HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

.

كنز العمال

4569

4569- "علي رضي الله عنه" عن علي قال: "الذبيح إسحاق". "عب ص".
4569: ۔۔ (مسند علی (رض)) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں : (ابراہیم (علیہ السلام) کے وہ بیٹوں میں سے) ذبح ہونے والے حضرت اسحاق (علیہ السلام) ہیں۔ عبدالرزاق، السنن لسعید بن منصور۔
ذبیح اللہ اسماعیل (علیہ السلام) ہیں۔
فائدہ : ۔۔ مشہور روایات اور کلام اللہ کے سیاق وسباق سے بداہۃ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ذبح ہونے والے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں مثلا یہی آیات لیجیے جن کی تفسیر میں مذکورہ فرمان علی (رض) ارشاد ہوا : فرمان الہی ہے :
وقال انی ذاھب الی ربی سیہدین۔ رب ھب لی من الصالحین فبشرنہ بغلم حلیم فلما بلغ معہ السعی۔ الخ۔ (الصافات : 99 ۔ 102)
اور (ابراہیم (علیہ السلام)) بولے : کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں وہ مجھے رستہ دکھائے گا۔ اے پروردگار ! مجھے (اولاد) عطا فرما (جو) سعادت مندوں میں سے (ہو) تو ہم نے ان کو نرم دل لڑکے کی خوش خبری سنائی۔ جب وہ ان کے ساتھ دوڑنے کی عمر کو پہنچا تو ابراہیم علیہ السالم نے کہا کہ بیٹا میں خواب دیکھتا ہوں کہ (گویا) تم کو ذبح کررہا ہوں تو تم سوچو کہ تمہارا کیا خیال ہے ؟ انھوں نے کہا ابا جو آپ کو حکم ہوا ہے وہی کیجیے خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائیں گے۔ جب دونوں نے حکم مان لیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا تو ہم نے ان کو پکارا کہ اے ابراہیم ! تم نے خواب سچا کر دکھایا ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی اور ہم ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا۔
یہاں سے معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اولاد کی دعا مانگی اور خدا نے قبول کی اور وہی لڑکا قربانی کے لیے پیش کیا گیا۔ موجودہ توراۃ سے ثابت ہے کہ جو لڑکا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پیدا ہوا وہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں۔ اور اسی لیے ان کا نام اسماعیل رکھا گیا۔ کیونکہ اسماعیل دو لفظوں سے مرکب ہے۔ سمع اور ایل۔ سمع کے معنی سننے کے اور ایل کے معنی خدا کے ہیں۔ یعنی خدا نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا سن لی۔ توراۃ میں ہے کہ خدا نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا کہ اسماعیل کے بارے میں میں نے تیری سن لی اس بناء پر آیت حاضرہ میں جس کا ذکر ہے وہ حضرت اسماعیل ہیں۔ حضرت اسحق نہیں۔ اور ویسے بھی ذبح وغیرہ کا قصہ ختم کرنے کے بعد حضرت اسحق کی بشارت کا جداگانہ ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ آگے آتا ہے :
وبشرناہ باسحق نبیا الخ۔ معلوم ہوا کہ " فبشرناہ بغلام حلیم " میں ان کے علاوہ کسی دوسرے لڑکے کی بشارت مذکور ہے۔ نیز اسحق کی بشارت دیتے ہوئے ان کے نبی بنائے جانے کی بھی خوشخبری دی گئی اور سورة ھود میں ان کے ساتھ ساتھ یعقوب (علیہ السلام) کا مژدہ بھی سنایا گیا۔ جو حضرت اسحق کے بیٹے ہوں گے۔ ومن وراء اسحق یعقوب۔ (ھود : رکوع 7) پھر کیسے گمان کیا جاسکتا ہے کہ حضرت اسحق ذبح ہوں۔ گویا نبی بنائے جانے اور اولاد عطا کیے جانے سے بیشتر ہی ذبح کردیے جائیں۔ لامحالہ ماننا پڑے گا کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں جن کے متعلق بشارت ولادت کے وقت نہ نبوت عطا فرمانے کا وعدہ ہوا نہ اولاد دیے جانے کا۔ یہی وجہ ہے کہ قربانی کی یادگار اور اس کی متعلقہ رسوم بنی اسماعیل میں برابر بطور وراثت منتقل ہوتی چلی آئیں ۔ اور آج بھی اسماعیل کی روحانی اولاد ہے۔ (جنہیں مسلمان کہتے ہیں) ان مقدس یادگاروں کی حامل ہے۔ مجودہ توراۃ میں تصریح ہے کہ قربانی کا مقام " مورا " یا " مریا " تھا۔ یہود و نصاری نے اس مقام کا پتہ چلانے میں بہت ہی دور از کا راحتمالات سے کام لیا ہے حالانکہ نہایت ہی اقرب اور بےتکلف بات یہ ہے کہ یہ مقام مروہ ہے جو کعبہ کے سامنے بالکل نزدیک واقع ہے اور جہاں سعی بن الصفا و المروۃ ختم کرکے معتمرین حلال ہوتے ہیں اور ممکن ہے " بلغ معہ السعی " میں اسی سعی کی طرف ایماء ہو موطا امام مالک کی ایک روایت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مروہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ یہ قربان گاہ ہے۔ غالبا وہ اسی ابراہیم (علیہ السلام) وہ اسماعیل (علیہ السلام) کی قربان گاہ کی طرف اشارہ ہوگا ورنہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں لوگ عموماً مکہ سے تین میل " منی " میں قربانی کرتے تھے۔ جیسے آج تک کی جاتی ہے معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی اصل قربان گاہ " مروہ " تھی۔ پھر حجاج اور ذبائح کہ کثرت دیکھ کر منی تک وسعت دے دی گئی۔ قرآن کریم میں بھی " ھدیا بالغ الکعبۃ " اور " ثم محلہا الی البیت العتیق " فرمایا ہے جس سے کعبہ کا قرب ظاہر ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔
بہرحال قرائن و آثار یہی بتلاتے ہیں کہ " ذبیح اللہ " وہی اسماعیل (علیہ السلام) تھے جو مکہ میں آ کر رہے اور وہین ان کی نسل پھیلی۔ توراۃ میں یہ بھی تصریح ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے اکلوتے اور محبوب بیٹے کے ذبح کا حکم دیا گیا تھا اور یہ مسلم ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) عجیب بات یہ ہے کہ یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کے جواب میں جس لڑکے کی بشارت ملی اسے " غلام حلیم " کہا گیا ہے۔ لیکن حضرت اسحق (علیہ السلام) کی بشارت جب فرشتوں نے ابتداء خدا کی طرف سے دی تو " غلام علیم " سے تعبیر کیا۔ حق تعالیٰ کی طرف سے " حلیم " کا لفظ ان پر یا کسی اور نبی پر قرآن میں کہیں اطلاق نہیں کیا گیا۔ صرف اس لڑکے کو جس کی بشارت یہاں دی گئی اور اس کے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ لقب عطا ہوا ہے " ان ابراہیم لحلیم اواہ منیب " (ھود : رکوع : 7)
شاید اسی لیے سورة مریم میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو صادق الوعد فرمایا کہ ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین ۔ کے وعدہ کو کس طرح سچا کر دکھایا۔ بہرحال حلیم، صابر اور صادق الوعد کے القاب کے مصداق ایک ہی معلوم ہوتا ہے یعنی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ۔ وکان عند ربہ مرضیا۔ سورة بقرہ میں تعمیر کعبہ کے وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) و اسماعیل (علیہ السلام) کی زبان سے جو دعا نقل فرمائی اس میں یہ الفاظ بھی ہیں :
ربنا واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنا امۃ مسلمۃ لک۔ بعینہ اسی مسلم کے تثنیہ کو۔ یہاں قربانی کے ذکر میں فلما اسلما کے لفظ سے ادا کردیا اور ان ہی دونوں کی ذریت کو خصوصی طور پر مسلم کے لقب سے نامزد کیا بیشک اس سے بڑھ کر اسلام و تفویض اور صبر کیا ہوگا جو دونوں باپ بیٹے نے کرنے اور ذبح ہونے کے متعلق دکھایا یہ اسی اسلما کا صلہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ذریت کو امت مسلمہ بنایا۔
لہذا معلوم ہوا کہ فرمان علی (رض) سے متعلق حدیث مذکورہ محل کلام ہے کیونکہ آئندہ کی حدیث جو حضرت علی (رض) سے ہی مروی ہے اس کے خلاف ہے۔ نیز اس طرح کے اور بہت سے قرائن و شواہد ہیں جن سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ ذبیح اللہ اسماعیل (علیہ السلام) ہی ہیں۔ (تفسیر عثمانی مع اضافہ)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔