HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

108

۱۰۸ : حَدَّثَنَا بِذٰلِکَ أَبُوْ بَکْرَۃَ قَالَ ثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِیْ بَشِیْرٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْمُسَاوِرِ أَوِ ابْنِ أَبِی الْمُسَاوِرِ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ یُعَاتِبُ ابْنَ الزُّبَیْرِ فِی الْبُخْلِ وَیَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ( لَیْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِیْ یَبِیْتُ شَبْعَانَ وَجَارُہٗ إِلٰی جَنْبِہٖ جَائِعٌ ) فَلَمْ یُرِدْ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ لَیْسَ بِمُؤْمِنٍ إِیْمَانًا خَرَجَ بِتَرْکِہٖ إِیَّاہُ إِلَی الْکُفْرِ ، وَلَکِنَّہٗ أَرَادَ بِہٖ أَنَّہٗ لَیْسَ فِیْ أَعْلَیْ مَرَاتِبِ الْاِیْمَانِ، وَأَشْبَاہُ ھٰذَا کَثِیْرَۃٌ ، یَطُوْلُ الْکِتَابُ بِذِکْرِہَا .فَکَذٰلِکَ قَوْلُہٗ (لَا وُضُوْئَ لِمَنْ لَمْ یُسَمِّ) لَمْ یُرِدْ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ لَیْسَ بِمُتَوَضِّئٍ وُضُوْئً ا لَمْ یَخْرُجْ بِہِ مِنَ الْحَدَثِ، وَلَکِنَّہٗ أَرَادَ أَنَّہٗ لَیْسَ بِمُتَوَضِّیُٔ وُضُوْئً ا کَامِلًا فِیْ أَسْبَابِ الْوُضُوْئِ الَّذِیْ یُوْجِبُ الثَّوَابَ .فَلَمَّا احْتَمَلَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ مِنَ الْمَعَانِیْ مَا وَصَفْنَا وَلَمْ یَکُنْ ہُنَاکَ دَلَالَۃٌ یَقْطَعُ بِہَا لِأَحَدِ التَّأْوِیْلَیْنِ عَلَی الْآخَرِ وَجَبَ أَنْ یَجْعَلَ مَعْنَاہُ مُوَافِقًا لِمَعَانِیْ حَدِیْثِ الْمُہَاجِرِ ، حَتّٰی لَا یَتَضَادَّا .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الْوُضُوْئَ بِلَا تَسْمِیَۃٍ یَخْرُجُ بِہٖ الْمُتَوَضِّئُ مِنَ الْحَدَثِ إِلَی الطَّہَارَۃِ .وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ فَإِنَّا رَأَیْنَا أَشْیَائَ لَا یَدْخُلُ فِیْہَا إِلَّا بِکَلَامٍ .مِنْہَا الْعُقُوْدُ الَّتِیْ یَعْقِدُہَا بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ مِنَ الْبِیَاعَاتِ وَالْاِجَارَاتِ وَالْمُنَاکَحَاتِ وَالْخُلْعِ وَمَا أَشْبَہَ ذٰلِکَ .فَکَانَتْ تِلْکَ الْأَشْیَائُ لَا تَجِبُ إِلَّا بِأَقْوَالٍ وَکَانَتِ الْأَقْوَالُ مِنْہَا إِیْجَابٌ ، لِأَنَّہُ یَقُوْلُ ( قَدْ بِعْتُک ، قَدْ زَوَّجْتُکِ ، قَدْ خَلَعْتُکِ).فَتِلْکَ أَقْوَالٌ فِیْہَا ذِکْرُ الْعُقُوْدِ .وَأَشْیَائُ تَدْخُلُ فِیْہَا بِأَقْوَالٍ وَہِیَ الصَّلَاۃُ وَالْحَجُّ ، فَتَدْخُلُ فِی الصَّلَاۃِ بِالتَّکْبِیْرِ، وَفِی الْحَجِّ بِالتَّلْبِیَۃِ .فَکَانَ التَّکْبِیْرُ فِی الصَّلَاۃِ وَالتَّلْبِیَۃُ فِی الْحَجِّ رُکْنًا مِنْ أَرْکَانِہَا .ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَی التَّسْمِیَۃِ فِی الْوُضُوْئِ ، ہَلْ تُشْبِہُ شَیْئًا مِنْ ذٰلِکَ ؟ فَرَأَیْنَاہَا غَیْرَ مَذْکُوْرٍ فِیْہَا إِیْجَابُ شَیْئٍ کَمَا کَانَ فِی النِّکَاحِ وَالْبُیُوْعِ .فَخَرَجَتِ التَّسْمِیَۃُ لِذٰلِکَ مِنْ حُکْمِ مَا وَصَفْنَا ، وَلَمْ تَکُنْ التَّسْمِیَۃُ أَیْضًا رُکْنًا مِنْ أَرْکَانِ الْوُضُوْئِ کَمَا کَانَ التَّکْبِیْرُ رُکْنًا مِنْ أَرْکَانِ الصَّلَاۃِ ، وَکَمَا کَانَتِ التَّلْبِیَۃُ رُکْنًا مِنْ أَرْکَانِ الْحَجِّ ، فَخَرَجَ أَیْضًا بِذٰلِکَ حُکْمُہَا مِنْ حُکْمِ التَّکْبِیْرِ ، وَالتَّلْبِیَۃُ .فَبَطَلَ بِذٰلِکَ قَوْلُ مَنْ قَالَ : إِنَّہٗ لَا بُدَّ مِنْہَا فِی الْوُضُوْئِ کَمَا لَا بُدَّ مِنْ تِلْکَ الْأَشْیَائِ فِیْمَا یُعْمَلُ فِیْہِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ ، فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الذَّبِیْحَۃَ لَا بُدَّ مِنَ التَّسْمِیَۃِ عِنْدَہَا ، وَمَنْ تَرَکَ ذٰلِکَ مُتَعَمِّدًا لَمْ تُؤْکَلْ ذَبِیْحَتُہُ ، فَالتَّسْمِیَۃُ أَیْضًا عَلَی الْوُضُوْئِ کَذٰلِکَ .قِیْلَ لَہٗ : مَا ثَبَتَ فِی حُکْمِ النَّظَرِ أَنَّ مَنْ تَرَکَ التَّسْمِیَۃَ عَلَی الذَّبِیْحَۃِ مُتَعَمِّدًا أَنَّہَا لَا تُؤْکَلُ ، لَقَدْ تَنَازَعَ النَّاسُ فِیْ ذٰلِکَ .فَقَالَ بَعْضُہُمْ : تُؤْکَلُ ، وَقَالَ بَعْضُہُمْ : لَا تُؤْکَلُ .فَأَمَّا مَنْ قَالَ تُؤْکَلُ فَقَدْ کَفَیْنَا الْبَیَانَ لِقَوْلِہٖ وَأَمَّا مَنْ قَالَ لَا تُؤْکَلُ ، فَإِنَّہٗ یَقُوْلُ : إِنْ تَرَکَہَا نَاسِیًا تُؤْکَلُ ، وَسَوَائٌ عِنْدَہٗ کَانَ الذَّابِحُ مُسْلِمًا أَوْ کَافِرًا، بَعْدَ أَنْ یَکُوْنَ کِتَابِیًّا .فَجُعِلَتْ التَّسْمِیَۃُ ہَاہُنَا فِیْ قَوْلِ مَنْ أَوْجَبَہَا فِی الذَّبِیْحَۃِ ، إِنَّمَا ہِیَ لِبَیَانِ الْمِلَّۃِ .فَإِذَا سَمَّی الذَّبْحَ صَارَتْ ذَبِیْحَتُہٗ مِنْ ذَبَائِحِ الْمِلَّۃِ الْمَأْکُوْلَۃِ ذَبِیْحَتُہَا وَإِذَا لَمْ یُسَمِّ جُعِلَتْ مِنْ ذَبَائِحِ الْمِلَلِ الَّتِیْ لَا تُؤْکَلُ ذَبَائِحُہَا .وَالتَّسْمِیَۃُ عَلَی الْوُضُوْئِ لَیْسَ لِلْمِلَّۃِ إِنَّمَا ہِیَ مَجْعُوْلَۃٌ لِذِکْرٍ عَلٰی سَبَبٍ مِنْ أَسْبَابِ الصَّلَاۃِ فَرَأَیْنَا مِنْ أَسْبَابِ الصَّلَاۃِ ، الْوُضُوْئَ وَسَتْرَ الْعَوْرَۃِ ، فَکَانَ مَنْ سَتَرَ عَوْرَتَہٗ لَا بِتَسْمِیَۃٍ ، لَمْ یَضُرَّہُ ذٰلِکَ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ ، أَنْ یَکُوْنَ مَنْ تَطَہَّرَ أَیْضًا ، لَا بِتَسْمِیَۃٍ ، لَمْ یَضُرَّہٗ ذٰلِکَ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
١٠٨ : ابن ابی المساور یا عبداللہ بن المساور کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) کو سنا کہ وہ ابن الزبیر کو بخل کے متعلق عتاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ کامل مؤمن نہیں جو خود پیٹ بھر کر رات گزارے جبکہ اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا ہو۔ پس اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ اس کو چھوڑ دینے کی وجہ سے کفر کی طرف نکل گیا ہے بلکہ اس کی مراد یہ ہے کہ وہ ایمان کے اعلیٰ درجات میں نہیں ہے۔ اس کی امثلہ بہت ہیں جن کا تذکرہ کریں تو کتاب طویل ہوجائے گی۔ پس اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد : ((لا وضو لمن لم یسم)) کہ جس نے بسم اللہ نہ پڑھی اس کا وضو کامل نہیں۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ ایسا وضو کرنے والا نہیں جس سے وہ حدث سے نہ نکلا ہو بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ ایسا کامل وضو کرنے والا نہیں جو اسباب وضو میں ثواب کو لازم کرتا ہے۔ پس جب یہ روایت ان معانی کا احتمال رکھتی ہے جو ہم نے بیان کیے ہیں تو پھر کسی ایک تاویل کے لیے قطعی دلالت نہ ملی تو اب لازم ہوگیا کہ اس حدیث کے ایسے معانی لیے جائیں جو حدیث مہاجر کے موافق ہوں تاکہ دونوں میں تضاد نہ رہے۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ بسم اللہ کے بغیر کیا جانے والا وضو ایسا ہے جس سے وضو کرنے والا حدث سے طہارت کی طرف نکل جاتا ہے۔ باقی غور و فکر کے لحاظ سے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کئی عقود ایسے جانتے ہیں جن میں آدمی اس وقت تک داخل نہیں ہوتا جب تک ایسا کلام نہ کرے جس کو لوگ ایک دوسرے سے بیع و اجارہ ‘ نکاح ‘ خلع وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں یہ اشیاء اس وقت لازم ہوتی ہیں جب گفتگو کی جائے کیونکہ کہتے ہیں کہ میں نے تجھے یہ چیز فروخت کی ‘ میں نے تجھ سے نکاح کیا ‘ میں نے تجھ سے خلع کیا یہ وہ اقوال ہیں کہ جن میں عقود کا تذکرہ ہے اور ایسی اشیاء ہیں جن میں کلام سے داخل ہوتا ہے اور وہ نماز و حج ہیں ‘ نماز میں تکبیر اور حج میں تلبیہ کے ذریعہ داخل ہوتا ہے بلکہ تکبیر نماز میں اور حج میں تلبیہ ارکان ہیں۔ ہم دوبارہ وضو میں تسمیہ کے مسئلہ کی طرف لوٹتے ہیں کہ آیا یہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ کسی گونہ مشابہ ہے۔ پس ہم نے دیکھا کہ اس میں کسی شئی کا واجب کرنا تو مذکور نہیں جیسا کہ نکاح اور بیوع وغیرہ میں تھا۔ پس بسم اللہ جن کو ہم نے بیان کیا ان کے حکم سے نکل گئی اور غور سے معلوم ہوا کہ بسم اللہ وضو کے ارکان میں سے بھی نہیں جیسا کہ تکبیر نماز میں اور تلبیہ حج میں رکن ہے۔ پس تسمیہ کا حکم تکبیر و تلبیہ کے حکم سے بھی خارج ہوگیا۔ پس اس سے اس شخص کا قول غلط ثابت ہوگیا جو اس بات کا مدعی ہے کہ یہ وضو میں اسی طرح لازم ہے جس طرح ان متعلقہ اشیاء میں وہ چیزیں لازم ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ذبیحہ میں تو بسم اللہ لازم ہے اور جو شخص بوقت ذبح اسے جان بوجھ کر ترک کر دے تو اس کا ذبیحہ نہ کھایا جائے گا پس وضو میں بھی تسمیہ کا یہی حکم ہے۔ اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ نظر و فکر سے یہ بات ثابت ہے کہ جس شخص نے جان بوجھ کر تسمیہ کو چھوڑ دیا اس کے نہ کھانے کے متعلق لوگوں کا باہمی اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اسے کھایا جائے جبکہ دوسرے کہتے ہیں اسے نہ کھایا جائے گا جو لوگ کہتے ہیں کہ کھایا جائے تو ان کے قول کے لیے ہمارا بیان کافی ہے اور جو شخص نہ کھانے کا قائل ہے۔ وہ یہ تفصیل کرتا ہے کہ اگر بھول کر چھوڑ دیا جائے تو کھالیا جائے اور اس کے نزدیک یہ بات برابر ہے کہ ذبح کرنے والا کافر ہو یا مسلمان مگر اس کافر کے لیے کتابی ہونا ضروری ہے۔ پس بسم اللہ کو یہاں اس شخص کے قول کے مطابق جو اسے ذبح کے وقت واجب قرار دیتا ہے تو ذبیحہ بیان قلت کے لیے ہے جب ذبح کرنے والا ذبح کے وقت تسمیہ ادا کرے تو یہ ان لوگوں کے ذبیحہ میں شامل ہوگا جن کا ذبیحہ کھایا جاتا ہے اور جب بسم اللہ نہ پڑھی گئی تو یہ ذبیحہ ان لوگوں کے ذبیحہ سے ہوگا جن کا ذبیحہ کھایا نہیں جاتا اور وضو میں بسم اللہ کسی ملت کے اظہار کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کو ایسا ذکر قرار دیا جائے گا جو اسباب نماز میں سے ایک اسباب پر اختیار کیا جائے۔ چنانچہ ہم نے نماز کے اسباب میں سے وضو اور ستر عورت کو پایا۔ پس جس شخص نے اپنے ستر کو بسم اللہ پڑھے بغیر ڈھانپ لیا تو اسے ترک تسمیہ سے کچھ بھی نقصان نہ ہوگا پھر مزید غور کیا تو یہ بات پائی کہ جس شخص نے طہارت حاصل کی مگر اس نے بسم اللہ نہ پڑھی تو اس کو کچھ بھی نقصان نہ ہوا ۔ یہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد بن حسن (رح) کا مختار قول ہے۔
تخریج : مسند ابو یعلٰی موصلی ٢؍١٣٦‘ حاکم ٤؍١٦٧‘ معجم کبیر الطبرانی ١٢؍١٥٤ بخاری فی کتاب الادب
حاصل روایات : ان روایات میں کمال کی نفی مذکور ہے ذات کی نفی نہیں بالکل اسی طرح ” لا وضوء لمن لم یسم “ شروع باب کی روایت میں کمال کی نفی ہے یہ مراد نہیں کہ سرے سے اس کا وضو ہوتا ہی نہیں کہ جس سے وہ حدث سے پاک ہو بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ کامل وضو کرنے والا نہیں جو ثواب کو لازم کرتا ہے۔
جب اس حدیث میں دونوں معانی کا احتمال ہے اور کسی ایک تاویل کی تعیین کے لیے کوئی دلالت موجود نہیں تو لازم ہے کہ اس کا ایسا معنی لیا جائے جو حدیث مہاجر کے موافق ہو اور متضاد نہ ہو پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ بغیر بسم اللہ کے اگر وضو کیا جائے گا تو وضو کرنے والا حدث سے نکل جائے گا اور طہارت میں داخل ہوجائے گا۔
نظر طحاوی :
اگر عقل و فکر سے سوچا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ کئی اشیاء میں کلام ہی سے داخل ہوتے ہیں مثلاً بیع و شرائ ‘ اجارہ ‘ نکاح و طلاق اور خلع وغیرہ اور ان کے ہم مثل معاملات یہ اشیاء اقوال سے لازم ہوتی ہیں اور قول ہی ان کے سلسلے میں ایجاب سمجھا جاتا ہے مثلاً بائع کہتا ہے بعتک ‘ زوجتک ‘ خلعتک۔ یہ سارے معاھدات کے اقوال ہیں۔
نمبر ٢: بعض اشیاء جن میں اقوال سے داخلہ ہوتا ہے مثلاً نماز ‘ حج وغیرہ ہیں نماز میں تکبیر اور حج میں تلبیہ داخلے کا ذریعہ ہیں نماز میں تکبیر اور حج میں تلبیہ ارکان ہیں۔
اب اس تفصیل کے بعد وضو میں بسم اللہ کی طرف لوٹتے ہیں اور غور کرتے ہیں کہ آیا وہ ان مذکورہ بالا چیزوں میں سے کسی کے ساتھ کچھ بھی مشابہت رکھتا ہے ؟ تو ہم نے دیکھا کہ ” بسم اللہ فی الوضو “ میں کسی چیز کا ایجاب مذکور نہیں ہے جیسا کہ نکاح اور بیوع میں ہے۔
پس بسم اللہ قاعدہ مذکورہ کے تحت نہ آئی اور بسم اللہ وضو کے ارکان میں کوئی رکن بھی نہیں جیسا کہ تکبیر نماز میں اور تلبیہ حج میں رکن ہیں تو اس کا حکم ارکان والا بھی نہ ہوا تو اس سے ان لوگوں کی بات غلط ہوگئی جو یہ کہتے ہیں کہ یہ وضو کی ضروری معمول بہا چیزوں سے ہے۔
ایک اشکال :
ذبح کے وقت بسم اللہ ضروری ہے جس نے بسم اللہ جان بوجھ کر ترک کردی اس کا ذبیحہ نہ کھایا جائے گا پس وضو میں بھی بسم اللہ کا حکم ذبیحہ والا ہے۔
حل اشکال :
تسمیہ عندالوضوکو تسمیہ عندالذبح پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے کیونکہ علت مشترک نہیں اس کی تفصیل یہ ہے تسمیہ کے عمداً ترک کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے امام مالک عمدونسیان میں متروک التسمیہ کو حرام کہتے ہیں نمبر ٢: حنابلہ و شوافع ہر دو صورت میں حلال کہتے ہیں نمبر : ٣ احناف عمداً میں ناجائز قرار دیتے ہیں پس جن کے ہاں وہ ذبیحہ حلال ہے تو پھر ترک تسمیہ عمداً وضو میں بھی وضو کو باطل نہ کرے گا رہے وہ لوگ جو عمد میں حلال نہیں کہتے مگر نسیان میں حلال کہتے ہیں خواہ ذبح کرنے والا مسلم ہو یا کتابی۔ اب جن کے ہاں تسمیہ ذبیحہ میں واجب ہے تو وہ تفاوت ملت کے لیے ہے پس اگر اس نے ذبیحہ پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا تو وہ ان ملت والوں سے ہے جن کا ذبیحہ حلال ہے اور اگر نہ لیا تو وہ ایسے مذہب والوں میں سے ہے جن کا ذبیحہ کھایا نہیں جاتا اور یہاں وضو میں تسمیہ تفاوت ملت کے لیے نہیں بلکہ اسباب نماز میں سے ایک سبب کے وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کی قسم سے ہے اسباب صلوۃ میں ستر عورت ‘ طہارت مکان ‘ استقبال قبلہ وغیرہ ہیں ان میں سے کسی میں بھی بسم اللہ واجب نہیں اگر اس نے ستر عورت کو اختیار کرلیا مگر بسم اللہ نہ پڑھی تو اسے کوئی فرق نہ پڑے گا پس وضو میں بسم اللہ واجب نہ ہوگی کیونکہ یہ بھی اسباب صلوۃ سے ہے جس آدمی نے طہارت حاصل کی مگر بسم اللہ نہ پڑھی تو اس کی طہارت میں قطعاً فرق نہ ہوگا خواہ طہارت مکان ہو یا کپڑے ہو۔ طہارت وضو کا بھی یہی حکم ہے یہ امام ابوحنیفہ (رح) ‘ ابو یوسف (رح) و محمد (رح) کا قول ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔