HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

29993

29993- الواقدي حدثني محمد بن عبد الله عن الزهري عن عروة ومحمد صالح عن عاصم بن عمرو بن رومان قالوا: دعا عتبة يوم بدر إلى المبارزة ورسول الله صلى الله عليه وسلم في العريش وأصحابه على صفوفهم فاضطجع فغشيه نوم غلبه وقال: "لا تقاتلوا حتى أوذنكم وإن كبسوكم فارموهم ولا تسلوا السيوف حتى يغشوكم"، قال أبو بكر:يا رسول الله قد دنا القوم وقد نالوا منا فاستيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد أراه الله إياهم في منامه قليلا وقلل بعضهم في أعين بعض، ففزع رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو رافع يديه يناشد ربه ما وعده من النصر ويقول: اللهم إن تظهر على هذه العصابة يظهر الشرك ولا يقم لك دين وأبو بكر يقول: والله لينصرنك الله وليبيض وجهك وقال ابن رواحة: يا رسول الله إني أشير عليك ورسول الله صلى الله عليه وسلم أعظم وأعلم بالأمر أن يشار عليه إن الله أجل وأعظم من أن ينشد وعده، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: يا ابن رواحة ألا لينشد الله وعده إن الله لا يخلف الميعاد"، وأقبل عتبة يعمد على القتال، قال خفاف بن إيماء: فرأيت أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم بدر وقد تصاف الناس وتزاحفوا لا يسلون السيوف وقد انتضوا القسي وقد تترس بعضهم على بعض بصفوف متقاربة لا فرج بينها والآخرون قد سلوا السيوف حتى طلعوا فعجبت من ذلك، فسألت بعد ذلك رجلا من المهاجرين فقال: أمرنا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أن لا نسل السيوف حتى يغشونا"، فدنا الناس بعضهم من بعض فخرج عتبة وشيبة والوليد حتى فصلوا من الصف ثم دعوا إلى المبارزة فخرج إليهم فتيان ثلاثة من الأنصار وهم بنو عفراء معاذ ومعوذ وعوف بنو الحارث، فاستحيا رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذلك وكره أن يكون أول قتال لقي المسلمون فيه المشركين في الأنصار، فأحب أن تكون الشوكة لبني عمه وقومه، فأمرهم فرجعوا إلى مصافهم وقال لهم خيرا. ثم نادى منادي المشركين يا محمد أخرج إلينا الأكفاء من قومنا، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: " يا بني هاشم قوموا فقاتلوا لحقكم الذي بعث الله به نبيكم إذ جاؤوا بباطلهم ليطفئوا نور الله"، فقام حمزة بن عبد المطلب وعلي بن أبي طالب وعبيدة بن الحارث بن المطلب بن عبد مناف، فمشوا إليهم فقال عتبة تكلموا لنعرفكم، وكان عليهم البيض فأنكروهم، فإن كنتم أكفاء قاتلناكم، فقال حمزة بن عبد المطلب أنا حمزة بن عبد المطلب أنا أسد الله وأسد رسوله، قال عتبة كفؤ كريم ثم قال عتبة: وأنا أسد الحلفاء، من هذا معك؟ قال: علي بن أبي طالب وعبيدة بن الحارث قال: كفؤان كريمان، ثم قال عتبة لابنه: قم يا وليد فقام الوليد وقام إليه علي وكان أصغر النفر فاختلفا ضربتين فقتله علي، ثم قام عتبة وقام إليه حمزة فاختلفا ضربتين فقتله حمزة، ثم قام شيبة وقام إليه عبيدة بن الحارث وهو يومئذ أسن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فضرب شيبة رجل عبيدة بذباب السيف فأصاب عضلة ساقه فقطعها، وكر حمزة وعلي على شيبة فقتلاه واحتملا عبيدة فجاءا به إلى الصف، ومخ ساقه يسيل فقال عبيدة: " يا رسول الله ألست شهيدا قال: بلى" قال: أما والله لو كان أبو طالب حيا لعلم أنا أحق بما قال منه حين يقول: كذبتم وبيت الله يبزى محمد ... ولما نطاعن دونه ونناضل ونسلمه حتى نصرع دونه ... ونذهل عن أبنائنا والحلائل ونزلت هذه الآية {هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ} حمزة أسن من النبي صلى الله عليه وآله وسلم بأربع سنين، والعباس أسن من النبي صلى الله عليه وسلم بثلاث سنين، قالوا: وكان عتبة بن ربيعة حين دعا إلى البراز قام إليه أبو حذيفة يبارزه فقال له رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: "اجلس" فلما قام إليه النفر أعلى أبو حذيفة بن عتبة على أبيه فضربه. "كر".
29993 ۔۔۔ واقدی محمد بن عبداللہ زہری عروہ ومحمد صالح بن عمرو بن رومان کے سلسلہ سے مروی ہے کہ بدر کے دن عتبہ مدمقابل کے لیے للکارا جبکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جھونپڑی میں تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین صف بستہ تھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نیند کا غلبہ ہوا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھوڑی دیر کے لیے لیٹ گئے (نیند کا غلبہ کیا تھا بلکہ عین حالت جنگ میں رحمت خداوندی نے ڈھانپ لیا تھا اس کی وجہ سے ڈھانپ لیا تھا جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے ” اذ یغشیکم النعاس امنۃ “۔ (الایۃ) اور فرمایا اس وقت تک جنگ شروع نہیں کرنی جب تک میں تمہیں اجازت نہ دوں اگر دشمن حرکت میں آجائے ان پر تیر برساؤ اور تلواریں نہ سونتو حتی کہ دشمن تمہیں ڈھانپ نہ لے تھوڑی دیر بعد ابوبکر (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دشمن قریب آچکا ہے اور ہمیں گھیرے میں لے رہا ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیدار ہوئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو خواب میں کفار کی تعداد کم کرکے دکھائی اور یوں مسلمانوں کی نظر میں بھی کفار کم دکھائی دینے لگے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھبرا کر بیدار ہوئے اور دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر رب تعالیٰ سے دعائیں مانگنی شروع کیں اور کہا : یا اللہ ! اگر تو نے کفار کو اس جماعت پر غالب کردیا شرک غالب ہوجائے گا ابوبکر (رض) نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ آپ کی ضرور مدد کرے گا اور آپ کو خوش وخرم کرے گا ، ابن رواحہ (رض) نے کہا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشورہ دیئے جانے سے بالاتر ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی مشورہ دیئے جانے سے بالاتر ہے آپ نے فرمایا اے ابن رواحہ : کیا اللہ تعالیٰ کو اس کے وعدے کا واسطہ نہ دیا جائے اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا اتنے میں عتبہ جنگ کے لیے سامنے آیا خفاف بن ایماء (رض) کہتے ہیں میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو بدر کے دن دیکھا جبکہ لوگوں نے صفیں باندھ رکھی تھیں اور ابھی تلواریں نہیں سونتی تھیں اور تیر کمانوں میں ڈال رکھے تھے جبکہ بعض لوگ دوسروں کی صفوف کو اپنے آگے ڈھال بنائے ہوئے تھے ، صفوں میں خلا نہیں تھا جبکہ بعض لوگوں نے تلواریں سونت لی تھیں میں نے بعد میں مہاجرین میں سے ایک شخص سے اس بارے میں سوال کیا ۔ اس نے کہا : ہمیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ اس وقت تک ہم تلواریں نہ سونتیں جب تک دشمن ہمیں گھیر نہ لے لوگ ایک دوسرے کے قریب ہوئے اتنے میں عتبہ ، شیبہ اور ولید صف سے نکل کر باہر آئے پھر مبارزت کا نعرہ لگایا چنانچہ ان کی مبارزت پر انصار کے تین نوجوان معاذ، معوذ ، اور عوف بن حارث نکلے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے شرم آئی کہ جنگ کے شروعات میں مشرکین کے مدمقابل انصار ہوں لہٰذا آپ نے چاہا کہ یہ کانٹا آپ کی قوم کے افراد کے لیے مختص ہو آپ نے انصار کو واپس کردیا اور ان کی حوصلہ افزائی میں اچھی بات کہی پھر مشرکین کی صدا سنائی دی ۔ وہ یہ کہ اے محمد ہماری قوم سے ہمارے ہمسروں کو نکالو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے بنی ہاشم کھڑے ہوجاؤ اور اس حق کے لیے لڑو جس کے ساتھ اللہ نے تمہارے نبی کو مبعوث کیا ہے جبکہ یہ مشرکین اللہ کے نور کو بجھانے آئے ہیں اتنے میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب علی بن ابی طالب اور عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب بن عبد مناف (رض) کھڑے ہوئے چلتے چلتے مشرکین کے پاس آئے عتبہ نے کہا بات کرو تاکہ ہم تمہیں پہچان لیں چونکہ جنگی ٹوپیاں ہونے کی وجہ سے مشرکین انھیں پہچان نہ سکے ۔ کہا : اگر تم ہمارے ہمسر ہوئے ہم تمہارے ساتھ لڑیں گے حضرت حمزہ (رض) نے کہا : میں حمزہ بن عبدالمطلب اللہ کا شیر اور اللہ کے رسول کا شیر ہوں عتبہ نے کہا : کیا خوب مدمقابل ہے پھر عتبہ نے کہا : میں حلیفوں کا شیر ہوں تمہارے ساتھ یہ دو کون ہیں حمزہ (رض) نے جواب دیا : یہ علی بن ابی طالب اور عبیدہ بن حارث ہیں عتبہ نے کہا : یہ بھی اچھے ہمسر ہیں پھر عتبہ نے اپنے بیٹے سے کہا : اے ولید کھڑے ہوجاؤ ولید کھڑا ہو اس کی طرف حضرت علی (رض) بڑھے حضرت علی (رض) اپنے دونوں ساتھیوں سے عمر میں چھوٹے تھے ، چنانچہ دونوں میں دو دو ہاتھ ہوئے تاہم حضرت علی (رض) نے ولید کو واصل جہنم کیا پھر عتبہ کھڑا ہوا حضرت حمزہ (رض) اس کی طرف بڑھے ان میں بھی دو دو ہاتھ ہوئے لیکن حمزہ (رض) نے عتبہ کو قتل کردیا پھر شیبہ کھڑا ہوا اس کی طرف عبیدہ (رض) بڑھے ، عبیدہ (رض) صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین میں معمر شخص تھے تاہم شیبہ نے آپ (رض) کی ٹانگ تلوار سے زخمی کردی جس سے پنڈلی کا گوشت کٹ گیا یہ حالت دیکھ کر حضرت حمزہ (رض) اور سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے پلٹ کر شیبہ پر حملہ کردیا اور اسے واصل جہنم کیا اور دونوں عبیدہ (رض) کو اٹھائے اپنے ساتھیوں میں آملے ، جبکہ عبیدہ (رض) کی ٹانگ سے گودا بہہ رہا تھا عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا میں شہید نہیں ہوں آپ نے فرمایا : جی ہاں تم شہید ہو پھر کہا : کاش ابو طالب زندہ ہوتے جان لیتے کہ ان کے شعر کا میں خوب مصداق ہوں : کذبتم وبیت اللہ یبز محمد ولما نطا عن دونہ ونتاضل ونسلمہ حتی نصرع دونہ ونذھل عن ابناء نا والحلائل : بیت اللہ کی قسم ! تم جھوٹ بولتے ہو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مغلوب نہیں ہوں گے چونکہ ہم اس کے آگے پیچھے نیزوں اور تیروں سے اس کا دفاع کریں گے ہم انھیں صحیح و سلامت رکھیں گے اور اس کے آگے پیچھے ڈھیر ہوجائیں گے اور اس کی خاطر ہم اپنے بیٹوں اور بیویوں کو بھول جائیں گے ۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی ’(آیت)” ھذان خصمان اختصموا فی ربھم “۔ یہ دو جھگڑنے والے اپنے رب کے متعلق جھگڑ رہے ہیں حضرت حمزہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چار سار عمر میں بڑے تھے جبکہ حضرت عباس (رض) آپ سے تین سال بڑے تھے مؤرخین کا کہنا ہے کہ جب عتبہ نے مبارزت کا نعرہ لگایا تو حضرت ابو حذیفہ (رض) اٹھ کر اس کی طرف بڑھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیٹھ جاؤ چنانچہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی جماعت اٹھ کر آگے بڑھی تو ابو حذیفہ (رض) نے لپک کر اپنے باپ عتبہ پر حملہ کیا اور اسے قتل کردیا ۔ (رواہ ابن عساکر)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔