HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

30170

30170- عن عبد الله بن الزبير قال: لما كان يوم الفتح أسلمت امرأة صفوان بن أمية البغوم بنت المعدل من كنانة وأما صفوان بن أمية فهرب حتى أتى الشعب، وجعل يقول لغلامه يسار وليس معه غيره: ويحك انظر من ترى، قال هذا عمير بن وهب، قال صفوان: ما أصنع بعمير والله ما جاء إلا يريد قتلي قد ظاهر محمدا علي، فلحقه فقال: يا عمير ما كفاك ما صنعت بي حملتني على دينك وعيالك، ثم جئت تريد قتلي قال: أبا وهب جعلت فداك جئتك من عند أبر الناس وأوصل الناس وقد كان عمير قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله سيد قومي خرج هاربا ليقذف نفسه في البحر، وخاف أن لا تؤمنه فأمنه، فداك أبي وأمي فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قد أمنته فخرج في أثره فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد أمنك فقال صفوان: لا والله لا أرجع معك حتى تأتيني بعلامة أعرفها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خذ عمامتي فرجع عمير إليه بها وهو البرد الذي دخل فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ معتجرا به برد حبرة فخرج عمير في طلبه الثانية حتى جاء بالبرد فقال: أبا وهب جئتك من عند خير الناس وأوصل الناس وأبر الناس وأحلم الناس مجده مجدك وعزه عزك وملكه ملكك ابن أمك وأبيك وأذكرك الله في نفسك قال له: أخاف أن أقتل قال: قد دعاك إلى أن تدخل في الإسلام فإن يسرك وإلا سيرك شهرين فهو أوفى الناس وأبره، وقد بعث إليك ببرده الذي دخل به معتجرا فعرفه قال: نعم فأخرجه فقال: نعم هو هو. فرجع صفوان حتى انتهى إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالناس العصر في المسجد، فوقفا فقال صفوان: كم يصلون في اليوم والليلة؟ قال: خمس صلوات قال: يصلي بهم محمد؟ قال: نعم، فلما سلم صاح صفوان يا محمد إن عمير بن وهب جاءني ببردك وزعم أنك دعوتني إلى القدوم عليك فان رضيت أمرا وإلا سيرتني شهرين قال: انزل أبا وهب قال: لا والله حتى تبين لي، قال: بل لك أن تسير أربعة أشهر، فنزل صفوان وخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل هوازن وخرج معه صفوان وهو كافر وأرسل إليه يستعيره سلاحه، فأعاره سلاحه مائة درع بأداتها، فقال صفوان: طوعا أو كرها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عارية رادة فأعاره فأمره رسول الله صلى الله عيه وسلم فحملها إلى حنين، فشهد حنينا والطائف، ثم رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الجعرانة فبينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يسير في الغنائم ينظر إليها ومعه صفون بن أمية فجعل صفوان بن أمية ينظر إلى شعب مليء نعما وشاء ورعاء فأدام النظر إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم يرمقه فقال: أبا وهب يعجبك هذا الشعب؟ قال: نعم قال: هو لك وما فيه، فقال صفوان عند ذلك: ما طابت نفس أحد بمثل هذا إلا نفس نبي أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله وأسلم مكانه. الواقدي، "كر".
30170 ۔۔۔ عبداللہ بن زبیر (رض) کی روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن صفوان بن امیہ کی بیوی بغوم بنت معدل نے اسلام قبول کرلیا جب کہ صفوان بن امیہ (رض) بھاگ نکلے اور ایک گھاٹی میں آ چھپے اپنے غلام یسار سے باربار کہتے کہ (جب کہ ان کے ساتھ غلام کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا تیرا ناس ہو دیکھ ذرہ تجھے کوئی نظر آ رہا ہے غلام نے کہا : یہ رہا عمیر بن وہب صفوان (رض) نے کہا میں عمیر کو کیا کروں گا بخدا یہ تو مجھے قتل کرنے آیا ہے س نے میرے خلاف محمد کی مدد کی ہے عمیر (رض) صفوان (رض) کے پاس آن پہنچے صفوان (رض) نے کہا : اے عمیر (رض) ابھی تک جو کچھ تو کر گزرا ہے اس پر بس نہیں کرتا اب مجھے قتل کرنے کے لیے یہاں تک آدھمکا ہے عمیر (رض) نے کہ اے ابو وہب میں تجھ پر فدا جاؤں میں ایسی ہستی کے پاس سے آیا ہوں جو سب سے زیادہ مہربان اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا ہے۔ قبل ازیں عمیر نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری قوم کا سردا بھاگ نکلا ہے تاکہ اپنے آپ کو سمندر میں ڈال دے وہ نہایت خوفزدہ تھا کہ آپ اسے امن نہیں دیں گے لہٰذا میں آپ سے ملتمس ہوں کہ آپ امن دے دیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جاؤ میں نے صفوان (رض) کو امن دے دیا ۔ چنانچہ عمیر (رض) صفوان کے پیچھے چل پڑے اور ان کے پاس پہنچ کر کہا تمہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امن دے دیا ہے صفوان (رض) نے کہا : بخدا ! میں اس وقت تک تیرے ساتھ نہیں جاؤں گا جب تک کہ تم میرے پاس کوئی نشانی نہیں لے کر آؤ گے عمیر (رض) نے واپس لوٹ کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا تذکرہ کیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرا عمامہ لیتے جاؤ آپ کا عمامہ وہی چادر تھی جسے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اوڑھ کر مکہ میں داخل ہوئے تھے چنانچہ عمیر (رض) دوبارہ عمامہ لیے صفوان (رض) کی تلاش میں نکل پڑے اور جب ان کے پاس پہنچے کہا : اے ابو وہب میں ایسی ہستی کے پاس سے آیا ہوں جو سب سے افضل سب سے زیادہ مہربان اور سب سے زیادہ مہربان اور سب سے زیادہ بردبار ہے اس کی عزت تیری عزت ہے اس کی بزرگی تیری بزرگی ہے اس کی بادشاہت تیری بادشاہت ہے تمہارا خاندان ایک میں تمہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں کہ بےخوف ہو کر میرے ساتھ چل پڑو۔ صفوان (رض) نے کہا : مجھے خوف ہے کہ مجھے قتل کردیا جائے گا عمیر (رض) نے کہا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں اسلام کی دعوت دی ہے اگر تم اسلام میں داخل ہوجاؤ تو بہت اچھا ورنہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دو مہینوں کی مہلت لے لینا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں مہلت دے دیں گے چونکہ آپ نہایت مہربان اور نہایت صلہ رحمی کرنے والے ہیں جب کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہارے پاس اپنی چادر بھیجی ہے یہ وہی چادر ہے جسے آپ نہایت مہربان اور نہایت صلہ رحمی کرنے والے ہیں جب کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہارے پاس اپنی چادر بھیجی ہے یہ وہی چادر ہے جسے آپ اوڑھ کر مکہ میں داخل ہوئے تھے صٖفوان (رض) نے چادر پہچان لی اور کہا ہاں یہ وہی چادر ہے چنانچہ صفوان (رض) واپس ہوئے اور جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے تو لوگوں کو عصر کی نماز پڑھا رہے تھے صفوان (رض) باہر ہی رک گئے ؟ اور کہا : مسلمان دن میں کتنی نماز میں پڑھتے ہیں ؟ عمیر (رض) نے جواب دیا : پانچ نمازیں پڑھتے ہیں پھر پوچھا : کیا مسلمانوں کو محمد نماز پڑھاتے ہیں ؟ جواب دیا جی ہاں جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام پھیرا تو صفوان (رض) نے چلا کر کہا : اے محمد ! عمیر بن وہب میرے پاس تمہاری چادر لے کر آیا ہے اور اس کا دعوی ہے کہ تم نے مجھے واپس لوٹ آنے کی دعوت دی ہے اگر تم راضی ہو تو ٹھیک ورنہ مجھے دو مہینے کی مہلت دے دو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابو وہب ! سواری سے نیچے اترو صفوان (رض) نے کہا : بخدا میں اس وقت تک نیچے نہیں اتروں گا جب تک تم معاملہ صاف نہ کر دو ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بلکہ تمہیں چار ماہ تک مہلت ہے۔ صفوان (رض) سواری سے نیچے اتر آئے ۔ پھر آپ نے ھوازن پر چڑھائی کی جبکہ صفوان (رض) آپ کے ساتھ تھے اور ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفوان (رض) سے اسلحہ مستعار لینا چاہا، عرض کیا : کیا آپ خوشی سے اور رضا مندی سے لینا چاہتے ہیں یا زبردستی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلکہ عاریۃ لینا چاہتا ہوں یہ اسلحہ یعنی 100 (سو) زرہیں قابل واپسی ہوں گی چنانچہ صفوان (رض) نے زرہیں عاریۃ دے دیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں بھی حنین اور طائف ساتھ جانے کا حکم دیا چنانچہ صفوان (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حنین اور طائف میں رہے پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جعرانہ واپس آگئے اسی اثناء میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال غنیمت میں چل پھر رہے تھے اور صفوان بن امیہ (رض) بھی آپ کے ساتھ تھے اور مال غنیمت سے بھری ہوئی گھاٹی کو دیکھے جا رہے تھے جو جانوروں بکریوں وغیرہ اموال سے اٹی پڑی تھی صفوان (رض) انہماک سے مال غنیمت دیکھے جا رہے تھے جبکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنکھیوں سے صفوان (رض) کو دیکھ رہے تھے پھر فرمایا : اے ابو ہب ! کیا یہ گھاٹی مال سے بھری ہوئی تمہیں اچھی لگتی ہے ؟ عرض کیا جی ہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ سارا مال تمہارا ہے پھر صفوان (رض) نے کہا : اتنی بڑی سخاوت کا مظاہرہ سوائے نبی کے کوئی نہیں کرسکتا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، چنانچہ اسی جگہ اور اسی لمحے اسلام لے آئے ۔ (رواہ الواقدی وابن عساکر)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔