HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Shamail Tirmidhi

.

شمايل الترمذي

349

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ قَالَ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم فِي سَاعَةٍ لا يَخْرُجُ فِيهَا وَلا يَلْقَاهُ فِيهَا أَحَدٌ فَأَتَاهُ أَبُو بَکْرٍ فَقَالَ مَا جَائَ بِکَ يَا أَبَا بَکْرٍ قَالَ خَرَجْتُ أَلْقَی رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وسلم وَأَنْظُرُ فِي وَجْهِهِ وَالتَّسْلِيمَ عَلَيْهِ فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ جَائَ عُمَرُ فَقَالَ مَا جَائَ بِکَ يَا عُمَرُ قَالَ الْجُوعُ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ صلی الله عليه وسلم وَأَنَا قَدْ وَجَدْتُ بَعْضَ ذَلِکَ فَانْطَلَقُوا إِلَی مَنْزِلِ أَبِي الْهَيْثَمِ بْنِ التَّيْهَانِ الأَنْصَارِيِّ وَکَانَ رَجُلا کَثِيرَ النَّخْلِ وَالشَّائِ وَلَمْ يَکُنْ لَهُ خَدَمٌ فَلَمْ يَجِدُوهُ فَقَالُوا لامْرَأَتِهِ أَيْنَ صَاحِبُکِ فَقَالَتِ انْطَلَقَ يَسْتَعْذِبُ لَنَا الْمَائَ فَلَمْ يَلْبَثُوا أَنْ جَائَ أَبُو الْهَيْثَمِ بِقِرْبَةٍ يَزْعَبُهَا فَوَضَعَهَا ثُمَّ جَائَ يَلْتَزِمُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وسلم وَيُفَدِّيهِ بِأَبِيهِ وَأُمِّهِ ثُمَّ انْطَلَقَ بِهِمْ إِلَی حَدِيقَتِهِ فَبَسَطَ لَهُمْ بِسَاطًا ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَی نَخْلَةٍ فَجَائَ بِقِنْوٍ فَوَضَعَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم أَفَلا تَنَقَّيْتَ لَنَا مِنْ رُطَبِهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي أَرَدْتُ أَنْ تَخْتَارُوا أَوْ تَخَيَّرُوا مِنْ رُطَبِهِ وَبُسْرِهِ فَأَکَلُوا وَشَرِبُوا مِنْ ذَلِکَ الْمَائِ فَقَالَ صلی الله عليه وسلم هَذَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مِنِ النَّعِيمِ الَّذِي تُسْأَلُونَ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ظِلٌّ بَارِدٌ وَرُطَبٌ طَيِّبٌ وَمَائٌ بَارِدٌ فَانْطَلَقَ أَبُو الْهَيْثَمِ لِيَصْنَعَ لَهُمْ طَعَامًا فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم لا تَذْبَحَنَّ ذَاتَ دَرٍّ فَذَبَحَ لَهُمْ عَنَاقًا أَوْ جَدْيًا فَأَتَاهُمْ بِهَا فَأَکَلُوا فَقَالَ صلی الله عليه وسلم هَلْ لَکَ خَادِمٌ قَالَ لا قَالَ فَإِذَا أَتَانَا سَبْيٌ فَأْتِنَا فَأُتِيَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم بِرَأْسَيْنِ لَيْسَ مَعَهُمَا ثَالِثٌ فَأَتَاهُ أَبُو الْهَيْثَمِ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم اخْتَرْ مِنْهُمَا فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ اخْتَرْ لِي فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم إِنَّ الْمُسْتَشَارَ مُؤْتَمَنٌ خُذْ هَذَا فَإِنِّي رَأَيْتُهُ يُصَلِّي وَاسْتَوْصِ بِهِ مَعْرُوفًا فَانْطَلَقَ أَبُو الْهَيْثَمِ إِلَی امْرَأَتِهِ فَأَخْبَرَهَا بِقَوْلِ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ مَا أَنْتَ بِبَالِغٍ حَقَّ مَا قَالَ فِيهِ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم إِلا بِأَنْ تَعْتِقَهُ قَالَ فَهُوَ عَتِيقٌ فَقَالَ صلی الله عليه وسلم إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا وَلا خَلِيفَةً إِلا وَلَهُ بِطَانَتَانِ بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَاهُ عَنِ الْمُنْکَرِ وَبِطَانَةٌ لا تَأْلُوهُ خَبَالا وَمَنْ يُوقَ بِطَانَةَ السُّوئِ فَقَدْ وُقِيَ
حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اقدس ﷺ ایسے وقت دولت خانہ سے باہر تشریف لائے کہ اس وقت نہ تو حضور ﷺ کی عادت شریفہ باہر تشریف لانے کی تھی نہ کوئی شخص حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں اس وقت دولت خانہ پر حاضر ہوتا تھا۔ حضور اکرم ﷺ کی باہر تشریف آوری پر حضرت ابوبکر صدیق (رض) موجود تھے۔ پھر حضور ﷺ نے حضرت ابوبکر سے خلاف معمول بےوقت آنے کا سبب دریافت فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ جمال جہاں آرا کی زیارت اور سلام کے لئے حاضر ہوا ہوں ( حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے کمال تناسب کی وجہ سے تھا کہ حضور اقدس ﷺ کو اگر خلاف عادت باہر تشریف آوری کی نوبت آئی تو اس یک جان دو قالب پر بھی اس کا اثر ہوا) بندہ کے نزدیک یہی وجہ اولیٰ ہے اور یہی کمال تناسب بڑی وجہ ہے نبوی دور کے ساتھ خلافت صدیقیہ کے اتصال کی کہ حضور اکرم ﷺ کے وصال کے بعد اگر مناسب تامہ نہ ہونے کی وجہ وقتی احکام میں کچھ تغیر ضرور ہوتا اور صحابہ کرام کے لئے حضور اکرم ﷺ کے فراق کے ساتھ یہ دوسرا مرحلہ مل کر رنج وملال کو ناقابل برداشت بنانے والا ہوتا بخلاف صدیق اکبر (رض) کے کہ حضور اقدس ﷺ کے ساتھ اس درجہ اتصال اور قلبی یک جہتی تھی کہ جن مواقع پر جو حضور اکرم ﷺ کا طرز عمل تھا وہی اکثر حضرت ابوبکر صدیق کا بھی تھا۔ چناچہ حدیبیہ کا قصہ مشہور ہے جس کا ذکر حکایات صحابہ میں گزر چکا ہے مسلمانوں نے نہایت دب کر ایسی شرائط پر کفار سے صلح کی تھی کہ بعض صحابہ (رض) اس کا تحمل بھی نہ کرسکے اور حضرت عمر (رض) نہایت جوش میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ صلی اللہ علیہ اللہ تعالیٰ کے برحق نبی نہیں ہیں ؟ حضور ﷺ نے فرمایا بےشک۔ حضرت عمر نے کہا کیا ہم حق پر اور دشمن باطل پر نہیں ؟ حضور ﷺ نے فرمایا بےشک۔ حضرت عمرنے کہا پھر ہم کو دین کے بارے میں یہ ذلت کیوں دی جارہی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اور اس کی نافرمانی نہیں کرسکتا وہی مددگار ہے۔ حضرت عمر (رض) نے کہا کیا آپ ﷺ نے ہم سے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم مکہ جائیں گے اور طواف کریں گے ؟ حضور ﷺ کہا بیشک لیکن کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اسی سال مکہ میں جائیں گے ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا نہیں یہ تو نہیں کہا تھا۔ حضور ﷺ ، بس تو مکہ میں ضرور جائے گا اور طواف کرے گا۔ اس کے بعد حضرت عمر (رض) اسی جوش میں حضرت ابوبکر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے ابوبکر ! کیا حضور ﷺ اللہ تعالیٰ کے برحق نبی نہیں ہیں ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا بےشک۔ حضرت عمر ! کیا ہم حق پر اور دشمن باطل پر نہیں ؟ حضرت ابوبکر (رض) ! بےشک۔ حضرت عمر (رض) ! پھر ہم کو دین کے بارے میں یہ ذلت کیوں دی جا رہی ہے حضرت ابوبکر (رض) ! اے آدمی ! یہ بلاتردد سچے رسول ہیں اور اللہ کی ذرا نافرمانی کرنے والے نہیں ہیں وہی ان کا مددگار ہے تو ان کی رکاب کو مضبوط پکڑے رہ۔ حضرت عمر (رض) ! کیا آپ ﷺ نے ہم سے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم مکہ جائیں گے اور طواف کریں گے ؟ حضرت ابوبکر (رض) ! کیا تجھ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اسی سال مکہ جائیں گے حضرت عمر (رض) ! نہیں یہ تو نہیں فرمایا تھا۔ حضرت ابوبکر (رض) ! بس تو مکہ میں ضرور جائے گا اور طواف کرے گا۔ بخاری شریف میں یہ قصہ مفصل مذکورہ ہے اور بھی اس قسم کے متعدد واقعات حیرت انگیز ہیں۔ حتیٰ کہ اگر حضور اکرم ﷺ سے اجتہادی خطا ہوئی تو اس میں حضرت ابوبکر شریک ہیں جیسا کہ بدر کے قیدیوں کے معاملہ میں جس کا قصہ سورت انفال کے اخیر میں ہے۔ اس صورت میں حضرت ابوبکر (رض) کا اس وقت خلاف معمول باہر آنا دل را بدل رہ یست 000، حضور اکرم ﷺ کے قلب اطہر کا اثر تھا گو بھوک بھی لگی ہوئی ہو۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) کا آنا بھی بھوک کے تقاضے کی وجہ سے تھا لیکن حضور اکرم ﷺ کے چہرہ انور کو دیکھ کر اس کا خیال بھی جاتا رہا اسی لئے حضور اکرم ﷺ کے استفسار پر اس کا ذکر نہیں کیا (یاد سب کچھ ہیں مجھے ہجر کے صدمے ظالم بھول جاتا ہوں مگر دیکھ کے صورت تیری) ۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) کی تشریف آوری بھوک ہی کی وجہ سے تھی مگر اس کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ حضور اکرم ﷺ کو گرانی نہ ہو کہ دوست کی تکلیف اپنی تکلیف پر غالب ہوجایا کرتی ہے) تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ حضرت عمر (رض) حاضر خدمت ہوئے۔ حضور اکرم ﷺ نے ان سے بےوقت حاضری کا سبب پوچھا انہوں نے عرض کیا کہ حضور اکرم ﷺ بھوک کی وجہ سے حاضر ہوا ہوں۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بھوک تو کچھ میں بھی محسوس کر رہا ہوں۔ اس کے بعد تینوں حضرات ابوالہیثم انصاری کے مکان پر تشریف لے گئے وہ اہل ثروت لوگوں میں سے تھے کھجوروں کا بڑا باغ تھا۔ بکریاں بھی بہت سی تھی۔ البتہ خادم ان کے پاس کوئی نہیں تھا اس لئے گھر کا کام سب خود ہی کرنا پڑتا تھا۔ یہ حضرات جب ان کے مکان پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ گھر والوں کے لئے میٹھا پانی لینے گئے ہیں جو خادم نہ ہونے کی وجہ سے خود ہی لانا پڑتا تھا۔ لیکن ان حضرات کے پہنچنے پر تھوڑی دیر گزری تھی کہ وہ بھی مشکیزہ کو جو مشکل سے اٹھتا تھا۔ بدقت اٹھاتے ہوئے واپس آگئے اور حضور اکرم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہو کر (اپنی خوش قسمتی پر ناز کرتے اور زبان حال ہم نشین جب میرے ایام بھلے آئیں گے بن بلائے میرے گھر آپ چلے آئیں گے پڑھتے ہوئے) حضور اکرم ﷺ کو لپٹ گئے اور حضور اکرم ﷺ پر اپنے ماں باپ کو نثار کرنے لگے۔ یعنی عرض کرتے تھے کہ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں۔ اس کے بعد باغ میں چلنے کی درخواست کی وہاں پہنچ کر فرش بچھایا اور دین و دنیا کے سردار مایہ فخر مہمان کو بٹھا کر ایک خوشہ (جس میں طرح طرح کی کچی پکی آدھ کچھری کھجوریں تھیں) سامنے حاضر کیا۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سارا خوشہ توڑنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اس میں ابھی کچھ کچی بھی ہیں جو ضائع ہوں گی۔ پکی پکی چھانٹ کر کیوں نہ توڑیں ؟ میزبان نے عرض کیا تاکہ اپنی پسند سے پکی اور گرری ہر نوع کی حسب رغبت نوش فرمائیں۔ تینوں حضرات نے کھجوریں تناول فرمائیں اور پانی نوش فرمایا اس کے بعد حضور اقدس ﷺ نے (جن کا ہر ہر لحظہ تعلیم امت تھا) ارشاد فرمایا کہ اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ بھی اس نعیم میں شامل ہے جس کا سوال قیامت میں ہوگا اور سورت الہٰکم التکاثر کے ختم پر حق تعالیٰ شانہ نے اس کا ذکر فرمایا ان کے شکر کے متعلق سوال ہوگا کہ ہماری نعمتوں کا کس درجہ شکر ادا کیا اللہم لا احصی ثناء علیک انت کما اثنیت علی نفسک پھر اس وقت کی نعمتوں کا اظہار کے طور پر فرمایا کہ) ٹھنڈا سایہ، ٹھنڈا پانی اور ترو تازہ کھجوریں۔ اس کے بعد میزبان کھانے کی تیاری کے لئے جانے لگے۔ تو حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ فرط محبت میں کیفما اتفق مت ذبح کردینا۔ بلکہ ایسا جانور ذبح کرنا جو دودھ کا نہ ہو میزبان نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا اور بعجلت تمام کھانا تیار کر کے حاضر خدمت کیا اور مہمانوں نے تناول فرمایا۔ حضور اکرم ﷺ نے (اس وقت یہ ملاحظہ فرما کر کہ مشتاق میزبان سب کام خود ہی کر رہا ہے اور شروع میں میٹھا پانی بھی خود ہی لاتے دیکھا تھا) دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کوئی خادم نہیں۔ نفی میں جواب ملنے پر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اگر کہیں سے غلام آجائیں تو تم یاد دلانا اس وقت تمہاری ضرورت کا خیال رکھا جائے گا۔ اتفاقاً ایک جگہ سے دو غلام آئے تو ابوالہیثم نے حاضر ہو کر وعدہ عالی جاہ کی یاد دہانی کرائی۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ان دونوں غلاموں میں سے جو دل چاہے پسند کرلو۔ جو تمہاری ضرورت کے مناسب ہو (یہ جان نثار حضور اکرم ﷺ کی موجودگی میں اپنی کیا رائے رکھتے اس لئے) درخواست کی کہ حضور ﷺ ہی میرے لئے پسند فرمائیں (وہاں بجز دینداری کے اور کوئی وجہ ترجیح اور پسندیدگی کی ہو ہی نہیں سکتی تھی اس لئے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مشورہ دینے والا امین ہوتا ہے اس لئے میں امین ہونے کی حیثیت سے فلاں غلام کو پسند کرتا ہوں اس لئے کہ میں نے اس کو نماز پڑھتے دیکھا ہے لیکن میری ایک وصیت اس کے بارے میں یاد رکھیو کہ اس کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کیجیو (اول حضور اکرم ﷺ نے مشورہ کے ضابطہ کو ذکر فرما کر گویا اس پر تنبیہ فرمائی کہ میری جو پسندیدگی ہے وہ ذمہ دارانہ اور امانتداری کی ہے پھر ایک کو پسند فرما کر وجہ ترجیح بھی ظاہر فرمائی کہ وہ نمازی ہے۔ یہ وجہ ہے اس کو راجح قرار دینے کی۔ ہمارے زمانہ میں ملازم کا نمازی ہونا گویا عیب ہے کہ آقا کے کام کا حرج ہوتا ہے) ابوالہیثم خوش خوش اپنی ضرورتوں کے لئے ایک مددگار ساتھ لے کر گھر گئے اور حضور اکرم ﷺ کا فرمان عالی شان بھی بیوی کو سنادیا۔ بیوی نے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ کے ارشاد کی کماحقہ تعمیل نہ ہوسکے گی اور اس درجہ بھلائی کا معاملہ کہ ارشاد عالی جاہ کا امتثال ہوجائے ہم سے نہ ہوسکے گا اس لئے اس کو آزاد ہی کردو کہ اسی سے امتثال ارشاد ممکن ہے سراپا شجاع اور مجسم اخلاص خاوند نے فوراً آزاد کردیا اور اپنی دقتوں اور تکالیف کی ذرا بھی پرواہ نہ کی۔ حضور اقدس ﷺ کو جب واقعہ اور جانثار صحابی کے ایثار کا حال معلوم ہوا تو اظہار مسرت اور بیوی کی مدح کے طور پر ارشاد فرمایا کہ ہر نبی اور اس کے جانشینوں کے لئے حق تعالیٰ شانہ دو باطنی مشیر اور اصلاح کار پیدا فرماتے ہیں جن میں سے ایک مشیر تو بھلائی کی ترغیب دیتا اور برائی سے روکتا ہے دوسرا مشیر تباہ و برباد کرنے میں ذرا بھی کمی نہیں کرتا۔ جو شخص اس کی برائی سے بچا دیا جائے وہ ہر قسم کی برائی سے روک دیا گیا۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔