HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Maarif ul Hadith

3. کتاب الاخلاق

معارف الحدیث

365

عَنْ زَيْدِ بْنِ طَلْحَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ لِكُلِّ دِينٍ خُلُقًا ، وَخُلُقُ الْإِسْلَامِ الْحَيَاءُ " (رواه مالك مرسلا ورواه ابن ماجة والبيهقى فى شعب الايمان عن انس وابن عباس)
زید بن طلحہ سے روایت ہے وہ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ ہر دین کا کوئی امتیازی وصف ہوتا ہے ، اور دین اسلام کا امتیازی وصف حیا ہے ۔ (موطا امام مالک ، سنن ابن ماجہ و شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
حیا کی خاص اہمیت اور اس کے معنی کی وسعت

جائے گا ۔ اس حدیث میں اسی قسم کے تین مجرموں کے حق میں اعلان فرمایا گیا ہے کہ ان بدبختوں بدنصیبوں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہم کلام نہ ہو گا ، اور اُن کا تزکیہ بھی نہ فرمائے گا ، اور آخرت میں یہ مجرم رب کریم کی نظر کرم سے بھی قطعی محروم رہیں گے ۔ ایک بوڑھا زناکار ، دوسرا جھوٹافرمانروا ، تیسرا ناداری کی حالت میں تکبر کرنے والا ۔ اور یہ اس لئے کہ جوانی کی حالت میں اگر کوئی شخص زنا کا مرتکب ہوا ، تو اس کا یہ گناہ کبیرہ ہونے کے باوجود قابلِ درگزر بھی ہو سکتا ہے ، کیوں کہ جوانی کی حالت میں شہوت سے مغلوب ہونا ایک فطری کمزوری ہے ، لیکن اگر کوئی بوڑھا بڑھاپے میں یہ حرکت کرے ، تو یہ اس کی طبیعت کی سخت خباثت کی نشانی ہے ، اسی طرح اگر کوئی بے چارہ عام آدمی اپنی ضرورت نکالنے کے لیے جھوٹ بول جائے ، تو اس کا گناہ بھی کبیرہ ہونے کے باوجود قابل معافی ہو سکتا ہے لیکن ایک صاحب اقتدار حکمران اگر جھوٹ بولتا ہے ، تو یہ اس کی طبیعت کی انتہائی گندگی اور خدا سے بے خوفی کی نشانی ہے ۔ ایسے ہی کوئی دولت مند اگر تکبر کرے تو انسان کی عام فطرت کے لحاظ سے کچھ زیادہ مستبعد نہیں ۔ ع
“ چو بدولت برسی مست نہ گردی مردی ”
لیکن گھر میں فقر و فاقہ کے باوجود اگر کوئی شخص غرور و تکبر کی چال چلتا ہے تو بلا شبہ اس کی انتہائی دنائت اور کمینہ پن ہے ۔ الغرض تینوں قسم کے یہ مجرم قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی ہمکلامی سے اور اس کی نظرِ کرم سے تزکیہ سے محروم رہیں گے ، تزکیہ نہ کئے جانے کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ ان کے گناہ معاف نہیں کئے جائیں گے ، اور صرف عقیدہ یا بعض اعمال صالحہ کی بنیاد پر ان کو مومنین صالحین کے ساتھ شمار نہ کیا جائے گا ، بلکہ ان کو سزا بھگتنی ہی بڑے گی ۔ واللہ اعلم ۔
شرم و حیا
شرم و حیا ایک ایسا اہم فطری اور بنیادی وصف ہے جس کو انسا کی سیرت سازی میں بہت زیادہ دخل ہے ، یہی وہ وصف اور خلق ہے جو آدمی کو بہت سے بُرے کاموں اور بری باتوں سے روکتا ، اور فواحش و منکرات سے اس کو بچاتا ہے ا ، اور اچھے اور شریفانہ کاموں کے لیے آمادہ کرتا ہے ، الغرض شرم و حیا انسان کی بہت سی خوبیوں کی جڑ بنیاد اور فواحش و منکرات سے اس کی محافظ ہے ، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم و تربیت میں اس پر بہت زیادہ زور دیا ہے ۔
اس سلسلہ کے آپ کے چند ارشادات ذیل میں پڑھئے ، اور اس وصف کو اپنے اندر پیدا کرنے اور ترقی دینے کی کوشش کیجئے ۔

تشریح ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ ہر دین اور ہر شریعت میں اخلاق انسانی کے کسی خاص پہلو پر نسبتاً زیادہ زور دیا جاتا ہے ، اور انسانی زندگی میں اسی کو نمایاں اور غالب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم اور شریعت میں رحمدلی اور عفو و درگزر پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے (یہاں تک کہ مسیحی تعلیمات کا مطالعہ کرنے والے کو صاف محسوس ہوتا ہے کہ رحمدلی اور وعفو و درگزر ہی گویا ان کی شریعت کا مرکزی نقطہ اور ان کی تعلیم کی روح ہے) اسی طرح اسلام یعنی حضرت محمد ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت اور تعلیم میں حیا پر خاص زور دیا گیا ہے ۔
یہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ قرآن و حدیث کی اصطلاح میں حیا کا مفہوم بہت وسیع ہے ، ہمارے عرف اور محاورہ میں تو حیا کا تقاضا اتنا ہی سمجھا جاتا ہے کہ آدمی فواحش سے بچے یعنی شرمناک باتیں اور شرمناک کام کرنے سے پرہیز کرے ، لیکن قرآن و حدیث کے استعمالات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حیا طبیعتِ انسانی کی اس کیفیت کا نام ہے کہ ہر نامناسب بات اور ناپسندیدہ کام سے اس کو انقباض اور اس کے ارتکاب سے اذیت ہو ، پھر قرآن و حدیث ہی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حیا کا تعلق صرف اپنے ابناء جنس ہی سے نہیں ہے ، بلکہ حیا کا سب سے زیادہ مستحق وہ خالق و مالک ہے جس نے بندہ کو وجود بخشا اور جس کی پروردگاری سے وہ ہر آن حصہ پا رہا ہے ، اور جس کی نگاہ سے اس کا کوئی عمل اور کوئی حال چھپا نہیں ہے ، اس کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ شرم و حیا کرنے والے انسانوں کو سب سے زیادہ شرم و حیا اپنے ماں باپ کی ، اور اپنے بڑوں اور محسنوں کی ہوتی ہے ، اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ سب بڑوں سے بڑا ، اور سب محسنوں کا محسن ہے ، لہذا بندہ کو سب سے زیادہ شرم و حیا اسی کی ہونی چاہئے ، اور اس حیا کا تقاضا یہ ہو گا کہ جو کام اور جو بات بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کے حکم کے خلاف ہو ، آدمی کی طبیعت اس سے خود انقباض اور اذیت محسوس کرے اور اس سے باز رہے ، اور جب بندہ کا یہ حال ہو جائے تو اس کی زندگی جیسی پاک اور اس کی سیرت جیسی پسندیدہ اور اللہ کی مرضی کے مطابق ہوگی ظاہر ہے ۔
(اس حدیث کو امام مالکؒ نے موطا میں زید بن طلحہ تابعی سے مرسلاً روایت کیا ہے (یعنی ان صحابی کا ذکر نہیں کیا ، جن سے یہ حدیث زید بن طلحہ کو پہنچی تھی) لیکن ابن ماجہ اور بیہقی نے اس حدیث کو اپنی سند کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صحابیوں حضرت انسؓ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے) ۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔