HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Mishkaat Shareef

.

مشكاة المصابيح

6061

صحیح
اب آئیے یہ دیکھیں کہ شیعہ جس لفظ مولا کی بنیاد پر اس حدیث کو حضرت علی کے استحقاق خلافت بلافصل پر نص صریح قرار دیتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے مولا کے ایک دو نہیں کئی معنی ہیں رب، مالک، آقا، مددگار، دوست، تابع، پیروی کرنے والا، پڑوسی، چچازاد بھائی، حلیف، داماد، آزاد کردہ غلام اور احسان مند وغیرہ وغیرہ یہ مسلمہ اصول ہے کہ اگر کسی کلام میں کوئی ایسا لفظ لایا گیا ہو جو مختلف معانی رکھتا ہو اور ان میں سے کچھ معنی ایک دوسرے سے ترادف و اشتراک بھی رکھتے ہوں تو ان میں سے کسی خاص معنی کو متعین اور مراد لینا اس صورت میں معتبر ہوگا جب کہ اس کی کوئی دلیل اور اضح قرینہ موجود ہو، یا اگر وہ لفظ متنازعہ بن گیا ہو تو اس معنی کو مراد لینا زیادہ صحیح مانا جاتا ہے جس میں قدر مشترک پایا جاتا ہو اس اصول کے تحت اہل سنت والجماعت کہتے ہیں کہ لفظ مولا کے معنی حاکم و والی مراد لینا صحیح نہیں ہے، صحیح تو دوست و مددگار مراد لینا ہیں کیونکہ اول تو سیاق حدیث کا واضح قرینہ اور دلیل اس معنی کے حق میں ہے، دوسری دلیل یہ کہ لفظ مولا کا امام یعنی حاکم والی کے معنی میں مستعمل ہونا معہود ومعملوم نہیں ہے نہ لغت میں اور نہ شرع میں اور ائمہ لغت میں سے کسی نے بھی یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ مفعل بمعنی (اولی) میں آتا ہے یعنی یہ تو کہا جاتا ہے کہ یہ چیز فلاں چیز سے اولی ہے یہ نہیں کہا جاتا کہ یہ چیز فلاں چیز سے مولا ہے دوسرے یہ کہ خود شیعہ حضرت علی کو پوری امت کا دوست و محبوب و مددگار ہیں پس اس قدر مشترک کے اعتبار سے اس لفظ کے یہ معنی مراد لینا زیادہ موزوں ہے۔ رہی یہ بات کہ اگر آنحضرت ﷺ نے یہی مفہوم مراد لیا تھا تو پھر اس کو اتنے اہتمام سے بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی جب کہ یہ بات سب ہی کو معلوم تھی تو اس موالات کے بیان کرنے سے آنحضرت ﷺ کا اصل مقصد لوگوں کو اس بات پر متنبہ کرنا تھا کہ کوئی بھی شخص علی سے بغض وعناد نہ رکھے۔ اس تنبیہ کے اظہار کے لئے ضروری تھا کہ لوگوں کو جمع کیا جاتا اور پھر علی کی عظمت و بزرگی ثابت کرنے کے لئے ان الفاظ میں ان کی منقبت بیان کی جاتی۔ اسی لئے آپ ﷺ نے پہلے یوں فرمایا الستم تعلممون انی والی بالمؤمنین اور پھر بعد میں جو دعا فرمائی وہ بھی انہی الفاظ کی جہت و مناسبت سے رکھی، واضح ہو کہ یہ روایت جن دوسرے طرق سے منقول ہے ان میں سے بعض طرق میں پہلے تو اہل بیت نبوت کا عموماً ذکر ہے اور پھر حضرت علی کا خصوصی ذکر ہے، اس سے یہی ثابت ہوتا ہم کہ آپ ﷺ کا اصل مقصد تمام اہل بیت خصوصا حضرت علی کی محبت و توقیر کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا اور اس بارے میں تاکید کرنا تھا بعض روایتوں سے یہ بھی ثابت ہے کہ یہ ارشاد نبوت دراصل اس ضرورت کے تحت تھا کہ بعض صحابہ کو اس شکوہ پر تنبیہ کی جائے جس کا انہوں نے حضرت علی کے خلاف اظہار کیا تھا۔ یہ وہ صحابہ تھے جو ایک خاص مشن پر حضرت علی کے ساتھ یمن گئے تھے۔ جب یہ صحابہ بشمول حضرت علی حجۃ الوداع کے موقعہ پر یمن سے آکر آنحضرت ﷺ کے شریک حج ہوئے تو انہوں نے حضرت علی کی نسبت بعض معاملات میں آنحضرت ﷺ سے کچھ شکایات بیان کیں جو اہل یمن کی بعض غلط فہمیوں کے سبب پیدا ہوئی تھیں۔ نہ صرف یہ بلکہ بعض صحابہ نے حضرت علی کی کسی بات کا انکار بھی کیا تھا ان صحابہ میں ایک صحابی بریدہ اسلمی بھی تھے، صحیح بخاری کی روایت میں جس کو ذہبی نے بھی صحیح قرار دیا ہے یوں سے کہ جب آنحضرت ﷺ نے حضرت علی کی شان میں ان صحابہ کے شکایتی الفاظ سنے تو (غصہ کے مارے) آپ ﷺ کا چہرہ مبارک متغیر ہوگیا اور فرمایا اے بریدہ ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اہل ایمان کے نزدیک میں ان کی جانوں سے زیادہ عزیز ہوں اور پھر آپ ﷺ نے وہی الفاظ ارشاد فرمائے جو اوپر حدیث میں ہیں، بات چونکہ بہت اہم تھی اس لئے آپ ﷺ نے تمام صحابہ جمع کیا اور تاکیداً ان کے سامنے مذکورہ حدیث ارشاد فرمائی۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔