HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Maarif ul Hadith

17. کتاب المناقب والفضائل

معارف الحدیث

2097

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا غِرْتُ عَلَى أَحَدٍ مِنْ نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ، وَمَا رَأَيْتُهَا، وَلَكِنْ كَانَ يُكْثِرُ ذِكْرَهَا، وَرُبَّمَا ذَبَحَ الشَّاةَ ثُمَّ يُقَطِّعُهَا أَعْضَاءً، ثُمَّ يَبْعَثُهَا فِي صَدَائِقِ خَدِيجَةَ، فَرُبَّمَا قُلْتُ لَهُ: كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ فِي الدُّنْيَا امْرَأَةٌ إِلَّا خَدِيجَةُ، فَيَقُولُ «إِنَّهَا كَانَتْ، وَكَانَتْ، وَكَانَ لِي مِنْهَا وَلَدٌ» (رواه البخارى ومسلم)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے کسی پر ایسا رشک نہیں آیا جیسا کہ خدیجہؓ پر آیا حالانکہ میں نے ان کو دیکھا نہیں ، لیکن آپ ان کو بہت یاد کرتے ، اور بکثرت ان کا ذکر فرماتے ، کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکری ذبح فرماتے ، پھر اس کے اعضاء الگ الگ ٹکڑے کرتے ، پھر وہ ٹکڑے خدیجہؓ سے میل محبت رکھنے والیوں کے یہاں بھیجتے تو میں کس وقت کہہ دیتی دنیا میں بس خدیجہ ہی ایک عورت تھیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ وہ ایسی تھیں ، ایسی تھیں اور ان سے میری اولاد ہوئی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن اخلاق حسنہ سے نوازا تھا ان میں ایک احسان شناسی کا وصف بھی تھا ۔ حضرت خدیجہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو خدمتیں کیں اور دور نبوت کے آغاز میں جس طرح وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تقویت اور تسلی کا ذریعہ بنیں ، اور پھر دین حق کی دعوت کے وقت جس طرح وہ شدائد و مصائب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریک حال رہیں ، اور ان کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے جو خصوصیات ان کو عطا فرمائی تھیں (جن میں سے کچھ کا ذکر اوپر آ چکا ہے) ان کا حق تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو کبھی فراموش نہ کرتے اور احسان شناسی کے جذبہ کا تقاضا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا اور ان کی خدمات و احسانات کا دوسروں کے خاص کر اپنی ازواج مطہرات کے سامنے ذکر فرماتے یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا ، یہاں تک کہ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی معمول تھا کہ کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکری ذبح کرتے تھے اس کے گوشت کے پارچے حضرت خدیجہؓ سے میل محبت کا تعلق رکھنے والی خواتین کو ہدیہ کے طور پر بھیجتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی وہ طرز عمل تھا ، جس کی بنا پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے کسی پر ویسا رشک نہیں آیا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی مرحومہ بیوی خدیجہؓ پر آتا تھا ، ھالانکہ میں نے ان کو دیکھا بھی نہیں تھا (کیوں کہ ان کے پچپنے ہی میں وہ وفات پا گئیں تھیں) ..... اسی سلسلہ بیان میں حضرت صدیقہؓ نے کود ہی اپنی اس کمزوری کا ذکر فرمایا کہ میں ایسے وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مرحومہ بیوی خدیجہؓ کی خوبیوں کا ذکر فرماتے تو کبھی کہہ دیتی کہ “دنیا میں بس خدیجہؓ ہی ایک عورت تھیں” ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ وہ ایسی تھیں ایسی تھیں ۔ مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی خدمات و احسانات اور خوبیوں کا ذکر فرماتے ، اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اس خصوصیت کا بھی ذکر فرماتے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کے ذریعہ مجھے اولاد عطا فرمائی ۔ کیوں کہ ان کے علاوہ دس بیویوں میں سے کسی سے بھی کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔
یہاں یہ بات قابل لحاظ ہے کہ حضرت ماریہ قبطیہؓ سے ایک صاحبزادے پیدا ہوئے تھے جن کا نام آپ نے ابراہیم رکھا تھا ، وہ شیر خوارگی ہی کے ایام میں قریباً صرف ڈیڑھ سال کی عمر پا کر انتقال فرما گئے تھے لیکن حضرت ماریہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے نہیں تھیں ، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مملوکہ تھیں جن کو اسکندریہ کے صاحب حکومت مقوقس نے کچھ اور ہدایا کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر بھیجا تھا ، پھر وہ حضرت ابراہیم کی پیدائش کے بعد شریعت کے حکم کے مطابق “ام ولد” ہو گئی تا آنکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ۵ سال بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں وفات پائی ۔ (رضی اللہ عنہا وارضاہا)

ام المومنین حضرت سودہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے قوم کو بت پرستی اور جاہلیت والی زندگی چھوڑ کر خدائے واحد کی پرستش اور اس کی فرمانبرداری والی زندگی کی دعوت کا کام شروع کیا ، تو پوری قوم آپ کی دشمن بن کر کھڑی ہو گئی ، لیکن چند ایسے سلیم الفطرت افراد بھی تھے ، جن کے دلوں نے آپ کی دعوت حق کو ابتدائی دور ہی میں قبول کر لیا ، ان میں ایک سودہ بنت زمعہ عامریہ بھی تھیں ، ان کی شادی اپنے چچا زاد بھائی سکران سے ہوئی تھی ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوت اسلام کی دشمنی میں عام مشرکین قریش کے ساتھ تھا ، حضرت سودہؓ نے مصلحت اس میں سمجھی کہ وہ اپنے اسلام کو ظاہر نہ کریں ۔ جس وقت وہ مناسب سمجھتیں تو اپنے شوہر سکران کے سامنے ایسی باتیں کرتیں جن سے ان کا دل بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور اسلام کی حقانیت کے بارے میں سوچنے لگے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کی توفیق سے ان کے شوہر سکران نے بھی کچھ مدت کے بعد اسلام قبول کر لیا اور پھر میاں بیوی دونوں نے اپنے اسلام و ایمان کا اعلانیہ اظہار بھی کر دیا ، جس کے بعد ان دونوں پر بھی کفار قریش کی طرف سے ظلم و ستم کا سلسلہ شروع ہو گیا ، جو بڑھتا ہی گیا ..... بالآخر مظالم سے تنگ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ پر ان دونوں نے بھی بہت سے دوسرے مظلوم اور ستم رسیدہ مسلمانوں کی طرح ملک حبشہ کی طرف ہجرت کی ..... چند برس کے بعد ان کے شوہر سکران کا حبشہ ہی میں انتقال ہو گیا ، تو یہ بیوہ ہو کر مکہ مکرمہ واپس آ گئیں اور اپنے والد کے پاس رہیں ۔
نبوت کے دسویں سال جب ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ کی وفات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فطری طور پر ان کے مفارقت کی صدمہ سے سخت غمگین تھے ، علاوہ اس کے ایک پریشان کن صورت ھال یہ پیدا ہو گئی کہ گھر میں صرف کم عمر چار بچیاں تھیں ، جن کی دیکھ بھال کرنے والا اور خانہ داری کی دوسری ضرورتیں پوری کرنے والا کوئی نہ تھا ..... عثمان بن مظعون کی بیوی خولہ بنت حکیم نے اس صورت حال کو محسوس کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ کو جلدی نکاح کر لینا چاہئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہاری نگاہ میں کون ایسی خاتون ہیں ، جن کو تم ان حالات میں مناسب سمجھتی ہو ؟ انہوں نے سودہ بنت زمعہؓ کا نام لیا ، جو بیوہ اور سن رسیدہ تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان میں ان کی سابقیت ، پھر حبشہ کی طرف ہجرت اور سکران کی وفات کے بعد ان کی بیوی کے صدمہ کا لحاظ کرتے ہوئے ان سے نکاح کرنے کا ارادہ فرما لیا ، اور خولہ سے فرمایا : تم خود ہی ان کو میرا پیغام پہنچاؤ ..... خولہ کا بیان ہے کہ میں سودہ کے پاس پہنچی اور ان کو مبارک باد دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام پہنچایا ، انہوں نے کہا کہ “میں دل و جان سے راضی ہوں“ التبہ بہتر یہ ہے کہ تم میرے والد زمعہ سے بھی اس سلسلہ میں بات کرو ! میں اسی وقت ان کے پاس بھی گئی اور پیام پہنچایا ، انہوں نے بھی اپنی رضامندی ظاہر کی ، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ تم خود سودہ سے بھی دریافت کرو ، میں نے بتایا کہ میں ان سے بات کر چکی ہوں ، وہ بڑی خوش دلی کے ساتھ رضامند ہیں ، بالآخر زمعہ نے خولہ بنت حکیم ہی کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلوایا ، اور آپ کے ساتھ اپنی بیٹی سودہ کا نکاح کر دیا ، اس وقت حضرت سودہؓ کی عمر قریباً پچاس سال تھی ..... نکاح کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت فرمانے تک تین سال منکوحہ رفیقہ حیات کی حیثیت سے تنہا وہی آپ کے ساتھ رہیں ..... ان کے اوصاف و احوال میں ان کی سرچشمی ، استغناء دنیا سے بےرغبتی ، اور فیاضی خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ ان کے مذکورہ بالا امتیازات کی وجہ سے ان کے ساتھ احترام کا خاص رویہ رکھتے تھے ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے درہموں سے بھری ہوئی ایک تھیلی ، ان کی خدمت میں بھیجی ، لانے والے سے پوچھا : کیا تھیلی میں کھجوریں ہیں ، انہوں نے کہا نہیں ! اس میں درہم ہیں ، آپؓ نے فرمایا : کھجوریں ہوتیں تو کھانے کے کام آ جاتیں ، یہ کہہ کر تھیلی لے لی ، اور اس میں بھرے ہوئے سب درہم ضرورت مندوں پر تقسیم فرما دئیے ۔
حضرت عمرؓ کے اخیر دور خلافت ۲۲ھ مین قریباً ۵۷ سال کی عمر میں وفات پائی ۔ رضی اللہ عنہا وارضاہا ۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔