HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Maarif ul Hadith

17. کتاب المناقب والفضائل

معارف الحدیث

2056

عَنْ زِرٍّ بْنِ حُبَيْشٍ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِي الله عَنهُ : وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ، وَبَرَأَ النَّسَمَةَ، إِنَّهُ لَعَهِدَ النَّبِيُّ الْأُمِّيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيَّ: «أَنْ لَا يُحِبَّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضَنِي إِلَّا مُنَافِقٌ» (رواه مسلم)
زر بن حبیش سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جو دانے کو پھاڑ کر پودا نکالتا ہے اور جس نے جانداروں کو پیدا فرمایا ، نبی اُمّی صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت سے مجھ سے فرمایا تھا کہ مجھ سے وہی بندہ محبت کرتے گا جو مومن صادق ہو گا اور وہی شخص مجھ سے بغض و عداوت رکھے گا جو منافق ہو گا ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ وارضاہ کو جن عظیم انعامات اور دینی فضائل سے نوازا ، مثلاً یہ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر اسلام پر سب سے پہلے لبیک کہنے والوں میں ہیں ، اور یہ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا زاد بھائی تھے اور وہ ان سے محبت فرماتے تھے اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحبزادی حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کو ان کے نکاح میں دے کر دامادی کا شرف عطا فرمایا اور اکثر غزوات میں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور بار بار میدان جہاد و قتال میں اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر کارہائے نمایاں انجام دئیے اور جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوا غزوہ خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد و عمل سے یہ ظاہر فرمایا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے محب اور محبوب ہیں .... الغرض ان اور ان جیسے ان کے دوسرے فضائل اور خداوندی انعامات کا یہ حق ہے کہ ہر مومن صادق ان سے محبت کرے اور ان سے بغض و کینہ رکھنے والوں کے متعلق سمجھا جائے کہ وہ ایمان کی حقیقت سے محروم اور نفاق کے مریض ہیں ۔
البتہ یہ بات قابل لحاظ ہے کہ محبت سے مراد وہی محبت ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک معتبر اور شریعت کے حدود میں ہو ، ورنہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں میں سب سے پہلا نمبر ان بدبختوں کا ہے ، جنہوں نے ان کو خدا مانا ، یا پھر ان بدنصیبوں کا ہے جن کا عقیدہ ہے کہ نبوت کے اصل مستحق حضرت علی مرتضیٰؓ تھے ، اللہ نے جبرئیل کو انہیں کے پاس بھیجا تھا وہ غلطی سے محمد بن عبداللہ کے پاس پہنچ گئے ، اسی طرح شیعوں کے اسماعیلیہ و نصیریہ وغیرہ فرقے جو اپنے اماموں کے بارے میں یہ مشرکانہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ خدا کا روپ ہیں اور خداوندی صفات و اختیارات ان کو حاصل ہیں ۔ اسی طرھ وہ شیعہ اثنا عشریہ جو حضرت علی مرتضیٰ اور ان کی اولاد میں گیارہ شخصیتوں کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبیوں رسولوں کی طرح نامزد امام معصوم مفترض الطاعۃ ، تمام انبیاي سابقین سے افضل کمالات میں ان سے فائق ، صاحب وحی و کتاب و صاحب معجزات اور متصرف فی الکائنات ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں .... ظاہر ہے کہ یہ محبت ایسی ہی ہے جیسی محبت کا دعویٰ نصاریٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کرتے ہین ، جس نے ان کو مشرک اور جہنمی بنا دیا ..... الغرض حضرت علی مرتضیٰ سے اس طرح کی محبت کرنے والے فرقے مشرک فی الالوہیت یا شرک فی النبوۃ ہیں ، حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ ان سے بری اور بیزار ہیں ، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پاک کے نزدیک مقبول محبت وہی ہے جو حضرت علی مرتضیٰ اور ان کی اولاد بزرگان دین سے اہل السنہ والجماعت کو نصیب ہے ۔
اس حدیث میں حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے والوں کو منافق فرمایا گیا ہے ، اس کا خاص مصداق خوارج و نواصب ہیں ، جنہوں نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ پر قرآنی ہدایت سے انحراف کا بہتان لگایا اور ان کو دینی حیثیت سے گمراہ قرار دیا اور انہیں میں کے ایک بدبخت عبدالرحمن بن ملجم نے حضرت کو شہید بھی کیا ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد خود صحابہ کرامؓ میں اختلافات پیدا ہوئے اور جمل وصفین کی جنگوں کی بھی نوبت آئی ، یہ اختلافات کچھ غلط فہمیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے ، صحابہ کرامؓ میں سے کوئی بھی حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو دینی حیثیت سے گمراہ سمجھ کر ان سے بغض نہیں رکھتا تھا یہ اجتہادی اختلاف تھا اور ہر فریق نے دوسرے فریق کو مومن و مسلم ہونے کا اظہار و اعلان فرمایا اور بعد میں اس جنگ و قتال پر فریقین کو رنج و افسوس اور اس سب کے بعد سیدنا حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی مصالحت نے ثابت کر دیا کہ جو کچھ ہوا بغض و عداوت کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ اجتہادی اختلاف کی وجہ سے ہوا ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسنؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا “ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ عَلَى يَدَيْهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ” (میرا یہ بیٹا عظیم المقام سردار ہے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو بڑے گرہوں میں صلح کرا دے گا) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں گروہ مسلمانوں کے تھے ، کوئی گروہ بھی منافق نہیں تھا ۔
آخر میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صحیح مسلم شریف میں زر بن حبیش کی یہ حدیث ذکر کی گئی ہے اس سے پہلا متصلاً حضرت انسؓ ، حضرت براء بن عازب ، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہم سے مختلف سندوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ انصار سے محبت رکھنا ایمان کی علامت ہے ، اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی نشانی ہے ۔
حضرت براء بن عازب کی حدیث کے الفاظ صحیح مسلم میں یہ ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے بارے میں ارشاد فرمایا :
«لَا يُحِبُّهُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضُهُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ، مَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ اللهُ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ اللهُ»
ترجمہ : انصار سے صرف وہی شخص محبت کرے گا جو مومن صادق ہو گا اور وہی شخص بغض رکھے گا جو منافق ہو گا ، جو انصار سے محبت کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے محبت فرمائے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ اللہ کا مبغوض ہو گا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر مختلف اصحاب کے بارے میں بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ان کی محبت ایمان کی علامت اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی نشانی ہے ار بلاشبہ اس بارے میں حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو خصوصیت حاصل ہے ، اللہ تعالیٰ اپنی ، اپنے رسول پاک اور اپنے تمام محبین و محبوبین کی محبت ہم کو نصیب فرمائے ۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔