HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

4418

4418- عن ابن عباس قال: "لبث رسول الله صلى الله عليه وسلم، بعد خروجه من الطائف ستة أشهر، ثم أمره الله بغزوة تبوك، وهي التي ذكر الله ساعة العسرة، وذلك في حر شديد، وقد كثر النفاق وكثر أصحاب الصفة، والصفة بيت كان لأهل الفاقة يجتمعون فيه، فتأتيهم صدقة النبي صلى الله عليه وسلم والمسلمين، وإذا حضر غزو عمد المسلمون إليهم فاحتمل الرجل الرجل، أو ما شاء الله فجهزوهم، وغزوا معهم، واحتسبوا عليهم فأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم المسلمين بالنفقة في سبيل الله والحسبة فأنفقوا احتسابا، وأنفق رجال غير محتسبين، وحمل رجال من فقراء المسلمين، وبقي أناس، وأفضل ما تصدق به يومئذ أحد عبد الرحمن بن عوف، تصدق بمأتي أوقية، وتصدق عمر بن الخطاب بمائة أوقية وتصدق عاصم الأنصاري بتسعين وسقا من تمر، وقال عمر بن الخطاب رضي الله عنه: يا رسول الله إني لآرى عبد الرحمن بن عوف إلا قد أخبرت ما ترك لأهله شيئا، فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم، هل تركت لأهلك شيئا قال: نعم، أكثر مما أنفقت وأطيب، قال: كم؟ قال ما وعد الله ورسوله من الصدق والخير، وجاء رجل من الأنصار يقال له أبو عقيل بصاع من تمر، فتصدق به، وعمد المنافقون حين رأوا الصدقات فإذا كانت صدقة الرجل كثيرة تغامزوا به وقالوا: مرائي، وإذا تصدق الرجل بيسير من طاقته قالوا هذا أحوج إلى ما جاء به، فلما جاء أبو عقيل بصاع من تمر قال: بت ليلتي أجر بالجرير على صاعين، والله كان عندي من شيء غيره، وهو يعتذر وهو يستحي، فأتيت بأحدهما، وتركت الآخر لأهلي، فقال المنافقون هذا أفقر إلى صاعه من غيره، وهم في ذلك ينتظرون نصيبهم من الصدقات غنيهم وفقيرهم فلما أزف خروج رسول الله صلى الله عليه وسلم أكثروا الإسئذان وشكوا شدة الحر وخافوا: زعموا الفتنة إن غزوا ويحلفون بالله على الكذب فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يأذن لهم، لا يدري ما في أنفسهم وبنى طائفة منهم مسجد النفاق يرصدون به الفاسق أبا عامر، وهو عند هرقل قد لحق به وكنانة بن عبد ياليل وعلقمة بن علافة العامري، وسورة براءة تنزل في ذلك أرسالا ونزلت فيها آية ليست فيها رخصة لقاعد، فلما أنزل الله: {انْفِرُوا خِفَافاً وَثِقَالاً} اشتكى الضعيف الناصح لله ولرسوله، والمريض والفقير إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقالوا هذا أمر لا رخصة فيه، وفي المنافقين ذنوب مستورة لم تظهر حتى كان بعد ذلك، وتخلف رجال غير مستبقين ولا ذوي عذر، ونزلت هذه السورة بالتبيان والتفصيل، في شأن رسول الله صلى الله عليه وسلم بمن اتبعه، حتى بلغ تبوك، فبعث منها علقمة بن محرز المدلجي إلى فلسطين، وبعث خالد بن الوليد إلى دومة الجندل، فقال: أسرع لعلك أن تجده خارجا يتقنص فتأخذه، فوجده فأخذه وأرجف المنافقون في المدينة بكل خبر سوء، فإذا بلغهم أن المسلمين أصابهم جهد وبلاء تباشروا به وفرحوا، وقالوا: قد كنا نعلم ذلك ونحذر منه، وإذا أخبروا بسلامة منهم، وخير أصابوه حزنوا، وعرف ذلك فيهم كل عدو لهم في المدينة، فلم يبق أحد من المنافقين إلا استخفى بعمل خبيث، ومنزلة خبيثة، واستعلن ولم يبق ذو علة إن وهو ينتظر الفرج فيما ينزل الله كتابه، ولم تزل سورة براءة تنزل حتى ظن المؤمنون الظنون، وأشفقوا أن لا ينفلت منهم كبير أحد أذنب في شأن التوبة قط ذنبا إلا أنزل فيه أمر بلاء حتى انقضت، وقد وقع بكل عامل بيان منزله من الهدى
4418: ۔ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طائف سے واپسی آنے کے چھ ماہ بعد آپ کو غزوہ تبوک کا حکم ملا۔ اسی کو اللہ تعالیٰ نے ساعۃ العسرۃ (تنگی کی گھڑی) فرمایا : یہ سخت گرمی کے زمانے میں پیش آیا۔ ان ایام میں نفاق (یعنی منافقین) کی بھی کثرت ہوگئی تھی اور اصحاب صفہ کی تعداد بھی زیادہ ہوگئی تھی۔ صفہ فاقہ کشوں کا گھر تھا۔ جس کا کوئی ٹھکانا نہ ہوتا وہ یہاں آجاتا تھا۔ ان کے پاس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر مسلمانوں کا صدقہ آتا رہتا تھا۔ اور جب کوئی غزوہ پیش آتا تو مالدار مسلمان آتے اور ایک ایک صفہ کے ساتھی کو ساتھ لے جاتا۔ کوئی زیادہ کو بھی لے جاتا تھا۔ اور ان کو سامان جہاد فراہم کرتا۔ چنانچہ یوں فقراء مسلمین بھی غزوۃ میں امراء مسلمین کے شانہ بشانہ شریک ہوتے۔ اور امراء مسلمین کا مقصود سامان فراہم کرنے سے صرف اللہ کی رضاء مقصود ہوتی۔
چنانچہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو ثواب کی غرض سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ مسلمانوں نے اللہ کے ثواب کی خاطر اپنا اپنا مال پیش کیا۔ کچھ (منافق) لوگوں نے بغیر ثواب کی امید کے خرچ کیا۔ فقراء مسلمین کو مالدار مسلمانوں نے سواریاں دیں۔ کچھ لوگ پیچھے رہ گئے۔ سب سے افضل صدقہ جو کسی نے اس دن پیش کیا وہ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) تھے۔ انھوں نے دو سو اوقیہ (چاندی) اللہ کی راہ میں صدقہ کی۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے سو اوقیہ (چاندی) دی، حضرت عاصم انصاری نے کھجور کے نوے وسق صدقے میں دیے۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھے لگتا ہے شاید حضرت عبدالرحمن (رض) نے اپنے گھر والوں کے لیے پیچھے کچھ نہیں چھوڑا۔ لہٰذا آپ (رض) نے ان سے سولا کیا : کیا تم نے اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے ؟ انھوں نے عرض کیا : جو خرچ کیا ہے اس سے زیادہ اور اچھا پیچھے گھر والوں کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کتنا ؟ عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول نے جو بھلائی اور خیر کا سچا وعدہ کیا ہے وہ ان کے لیے چھوڑ آیا ہوں۔ اسی طرح ایک انصاری شخص نے ایک صاع (ساڑھے تین سے کے برابر) کھجور صدقہ میں پیش کیں۔
منافقین نے مسلمانوں کو بڑھ چڑھ کر صدقات پیش کرتے دیکھا تو یہ کام شروع کیا کہ اگر کسی کو زیادہ مال صدقہ کرتے دیکھتے دیکھتے تو کہتے کہ یہ خود اس کا زیادہ محتاج ہے جو لے کر آیا ہے۔ چنانچہ انھوں نے جب ابو عقیل ایک صاع کھجور لے کر آئے اور عرض کیا : میں نے رات بھر مزدوری کرکے دو صاع کھجور اجرت کمائی تھی۔ اللہ کی قسم میرے پاس ان دو صاع کھجوروں کے سوا کچھ نہیں۔ اور وہ انتہائی معذر اور شرمندگی ظاہر کرنے لگے۔ پھر کہا چنانچہ میں ایک صاع یہاں صدقے کے لیے لے آیا اور ایک صاع پیچھے گھر والوں کے لیے چھوڑ آیا ہوں۔
چنانچہ منافقین نے ان پر آواز کسی کہ یہ تو خود اپنے صاع کا زیادہ محتاج ہے۔ جبکہ یہ منافقین غنی ہوں یا فقیر سب اس بات کی لالچ میں تھے کہ ان اموال صدقات میں سے بھی ان کو حصہ مل جائے۔
جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکلنے کا وقت قریب آیا تو یہی منافقین آگے ہو ہو کر اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت مانگنے لگے۔ گرمی کی شدت کی شکایت کرتے اور غزوہ سے ڈر ڈر کر پیچھے رہ جاتے۔ لڑائی کی صورت میں موت کا فتنہ انھیں بزدل کررہا تھا۔ الغرض وہ اللہ کے نام کی جھوٹی قسمیں کھا کھا کر عذر اور بہانے تراشنے لگے۔ آخر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اجازت دیتے رہے۔ چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے دلوں کی باتوں کا علم نہ تھا۔
ان منافقین نے مل کر ایک مسجد نفاق بھی بنائی۔ ابو عامر فاسق ان کا بڑا بنا ۔ جو ہرقل کے ساتھ ملا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ کنانہ بن عبدیالیل اور علقمہ بن علامہ عامری بھی تھے۔ انہی کے بارے میں سورة برأت نازل ہوئی جس میں کسی بیٹھنے والے کو جنگ سے پیچھے رہ جانے کی رخصت نہیں تھی۔ اور اس میں یہ حکم بھی نازل ہوا :
انفروا خفافا و ثقالا۔
ہلکے ہو یا بوجھل نکلو اللہ کی راہ میں۔
پھر جو سچے کمزور مسلمان تھے جن میں مریض اور فقیر بھی تھے انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شکایت کی اور عرض کیا کہ یہ تو ایسا حکم ہے جس میں کچھ رخصت نہیں ہے۔ جبکہ منافقین کے گناہ (اور چالبازیاں) چھپے ہوئے تھے، جو بعد میں ظاہر ہوئے۔ بہرکیف پیچھے رہ جانے والوں میں بہت لوگ تھے اور ان کو کوئی عذر بھی نہ تھا اور سورة برأت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھ جانے والوں کی شان میں نازل ہوئی۔ حتی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علقمہ بن محرز مدلجی کو (لشکر دے کر) فلسطین بھیجا اور (دوسرا لشکر دے کر) حضرت خالد بن ولید (رض) کو دومۃ الجندل بھیجا۔ اور فرمایا : جلدی جاؤ۔ شاید تم اس کو باہر قضائے حاجت کرتا ہوا پاؤ اور اس کو پکڑ لو۔
چنانچہ حضرت خالد (رض) گئے اور فرمان رسول کے مطابق دشمن کو اسی حال میں پایا۔ اور اس کو پکڑ لیا۔
ادھر مدینہ میں موجود منافقین کوئی بری خبر (جو مسلمانوں کے لیے باعث خوشی ہوتی) سنتے تو لرز جاتے لیکن جب سنتے کہ مسلمان مشقت اور تنگی میں مبتلا ہیں تو خوش ہوتے اور کہتے تھے کہ ہم جانتے تھے ایسا ہوگا اسی لیے ہم محتاط رہے (اور نہیں گئے) اور جب مسلمانوں کی سلامتی اور مالداری کی خبر سنتے تو رنجیدہ ہوجاتے۔ اور مدینہ میں موجود ہر منافق کے چہرے سے ان کیفیات کا اندازہ ہوتا تھا۔ پس کوئی منافق نہ رہا جو خبیث عمل کے ساتھ اور خبیث رتبے کے ساتھ چھپتا نہ پھر رہا ہو۔ جبکہ ہر بیمار اور لاچار خوشحالی اور فراخی کا انتظار کررہا تھا جس کا اللہ نے وعدہ فرمایا تھا۔ ادھر سورة برأت بھی مسلسل موقع بموقع نازل ہو رہی تھی۔ (جس میں بہت سی خفیہ باتیں ظاہر ہورہی تھیں) جس کی وجہ سے مسلمان بھی مختلف گمانوں کا شکار تھے اور ڈر رہے تھے کہ کوئی بڑا بوڑھا جس سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہو اور سورة توبہ اس کا پردہ فاش کردے اور وہ اسی کے صدمے میں نہ چلا جائے۔ الغرض سورة برأت میں ہر عمل کرنے والے کا متبہ ہدایت کا یا گمراہی کا آشکارا ہوگیا اور سورة برأت کا نزول بھی مکمل ہوگیا۔ (ابن عائذ، ابن عساکر)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔