HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

2914

2914- "الربوة الرملة". "ابن جرير وابن أبي حاتم وابن مردويه عن مرة البهزي".
2914: " الربوۃ " سے مراد الرملہ ہے۔ ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ بروایت مرۃ البھری (رض) ۔
تشریح و کلام : فرمان الہی ہے :
وجعلنا ابن مریم وامہ ایۃ واوینہما الی ربوۃ ذات قرار و معین۔ المومنون : 50
اور ہم نے مریم کے بیٹے (عیسیٰ) اور ان کی ماں کو (اپنی) نشانی بنایا تھا۔ اور ان کو رہنے کے لائق ایک اونچی جگہ میں جہاں نتھرا ہوا پانی جاری تھا پناہ دی تھی۔
آیت میں ربوۃ مقام کا جو ذکر ہے اس سے رملہ فلسطین کا شہر مراد ہے۔ یہی حدیث کا مطلب ہے لیکن اس روایت کو ضعیف الجامع 3148 پر ضعیف قرار دیا گیا ہے۔
شاید یہ وہی ٹیلہ یا اونچی زمین ہو جہاں وضع حمل کے وقت حضرت مریم تشریف رکھتی تھیں۔ چنانچہ سورة مریم کی آیات " فناداھا من تحتہا ان لا تحزنی قد جعل ربک تحتک سریا وھزی الیک بجذع النخلۃ تساقط علیک رطبا جن یا " دلالت کرتی ہیں کہ وہ جگہ بلند تھی۔ نیچے چشمہ یا نہر بہہ رہی تھی۔ اور کھجور کا درخت نزدیک تھا (کذا فسرہ ابن کثیر (رح)) لیکن عموماً مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ حضرت مسیح کے بچپن کا واقعہ ہے۔ ایک ظالم بادشاہ ہیرودوس نامی نجومیوں سے سن کر کہ حضرت عیسیٰ کو سرداری ملے گی، لڑکپن ہی میں ان کا دشمن ہوگیا اور قتل کے درپے تھا۔ حضرت مریم الہام ربانی سے ان کو لے کر مصر چلی گئیں اور اس ظالم کے مرنے کے بعد پھر شام واپس چلی آئیں۔ چنانچہ انجیل متی میں بھی یہ واقعہ مذکور ہے اور مصر کا اونچا ہونا باعتبار رود نیل کے ہے ورنہ غرق ہوجاتا اور ماء معین ورود نیل ہے بعض نے ربوہ (اونچی جگہ) سے مراد شام یا فلسطین لیا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ جس ٹیلہ پر ولادت کے وقت موجود تھیں وہیں اس خطرہ کے وقت بھی پناہ دی گئی ہو۔ واللہ اعلم۔ بہرحال اہل اسلام میں کسی نے ربوہ سے مراد کشمیر نہیں لیا۔ نہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی قبر کشمیر میں بتلائی۔ البتہ ہمارے زمانہ کے بعض زائغین نے ربوہ سے کشمیر مراد لیا ہے اور وہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قبر بتلائی ہے جس کا کوئی ثبوت تاریخی حیثیت سے نہیں۔ محض کذب و دروغ بیانی ہے۔ محلہ خان یار شہر سری نگر میں جو قبر یوز آسف کے نام سے مشہور ہے اور جس کی بابت تاریخ اعظمی کے مصنف نے محض عام افواہ نقل کی ہے کہ لوگ اس کو کسی نبی کی قبر بتاتے ہیں وہ کوئی شہزادہ تھا اور دوسرے ملک سے یہاں آیا " اس کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قبر بتانا پرلے درجہ کی بےحیائی اور سفاہت ہے۔ ایسی اٹکل پچو قیاس آرائیوں سے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی حیات کو باطل ٹھہرانا بجز خبط اور جنون کے کچھ نہیں اگر اس قبر کی تحقیق مطلوب ہو اور یہ کہ یوز آسف کون تھا تو جناب منشی حبیب اللہ صاحب امرتسری کا رسالہ دیکھو جو خاص اس موضوع پر نہایت تحقیق و تدقیق سے لکھا گیا ہے اور جس میں اس مہمل خیال کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔ فجزاہ اللہ تعالیٰ عنا و عن سائر المسلمین احسن الجزاء۔ بحوالہ تفسیر عثمانی۔
کلام : حدیث بالا ضعیف ہے۔ دیکھئے ضعیف الجامع 3138 ۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔