HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Shamail Tirmidhi

.

شمايل الترمذي

314

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَکِيعٍ قَالَ حَدَّثَنَا جُمَيْعُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعِجْلِيُّ قَالَ أَنْبَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ مِنْ وَلَدِ أَبِي هَالَةَ زَوْجِ خَدِيجَةَ يُکْنَی أَبَا عَبْدِ اللهِ عَنِ ابْنٍ لأَبِي هَالَةَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ سَأَلْتُ خَالِي هِنْدَ بْنَ أَبِي هَالَةَ وَکَانَ وَصَّافًا عَنْ حِلْيَةِ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم وَأَنَا أَشْتَهِي أَنْ يَصِفَ لِي مِنْهَا شَيْئًا فَقَالَ کَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم قَالَ فَسَأَلْتُهُ عَنْ مَخْرَجِهِ کَيْفَ يَصْنَعُ فِيهِ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم يَخْرِنُ لِسَانُهُ إِلا فِيمَا يَعْنِيهِ وَيُؤَلِّفُهُمْ وَلا يُنَفِّرُهُمْ وَيُکْرِمُ کَرَيمَ کُلِّ قَوْمٍ وَيُوَلِّيهِ عَلَيْهِمْ وَيُحَذِّرُ النَّاسَ وَيَحْتَرِسُ مِنْهُمْ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَطْوِيَ عَنْ أَحَدٍ مِنْهُمْ بِشْرَهُ وَخُلُقَهُ وَيَتَفَقَّدُ أَصْحَابَهُ وَيَسْأَلُ النَّاسَ عَمَّا فِي النَّاسِ وَيُحَسِّنُ الْحَسَنَ وَيُقَوِّيهِ وَيُقَبِّحُ الْقَبِيحَ وَيُوَهِّيهِ مُعْتَدِلُ الأَمْرِ غَيْرُ مُخْتَلِفٍ لا يَغْفُلُ مَخَافَةَ أَنْ يَغْفُلُوا أَوْ يَمِيلُوا لِکُلِّ حَالٍ عِنْدَهُ عَتَادٌ لا يُقَصِّرُ عَنِ الْحَقِّ وَلا يُجَاوِزُهُ الَّذِينَ يَلُونَهُ مِنَ النَّاسِ خِيَارُهُمْ أَفْضَلُهُمْ عِنْدَهُ أَعَمُّهُمْ نَصِيحَةً وَأَعْظَمُهُمْ عِنْدَهُ مَنْزِلَةً أَحْسَنُهُمْ مُوَاسَاةً وَمُؤَازَرَةً قَالَ فَسَأَلْتُهُ عَنْ مَجْلِسِهِ فَقَالَ کَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم لا يَقُومُ وَلا يَجَلِسُ إِلا عَلَی ذِکْرٍ وَإِذَا انْتَهَی إِلَی قَوْمٍ جَلَسَ حَيْثُ يَنْتَهِي بِهِ الْمَجْلِسُ وَيَأْمُرُ بِذَلِکَ يُعْطِي کُلَّ جُلَسَائِهِ بِنَصِيبِهِ لا يَحْسَبُ جَلِيسُهُ أَنَّ أَحَدًا أَکْرَمُ عَلَيْهِ مِنْهُ مَنْ جَالَسَهُ أَوْ فَاوَضَهُ فِي حَاجَةٍ صَابَرَهُ حَتَّی يَکُونَ هُوَ الْمُنْصَرِفُ عَنْهُ وَمَنْ سَأَلَهُ حَاجَةً لَمْ يَرُدَّهُ إِلا بِهَا أَوْ بِمَيْسُورٍ مِنَ الْقَوْلِ قَدْ وَسِعَ النَّاسَ بَسْطُهُ وَخُلُقُهُ فَصَارَ لَهُمْ أَبًا وَصَارُوا عِنْدَهُ فِي الْحَقِّ سَوَائً مَجْلِسُهُ مَجْلِسُ عِلْمٍ وَحِلْمٍ وَحَيَائٍ وَأَمَانَةٍ وَصَبْرٍ لا تُرْفَعُ فِيهِ الأَصْوَاتُ وَلا تُؤْبَنُ فِيهِ الْحُرَمُ وَلا تُثَنَّی فَلَتَاتُهُ مُتَعَادِلِينَ بَلْ کَانُوا يَتَفَاضَلُونَ فِيهِ بِالتَّقْوَی مُتَوَاضِعِينَ يُوقِّرُونَ فِيهِ الْکَبِيرَ وَيَرْحَمُونَ فِيهِ الصَّغِيرَ وَيُؤْثِرُونَ ذَا الْحَاجَةِ وَيَحْفَظُونَ الْغَرِيبَ
حضرت امام حسن (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ (رض) سے پوچھا وہ حضور اکرم ﷺ کے حالات اکثر بیان کرتے تھے اور مجھے ان کے سننے کا اشتیاق تھا تو انہوں نے میرے پوچھنے پر حضور اکرم ﷺ کے حلیہ شریف کا ذکر فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ بلند پایہ وبلند مرتبہ تھے۔ آپ ﷺ کا چہرہ انور بدر کی طرح چمکتا تھا اور پورا حلیہ شریف (جیسا کہ شروع کتاب میں پہلے باب کی ساتویں حدیث میں مفصل گزر چکا ہے) بیان فرمایا امام حسن (رض) کہتے ہیں کہ میں نے (بعض وجوہ سے) اس حدیث کا امام حسین (رض) سے ایک عرصہ تک ذکر نہیں کیا۔ ایک عرصہ کے بعد ذکر کیا تو معلوم ہوا کہ وہ مجھ سے پہلے اس حدیث کو سن چکے تھے اور صرف یہی نہیں کہ ماموں جان سے یہ حدیث سن لی ہو بلکہ والد صاحب حضرت علی (رض) سے حضور اکرم صلی اللہ کے مکان میں تشریف لے جانے اور باہر تشریف لانے اور حضور اکرم صلی اللہ کا طرز و طریقہ بھی معلوم کرچکے تھے۔ چناچہ حضرت امام حسین (رض) سے حضور اکرم ﷺ کے مکان پر تشریف لے جانے کے حالات دریافت کئے تو آپ نے فرمایا کہ حضور اقدس ﷺ مکان میں تشریف رکھنے کے وقت کو تین حصوں پر منقسم فرماتے تھے۔ ایک حصہ حق تعالیٰ شانہ کی عبادت میں خرچ فرماتے یعنی نماز وغیرہ پڑھتے تھے۔ دوسرا حصہ گھر والوں کے ادائے حقوق میں خرچ فرماتے تھے مثلا ان سے ہنسنا بولنا بات کرنا ان کے حالات کی تحقیق کرنا تیسرا حصہ خاص اپنی ضروریات راحت و آرام کے لئے رکھتے تھے پھر اس اپنے والے حصہ کو بھی دو حصوں پر اپنے اور لوگوں کے درمیان تقسیم فرما دیتے۔ اس طرح کہ خصوصی حضرات صحابہ کرام (رض) اس وقت میں داخل ہوتے ان خواص کے ذریعہ سے مضامین عوام تک پہنچتے۔ ان لوگوں سے کسی چیز کو اٹھا کر نہ رکھتے تھے (یعنی نہ دین کے امور میں نہ دنیوی منافع میں۔ غرض ہر قسم کا نفع بلا دریغ پہنچاتے تھے) امت کے اس حصہ میں آپ کا یہ طرز تھا کہ ان آنے والوں میں اہل فضل یعنی اہل علم وعمل کو حاضری کی اجازت میں ترجیح دیتے تھے۔ اس وقت کو ان کے فضلِ دینی کے لحاظ سے ان پر تقسیم فرماتے تھے بعض آنے والے ایک حاجت لے کر آتے اور بعض حضرات دو دو حاجتیں لے کر حاضر خدمت ہوتے اور بعض حضرات کئی کئی حاجتیں لے کر حاضر ہوتے۔ حضور اکرم صلی اللہ ان کی تمام حاجتیں پوری فرمایا کرتے تھے اور ان کو ایسے امور میں مشغول فرماتے جو خود ان کی اور تمام امت کی اصلاح کے لئے مفید اور کار آمد ہوں مثلاً ان دینی امور کے بارے میں حضور اکرم ﷺ سے سوالات کرنا اور حضور ﷺ کا اپنی طرف سے مناسب امور کی ان کو اطلاع فرمانا اور ان علوم و معارف کے بعد حضور ﷺ یہ بھی فرمادیا کرتے تھے کہ جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ ان مفید اور ضروری اصلاحی امور کو غائبین تک بھی پہنچا دیں اور نیز یہ بھی ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ جو لوگ کسی عذر (پردہ یا دوری یا شرم یا رعب) کی وجہ سے مجھ سے اپنی ضرورتوں کا اظہار نہیں کرسکتے تم لوگ ان کی ضرورتیں مجھ تک پہنچا سکو تو حق تعالیٰ شانہ قیامت کے دن اس شخص کو ثابت قدم رکھیں گے۔ لہٰذا تم لوگ اس میں ضرور کوششیں کیا کرو۔ حضور ﷺ کی مجلس میں ضروری اور مفید ہی باتوں کا تذکرہ ہوتا تھا اور ایسے ہی امور کو حضور اقدس ﷺ صحابہ سے خوشی سے سنتے تھے اس کے علاوہ لایعنی اور فضول باتیں حضور اکرم ﷺ کی مجلس میں نہ ہوتی تھیں۔ صحابہ (رض) حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں دینی امور کے طالب بن کر حاضر ہوتے تھے اور بلا کچھ چکھے وہاں سے نہیں آتے تھے ( چکھنے سے مراد امور دینیہ کا حاصل کرنا بھی ہوسکتا ہے اور حسی چکھنا بھی مراد ہوسکتا ہے اس لئے کہ حضور ﷺ کے پاس جو کچھ موجود ہوتا اس سے تواضع فرماتے اور خصوصی احباب کا جب مجمع ہوتا ہے تو موجودہ چیز کی تواضع ہوتی ہی ہے) صحابہ کرام حضور اقدس ﷺ کی مجلس سے ہدایت اور خیر کے لئے مشعل اور رہنما بن کر نکلتے تھے کہ وہ ان علوم کو حسب ارشاد دوسروں تک پہنچاتے رہتے تھے۔ امام حسین (رض) کہتے ہیں کہ میں نے باہر تشریف آوری کے متعلق دریافت کیا تو فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ ضروری امور کے علاوہ اپنی زبان کو محفوظ رکھتے تھے، فضول تذکروں میں وقت ضائع نہیں فرماتے تھے۔ آنے والوں کی تالیف قلوب فرماتے ان کو مانوس فرماتے۔ متوحش نہیں فرماتے تھے (یعنی تنبیہ وغیرہ میں ایسا طرز اختیار نہ فرماتے جس سے ان کو حاضری میں وحشت ہونے لگے یا ایسے امور ارشاد نہ فرماتے تھے جن کی وجہ سے دین سے نفرت ہونے لگے) ہر قوم کے کریم اور معزز کا اکرام و اعزاز فرماتے اور اس کو خود اپنی طرف بھی اسی قوم پر متولی اور سردار مقرر فرما دیتے لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈراتے ( یا مضر امور سے بچنے کی تاکید فرماتے یا لوگوں کو دوسروں سے احتیاط رکھنے کی تاکید فرماتے) اور خود اپنی بھی لوگوں کے تکلیف پہنچانے یا نقصان پہنچانے سے حفاظت فرماتے لیکن باوجود خود احتیاط رکھنے اور احتیاط کی تاکید کے کسی سے اپنی خندہ پیشانی اور خوش خلقی کو نہیں ہٹاتے تھے۔ اپنے دوستوں کی خبر گیری فرماتے اور لوگوں کے حالات آپس کے معاملات کی تحقیق فرما کر ان کی اصلاح فرماتے اچھی بات کی تحسین فرما کر اس کی تقویت فرماتے اور بری بات کی برائی فرما کر اس کو زائل فرماتے اور روک دیتے، حضور اکرم ﷺ ہر امر میں اعتدال اور میانہ روی اختیار فرماتے نہ کہ تلون اور گڑبڑ کہ کبھی کچھ فرمادیا اور کبھی کچھ لوگوں کی اصلاح سے غفلت نہ فرماتے تھے کہ مبادہ وہ دین سے غافل ہوجائیں یا کسی امر میں حد سے بڑھ جانے کی وجہ سے دین سے اکتا جائیں (اس لئے حضور اکرم صلی اللہ ان کے حالات سے غفلت نہ فرماتے تھے) ہر کام کے لئے آپ کے یہاں ایک خاص انتظام تھا۔ امرِ حق میں نہ کبھی کوتاہی فرماتے تھے، نہ حد سے تجاوز فرماتے تھے، آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے والے خلقت کے بہترین افراد ہوتے تھے۔ آپ کے نزدیک افضل وہی ہوتا تھا جس کی خیر خواہی عام ہو، یعنی ہر شخص کی بھلائی چاہتا ہو آپ کے نزدیک بڑے رتبے والا وہی ہوتا تھا جو مخلوق کی غمگساری اور مدد میں زیادہ حصہ لے۔ حضرت امام حسین (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کی مجلس کے حالات دریافت کئے تو انہوں نے فرمایا کہ آپ کی نشست وبرخاست سب اللہ کے ذکر کے ساتھ ہوتی تھی اور جب کسی جگہ آپ تشریف لے جاتے تو جہاں جگہ ملتی وہیں تشریف رکھتے اور اسی کا لوگوں کو حکم فرماتے کہ جہاں خالی جگہ مل جائے وہاں بیٹھ جایا کریں۔ لوگوں کے سروں کو پھلانگ کر آگے نہ جایا کریں یہ امر جدا گانہ ہے کہ جس جگہ حضور ﷺ تشریف رکھتے وہی جگہ پھر صدر مجلس بن جاتی، آپ حاضرین مجلس میں سے ہر ایک کا حق ادا فرماتے یعنی بشاشت اور بات چیت میں جتنا اس کا حق ہوتا اس کو پورا فرماتے کہ آپ کے پاس ہر بیٹھنے والا یہ سمجھتا تھا کہ حضور اکرم ﷺ میرا سب سے زیادہ اکرام فرما رہے ہیں، جو آپ ﷺ کے پاس بیٹھتا یا کسی امر میں آپ کی طرف مراجعت کرتا تو حضور اکرم ﷺ اس کے پاس بیٹھے رہتے یہاں تک کہ وہی خود اٹھنے کی ابتدا کرے۔ جو آپ سے کوئی چیز مانگتا آپ ﷺ اس کو مرحمت فرماتے یا اگر نہ ہوتی تو نرمی سے جواب فرماتے، آپ ﷺ کی خندہ پیشانی اور خوش خلقی تمام لوگوں کے لئے عام تھی، آپ تمام خلقت کے شفقت میں باپ تھے اور تمام خلقت حقوق میں آپ کے نزدیک برابر تھی۔ آپ کی مجلس، مجلس علم وحیا اور صبر و امانت تھی (یعنی یہ چاروں باتیں اس میں حاصل کی جاتی تھیں یا یہ کہ یہ چاروں باتیں اس میں موجود ہوتی تھیں) نہ اس میں شور و شغب ہوتا تھا نہ کسی کی عزت وآبرو اتاری جاتی تھی آپس میں سب برابر شمار کئے جاتے تھے (حسب ونسب کی بڑائی نہ سمجھتے تھے البتہ) ایک دوسرے پر فضیلت تقویٰ سے ہوتی تھی ہر شخص دوسرے کے ساتھ تواضع سے پیش آتا تھا، بڑوں کی تعظیم کرتے تھے، چھوٹوں پر شفقت کرتے تھے، اہل حاجت کو ترجیح دیتے تھے، اجنبی مسافر آدمی کی خبر گیری کرتے تھے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔