HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Mishkaat Shareef

.

مشكاة المصابيح

3292

صحیح
وعن ركانة بن عبد يزيد أنه طلق امرأته سهيمة البتة فأخبر بذلك النبي صلى الله عليه و سلم وقال : والله ما أردت إلا واحدة فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : والله ما أردت إلا واحدة ؟ فقال ركانة : والله ما أردت إلا واحدة فردها إليه رسول الله صلى الله عليه و سلم فطلقها الثانية في زمان عمر والثالثة في زمان عثمان . رواه أبو داود والترمذي وابن ماجه والدارمي إلا أنهم لم يذكروا الثانية والثالثة
اور حضرت رکانہ ابن عبد یزید کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی سہیمۃ کو طلاق بت دی اور پھر اس کا ذکر رسول کریم ﷺ سے کیا اور کہا کہ اللہ کی قسم میں نے ایک طلاق کی نیت کی تھی آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ کیا واقعی اللہ کی قسم تم نے ایک طلاق کی نیت کی تھی ؟ رکانہ نے کہا کہ ہاں اللہ کی قسم میں نے ایک طلاق کی نیت کی تھی چناچہ رسول کریم ﷺ نے ان کی عورت کو ان کی طرف لوٹا دیا پھر رکانہ نے اس عورت کو دوسری طلاق حضرت عمر کے عہد خلافت میں اور تیسری طلاق حضرت عثمان غنی کے عہد خلافت میں دی اس روایت کو ابوداؤد ترمذی ابن ماجہ اور دارمی نے نقل کیا ہے لیکن ترمذی ابن ماجہ اور دارمی نے اپنی روایت میں دوسری اور تیسری طلاق کا ذکر نہیں کیا ہے۔

تشریح
طلاق بت، کا مطلب یہ ہے کہ حضرت رکانہ نے ان الفاظ میں طلاق دی انت طالق البتۃ یعنی تجھ پر طلاق البتۃ ہے) لفظ البتۃ بت کا اسم مرہ ہے جس کے معنی ہیں کاٹنا قطع کرنا لہذا طلاق بتہ کا مفہوم یہ ہوا کہ ایسی طلاق جو نکاح کا تعلق بالکل باقی نہیں رہنے دیتی اور عورت کو نکاح سے قطعی طور پر نکال دیتی ہے۔ ان کی عورت کو ان کی طرف لوٹا دیا کا مطلب حضرت امام شافعی کے نزدیک تو یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے رکانہ کو رجوع کرلینے کا حکم دیا اور گویا رکانہ نے رجوع کرلینے کے اس حکم کی بناء پر ان الفاظ راجعتہا الی نکاحی میں نے اس کو اپنے نکاح میں لوٹا لیا) کے ذریعہ اس عورت کو اپنے نکاح میں واپس کرلیا۔ حضرت امام شافعی نے یہ مطلب اس لئے مراد لئے ہیں کہ ان کے نزدیک طلاق بتہ ایک طلاق رجعی ہے ہاں اگر اس کے ذریعہ دو یا تین طلاقوں کی نیت کی گئی ہو تو پھر نیت کے مطابق ہی دو یا تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں۔ اور حضرت امام اعظم ابوحنفیہ کے نزدیک چونکہ اس لفظ کے ساتھ طلاق دینے سے ایک طلاق بائن پڑتی ہے خواہ ایک طلاق کی نیت کی ہو یا دو طلاق کی یا اور کچھ بھی نیت نہ کی گئی ہو اس لئے ان کے نزدیک اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اس عورت کو جدید نکاح کے ذریعہ رکانہ کی طرف لوٹا دیا۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔