HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

125

۱۲۵ : حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ سَمِعْتُ یَزِیْدَ بْنَ ہَارُوْنَ قَالَ أَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ عَامِرٍ عَنِ ابْنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ عَنْ أَبِیْہِ وَابْنِ عَوْنٍ عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ عَنْ عَمْرِو بْنِ وَہْبٍ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ رَفَعَہٗ إِلَیْہِ قَالَ ( کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سَفَرٍ فَتَوَضَّأَ لِلصَّلَاۃِ ، فَمَسَحَ عَلٰی عِمَامَتِہِ وَقَدْ ذَکَرَ النَّاصِیَۃَ بِشَیْئٍ).فَفِیْ ھٰذَا الْأَثَرِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَسَحَ عَلٰی بَعْضِ الرَّأْسِ وَہُوَ النَّاصِیَۃُ ، وَظُہُوْرُ النَّاصِیَۃِ دَلِیْلُ أَنَّ بَقِیَّۃَ الرَّأْسِ حُکْمُہٗ حُکْمُ مَا ظَہَرَ مِنْہُ ، لِأَنَّہٗ لَوْ کَانَ الْحُکْمُ قَدْ ثَبَتَ بِالْمَسْحِ عَلَی الْعِمَامَۃِ لَکَانَ کَالْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ ، فَلَمْ یَکُنْ إِلَّا وَقَدْ غُیِّبَتِ الرِّجْلَانِ فِیْہِمَا وَلَوْ کَانَ بَعْضُ الرِّجْلَیْنِ بَادِیًا ، لَمَا أَجْزَأَہٗ أَنْ یَغْسِلَ مَا ظَہَرَ مِنْہُمَا وَیَمْسَحَ عَلٰی مَا غَابَ مِنْہُمَا فَجَعَلَ حُکْمَ مَا غَابَ مِنْہُمَا مُضَمِّنًا بِحُکْمِ مَا بَدَأَ مِنْہُمَا فَلَمَّا وَجَبَ غَسْلُ الظَّاہِرِ وَجَبَ غَسْلُ الْبَاطِنِ فَکَذٰلِکَ الرَّأْسُ لِمَا وَجَبَ مَسْحُ مَا ظَہَرَ مِنْہُ ، ثَبَتَ أَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ مَسْحُ مَا بَطَنَ مِنْہُ لِیَکُوْنَ حُکْمُ کُلِّہٖ حُکْمًا وَاحِدًا کَمَا کَانَ حُکْمُ الرِّجْلَیْنِ اِذَا غُیِّبَتْ بَعْضُہَا فِی الْخُفَّیْنِ حُکْمًا وَاحِدًا .فَلَمَّا اکْتَفَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ھٰذَا الْأَثَرِ یَمْسَحُ النَّاصِیَۃَ عَلَیْ مَسْحِ مَا بَقِیَ مِنَ الرَّأْسِ دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ الْفَرْضَ فِیْ مَسْحِ الرَّأْسِ ہُوَ مِقْدَارُ النَّاصِیَۃِ وَأَنَّ مَا فَعَلَہٗ فِیْمَا جَاوَزَ بِہِ النَّاصِیَۃَ فِیْمَا سِوٰی ذٰلِکَ مِنَ الْآثَارِ کَانَ دَلِیْلًا عَلَی الْفَضْلِ لَا عَلَی الْوُجُوْبِ حَتَّی تَسْتَوِیَ ھٰذِہِ الْآثَارُ وَلَا تَتَضَادَّ ، فَھٰذَا حُکْمُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طُرُقِ الْآثَارِ .وَأَمَّا مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ ، فَإِنَّا رَأَیْنَا الْوُضُوْئَ یَجِبُ فِیْ أَعْضَائٍ .فَمِنْہَا مَا حُکْمُہٗ أَنْ یُغْسَلَ ، وَمِنْہَا مَا حُکْمُہُ أَنْ یُمْسَحَ .فَأَمَّا مَا حُکْمُہٗ أَنْ یُغْسَلَ فَالْوَجْہُ وَالْیَدَانِ وَالرِّجْلَانِ فِیْ قَوْلِ مَنْ یُوْجِبُ غَسْلَہُمَا .فَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّ مَا وَجَبَ غَسْلُہٗ مِنْ ذٰلِکَ فَلَا بُدَّ مِنْ غَسْلِہٖ کُلِّہِ وَلَا یُجْزِئُ غَسْلُ بَعْضِہٖ دُوْنَ بَعْضٍ وَکُلَّمَا کَانَ مَا وَجَبَ مَسْحُہُ مِنْ ذٰلِکَ ، وَہُوَ الرَّأْسُ .فَقَالَ قَوْمٌ حُکْمُہٗ أَنْ یُمْسَحَ کُلُّہُ کَمَا تُغْسَلُ تِلْکَ الْأَعْضَائُ کُلُّہَا ، وَقَالَ آخَرُوْنَ یُمْسَحُ بَعْضُہُ دُوْنَ بَعْضِہٖ.فَنَظَرْنَا فِی حُکْمِ الْمَسْحِ کَیْفَ ہُوَ ؟ فَرَأَیْنَا حُکْمَ الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ قَدْ اُخْتُلِفَ فِیْہِ .فَقَالَ قَوْمٌ یُمْسَحُ ظَاہِرُہُمَا دُوْنَ بَاطِنِہِمَا ، وَقَالَ آخَرُوْنَ یُمْسَحُ ظَاہِرُہُمَا دُوْنَ بَاطِنِہِمَا .فَکُلٌّ قَدْ اتَّفَقَ أَنَّ فَرْضَ الْمَسْحِ فِیْ ذٰلِکَ ہُوَ عَلٰی بَعْضِہِمَا دُوْنَ مَسْحِ کُلِّہِمَا .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ حُکْمُ مَسْحِ الرَّأْسِ ، ہُوَ عَلٰی بَعْضِہٖ دُوْنَ بَعْضٍ ، قِیَاسًا وَنَظَرًا ، عَلٰی مَا بَیَّنَّا مِنْ ذٰلِکَ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ ؛ وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَمَّنْ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیْضًا مَا یُوَافِقُ ذٰلِکَ .
١٢٥ : عمرو بن مصعب نے حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے نقل کیا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو آپ نے نماز کے لیے وضو کیا پس آپ نے اپنے عمامہ پر مسح فرمایا اور انھوں نے کچھ ناصیہ کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سر مبارک کے بعض حصہ پر مسح فرمایا اور وہ پیشانی والا حصہ ہے اور پیشانی کا ظاہر ہونا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ سر کے بقیہ حصے کا حکم وہ پیشانی کے ظاہر حصہ جیسا ہے کیونکہ اگر عمامہ پر مسح سے حکم ثابت ہوجاتا تو پھر اس کا حکم موزوں کے مسح جیسا ہوتا اور وہاں تو موزوں میں پاؤں چھپے ہوتے ہیں اگر بالفرض دونوں پاؤں کا بعض حصہ ظاہر ہو تو اس کے لیے جائز نہیں کہ ان کے ظاہر حصہ کو وہ دھوئے اور اس میں سے جو غائب ہو اس پر مسح کرے تو اس میں سے جو حصہ غائب ہوتا ہے تو اس کے حکم کو ان دونوں پاؤں سے ظاہر ہوجانے والے حصہ سے ملا دیا۔ پس جب کہ اس کے ظاہر کا دھونا لازم ہوا تو باطن کا دھونا بھی لازم ہوا۔ پس اسی طرح سر کے سلسلہ میں جب ظاہر ہونے والے حصہ کے مسح کو لازم قرار دیا تو اس سے ثابت ہوا کہ وہ حصہ جو اس میں سے چھپا ہے اس پر مسح جائز نہیں اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ پوشیدہ حصہ کا مسح جب جائز نہیں تو چھپے ہوئے حصہ کا مسح بھی جائز نہیں تاکہ تمام کا حکم یکساں ہو جیسا کہ دونوں پاؤں کا کچھ حصہ موزوں میں چھپا دیا جائے تو ایک حکم رکھتا ہے۔ پس جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس روایت میں فقط پیشانی کے مسح پر بقیہ سر پر مسح کی بجائے اکتفاء کیا تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ سر کے مسح میں فرض مسح کی مقدار پیشانی کی مقدار ہے اور دیگر آثار میں آپ نے اس سے تجاوز کر کے بقیہ سمیت تمام کا مسح کیا ہے وہ فضیلت کی دلیل ہے نہ کہ وجوب کی تاکہ اس باب میں آنے والے آثار و روایات کا حکم یکساں ہوجائے اور ان میں اضافہ نہ رہے۔ پھر غور و فکر کے انداز سے ہم نے دیکھا کہ وضو چند اعضاء میں لازم ہے ان میں بعض اعضاء وہ ہیں جن کا حکم یہ ہے کہ ان کو دھویا جائے اور بعض وہ ہیں جن کا حکم مسح کا ہے۔ جن اعضاء کو دھونے کا حکم دیا وہ چہرہ ‘ بدن اور دونوں پاؤں ہیں اور یہ ان حضرات کے قول کے مطابق ہے جو ان کے دھونے کو فرض مانتے ہیں مگر اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ جن کو دھونا ضروری ہے تو ان میں تمام عضو کا دھونا ضروری ہے اور یہ قطعاً جائز نہیں کہ کچھ کو دھو لیا اور کچھ کو چھوڑ دیا اور ان میں سے جن کا مسح واجب ہے وہ سر ہے۔ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ اس کا حکم یہ ہے کہ تمام سر پر مسح کیا جائے جیسا کہ اعضاء مغسولہ میں تمام کو دھویا جاتا ہے اور دوسری جماعت کا کہنا ہے کہ بعض کا مسح کیا جائے گا اور بعض کو چھوڑ دیا جائے گا۔ اب ہم نے ان چیزوں پر غور کیا جن میں مسح کا حکم ہے کہ ان کی کیفیت کیا ہے چنانچہ ہم نے مسح موزوں پر مسح کو دیکھا اس میں یہ اختلاف ہے کہ ایک جماعت کہتی ہے کہ ان کے ظاہر اور باطن دونوں پر مسح کیا جائے گا اور دوسری جماعت کہتی ہے کہ ان کے ظاہر پر تو مسح کیا جائے مگر ان کے نچلے حصہ کو چھوڑ دیا جائے گا پھر ان میں سے ہر ایک کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مقدار مسح جو کہ فرض ہے وہ اس کا بعض حصہ ہے دونوں موزوں کے تمام پر مسح لازم نہیں۔ پس نظر و فکر اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ سر کے مسح کا بھی یہی حکم ہو اور وہ بعض حصہ ہے تمام نہیں۔ یہی قیاس و نظر چاہتا ہے جیسا کہ ہم نے وضاحت کردی اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف ‘ محمد بن حسن (رح) کا مذہب ہے اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد والوں (صحابہ (رض) وتابعین (رح) ) سے بھی ایسی روایات وارد ہیں جو اس کے موافق ہیں۔
تخریج : مسلم فی الطھارۃ روایت ٨٣‘
حاصل روایات : ان دونوں روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سر مبارک کے کچھ حصہ پر مسح کیا اور وہ ناصیہ ہے اور ناصیہ کا ظاہر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بقیہ سر کا وہی حکم ہے جو سر کے ظاہر حصہ (ناصیہ) کا ہے ۔
مسح علی العمامہ سے صورت استدلال :
مسح علی العمامہ کا حکم اگر ثابت ہوتا تو وہ مسح علی الخفین کی طرح ہوتا مگر وہ اس طرح تو نہیں کیونکہ مسح خفین میں دونوں پاؤں بالکل غائب ہیں اور یہاں پگڑی سے ناصیہ کی مقدار حصہ کھلا ہوا ہے اگر مسح خفین میں کچھ حصہ پاؤں کا ظاہر ہوتا تو یہ قطعاً درست نہ تھا کہ پاؤں کے ظاہر حصہ کو دھو لیا جائے اور خفین میں غائب پر مسح کیا جائے اور دونوں میں غائب کے حکم کو ظاہر کے حکم سے ملا ہوا بنادیا جاتا جب ظاہر کا دھونا واجب ہوا تو اندر کا دھونا بھی واجب ہوا پس مسح راس میں اسی طرح جب ظاہر ہونے والے حصہ پر مسح واجب ہے تو یہ ثابت ہوا کہ اندر والے حصہ پر مسح جائز نہیں تاکہ حکم ایک جیسا رہے جیسا کہ مسح خفین میں پاؤں کا حکم تھا کہ جب اس کا بعض حصہ خفین میں غائب کردیا گیا تو حکم کی یکسانیت کے لیے مسح کا حکم دیا گیا پس مسح علی العمامہ والے حصہ سے استدلال تو درست نہ ہوا کہ تمام سر کو دھو دیا جائے جیسا پورے پاؤں کو دھویا جاتا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پورے سر کو کچھی نہیں دھویا۔
مسح ناصیہ والے حصہ سے استدلال :
کیا جائے تو کوئی اشکال نہیں ہوتا بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں ناصیہ پر مسح فرض ہے اور زائد کمال فضیلت ہے کیونکہ اس ارشاد میں جب ناصیہ پر اکتفاء ہے تو مقدار فرض یہی ہے اس سے زائد مقدار جو آثار میں وارد ہے فضل کی دلیل ہے وجوب کی نہیں اس سے روایات کا تضاد ختم ہوجاتا ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
اگر غور کریں تو اعضاء وضو دو طرح کے ہیں نمبر ١ مغسولہ نمبر ٢ ممسوحہ اعضاء مغسولہ یہ ہیں چہرہ ‘ دونوں ہاتھ ‘ دونوں پاؤں۔ اعضاء ممسوحہ سر ہے۔
اعضاء مغسولہ کے متعلق اتفاق ہے کہ جب دھونا لازم ہو تو تمام کو دھویا جائے یہ نہیں کہ بعض کو دھو لیا اور بعض پر مسح کرلیا۔
اور اعضاء ممسوحہ میں سر ہے تو اس کے متعلق امام مالک (رح) نے پورے سر کا مسح لازم کیا جیسا کہ پورے عضو کو دھویا جاتا ہے اور بقیہ ائمہ نے بعض حصہ کا مسح کرنے کا حکم دیا۔
اب مسح پر غور کیا کہ اس کی کیفیت کیا ہے ؟ تو مسح علی الخفین پر ہماری نگاہ پڑی مگر وہ مختلف فیہ ہے بعض نے ظاہر پر مسح کا حکم دیا اور باطن پر بھی اور دوسروں نے کہا ان کے ظاہر پر مسح کرے باطن پر نہیں مگر سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بعض پر مسح فرض ہے تمام پر نہیں پس غور و فکر کے بعد ہم کہتے ہیں کہ مسح رأس کا حکم بھی اسی طرح ہے کہ وہ بعض پر ہے بعض کو چھوڑ کر۔ قیاس و نظر کا یہی تقاضا ہے جیسا ہم کہہ آئے امام ابوحنیفہ (رح) و ابی یوسف (رح) و محمد بن الحسن (رح) کا یہی قول ہے اور صحابہ کرام (رض) سے یہ بات مروی ہے اثر ملاحظہ ہو۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔