HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Maarif ul Hadith

17. کتاب المناقب والفضائل

معارف الحدیث

2008

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: أَنَّ مِنْ نِعَمِ اللَّهِ عَلَيَّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُوُفِّيَ فِي بَيْتِي، وَفِي يَوْمِي، وَبَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي، وَأَنَّ اللَّهَ جَمَعَ بَيْنَ رِيقِي وَرِيقِهِ عِنْدَ مَوْتِهِ: دَخَلَ عَلَيَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَبِيَدِهِ السِّوَاكُ، وَأَنَا مُسْنِدَةٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَأَيْتُهُ يَنْظُرُ إِلَيْهِ، وَعَرَفْتُ أَنَّهُ يُحِبُّ السِّوَاكَ، فَقُلْتُ: آخُذُهُ لَكَ؟ فَأَشَارَ بِرَأْسِهِ: «أَنْ نَعَمْ» فَتَنَاوَلْتُهُ، فَاشْتَدَّ عَلَيْهِ، وَقُلْتُ: أُلَيِّنُهُ لَكَ؟ فَأَشَارَ بِرَأْسِهِ: «أَنْ نَعَمْ» فَلَيَّنْتُهُ، فَأَمَرَّهُ، وَبَيْنَ يَدَيْهِ رَكْوَةٌ أَوْ عُلْبَةٌ - يَشُكُّ عُمَرُ - فِيهَا مَاءٌ، فَجَعَلَ يُدْخِلُ يَدَيْهِ فِي المَاءِ فَيَمْسَحُ بِهِمَا وَجْهَهُ، يَقُولُ: «لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، إِنَّ لِلْمَوْتِ سَكَرَاتٍ» ثُمَّ نَصَبَ يَدَهُ، فَجَعَلَ يَقُولُ: «فِي الرَّفِيقِ الأَعْلَى» حَتَّى قُبِضَ وَمَالَتْ يَدُهُ. (رواه البخارى)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے آپؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جن خاص نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی میرے گھر میں اور میری ہی نوبت کے دن میں ، اور یہ بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی میرے سینہ اور میری ہنسلی کے درمیان (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت میں وفات پائی کہ آپ میرے سینہ اور ہنسلی سے لگے ہوئے تھے اور اللہ کی جو خاص الخاص نعمتیں مجھ پر ہوئیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری وقت میں میرا آب دہن اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آب دہن ملا دیا (یعنی آخری وقت میں آپ ..... کا آب دہن (تھوک) میرے حلق میں آیا اور میرا ٓب دہن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک میں گیا ، آگے حضرت صدیقہؓ اس کی تفصیل بیان فرماتی ہیں کہ) میرے بھائی عبدالرحمٰن گھر میں آئے ، ان کے ہاتھ میں مسواک تھی اور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سینہ سے لگائے بیٹھی تھی (یعنی آپ تکیہ کے طور پر میرے سینے سے لگے ہوئے تھے) تو میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عبدالرحمٰن کی مسواک کی طرف نظر فرما رہے ہیں اور میں نے جانا کہ آپ مسواک کرنا چاہتے ہیں ، تو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ کیا میں عبدالرحمٰن سے یہ مسواک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لے لوں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر مبارک سے اشارہ فرمایا کہ ہاں لے لو ، تو میں نے وہ مسواک عبدالرحمٰن سے لے کر دے دی آپ نے مسواک کرنی چاہی تو وہ سخت محسوس ہوئی ، میں نے عرض کیا کہ میں اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نرم کر دوں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر مبارک سے اشارہ فرمایا کہ ہاں (اس کو میرے لئے نرم کر دو) تو میں نے اس کو (چبا کر) نرم کر دیا ، تو آپ نے اس کو اپنے دانتوں پر پھیرا (اس طرح اس آخری وقت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آب دہن میرے حلق میں اور میرا ٓب دہن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دہن مبارک میں چلا گیا) ..... آگے حضرت صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں کہ) اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک برتن میں پانی رکھا ہوا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار اس پانی میں اپنے دونوں ہاتھ ڈالتے اور وہ ہاتھ چہرہ مبارک پر پھیر لیتے ، اور اسی حال میں زبان مبارک سے فرماتے “لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، إِنَّ لِلْمَوْتِ سَكَرَاتٍ” (صرف اللہ ہی معبود برحق ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، ہاں موت کے لئے بڑی سختیاں ہیں) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دست مبارک اوپر کی طرف اٹھایا اور فرمانے لگے “فِي الرَّفِيقِ الأَعْلَى” (مجھ کو شامل کر لے رفیق اعلیٰ میں) اسی حال میں روح مبارک قبض کر لی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اوپر اٹھا ہوا ہاتھ نیچے کی طرف آ گیا ۔ (صحیح بخاری)

تشریح
اس حدیث میں حضرت صدیقہؓ نے صرف ان خاص الخاص انعامات کا ذکر فرمایا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحات حیات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر ہوئے ..... ایک یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں وفات پائی اور حسن اتفاق سے وہ دن میری نوبت کا تھا ..... یعنی اگرچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وفات سے آٹھ دن پہلے اپنی خواہش اور دیگر ازواج مطہرات کی اجازت میں میرے گھر میں مستقل طور پر تشریف لے آئے تھے لیکن جس دو شنبہ کو وفات پائی وہ دن باری کے حساب سے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے میرے ہاں قیام کا دن تھا ..... اور دوسرا خصوصی انعام اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ فرمایا کہ جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اس وقت آپ میرے سینہ اور ہنسلی کے درمیان تھے ، یعنی حضور کی کمر مبارک میرے سینہ سے لگی ہوئی تھی اور سر مبارک میری ہنسلی سے لگا ہوا تھا ..... اور اللہ تعالیٰ کا تیسرا خاص انعام مجھ پر یہ ہوا کہ اس آخری وقت میں میرے بھائی عبدالرحمٰن گھر میں آ گئے ان کے ہاتھ میں مسواک تھی ، ان کی مسواک کی طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح دیکھا کہ میں نے سمجھا کہ آپ مسواک کرنا چاہتے ہیں ، تو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ پا کر وہ مسواک اپنے بھائی سے لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو استعمال کیا تو وہ سخت محسوس ہوئی میں نے عرض کیا کہ میں اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نرم کر دوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر سے اشارہ فرمایا کہ ہاں اس کو نرم کر دو ، تو میں نے اس کو چبا کر اور نرم کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حسب معمول دانتوں پر پھیرا ، اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس آخری وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آب دہن (تھوک) میرے حلق میں اور میرا آب دہن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک میں جمع فرما دیا .... واقعہ یہ ہے کہ ان خاص خاص انعام الٰہیہ پر حضرت صدیقہؓ کو جتنی بھی خوشی اور جتنا بھی فخر ہو ، برحق ہے ..... آگے حضرت صدیقہؓ نے آخری وقت کا جو حال بیان فرمایا ہے ، اس میں اس آخری وقت کی شدت تکلیف کا ذکر ہے ..... فرماتی ہیں کہ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک برتن میں پانی رکھا ہوا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار اس میں اپنے دونوں ہاتھ ڈالتے اور چہرہ مبارک پر پھیر لیتے اور اسی حال میں زبان مبارک سے فرماتے “لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، إِنَّ لِلْمَوْتِ سَكَرَاتٍ” مقربین کو اس طرح کی تکلیف ان کے رفع درجات کے لئے ہوتی ہے ..... آگے حضرت صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں کہ اسی حال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اوپر اٹھایا اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا “فِي الرَّفِيقِ الأَعْلَى” یوں سمجھنا چاہئے کہ اس وقت وہ “اعلى عليين” آپ کے سامنے کر دیا گیا تھا جو حضرات انبیاء علیہم السلام ، حضرات صدیقین شہداء اور صالحین کا مقام و مستقر ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کیا کہ مجھے اسی رفیق اعلیٰ میں پہنچا دے ..... چنانچہ روح مبارک قبض کر لی گئی اوپر اٹھا ہوا دست مبارک نیچے آ گیا .... قرآن پاک میں .... حضران انبیاء علیہم السلام ، صدیقین ، شہداء اور صالحین پر اللہ تعالیٰ کے خاص انعامات کا ذکر کر کے فرمایا گیا ہے “وَحَسُنَ اُولئِكَ رَفِيْقا” (سورہ نساء ، آیت نمبر ۶۹)
بظاہر حدیث کے لفظ “فِي الرَّفِيقِ الأَعْلَى” سے یہی مراد ہے ، اس سے پہلے صحیحین کے حوالہ سے حضرت صدیقہؓ ہی کی جو روایت ذکر کی گئی ہے اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے ، مستدرک حاکم وغیرہ کی ان روایات کا ذکر کیا ہے جن میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت وفات پائی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھے ، اس کے بعد حافظ ابن حجر نے ان روایات کے بارے میں لکھا ہے “وكل طريق منها لا يخلو من شيعى فلا يلتف اليها” (یعنی ان تمام روایتوں کی سند میں کوئی نہ کوئی شیعہ راوی ہے اس لئے قابل التفات بھی نہیں ہیں) آگے حافظ ابن حجر نے ان تمام روایات کی سندوں پر تفصیلی کلام کیا ہے ۔ (فتح الباری ص ۱۰۳ ، ص ۱۰۴) جز ۱۸ طبع انصاری دہلی)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔