HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

1475

۱۴۷۵ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ : ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ الطَّائِفِیُّ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ قَالَ : کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ ابْنُ الزُّبَیْرِ یُصَلِّیْ بِنَا الصُّبْحَ بِمَکَّۃَ فَلَا یَقْنُتُ قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمْ یَکُنْ یَقْنُتْ فِیْ دَہْرِہٖ کُلِّہٖ وَقَدْ کَانَ الْمُسْلِمُوْنَ فِیْ قِتَالِ عَدُوِّہِمْ فِیْ کُلِّ وِلَایَۃِ عُمَرَ، أَوْ فِیْ أَکْثَرِہَا، فَلَمْ یَکُنْ یَقْنُتُ لِذٰلِکَ، وَھٰذَا أَبُو الدَّرْدَائِ یُنْکِرُ الْقُنُوْتَ، وَابْنُ الزُّبَیْرِ لَا یَفْعَلُہُ، وَقَدْ کَانَ مُحَارِبًا حِیْنَئِذٍ ؛ لِأَنَّہٗ لَمْ نَعْلَمْہُ أَمَّ النَّاسَ إِلَّا فِیْ وَقْتِ مَا کَانَ الْأَمْرُ صَارَ إِلَیْہِ .فَقَدْ خَالَفَ ہٰؤُلَائِ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَعَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ وَعَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبَّاسٍ فِیْمَا ذَہَبُوْا إِلَیْہِ مِنَ الْقُنُوْتِ فِیْ حَالِ الْمُحَارَبَۃِ بَعْدَ ثُبُوْتِ زَوَالِ الْقُنُوْتِ فِیْ حَالِ عَدَمِ الْمُحَارَبَۃِ .فَلَمَّا اخْتَلَفُوْا فِیْ ذٰلِکَ وَجَبَ کَشْفُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ لِنَسْتَخْرِجَ مِنَ الْمَعْنَیَیْنِ مَعْنًی صَحِیْحًا، فَکَانَ مَا رَوَیْنَا عَنْہُمْ أَنَّہُمْ قَنَتُوْا فِیْہِ مِنَ الصَّلَوَاتِ لِذٰلِکَ الصُّبْحَ وَالْمَغْرِبَ خَلَا مَا رَوَیْنَا عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، (عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ یَقْنُتُ فِیْ صَلَاۃِ الْعِشَائِ)، فَإِنَّ فِیْ ذٰلِکَ مُحْتَمَلٌ أَیْضًا أَنْ یَکُوْنَ ہِیَ الْمَغْرِبَ، وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُوْنَ ہِیَ الْعِشَائَ الْآخِرَۃَ وَلَمْ نَعْلَمْ عَنْ أَحَدٍ مِنْہُمْ أَنَّہٗ قَنَتَ فِیْ ظُہْرٍ وَلَا عَصْرٍ فِیْ حَالِ حَرْبٍ وَلَا غَیْرِہٖ .فَلَمَّا کَانَتْ ہَاتَانِ الصَّلَاتَانِ لَا قُنُوْتَ فِیْہِمَا فِیْ حَالِ الْحَرْبِ أَیْضًا وَفِیْ حَالِ عَدَمِ الْحَرْبِ، وَکَانَتَ الْفَجْرُ وَالْمَغْرِبُ وَالْعِشَائُ لَا قُنُوْتَ فِیْہِنَّ فِیْ حَالِ عَدَمِ الْحَرْبِ ثَبَتَ أَنْ لَا قُنُوْتَ فِیْہِنَّ فِیْ حَالِ الْحَرْبِ أَیْضًا، وَقَدْ رَأَیْنَا الْوِتْرَ فِیْہَا الْقُنُوْتُ عِنْدَ أَکْثَرِ الْفُقَہَائِ فِیْ سَائِرِ الدَّہْرِ وَعِنْدَ خَاصٍّ مِنْہُمْ فِیْ لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ خَاصَّۃً، فَکَانُوْا جَمِیْعًا إِنَّمَا یَقْنُتُوْنَ لِتِلْکَ الصَّلَاۃِ خَاصَّۃً لَا لِحَرْبٍ وَلَا لِغَیْرِہٖ .فَلَمَّا انْتَفٰی أَنْ یَکُوْنَ الْقُنُوْتُ فِیْمَا سِوَاہَا یَجِبُ لِعِلَّۃِ الصَّلَاۃِ خَاصَّۃً لَا لِعِلَّۃٍ غَیْرِہَا، انْتَفٰی أَنْ یَکُوْنَ یَجِبُ لِمَعْنًی سِوٰی ذٰلِکَ .فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّہٗ لَا یَنْبَغِی الْقُنُوْتُ فِی الْفَجْرِ، فِیْ حَالِ حَرْبٍ وَلَا غَیْرِہٖ، قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ ذٰلِکَ وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
١٤٧٥: حضرت عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن الزبیر ہمیں مکہ میں فجر کی نماز پڑھاتے اور قنوت نہ کرتے تھے۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ ابن مسعود (رض) جو کبھی بھی کسی زمانہ میں بھی قنوت نہ پڑھتے تھے۔ اور مسلمان کفار کے خلاف تو ہر وقت زمانہ فاروقی میں برسر پیکار رہتے اور اس کے لیے انھوں نے قنوت نہ پڑھی۔ یہ حضرت ابو الدردائ (رض) ہیں جو کہ قنوت کا انکار کر رہے ہیں اور ابن زبیر (رض) بھی اسے نہیں کرتے اور جنگ کی حالت میں نہ کرتے تھے حالانکہ وہ اس وقت حالت جنگ میں تھے اور ان تک نماز پڑھانے کی نوبت اسی وقت آئی جب یہ امر خلافت ان کے پاس آیا۔ ان حضرات کی رائے حضرت عمر ‘ علی ‘ ابن عباس (رض) سے مختلف ٹھہری اس لیے کہ یہ حضرات جنگ کی حالت میں قنوت کے قائل اور لڑائی نہ ہونے کی حالت میں قنوت نہ پڑھتے تھے۔ اب جبکہ صحابہ کرام (رض) کی روایات میں اختلاف ہوا تو غور و فکر کی راہ سے صحیح معنی کی تلاش لازم ہوئی۔ پس ان حضرات نے صبح و مغرب میں قنوت پڑھی۔ البتہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں وارد ہوا کہ وہ نماز عشاء میں قنوت پڑھتے تھے۔ اور اس میں بھی احتمال ہے کہ یہ عشاء اولیٰ (مغرب ہو یا پچھلی عشاء ہی ہو۔ اور ہمارے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ صحابی نے بھی لڑائی اور امن کی کسی بھی حالت میں ظہر و عصر میں قنوت پڑھی ہو۔ جب یہ دو نمازیں ایسی ہیں کہ ان میں جنگ اور عدم جنگ کسی بھی حالت میں قنوت جائز نہیں ہے اور مغرب ‘ عشاء و فجر میں امن کی حالت میں قنوت ثابت نہیں۔ ہم نے وتروں کی نماز پر نگاہ ڈالی کہ اکثر فقہاء کے ہاں ان میں ہمیشہ قنوت پڑھی جائے گی۔ اور بعض علماء کے نزدیک رمضان آخری نصف میں صرف پڑھی جائے گی۔ یہ تمام حضرات خاص طور پر اس نماز کے لیے قنوت پڑھتے اس میں جنگ اور غیر جنگ کا کوئی دخل نہیں۔ پس جب دوسری نمازوں سے خاص نماز کے لحاظ سے نفی ہوگئی ‘ کسی اور سبب کی بناء پر نہیں ‘ تو وہ کسی اور وقت کی بناء پر لازم نہیں۔ ہم نے جو ذکر کیا اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ نماز فجر میں قنوت تو جنگ کی حالت میں پڑھی جائے اور نہ جنگ کے علاوہ حالت میں پڑھی جائے۔ نظر و قیاس کا یہی تقاضا ہے اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابویوسف و محمد (رح) کا قول ہے۔
تخریج : ابن ابی شیبہ ٢؍١٠٢۔
حاصل آثار :
زمانہ خلافت فاروقی میں مسلمان کافروں سے نبرد آزما تھے اور عبداللہ بن مسعود (رض) اس کے باوجود قنوت نہ پڑھا کرتے تھے اور یہ دوسرے صحابی ابوالدردائ (رض) قنوت سے ناواقفیت کا اظہار کر رہے ہیں اور تیسرے صحابی ابن الزبیر اس کو بالکل نہیں کرتے حالانکہ یہ خود اس وقت حجاج اور خوارج کے خلاف لڑ رہے تھے کیونکہ مکہ شریف میں انھوں نے اسی وقت امامت کرائی جبکہ ان کو خلافت سپرد ہوئی۔
ادھر دوسری طرف حضرت عمر بن خطاب ‘ علی بن ابی طالب اور عبداللہ بن عباس (رض) ہیں جو زمانہ قتال میں قنوت پڑھتے اور دوسرے اوقات میں چھوڑتے ہیں۔
نظر طحاوی (رح) :
فلما اختلفو : اب جبکہ روایات بھی مختلف ہیں اور عمل صحابہ میں بھی اختلاف موجود ہے تو نظر و فکر سے ہم صحیح معنی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں سابقہ روایات میں عمومی روایات فجر و مغرب سے متعلق قنوت کو ظاہر کر رہی ہیں حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں صرف صلوۃ عشاء کا ذکر آتا ہے اس صلوۃ عشاء کے لفظ میں دو احتمال ہیں۔
نمبر : اس سے مراد عشاء اول یعنی مغرب ہو تو پھر یہ سابقہ روایات کے مطابق ہوگئی جن میں مغرب کا ذکر ہے اور اگر دوسرا احتمال عشاء آخر کا ہو تو پھر یہ روایت ان سے مختلف رہے گی۔
باقی اتنی بات تو مسلم ہے کہ ظہر و عصر جو کہ سری نمازیں ہیں ان سے متعلق کسی بھی روایت میں مذکور نہیں ہے کہ اس میں قنوت پڑھی گئی ہو نہ تو زمانہ جنگ اور نہ زمانہ غیر جنگ میں۔
پس جبکہ ان دونوں نمازوں میں جنگ و صلح کسی صورت میں بھی قنوت نہیں تو فجر و مغرب و عشاء میں بھی قنوت عدم جنگ کی صورت میں نہیں ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حالت حرب میں بھی ان میں قنوت نہیں ہے۔
ایک اہم سوال :
جب قنوت کی روایات میں عدم قنوت فجر کو ترجیح دی گئی تو پھر وتر میں قنوت کہاں سے ثابت ہوگئی۔
جواب : قنوت کا ایک سبب تو جنگ ہے اور دوسرا نماز تو قنوت وتر تو نماز کی وجہ سے ہے اسی لیے فقہاء احناف ‘ حنابلہ اور جمہور تمام سال اس کو درست قرار دیتے ہیں اور شوافع اور مالکیہ نصف رمضان میں جائز قرار دیتے ہیں ان تمام کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ اس قنوت کا جنگ یا عدم جنگ سے تعلق نہیں بلکہ یہ صلوۃ سے متعلق ہے اس لیے سارا سال پڑھی جائے گی۔
جب علت صلوۃ کے علاوہ قنوت کی نفی ہوگئی تو علت محاربہ کی وجہ سے بھی اب نہ پڑھی جائے گی پس قیاس و نظر کے تقاضے سے قنوت فجر کی نماز میں حالت حرب و ضرب یا صلح آشتی میں بھی نہ پڑھی جائے گی یہی ہمارے امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول ہے۔
نظر پر ایک ہلکی نظر :
یہاں بھی احناف کی طرف محاربہ کی صورت میں فجر میں قنوت نہ پڑھنے کی نسبت درست نہیں بلکہ احناف کے ہاں جنگ کے حالات میں فجر میں قنوت پڑھی جائے گی یہاں بھی اس نسبت احناف میں ان سے چوک ہوئی ہے۔
حاصل روایات : اس باب میں پوری قوت و زور سے امام طحاوی (رح) سے عدم مشروعیت قنوت کسی بھی وقت میں ثابت کرنے کی کوشش کی مگر بعض روایات میں بالکل تاویل نہیں چلتی اس لیے قنوت نازلہ کے فجر میں تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔ واللہ اعلم۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔