HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

4499

4499- "مسند أبي" عن أبي قال: "قام موسى خطيبا في بني إسرائيل فسئل أي الناس أعلم؟ فقال موسى: أنا أعلم، فعتب الله عليه إذ لم يرد العلم إليه؟ فأوحى الله تعالى إليه أن لي عبدا بمجمع البحرين، هو أعلم منك، قال موسى: يا رب، وكيف لي به؟ فقيل له: احمل حوتا في مكتل، فاذا فقدته فهو ثم، فانطلق، وانطلق معه فتاه يوشع بن نون وحملا حوتا في مكتل حتى كانا عند الصخرة، فوضعا رؤسها فناما، فانسل الحوت من المكتل، فاتخذ سبيله في البحر سربا، وكان لموسى وفتاه عجبا فانطلقا بقية يومهما وليلتهما، فلما أصبحا قال موسى لفتاه: آتنا غداءنا لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا، ولم يجد موسى مسا من النصب حتى جاوز المكان الذي أمره الله به، فقال له فتاه: أرأيت إذ أوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت، قال موسى: ذلك ما كنا نبغي. فارتدا على آثارهما قصصا، فلما انتهيا إلى الصخرة إذا رجل مسجى بثوب، فسلم موسى فقال الخضر: وأنى بأرضك السلام، قال أنا موسى، قال: موسى نبي إسرائيل؟ قال نعم، قال: أتبعك على أن تعلمني مما علمت رشدا؟ قال: إنك لن تستطيع معي صبرا، ياموسى إني على علم من علم الله علمنيه لا تعلمه أنت، وأنت على علم من علم الله علمك الله لا أعلمه، قال: ستجدني إن شاء الله صابرا ولا أعصي لك أمرا فانطلقا يمشيان على الساحل فمرت سفينة فكلموهم أن يحملوهما فعرفوا الخضر فحملوهما بغير نول، وجاء عصفور فوقع على حرف السفينة، فنقر نقرة أو نقرتين في البحر، فقال الخضر ياموسى: ما نقص علمي وعلمك من علم الله تعالى إلا كنقرة هذا العصفور في هذا البحر، فعمد الخضر إلى لوح من ألواح السفينة فنزعه، فقال موسى: قوم حملونا بغير نول، عمدت إلى سفينتهم فخرقتها لتغرق أهلها؟ قال: ألم أقل لك إنك لن تستطيع معي صبرا قال لا تؤاخذني بما نسيت فكانت الأولى من موسى نسيانا، فانطلقا فاذا غلام يلعب مع الغلمان، فأخذ الخضر برأسه من أعلاه فاقتلع رأسه بيده، فقال موسى: أقتلت نفسا زكية بغير نفس؟ قال: ألم أقل لك إنك لن تستطيع معي صبرا فانطلقا حتى إذا أتيا أهل قرية استطعما أهلها فأبوا أن يضيفوهما فوجدا فيها جدارا يريد أن ينقض فأقامه، قال فأقامه الخضر بيده، فقال موسى: لو شئت لاتخذت عليه أجرا. قال: هذا فراق بيني وبينك، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يرحم الله موسى لوددنا لو صبر حتى يقص علينا من أمرهما". "حم والحميدي خ م ت ن وابن خزيمة وأبو عوانة هب
4499: ۔۔ مسند ابی (رض)) حضرت ابی (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے درمیان خطبہ دینے کھڑے ہوئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوال کیا : لوگوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : میں سب لوگوں سے زیادہ علم والا ہوں۔ اللہ پاک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس جواب سے ناراض ہوگئے کہ یہ کیوں نہیں کہا اللہ زیادہ جانتا ہے کہ لوگوں میں کہ کون زیادہ علم والا ہے ؟ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی کی کہ دونوں سمندروں کے سنگم پر میرا ایک بندہ ہے وہ تجھ سے زیادہ جاننے والا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا : اے پروردگار ! میرے لیے اس سے ملاقات کا کیا ذریعہ ہے ؟ فرمایا : تھیلے میں ایک مچھلی لو۔ (اور سفر پر چل دو ) جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہی تمہاری منزل ہے۔
چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چل دیے اور اپنے ساتھ ایک نوجوان یوشع بن نون کو بھی لے لیا۔ دونوں نے ایک تھیلے میں مچھلی بھی ساتھ کرلی۔ حتی کہ جب وہ ایک چٹان پر پہنچے تو لیٹ کر سو گئے۔ مچھلی تھیلے سے نکل کر سمندر میں چلی گئی۔ اور اس کے جانے کا نشان سمندر میں باقی رہ گیا۔ اسی نشان پر موسیٰ (علیہ السلام) اور یوشع (علیہ السلام) کو بہت تعجب ہوا۔ پھر دونوں باقی دن اور رات سفر کرتے رہے اگلے دن صبح ہوئی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت یوشع (علیہ السلام) کو فرمایا : ہمارا کھانا لاؤ۔ اس سفر میں بڑی تھکاوٹ ہوگئی ہے۔ اور یہ تھکاوٹ اس مقررہ جگہ سے آگے نکلنے کے بعد پہنچی تھی جس جگہ کا اللہ نے ان کو حکم فرمایا تھا چنانچہ جوان نے جواب دیا کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ہم جب چٹان پر تھے تو میں مچھلی کو بھول گیا تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : اسی مقام کی تو ہم کو تلاش تھی۔ چنانچہ دونوں اپنے نشانات قدم پر واپس لوٹے جب وہ واپس چٹان پر پہنچے تو وہاں ایک شخص کو کپڑا اوڑھے لیٹا ہوا پایا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے سلام کیا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا : تیری سرزمین میں یہ سلام کہاں سے آیا ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : میں ہوں موسیٰ۔ خضر (علیہ السلام) نے پوچھا : بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ موسیٰ نے فرمایا : جی ہاں۔ میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں تاکہ جو آپ کو علم سکھایا گیا ہے وہ آپ مجھے بھی سکھا دیں حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا : تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکتے۔ اے موسیٰ ! میں ایک علم پر ہوں جو اللہ نے مجھے سکھایا ہے جس کو تم نہیں جانتے۔ اور تم بھی اللہ کے علم میں سے ایک علم پر ہو جس کو میں نہیں جانتا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : تم مجھے ان شاء اللہ صابرین میں سے پاؤگے اور میں آپ کی نافرمانی بھی نہیں کروں گا۔ چنانچہ دونوں ساحل کے کنارے کنارے چلنے لگے راستے میں ایک کشتی ملی کشتی والوں سے بات کی کہ ہم دونوں کو سوار کرلیں۔ چنانچہ کشتی والوں نے حضرت خضر (علیہ السلام) کو پہچان کر بغیر کرائے کے دونوں کو سوار کرلیا۔ ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی۔ اور سمندر میں ایک یا دو چونچ ماری۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا : اے موسیٰ (علیہ السلام) میرا اور تمہارا علم اللہ کے علم کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے اس سمندر سے چڑیا نے ایک یا دو چونچ پانی پی لیا ہوگا۔
پھر حضرت خضر (علیہ السلام) نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ اکھاڑ دیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا :
ان لوگوں نے ہم کو بغیر کرائے کے سوار کیا جبکہ آپ نے ان کی کشتی پھاڑ ڈالی تاکہ اس میں سوار لوگ غرق ہوجائیں۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا : میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : مجھ سے بھول ہوگئی اس پر میرا مواخذہ نہ کیجیے۔ یہ پہلی بار تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بھول ہوئی تھی۔ پھر دونوں چل پڑے۔ دیکھا کہ ایک بچہ بچوں کے ساتھ کھیل کود رہا ہے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے اوپر سے اس کا سر پکڑا اور گردن توڑ دی۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : تو نے ایک معصوم جان قتل کردی۔ بغیر کسی پاداش کے ۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا : میں نے کہا تھا نا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکوگے۔ پھر دونوں آگے چل پڑے۔ حتی کہ ایک بستی میں پہنچے۔ دونوں حضرات نے بستی والوں سے کھانا پانی طلب کیا۔ لیکن انھوں نے ان دو حضرات کی مہمان نوازی کرنے سے یکسر انکار کردیا۔ پھر دونوں کو ایک دیوار نظر آئی جو قریب تھا ک گرجاتی حضرت خضر (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ کے ساتھ اس دیوار کو سیدھا کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا :
اگر تم چاہو تو اس دیوار ٹھیک کرنے کی اجرت لے سکتے ہو۔ تب حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا : پس یہ تمہارا اور میرا فرق کا وقت آگیا ہے۔
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک موسیٰ (علیہ السلام) پر رحم فرمائیں۔ اگر وہ صبر کرتے تو ہمیں ان کے اور بھی واقعات ملتے۔ (مسند احمد، الحمیدی، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن خزیمہ، ابو عوانہ، شعب الایمان للبیہقی)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔