HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Maarif ul Hadith

17. کتاب المناقب والفضائل

معارف الحدیث

2005

عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: مَرِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاشْتَدَّ مَرَضُهُ، فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ» قَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّهُ رَجُلٌ رَقِيقٌ، إِذَا قَامَ مَقَامَكَ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، قَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ» فَعَادَتْ، فَقَالَ: «مُرِي أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ» فَأَتَاهُ الرَّسُولُ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ فِي حَيَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (رواه البخارى ومسلم)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مریض ہوئے اور پھر آپ کا مرض بہت بڑھ گیا (اور آپ مسجد تشریف لا کر نما زپڑھانے سے بالکل معذور ہو گئے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (میری طرف سے) ابو بکر کر حکم دو کہ وہ لوگوں کو (جو جماعت سے نماز ادا کرنے کے لئے مسجد میں جمع ہیں) نماز پڑھا دیں تو حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ وہ رقیق القلب آدمی ہیں ، جب وہ نماز پڑھانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو (ان پر رقت غالب آ جائے گی اور) وہ نماز نہیں پڑھ سکیں گے (حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ کی یہ بات سن کر بھی یہی) فرمایا کہ ابو بکر کو حکم دپہنچا دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں (حضرت عائشہؓ نے پھر اپنی بات دہرائی اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی فرمایا کہ ابو بکر کو حکم پہنچا دو کہ وہ نماز پڑھا دیں (اسی کے ساتھ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ کو ڈانٹتے ہوئے فرمایا “فانكن صواحب يوسف” پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم لےکر)حضرت ابو بکرؓ کے پاس آیا (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیام اور حکم) ان کو پہنچایا تو پھر انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں (یعنی وفات تک برابر) لوگوں کو نماز پڑھائی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
مرض وفات میں مسجد تشریف لے جا کر نماز پڑھانے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل معذور ہو جانے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت ابو بکرؓ کے نماز پڑھانے کا یہ واقعہ صحیح بخاری کے متعدد ابواب میں مختلف صحابہ کرامؓ سے کہیں بہت اختصار کے ساتھ اور کہیں پوری تفصیل کے ساتھ روایت کیا گیا ہے ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ، کی جو حدیث یہاں درج کی گئی ہے وہ امام بخاری نے “باب العلم والفضل احق بالامامۃ” میں روایت کی ہے ، اسی باب میں اسی واقعہ سے متعلق حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی اور اس اگلے باب میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیثیں بھی امام بخاری نے درج فرمائی ہیں ۔ ان سب میں یہ واقعہ بہت اختصار کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے ۔ اس کے تین باب آگے “باب إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ ” میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے اس واقعہ سے متعلق جو حدیث امام بخاری نے روایت کی ہے اس سے واقعہ کی پوری تفصیل معلوم ہو جاتی ہے اس کا ھاصل یہ ہے کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات سے آٹھ دن پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں منتقل ہو جانے کے بعد بھی مرض کی شدت اور ضعف و نقاہت بہت زیادہ بڑھ جانے کے باوجود کئی دن تک ہر نماز کے وقت مسجد تشریف لے جا کر حسب معمول خود ہی نماز پڑھاتے رہے پھر اسی حال میں ایک دن ایسا ہوا کہ عشاء کی اذان ہو گئی اور لوگ جماعت سے نماز ادا کرنے کے لئے مسجد میں جمع ہو گئے ، لیکن اس وقت مرض کی شدت کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر غشی اور غفلت کی سی کیفیت طاری ہو گئی جب اس کیفیت سے افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا لوگوں نے مسجد میں نماز ادا کر لی ؟ ..... عرض کیا گیا کہ ابھی لوگوں نے نماز ادا نہیں کی ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے لئے ٹب میں پانی رکھو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال تھا کہ غسل کرنے سے ان شاء اللہ مرض کی شدت میں تخفیف ہو جائے گی اور میں مسجد جا کر نماز پڑھا سکوں گا حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ ہم نے ٹب میں پانی رکھ دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا اور اٹھا کر کھڑے ہونے لگے ، لیکن پھر وہ غشی اور غفلت کی کیفیت طاری ہو گئی پھر جب اس کیفیت سے افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دریافت فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز ادا کر لی ؟ عرض کیا گیا کہ ابھی نماز ادا نہیں کی گئی لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ٹب میں پانی بھرنے کا حکم فرمایا اور پھر غسل فرمایا اور پھر مسجد تشریف لے جانے کے لئے اٹھنے کا ارادہ فرمایا تو پھر وہی غشی اور غفلت کی کیفیت طاری ہو گئی ، پھر جب اس کیفیت سے افاقہ ہوا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز ادا کر لی ؟ عرض کیا گیا کہ ابھی نماز ادا نہیں کی گئی لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ٹب میں پانی بھرنے کے لئے فرمایا اور غسل فرمایا کہ مسجد جانے کے لئے اٹھنے کا ارادہ فرمایا تو پھر وہی غشی اور غفلت کی کیفیت طاری ہو گئی ۔ (غرض تین دفعہ ایسا ہی ہوا) اس کے بعد جب افاقہ ہوا اور دریافت کرنے پر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ ابھی مسجد میں جماعت نہیں ہوئی ، لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں مسجد میں جمے بیٹھے ہیں ، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب ابو بکرؓ کو میری طرف سے کہہ دیا جائے کہ وہ نماز پڑھا دیں ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری کی جو روایت اوپر درج کی گئی ہے اس میں بھی ہے اور اس واقعہ کی اکثر روایات میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اس موقعہ پر عرض کیا کہ میرے والد ابو بکر رقیق القلب ہیں وہ جب مماز پڑھانے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کھڑے ہوں گے تو ان پر رقت غالب آ جائے گی اور وہ نماز نہیں پڑھا سکیں گے ، اس لئے بجائے ان کے حضرت عمرؓ کو حکم دے دیا جائے وہ مضبوط دل کے آدمی ہیں ۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس بات کو قبول نہیں فرمایا اور جب انہوں نے دوبارہ وہی بات کہی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ڈانٹ دیا اور فرمایا کہ ابو بکر ہی کو میرا یہ پیغام پہنچایا جائے کہ وہ نماز پڑھا دیں) چنانچہ حضرت بلالؓ نے حضرت ابو بکرؓ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم پہنچایا ...... (ان کو معلوم نہیں تھا کہ حضرت عائشہؓ اس بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا عرض کر چکی ہیں اور ان کو کیا جواب مل چکا ہے) انہوں نے بھی اپنی قلبی کیفیت کا خیال کرتے ہوئے حضرت عمرؓ سے کہا کہ تم نماز پڑھا دو ، انہوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے لئے حکم فرمایا ہے تم ہی نماز پڑھاؤ .... چنانچہ حضرت ابو بکر نے نماز پڑھائی ..... اوپر یہ ذخر کیا جا چکا ہے کہ یہ عشاء کی نماز تھی اور یہ پہلی نماز تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تاکیدی حکم سے حضرت ابو بکرؓ نے پڑھائی اور اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق وہی مسجد شریف میں نماز پڑھاتے رہے ۔
آگے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت میں یہ بھی ہے کہ پھر ایک دن نماز ظہر کے وقت جب کہ مسجد شریف میں نماز باجماعت شروع ہو چکی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق حضرت ابو بکرؓ نماز پڑھا رہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض اور تکلیف میں تخفیف اور افاقہ کی کیفیت محسوس کی تو دو آدمیوں کے سہارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد تشریف لائے ۔ حضرت ابو بکرؓ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا احساس ہو گیا وہ پیچھے ہٹنے لگے تا کہ مقتدیوں کی صف میں شامل ہو جائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا کہ مجھے ابو بکرؓ کے پہلو میں بٹھا دو چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اب یہاں سے اصل امام حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہو گئے اور حضرت ابو بکرؓ مقتدی ہو گئے ، لیکن ضعف و نقاہت کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تکبیرات وغیرہ کی آواز چونکہ سب نمازی نہیں سن سکتے تھے اس لئے تکبیرات وغیرہ حضرت ابو بکرؓ ہی کہتے رہے بعض راویوں نے اس کو اس طرح تعبیر کیا ہے کہ ابو بکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کر رہے تھے اور باقی تمام نمازی ابو بکرؓ کی اقتدا کر رہے تھے ، مطلب یہی ہے کہ عام نمازیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکبیرات وغیرہ کی آواز نہیں پہنچتی تھی ابو بکرؓ ہی کی آواز پہنچتی تھی اور وہ اسی کے مطابق رکوع و سجدہ وغیرہ کرتے تھے ، یہ ظہر کی وہی نماز تھی جس کا ذکر پہلے بھی متعدد روایات میں آ چکا ہے اور یہ کہ اس نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر رونق افروز ہو کر خطاب بھی فرمایا جو مسجد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری خطاب تھا ۔ اس پر اتفاق ہے کہ حضرت ابو بکرؓ کو اپنی جگہ امام مقرر فرما دینے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی یہ نماز مسجد تشریف لا کر ادا فرمائی اس کے علاوہ بھی کوئی نماز ان دنوں میں مسجد تشریف لا کر ادا فرمائی یا نہیں اس میں اختلاف ہے ۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس واقعہ سے متعلق متعدد روایات میں خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان ذ کر کیا گیا ہے کہ میں نے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بار بار عرض کیا کہ ابو بکرؓ رقیق القلب ہیں وہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کھڑے ہوں گے تو ان پر رقت طاری ہو جائے گی اور وہ نماز نہ پڑھا سکیں گے تو اس کا اصل محرک میرا یہ خیال تھا کہ جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کھڑے ہو کر نماز پڑھائے گا لوگ اس کو اچھی محبت کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے اس لئے میں چاہتی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو نماز پڑھانے کا حکم نہ دیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غالباً ان کے دل اور زبان کے اس فرق کو محسوس فرما لیا اس لئے ڈانٹا اور فرمایا “ان كن صواحب يوسف”
حضرت عائشہؓ یہ نہ سمجھ سکیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اپنی حیات میں امام نماز بنا کر اپنے بعد کے لئے امت کی امامت کبریٰ (خلافت نبوت) کا فیصلہ اپنے عمل سے فرما دینا چاہتے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے امام بنانے پر اصرار اسی مقصد سے تھا ۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔