HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

1540

۱۵۴۰ : مَاقَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ أَبُوْ قُرَّۃَ قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ، قَالَ : أَنَا ابْنُ لَہِیْعَۃَ، قَالَ حَدَّثَنِی الْحَارِثُ بْنُ یَزِیْدَ، أَنَّ أَبَا أَسْلَمَ الْمُؤَذِّنَ حَدَّثَہٗ أَنَّہٗ سَمِعَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الزُّبَیْرِ یَقُوْلُ : (إِنَّ تَشَہُّدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِیْ کَانَ یَتَشَہَّدُ بِہٖ، بِسْمِ اللّٰہِ وَبِاللّٰہِ خَیْرِ الْأَسْمَائِ، التَّحِیَّاتُ الطَّیِّبَاتُ، الصَّلَوَاتُ لِلّٰہِ، أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہُ، أَرْسَلَہُ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَنَذِیْرًا، وَأَنَّ السَّاعَۃَ آتِیَۃٌ لَا رَیْبَ فِیْہَا، السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ ، السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ، اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَاہْدِنِی) .فَکُلُّ ہٰؤُلَائِ قَدْ رَوٰی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی التَّشَہُّدِ مَا ذَکَرْنَا عَنْہُمْ وَخَالَفَ مَا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقَدْ تَوَاتَرَتْ بِذٰلِکَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرِّوَایَاتُ، فَلَمْ یُخَالِفْہَا شَیْئٌ ، فَلَا یَنْبَغِی خِلَافُہَا وَلَا الْأَخْذُ بِغَیْرِہَا وَلَا الزِّیَادَۃُ عَلٰی شَیْئٍ مِمَّا فِیْہَا إِلَّا أَنَّ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا حَرْفًا یَزِیْدُ عَلٰی غَیْرِہِ وَہُوَ الْمُبَارَکَاتُ .فَقَالَ قَائِلُوْنَ : ہُوَ أَوْلٰی مِنْ حَدِیْثِ غَیْرِہٖ، اِذَا کَانَ قَدْ زَادَ عَلَیْہِ، وَالزَّائِدُ أَوْلٰی مِنَ النَّاقِصِ .وَقَالَ آخَرُوْنَ : بَلْ حَدِیْثُ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَبِیْ مُوْسٰی وَابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا الَّذِیْ رَوَاہُ عَنْہُ مُجَاہِدٌ وَابْنُ بَابِیْ أَوْلَی لِاسْتِقَامَۃِ طُرُقِہِمْ وَاتِّفَاقِہِمْ عَلٰی ذٰلِکَ، لِأَنَّ أَبَا الزُّبَیْرِ لَا یُکَافِئُ الْأَعْمَشَ، وَلَا مَنْصُوْرٌ، وَلَا مُغِیْرَۃُ وَلَا أَشْبَاہُہُمْ مِمَّنْ رَوَیْ حَدِیْثَ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَلَا یُکَافِئُ قَتَادَۃَ فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ مُوْسٰی وَلَا یُکَافِئُ أَبَا بِشْرٍ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ، وَلَوْ وَجَبَ الْأَخْذُ بِمَا زَادَ، وَإِنْ کَانَ دُوْنَہُمْ، لَوَجَبَ الْأَخْذُ بِمَا زَادَ عَنِ ابْنِ نَابِلٍ، عَنْ اللَّیْثِ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، فَإِنَّہٗ قَدْ قَالَ فِی التَّشَہُّدِ أَیْضًا بِسْمِ اللّٰہِ، وَلَوَجَبَ الْأَخْذُ بِمَا زَادَ أَبُوْ أَسْلَمَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ فَإِنَّہٗ قَدْ قَالَ فِی التَّشَہُّدِ أَیْضًا : بِسْمِ اللّٰہِ، وَزَادَ أَیْضًا عَلٰی مَا فِیْ ذٰلِکَ مِنَ الزِّیَادَۃِ عَلٰی حَدِیْثِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا .فَلَمَّا کَانَتْ ھٰذِہِ الزِّیَادَۃُ غَیْرَ مَقْبُوْلَۃٍ لِأَنَّہٗ لَمْ یَزِدْہَا عَلَی اللَّیْثِ مِثْلَہٗ، لَمْ یَقْبَلْ زِیَادَۃَ ابْنِ أَبِی الزُّبَیْرِ فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَلٰی عَطَائِ بْنِ أَبِیْ رَبَاحٍ لِأَنَّ ابْنَ جُرَیْجٍ رَوَاہُ عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، مَوْقُوْفًا .وَرَوَاہُ أَبُوْ الزُّبَیْرِ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ، وَطَاوٗسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ مَرْفُوْعًا، وَلَوْ ثَبَتَتْ ھٰذِہِ الْأَحَادِیْثُ کُلُّہَا وَتَکَافَأَتْ فِیْ أَسَانِیْدِہَا لَکَانَ حَدِیْثُ عَبْدِ اللّٰہِ أَوْلَاہَا، لِأَنَّہُمْ قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّہٗ لَیْسَ لِلرَّجُلِ أَنْ یَتَشَہَّدَ بِمَا شَائَ مِنَ التَّشَہُّدِ غَیْرَ مَا رُوِیَ مِنْ ذٰلِکَ .فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ التَّشَہُّدَ بِخَاصٍّ مِنَ الذِّکْرِ، وَکَانَ مَا رَوَاہُ عَبْدُ اللّٰہِ قَدْ وَافَقَہٗ عَلَیْہِ کُلُّ مَنْ رَوَاہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَیْرُہٗ وَزَادَ عَلَیْہِ غَیْرُہٗ مَا لَیْسَ فِیْ تَشَہُّدِہِ، کَانَ مَا قَدْ أُجْمِعَ عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ أَوْلَیْ أَنْ یُتَشَہَّدَ بِہٖ دُوْنَ الَّذِیْ اُخْتُلِفَ فِیْہِ .وَحُجَّۃٌ أُخْرٰی أَنَّا قَدْ رَأَیْنَا عَبْدَ اللّٰہِ، شَدَّدَ فِیْ ذٰلِکَ، حَتّٰی أَخَذَ عَلٰی أَصْحَابِہٖ الْوَاوَ فِیْہِ، کَیْ یُوَافِقُوْا لَفْظَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا نَعْلَمُ غَیْرَہٗ فَعَلَ ذٰلِکَ فَلِھٰذَا اسْتَحْسَنَّا مَا رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ دُوْنَ مَا رُوِیَ عَنْ غَیْرِہٖ .فَمِمَّا رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ فِیْمَ ذَکَرْنَا۔
١٥٤٠: حارث بن یزید کہتے ہیں کہ ابو اسلم مؤذن نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن الزبیر (رض) کو کہتے سنا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تشہد جو آپ پڑھا کرتے تھے وہ یہ تھا : بسم اللہ وب اللہ خیرالاسماء التحیات الطیبات ‘ الصلوات اللہ ‘ اشہد ان لاالٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ واشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ ارسلہ بالحق بشرا و نذیرا وان الساعۃ آتیۃ لاریب فیہا السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین اللہم اغفرلی واھدنی۔ اللہ تعالیٰ کے نام سے اور اللہ کی مدد سے جو کہ سب سے بہترین نام ہے تمام پاکیزہ کلمات اور فعلی عبادات اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بندے اور اس کے ایسے رسول ہیں جن کو اس سے حق کے ساتھ بشارت دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا بیشک قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر سلام اور اللہ تعالیٰ رحمت اور برکتیں ہوں ہم پر سلام ہو اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر۔ اے اللہ مجھے بخش دے اور ہدایت پر ثابت قدمی نصیب فرما۔ ان سب نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ تشہد نقل کیا اور ان سب کا تشہد حضرت عمر والے تشہد سے مختلف ہے۔ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کثرت سے روایات اس سلسلے میں آئی ہیں ان کے خلاف کچھ بھی مروی نہیں۔ پس ان کی مخالفت کر کے ان کے علاوہ کو قبول کرنا اور ان پر اضافہ کرنا مناسب نہیں ‘ صرف ابن عباس (رض) کی روایت میں ایک لفظ دوسروں سے زائد ہے اور وہ المبارکٰت کا لفظ ہے۔ اس لیے کہنے والوں نے یہ کہا کہ وہ روایت دوسروں سے بہتر ہے۔ اس لیے کہ اس میں اضافہ ہے تو زائد ناقص سے بہتر ہے۔ مگر دوسروں نے کہا کہ ابن مسعود ‘ ابو موسیٰ اور ابن عمر کی وہ روایات جن کو مجاہد اور ابن بابی نے نقل کیا ‘ وہ ان سے اولیٰ ہے کیونکہ ان کی سند پختہ اور متفق علیہ ہے کیونکہ ابو الزبیر اعمش ‘ منصور ‘ مغیرہ اور انہی جیسے دوسرے لوگ جنہوں نے ابن مسعود سے روایت نقل کی ہے وہ ابو موسیٰ کی روایت نقل کرنے میں قتادہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی ابن عمر کی روایت نقل کرنے میں ابو بشر کا مقابلہ کرسکتے ہیں اگر بالفرض کم درجہ ہونے کے باوجود زائد الفاظ والی روایت کو قبول کرلیا جائے تو پھر ضروری ہے کہ ابن نابل کی ابو الزبیر سے اس سے زیادہ اضافے والی روایت قبول کرلی جائے کیونکہ اس نے تو تشہد میں بسم اللّٰہ کو بھی شامل کیا ہے بلکہ یہ بھی لازم آئے گا کہ مزید اضافے والی روایت جس کو ابو اسلم نے عبداللہ بن زبیر سے نقل کیا ہے اس کو قبول کرلیا جائے انھوں نے بسم اللہ کے علاوہ اور بھی اضافے کیا ہے۔ جب یہ اضافہ اس لیے قابل قبول نہیں کیونکہ لیث کی روایت پر اس قسم کے لوگوں کا اضافہ قابل قبول نہیں۔ بالکل اسی طرح ابوالزبیر کا حدیث ابن عباس میں عطاء پر اضافہ قابل قبول نہیں کیونکہ ابن حریج نے اسے عطاء سے موقوف نقل کیا ہے اور ابوالزبیر نے اسے ابن جبیر اور طاؤس کے واسطے سے مرفوع نقل کیا ہے اگر یہ روایات ثابت بھی ہوجائیں اور سندوں کے اعتبار سے برابر ہوجائیں تب بھی ابن مسعود کی روایت ان سب سے اولیٰ ہے کیونکہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ کوئی آدمی اپنی مرضی سے کوئی تشہد نہیں پڑھ سکتا جو ان روایات کے علاوہ ہو اور عبداللہ نے جو تشہد روایت کیا ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وارد ہونے والی تمام روایات کا تشہد اس کے موافق ہے اور ان دیگر روایات میں اضافے ہیں جو اس تشہد میں نہیں ‘ تو جس تشہد پر سب کا اتفاق ہو وہ اختلافی روایات والی تشہد سے بہرحال اولیٰ ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ عبداللہ نے اس سلسلے میں نہایت سختی سے کام لیا اور اپنے ساتھیوں کے واؤ کے نہ پڑھنے پر بھی ڈانٹ پلائی تاکہ ان کا تشہد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مختلف نہ ہو بلکہ موافق ہوجائے اور ہمارے علم میں تو اور کسی نے ایسا نہیں کیا۔ پس قیاس کا تقاضا بھی یہی ہے دوسروں کے بجائے عبداللہ کے تشہد کو اختیار کیا جائے۔
تخریج : مجمع الزوائد ٢؍٣٣٦۔
حاصل روایات : یہ التحیات بھی اس سے مختلف ہے۔
خلاصہ الکلام : یہ سات صحابہ کرام کے التحیات ہم نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالہ سے نقل کردیئے ان سب کے الفاظ تشہد عمری سے مختلف ہیں۔
ان تمام صحابہ کرام (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوع روایات سے تشہد کو نقل کیا ہے اور ان میں باہمی الفاظ کا اختلاف بھی نہیں پس ان روایات کو چھوڑنا مناسب نہیں اور نہ کسی اور کو لینا مناسب ہے صرف روایت ابن عباس (رض) میں المبارکات کا لفظ دوسروں سے زائد ہے پس تشہد عمر (رض) جو کسی مرفوع روایت سے بھی ثابت نہیں اس پر ان کو ترجیح حاصل ہوگی۔
فریق ثانی کی دو جماعتیں :
نمبر !: امام شافعی (رح) نے ابن عباس (رض) کے تشہد کو اختیار کیا۔
نمبر ": احناف نے ابن مسعود (رض) کے تشہد کو اختیار کیا۔
جماعت نمبر ١ فقال قائلون سے بیان کیا۔
دلیل مؤقف :
یہ ہے کہ تشہد ابن عباس (رض) میں دوسروں کے مقابلے میں الفاظ زائد ہیں اور زائد کو ناقص کے مقابلے میں اختیار کرنا اولیٰ و افضل ہے۔
فریق ثانی میں جماعت ثانیہ : ابن مسعود (رض) والا تشہد افضل ہے۔
جواب جماعت نمبر !: ابن عباس (رض) والا تشہد دو اسناد سے ثابت ہو رہا ہے۔
نمبر !: لیث بن سعد عن ابی الزبیر عن سعید بن جبیر و طاؤس۔
نمبر ": ابن جریج عن عطاء بن ابی رباح۔ اس کے بالمقابل۔
نمبر !: سلیمان بن مہرالاعمش۔ نمبر ": منصور بن معتمر۔ مغیرہ بن مقسم کی اسناد سے ثابت ہے۔
تبصرہ نمبر !:
ابوالزبیر امام اعمش کے مقابلے میں بہت کمزور ہیں اسی طرح دوسرے روات بھی ابوالزبیر سے ثقہ ہیں پس ان کے مقابلے میں ان کی روایت قابل استدلال کیسے ہوگی۔
نمبر ": سند نمبر ٢ میں ابن جریج والی سند تو درست ہے مگر موقوف روایت ہے مرفوع کے مقابلے میں موقوف کیسے چل سکتی ہے۔
پس تشہد ابن عباس (رض) کے مقابلے میں تشہد ابن مسعود ہی افضل ہے۔
نمبر ٢ دیگر روایات سے موازنہ : حضرت ابو موسیٰ ‘ ابو سعید خدری ‘ ابن عمر (رض) کی روایات تشہد ابن مسعود (رض) کی موافقت کرتی ہیں پش تشہد ابن عباس (رض) پر فوقیت کی یہ وجہ بھی ہوگی۔
نمبر 3: ابو موسیٰ اشعری (رض) کی روایت کو قتادہ اور روایت ابن عمر کو ابوالبشر سے روایت کیا گیا اور ان دونوں کے مقابلہ میں ابوالزبیر کمزور ہے پس ان وجوہ ثلاثہ سے روایت ابن عباس (رض) کمزور ہے۔
الزامی جواب :
اگر تمہارے بقول اضافے والی روایت کو لینا زیادہ اولیٰ ہے اور یہ چنداں دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ راوی کمزور ہیں یا مضبوط۔ تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ تشہد جابر (رض) جس کو ابن نابل نے نقل کیا ہے وہ تشہد ابن عباس (رض) افضل ہو کیونکہ اس کی ابتداء بسم اللہ سے ہے اور تشہد ابن زبیر جس کو ابو اسلم نے نقل کیا وہ بھی اضافہ کے ساتھ ہے وہ تشہد ابن عباس (رض) سے افضل ہو حالانکہ آپ اس کو تسلیم نہیں کرتے تو معلوم ہوا کہ ہر اضافہ افضلیت کا سبب نہیں جب تک کہ اثقہ سے ثابت نہ ہو بالفرض اگر یہ تمام روایات اپنی اسانید میں برابر بھی ہوں تو پھر بھی روایت ابن مسعود (رض) کو اولیت حاصل ہوگی اس کی وجوہ یہ ہیں۔
وجہ اول :
اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ تشہد جو چاہے اپنی مرضی سے نہیں پڑھ سکتا وہی پڑھا جائے گا جو مروی ہے اور روایات میں تو قوت و ضعف کو دیکھنا مسلّم ہے پس روایت ابن مسعود (رض) سب سے اولیٰ ہے۔
وجہ دوم :
تشہد خاص ذکر ہے اور عبداللہ نے جو تشہد نقل کیا دوسروں کی روایات میں موجود ہے اور ان کی روایات میں اضافہ بھی ہے مگر ان کی روایت میں اضافہ نہیں تو جس پر اتفاق ہو اس کو لینا مختلف فیہ کے مقابلے میں اولیٰ ہے۔
فریق ثانی کی جماعت ثانیہ کی خاص دلیل :
عبداللہ نے تشہد کے معاملے میں بڑے تشدد سے کام لیا ہے یہاں تک کہ اپنے شاگردوں پر واوکے نہ پڑھنے پر بھی مواخذہ کیا ہے تاکہ لفظ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت نہ ہونے پائے اس کے بالمقابل اور کسی سے بھی ایسی صورت سامنے نہیں آئی پس اسی تشہد ابن مسعود کو دوسروں کے مقابلہ میں افضل و اولیٰ قرار دیا جائے گا۔
یہ روایات اس کی شاہد ہیں :

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔