایسا ہی ہوا تھا ؟ دونوں نے کہا ہاں ۔ پھر سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے فرمایا : اب تم دوبارہ میرے پاس آئے ہو کہ اب میں دونوں کے درمیان یہ مال تقسیم کر دوں ۔ نہیں ، اللہ کی قسم ! ہرگز نہیں قیامت قائم ہونے تک میں اس کو تقسیم نہیں کروں گا ۔ اگر تم اس کی دیکھ بھال نہیں کرسکتے تو مجھے واپس کر دو ۔ (عبدالرزاق ، مسند احمد ، ابو عبید فی الاموال ، عبد بن حمید ، بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابو عوانۃ ، ابن حبان ، ابن مردویۃ ، السنن للبیہقی)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔