HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

1605

۱۶۰۵ : کَمَا حَدَّثَنَا رَبِیْعُ ڑالْمُؤَذِّنُ، قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانٍ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ مَنْصُوْرِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ اِبْرَاہِیْمَ، عَنْ عَلْقَمَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّہٗ أَدْخَلَ فِی الصَّلَاۃِ رَکْعَۃً مِنْ غَیْرِہَا قَبْلَ السَّلَامِ، وَلَمْ یَرَ ذٰلِکَ مُفْسِدًا لِلصَّلَاۃِ، وَلَوْ رَآہُ مُفْسِدًا لَہَا اِذًا لَأَعَادَہَا فَلَمَّا لَمْ یُعِدْہَا، وَقَدْ خَرَجَ مِنْہَا إِلَی الْخَامِسَۃِ لَا بِتَسْلِیْمٍ، دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ السَّلَامَ لَیْسَ مِنْ صُلْبِہَا .أَلَا تَرٰی أَنَّہٗ لَوْ کَانَ جَائَ بِالْخَامِسَۃِ، وَقَدْ بَقِیَ عَلَیْہِ مِمَّا قَبْلَہَا سَجْدَۃٌ، کَانَ ذٰلِکَ مُفْسِدًا لِلْأَرْبَعِ، لِأَنَّہٗ خَلَطَہُنَّ بِمَا لَیْسَ مِنْہُنَّ فَلَوْ کَانَ السَّلَامُ وَاجِبًا کَوُجُوْبِ سُجُوْدِ الصَّلَاۃِ، لَکَانَ حُکْمُہٗ أَیْضًا کَذٰلِکَ، وَلٰـکِنَّہٗ بِخِلَافِہٖ فَہُوَ سُنَّۃٌ .وَقَدْ رُوِیَ أَیْضًا فِیْ حَدِیْثِ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑالْخُدْرِیِّ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : (اِذَا صَلَّیْ أَحَدُکُمْ فَلَمْ یَدْرِ أَثَلاَثًا صَلَّیْ أَمْ أَرْبَعًا فَلْیَبْنِ عَلَی الْیَقِیْنِ وَیَدَعْ الشَّکَّ، فَإِنْ کَانَتْ صَلَاتُہٗ نَقَصَتْ، فَقَدْ أَتَمَّہَا، وَکَانَتْ السَّجْدَتَانِ تُرْغِمَانِ الشَّیْطَانَ، وَإِنْ کَانَتْ صَلَاتُہٗ تَامَّۃً، کَانَ مَا زَادَ وَالسَّجْدَتَانِ لَہٗ نَافِلَۃً) .فَقَدْ جَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْخَامِسَۃَ الزَّائِدَۃَ وَالسَّجْدَتَیْنِ اللَّتَیْنِ لِلسَّہْوِ تَطَوُّعًا، وَلَمْ یَجْعَلْ مَا تَقَدَّمَ مِنَ الصَّلَاۃِ بِذٰلِکَ فَاسِدًا وَإِنْ کَانَ الْمُصَلِّیْ قَدْ خَرَجَ مِنْہَا إِلَیْہِ، فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ الصَّلَاۃَ تَتِمُّ بِغَیْرِ تَسْلِیْمٍ وَأَنَّ التَّسْلِیْمَ مِنْ سُنَنِہَا لَا مِنْ صُلْبِہَا .فَکَانَ تَصْحِیْحُ مَعَانِی الْآثَارِ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ یُوْجِبُ مَا ذَہَبَ إِلَیْہِ الَّذِیْنَ قَالُوْا : لَا تَتِمُّ الصَّلَاۃُ حَتّٰی یَقْعُدَ مِقْدَارَ التَّشَہُّدِ لِأَنَّ حَدِیْثَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ احْتَمَلَ مَا ذَکَرْنَا وَاخْتُلِفَ فِیْ حَدِیْثِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی مَا وَصَفْنَا وَأَمَّا حَدِیْثُ ابْنِ مَسْعُوْدٍ فَہُوَ الَّذِیْ لَمْ یُخْتَلَفْ فِیْہِ .وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ، فَإِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا : إِنَّہُ اِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنْ آخِرِ سَجْدَۃٍ مِنْ صَلَاتِہٖ، فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُہٗ .قَالُوْا : رَأَیْنَا ھٰذَا الْقُعُوْدَ قُعُوْدَ التَّشَہُّدِ وَفِیْہِ ذِکْرٌ یُتَشَہَّدُ بِہٖ وَتَسْلِیْمٌ یُخْرَجُ بِہٖ مِنَ الصَّلَاۃِ، وَقَدْ رَأَیْنَا قَبْلَہُ فِی الصَّلَاۃِ قُعُوْدًا فِیْہِ ذِکْرٌ یُتَشَہَّدُ بِہٖ. فَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّ ذٰلِکَ الْقُعُوْدَ الْأَوَّلَ، وَمَا فِیْہِ مِنَ الذِّکْرِ، لَیْسَ ہُوَ مِنْ صُلْبِ الصَّلَاۃِ، بَلْ ہُوَ مِنْ سُنَنِہَا .وَاخْتُلِفَ فِی الْقُعُوْدِ الْأَخِیْرِ فَالنَّظَرُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا أَنْ یَکُوْنَ کَالْقُعُوْدِ الْأَوَّلِ، وَیَکُوْنُ مَا فِیْہِ کَمَا فِی الْقُعُوْدِ الْأَوَّلِ، فَیَکُوْنُ سُنَّۃً، وَکُلُّ مَا یُفْعَلُ فِیْہِ سُنَّۃٌ کَمَا کَانَ الْقُعُوْدُ الْأَوَّلُ سُنَّۃً، وَکُلُّ مَا یُفْعَلُ فِیْہِ سُنَّۃٌ، وَقَدْ رَأَیْنَا الْقِیَامَ الَّذِیْ فِیْ کُلِّ الصَّلَاۃِ وَالرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ الَّذِیْ فِیْہَا أَیْضًا کُلَّہُ کَذٰلِکَ فَالنَّظَرُ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا أَنْ یَکُوْنَ الْقُعُوْدُ فِیْہَا أَیْضًا کُلُّہٗ کَذٰلِکَ .فَلَمَّا کَانَ بَعْضُہُ بِاتِّفَاقِہِمْ سُنَّۃً کَانَ مَا بَقِیَ مِنْہُ کَذٰلِکَ أَیْضًا فِی النَّظَرِ .وَاحْتَجَّ عَلَیْہِمَ الْآخَرُوْنَ فَقَالُوْا : قَدْ رَأَیْنَا الْقُعُوْدَ الْأَوَّلَ مَنْ قَامَ عَنْہُ سَاہِیًا فَاسْتَتَمَّ قَائِمًا أُمِرَ بِالْمُضِیِّ فِیْ قِیَامِہِ وَلَمْ یُؤْمَرْ بِالرُّجُوْعِ إِلَی الْقُعُوْدِ، وَقَدْ رَأَیْنَا مَنْ قَامَ مِنَ الْقُعُوْدِ الْآخِرِ سَاہِیًا حَتَّی اسْتَتَمَّ قَائِمًا أُمِرَ بِالرُّجُوْعِ إِلٰی قُعُوْدِہِ .قَالُوْا فَمَا یُؤْمَرُ بِالرُّجُوْعِ إِلَیْہِ بَعْدَ الْقِیَامِ عَنْہُ فَہُوَ الْفَرْضُ، وَمَا لَا یُؤْمَرُ بِالرُّجُوْعِ إِلَیْہِ بَعْدَ الْقِیَامِ عَنْہُ، فَلَیْسَ ذٰلِکَ بِفَرْضٍ .أَلَا تَرَیْ أَنَّ مَنْ قَامَ وَعَلَیْہِ سَجْدَۃٌ مِنْ صَلَاتِہِ حَتَّی اسْتَتَمَّ قَائِمًا أُمِرَ بِالرُّجُوْعِ إِلٰی مَا قَامَ عَنْہُ لِأَنَّہٗ قَامَ فَتَرَکَ فَرْضًا فَأُمِرَ بِالْعَوْدِ إِلَیْہِ، وَکَذٰلِکَ الْقُعُوْدُ الْأَخِیْرُ، لَمَّا أُمِرَ الَّذِیْ قَامَ عَنْہُ بِالرُّجُوْعِ إِلَیْہِ کَانَ ذٰلِکَ دَلِیْلًا أَنَّہٗ فَرْضٌ، وَلَوْ کَانَ غَیْرَ فَرْضٍ اِذًا لَمَا أُمِرَ بِالرُّجُوْعِ إِلَیْہِ کَمَا لَمْ یُؤْمَرْ بِالرُّجُوْعِ إِلَی الْقُعُوْدِ الْأَوَّلِ .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ لِلْآخَرِیْنَ أَنَّہٗ إِنَّمَا أُمِرَ الَّذِیْ قَامَ مِنَ الْقُعُوْدِ الْأَوَّلِ حَتَّی اسْتَتَمَّ قَائِمًا بِالْمُضِیِّ فِیْ قِیَامِہِ، وَأَنْ لَا یَرْجِعَ إِلٰی قُعُوْدِہِ ؛ لِأَنَّہٗ قَامَ مِنْ قُعُوْدٍ غَیْرِ فَرْضٍ فَدَخَلَ فِیْ قِیَامٍ فَرْضٍ فَلَمْ یُؤْمَرْ بِتَرْکِ الْفَرْضِ وَالرُّجُوْعِ إِلَیْ غَیْرِ الْفَرْضِ وَأُمِرَ بِالتَّمَادِیْ عَلَی الْفَرْضِ حَتّٰی یُتِمَّہُ .فَکَانَ لَوْ قَامَ عَنِ الْقُعُوْدِ الْأَوَّلِ فَلَمْ یَسْتَتِمَّ قَائِمًا أُمِرَ بِالْعَوْدِ إِلَی الْقُعُوْدِ لِأَنَّہٗ مَا لَمْ یَسْتَتِمَّ قَائِمًا فَلَمْ یَدْخُلْ فِیْ فَرْضٍ فَأُمِرَ بِالْعَوْدِ مِمَّا لَیْسَ بِسُنَّۃٍ وَلَا فَرْضٍ إِلَی الْقُعُوْدِ الَّذِیْ ھُوَ سُنَّۃٌ، وَکَانَ یُؤْمَرُ بِالْعَوْدِ مِمَّا لَیْسَ بِسُنَّۃٍ وَلَا فَرِیْضَۃٍ إِلٰی مَا ہُوَ سُنَّۃٌ، وَیُؤْمَرُ بِالْعَوْدِ مِنَ السُّنَّۃِ إِلٰی مَا ہُوَ فَرِیْضَۃٌ، وَکَانَ الَّذِیْ قَامَ مِنَ الْقُعُوْدِ الْأَخِیْرِ حَتَّی اسْتَتَمَّ قَائِمًا دَاخِلًا لَا فِیْ سُنَّۃٍ وَلَا فِیْ فَرِیْضَۃٍ وَقَدْ قَامَ مِنْ قُعُوْدٍ ہُوَ سُنَّۃٌ فَأُمِرَ بِالْعَوْدِ إِلَیْہِ وَتَرْکِ التَّمَادِی فِیْمَا لَیْسَ بِسُنَّۃٍ وَلَا فَرِیْضَۃٍ .کَمَا أُمِرَ الَّذِیْ قَامَ مِنَ الْقُعُوْدِ الْأَوَّلِ الَّذِیْ ھُوَ سُنَّۃٌ فَلَمْ یَسْتَتِمَّ قَائِمًا فَیَدْخُلَ فِی الْفَرِیْضَۃِ أَنْ یَرْجِعَ مِنْ ذٰلِکَ إِلَی الْقُعُوْدِ الَّذِیْ ھُوَ سُنَّۃٌ فَلِھٰذَا أُمِرَ الَّذِیْ قَامَ مِنَ الْقُعُوْدِ الْأَخِیْرِ حَتَّی اسْتَتَمَّ قَائِمًا بِالرُّجُوْعِ إِلَیْہِ لَا لِمَا ذَہَبَ إِلَیْہِ الْآخَرُوْنَ .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ عِنْدَنَا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ لَا مَا قَالَ الْآخَرُوْنَ .وَلَکِنَّ أَبَا حَنِیْفَۃ، وَأَبَا یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدًا، رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی، ذَہَبُوْا فِیْ ذٰلِکَ إِلٰی قَوْلِ الَّذِیْنَ قَالُوْا : إِنَّ الْقُعُوْدَ الْأَخِیْرَ مِقْدَارَ التَّشَہُّدِ مِنْ صُلْبِ الصَّلَاۃِ لِأَنَّہٗ ثَبَتَ بِالنَّصِّ کَمَا ذَکَرْنَا .وَقَدْ قَالَ بَعْضُ الْمُتَقَدِّمِیْنَ بِمَا قَالُوْا مِنْ ذٰلِکَ .
١٦٠٥: ابراہیم نے علقمہ سے انھوں نے عبداللہ سے بیان کیا اور عبداللہ نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کو بیان کیا۔ (جو اوپر ظہر کے واقعہ والی گزری) اس روایت میں یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز سلام سے پہلے ایک اور پانچوں رکعت پڑھ دی اور اس کو نماز کے لیے مفسد قرار نہ دیا اگر آپ اسے نماز کے لیے مفسد قرار دیتے تو ضرور اس کا اعادہ کرتے جب آپ نے اعادہ نہ کیا اور پانچویں رکعت کی طرف بلا تسلیم نکل گئے تو اس سے یہ دلالت مل گئی کہ یہ نماز کے ارکان سے نہیں ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ آپ پانچویں رکعت کی طرف اس حالت میں منتقل ہوتے کہ آپ کے ذمہ کوئی ایسی چیز باقی ہوتی جس سے پہلے سجدہ ہے تو یہ چاروں رکعات کے لیے مفسد بن جاتی کیونکہ اس سے ان رکعات کا ان چیزوں سے ملانا لازم آتا جو ان میں سے نہیں۔ پس اگر سلام واجب ہوتا جیسا کہ نماز میں سجدے لازم ہیں تو اس کا حکم بھی اسی طرح ہوتا مگر اس کے برعکس وہ سنت ہے اور یہ بات حضرت ابو سعید خدری (رض) کی روایت میں آئی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز ادا کرے اور اس کو یہ یاد نہ رہے کہ اس سے تین پڑھی ہیں یا چار ‘ تو یقین پر عمل کرے اور شک کو ترک کر دے۔ پھر اگر اس کی نماز کم ہو تو اس کو (رکعت ملا کر) مکمل کرلے اور دو سجدے شیطان کی ناک رگڑنے کے لیے کرے اور اگر نماز مکمل ہوچکی تو جو زائد پڑھا ہے وہ اور دو سجدے اس کے لیے نفل بن جائیں گے۔ تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانچویں زائد رکعت اور سہو کے دو سجدوں کو نفل قرا دیا اور اس سے پہلے والی رکعات کو فاسد قرار نہیں دیا خواہ نمازی اس فرض سے اس نفل کی طرف منتقل ہوگیا ہے۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ نماز بعد سلام بھی مکمل ہوجاتی ہے اور سلام نماز کی سنن سے ہے فرائض سے نہیں۔ پس اس باب کے آثار کے معنی کی درستی اس بات کو لازم کرتی ہے کہ جنہوں نے یہ کہا کہ مقدار تشہد بیٹھنے سے نماز مکمل ہوجاتی ہے ‘ اس لیے کہ حضرت علی (رض) والی روایت میں اس بات کا احتمال ہے جس کا ہم نے تذکرہ کیا اور حضرت عبداللہ بن عمرو کی روایت میں اختلاف ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کردیا۔ البتہ حضرت ابن مسعود (رض) کی روایت میں اختلاف نہیں۔ غور و فکر کے لحاظ سے اس کی وضاحت سنیے۔ جن لوگوں کا کہنا یہ ہے جب نماز کے آخری سجدہ سے سر اٹھائے تو نماز مکمل ہوجاتی ہے۔ وہ بطور ثبوت کہتے ہیں کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ تشہد والا قعدہ ہے۔ اس تشہد والا ذکر اور سلام جس کے ذریعے نماز سے باہر آتے ہیں اور ہم یہ پاتے ہیں کہ اس سے پہلے بھی اسی نماز میں ایک قعدہ ہے جس میں تشہد کا ذکر تو موجود ہے۔ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ پہلا قعدہ اور اس میں تشہد کا پڑھنا فرائض نماز سے نہیں بلکہ سنن اور واجبات سے ہے۔ آخری قعدہ سے متعلق اختلاف ہے ہم نے جو کچھ کہا اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہ بھی پہلے قعدہ کی طرح ہو اور اس میں جو کچھ ہے اس کا حکم وہی ہو جو پہلے قعدہ کے افعال و اعمال کا ہے۔ اس لحاظ سے وہ سنت یا واجب ہوگا اور اس کے اعمال بھی سنت غیر فرض ہیں اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ قیام رکوع اور سجدہ یہ تمام چیزیں ہر نماز کا لازمی حصہ ہیں۔ پس جو بات ہم نے ذکر کی اس کے لحاظ سے غور و فکر کا تقاضا یہ ہے کہ قعدہ کا حکم بھی نماز میں اسی طرح ہو جب اس کا ایک حصہ بالاتفاق سنت یا واجب ہے تو اس کے بقیہ کا بھی قیاس کے لحاظ سے وہی حکم ہے دوسروں نے ان کے خلاف یہ دلیل پیش کی کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قعدہ اول سے جو شخص بھول کر کھڑا ہوجاتا ہے اگر وہ مکمل طور پر سیدھا کھڑا ہوجائے تو اس کے لیے قیام میں برقرار رہنے کا ہی حکم ہے اس کو قعد کی طرف لوٹنے کا حکم نہیں اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جو شخص قعدہ اخیرہ میں بھول کر کھڑا ہوجائے اور مکمل سیدھا کھڑا ہوجائے تو اسے قعدے کی طرف لوٹنے کا حکم دیا جاتا ہے تو جس قعدے میں مکمل قیام کے بعد لوٹنے کا حکم ہو وہ فرض ہے تبھی تو اس کی طرف لوٹنے کا حکم دیا گیا اور قعدہ اول میں اس کی طرف لوٹنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ ان کے خلاف دلیل دوسروں کی طرف سے یہ دی جاتی ہے پہلے قعدہ میں کھڑے ہونے کے بعد قیام میں برقرار رہنے کا حکم دیا گیا اور قعدے کی طرف لوٹنے کا نہیں کہا گیا کیونکہ وہ ایسے قعدہ سے کھڑا ہوا ہے جو فرض نہیں ہے اور دوسری طرف وہ ایسے قیام میں داخل ہوچکا جو کہ فرض ہے اس وجہ سے اس کے چھوڑنے اور غیر فرض کی طرف لوٹنے کی اجازت نہیں دی گئی اور فرض میں برقرار رہنے کا حکم دیا گیا تاکہ اس کی تکمیل کرلیں اگر وہ پہلا قعدہ کھڑا ہوا مگر مکمل طور پر سیدھا نہ ہوا تو اسے قعدے کی طرف لوٹنے کا حکم دیں گے کیونکہ وہ مکمل کھڑا نہیں ہوا جس سے وہ فرض میں داخل نہیں ہوا اسی لیے واپسی کا حکم ہوگیا جو نہ تو سنت ہے اور نہ فرض ہے اور یہ اس قعدے کی طرف واپس آیا جو کہ سنت سے ثابت ہے تو اس کو لوٹنے کا حکم اس کے لیے کہا گیا جو کہ سنت سے ثابت ہے اور سنت سے اس کی طرف لوٹا جاتا ہے جو کہ فرض ہوتا ہے اور اس کے بالمقابل وہ شخص جو کہ آخری قعدہ میں سیدھا کھڑا ہوگیا تو وہ ایسی چیز میں داخل ہونے والا ہے جو نہ سنت ہے نہ فرض اور وہ ایسے قعدہ سے اٹھا ہے جو کہ سنت ہے اور اس میں برقرار رہنے نہ دیا جائے گا جو کہ سنت و فرض میں سے کچھ بھی نہیں جیسا کہ اس شخص کو حکم دیا گیا جو کہ قعدہ اول سے اٹھ کھڑا ہوا تھا جبکہ وہ سنت سے ثابت ہے اور مکمل سیدھا کھڑا نہیں ہوا تھا کہ وہ فرض میں داخل ہوتا اس لیے اسے قعدے کی طرف لوٹنے کا حکم دیا جائے گا جو کہ سنت ہے۔ بالکل اسی طرح قعدہ اخیرہ سے اٹھ جانے والے کو حکم دیا جائے گا خواہ وہ مکمل کھڑا ہوگیا کہ وہ سنت کی طرف واپس لوٹ آئے اس بناء پر نہیں جس کی طرف دوسرے لوگ گئے ہیں۔ امام طحاوی فرماتے ہیں کہ ہمارے ہاں نظر و فکر کا تقاضا اس باب میں اسی طرح ہے اس طرح نہیں جس کی طرف دوسرے لوگ گئے ہیں۔ لیکن امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد (رح) نے اس مقام پر ان لوگوں کا قول اختیار کیا جو یہ کہتے ہیں کہ آخری قعدہ تشہد کی مقدار نماز کے فرائض میں سے ہے کیونکہ یہ نص کے ساتھ ثابت ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا اور بعض متقدمین بھی اسی قول کی طرف گئے ہیں جیسے کہ یہ روایات سے ثابت کرتی ہیں۔
حاصل روایات : یہ ہے نماز میں پانچویں رکعت سلام سے پہلے آپ نے شامل کردی اور اس کو مفسد نماز قرار نہ دیا اگر مفسد قرار دیا جاتا تو نماز کا اعادہ فرماتے پس جب اس کا اعادہ نہیں کیا بلکہ بلاتسلیم پانچویں کی طرف منتقل ہوگئے اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ سلام نماز کے فرائض سے نہیں ہے۔
ذرا غور فرمائیں اگر پانچویں رکعت اس طرح ادا فرماتے کہ آپ پر چوتھی کا ایک سجدہ باقی ہوتا تو اس سے چاروں رکعات فاسد ہوجاتیں کیونکہ ان رکعات میں (پانچویں رکعت) وہ چیز مل گئی جو ان میں سے نہیں پس اگر سلام بھی واجب و فرض ہوتا جیسا کہ سجدہ فرض ہے تو اس کا حکم بھی یہی ہوتا۔ لیکن اس کا حکم اس طرح نہیں پس وہ واجب ثابت بالسنہ ہوا۔
دلیل مزید : قدروی ایضاً سے اس کو بیان کیا کہ حضرت ابو سعید خدری (رض) کی روایت میں وارد ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کوئی آدمی نماز پڑھ رہا ہو اور یہ بھول جائے کہ اس نے تین رکعات ادا کی ہیں یا چار تو اسے یقین پر عمل کرنا چاہیے اور شک کو چھوڑ دینا چاہیے (گویا ایک رکعت ملا کر سجدہ سہو سے نماز پوری کرے) اگر اس کی نماز حقیقت میں کم ہے (اس نے اپنے یقین کے مطابق ایک رکعت ملا کر اس کو پورا کرلیا) تو اس کی نماز مکمل ہوگئی اور سہو کے دو سجدے شیطان کی ذلت کا باعث ہوں گے اور اگر اس کی نماز پوری تھی (مگر اسے کم کا یقین تھا اس نے اور ملا کر سہو کے دو سجدوں سے نماز پوری کرلی) تو جو زائد رکعت ہوگی اور دو سجدے کئے یہ زائد (ثواب کا باعث) ہوں گے۔
تخریج : ابو داؤد فی الصلاۃ باب ١٩١‘ نمبر ١٠٢٤‘ نسائی فی السہو باب ٢٤‘ ابن ماجہ فی الاقامہ باب ١٣٢‘ ١٣٧‘ مسند احمد ٣‘ ٧٢؍٨٣۔
حاصل روایات : یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانچویں کو زائد قرار دیا اور سجدوں کو زائد نفل کہا اور اس گزشتہ نماز کو فاسد قرار نہیں دیا اگرچہ نمازی اسی سے پانچویں کی طرف نکلا ہے پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ نماز تو تسلیم کے بغیر مکمل ہوگئی اور سلام اس کے سنن سے ہے نہ کہ فرائض سے۔
خلاصہ کلام : آثار و روایات کے معانی کی درستی کا تقاضا ان لوگوں کی بات سے پورا ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ نماز اس وقت تک پوری نہیں ہوتی جب تک کہ تشہد کی مقدار نہ بیٹھا جائے یہ فریق ثانی کی جماعت ثانیہ (احناف) کا مؤقف ہے جن کے دلائل ابھی گزرے اور اس کی وجوہ یہ ہیں۔
وجوہ نمبر 1: روایت حضرت علی (رض) میں احتمالات ہیں جن کا تذکرہ ہم نے کردیا سلام کی فرضیت ثابت ہوتی ہے۔
نمبر 2: عبداللہ بن عمروبن العاص (رض) کی روایت مختلف فیہ ہے جیسا کہ ہم نے گزشتہ سطور میں ذکر کردیا قعدہ اخیرہ فرض ہے یا نہیں مگر سلام فرض نہیں۔
نمبر 3: روایت ابن مسعود (رض) ہی ایک روایت رہ جاتی ہے جس میں اختلاف نہیں یہ قعدہ اخیرہ کی فرضیت اور سلام واجب ثابت بالسنۃ ہونے کی دلیل بن سکتی ہے قعدہ اخیرہ کو عطاء بن ابی رباح ابراہیم (رح) فرض نہیں مانتے امام ابوحنیفہ ‘ شافعی و دیگر ائمہ اس کو فرض جانتے ہیں سابقہ سطور میں دلائل گزرے۔
نظر طحاوی (رح) اور رجحان طحاوی (رح) :
اس بات کو بطریق نظر اگر سامنے رکھا جائے تو جن کا قول یہ کہ جب نماز کے آخری سجدہ سے اس سے سر اٹھایا تو اس کی نماز پوری ہوگئی تو وہ کہتے ہیں کہ اس قعدہ میں تشہد پڑھی جاتی ہے اور گویا اس میں ایک تو ذکر ہے اور وہ تشہد ہے اور دوسرا تسلیم ہے جس کی وجہ سے وہ نماز سے خارج ہوجاتا ہے ہم نے نماز کے پہلے حصہ پر نگاہ ڈالی تو اس میں بھی دو چیزیں مشترک پالیں قعدہ اور اس میں ذکر تشہد ‘ البتہ اس میں سلام نہیں تو تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قعدہ اول اور اس میں تشہد سنت یا واجب ہے فرض نہیں ہے۔ بس اختلاف تو قعدہ اخیرہ میں ہے پس پہلے قعدہ پر قیاس کا تقاضا یہ ہے یہ بھی قعدہ اول کی طرح واجب یا مسنون ہو اور جو کچھ اس میں پڑھا جاتا ہے وہ بھی اس کی طرح ہو اور حال یہ ہے کہ قعدہ اول میں جو کچھ کیا جاتا ہے وہ سنت یا واجب ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ قیام ہر نماز میں اور رکوع و سجدہ سب رکعات میں یکساں حکم رکھتے ہیں تو تقاضا نظریہ ہے کہ قعدہ میں بھی ہر دو قعدوں کا حکم یکساں ہو مختلف نہ ہو پس جب قعدہ اول بالاتفاق سنت یا واجب ہے تو بتقاضائے نظر دوسرا قعدہ بھی اسی طرح ہونا چاہیے اس سے مختلف ہونا چہ معنی دارد پس قعدہ اخیرہ کی عدم فرضیت مسلم ہوگئی۔
فریق ثانی کا جوابإ
اجتح علیہم الآخرون سے شروع کیا۔
آپ کی دلیل میں یہ دعویٰ محل نظر ہے کہ قعدہ اولیٰ اور اخیرہ قعدہ ہونے کی وجہ سے ایک حکم میں ہونے چاہئیں کیونکہ ان میں بہت فرق ہے۔
مثلاً اگر کوئی نمازی قعدہ اولیٰ چھوڑ کر کھڑا ہوجائے اور پھر اسے یاد آئے کہ میں نے قعدہ بیٹھنا تھا تو اسے قعدہ کی طرف لوٹنا جائز نہیں بلکہ اسے کھڑا رہنا ضروری قرار دیا جاتا ہے مگر قعدہ اخیرہ میں اگر کوئی پانچویں رکعت کی طرف کھڑا ہوگیا تو اسے قیام کو برقرار رکھنا جائز نہیں بلکہ لوٹ کر واپس آنا ضروری ہے پس دونوں کے مابین واضح فرق کی وجہ سے ایک کو دوسرے پر قیاس کر کے حکم لگانا درست نہ ہوگا حاصل یہ ہوا کہ جس قعدہ میں لوٹنے کا حکم نہیں وہ سنت یا واجب رہے گا اور جس میں لوٹنے کا حکم ہے وہ فرض ہوگا بلکہ یہ تو اس طرح ہوگا جیسا کوئی آدمی سجدہ چھوڑ کر قیام کی طرف لوٹ گیا تو اسے سجدہ کی طرف لوٹنے کا حکم دیا جائے گا کیونکہ اس نے ایک فرض کو ترک کردیا پس فرض کی طرف لوٹنے کا حکم دیا بالکل اسی طرح قعدہ اخیرہ ہے جب اس سے وہ کھڑا ہوا تو تکمیل فرض کے لیے اس کی طرف لوٹنے کا حکم دیا گیا یہ واضح دلیل ہے کہ قعدہ اخیرہ فرض ہے اگر یہ فرض نہ ہوتا تو اس کی طرف لوٹنے کا چنداں حکم نہ دیا جاتا جیسا کہ قعدہ اول فرض نہ تھا تو اس کی طرف لوٹنے کا حکم نہیں دیا گیا۔
فریق اوّل کی طرف سے جواب الجواب :
فکان من الحجۃ سے دیا گیا آپ نے قعدہ اولیٰ اور ثانیہ میں فرق کی جو علت ذکر کی ہے ہم اس کو درست نہیں مانتے کیونکہ قعدہ اولیٰ میں لوٹنے کا حکم اس وجہ سے نہیں کہ یہ سنت یا واجب ہے بلکہ اس اصول کی وجہ سے ہے کہ جب کوئی فرض کی طرف منتقل ہوجائے اور اس نے سنت کو چھوڑا ہو تو سنت کی ادائیگی کے لیے فرض سے واپس نہیں ہوں گے پس قعدہ اولیٰ میں لوٹنے کی اجازت اس لیے نہیں ‘ نہ کہ جو آپ کہتے ہیں اور قعدہ اخیرہ میں لوٹنے کا حکم اس لیے نہیں دیا کہ دونوں قعدوں کے حکم میں فرق ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیٹھنا سنت یا واجب تھا جب اس کو ترک کر کے ایسی حالت کی طرف منتقل ہوا جو فرض و واجب تو درکنار سنت بھی نہیں بلکہ خلاف سنت ہے تو اس سے سنت کی طرف لوٹنا لازم ہوگیا اس کی مثال اس طرح ہے کہ اگر نمازی قعدہ اولیٰ چھوڑ کر کھڑا ہونے لگا مگر مکمل کھڑا نہیں ہوا تو یہ حالت نہ سنت ہے نہ فرض پس نمازی کو قعدہ اولیٰ کی طرف لوٹنے کا حکم ہوتا ہے کیونکہ وہ کسی فرض میں داخل نہیں ہوا اسی طرح جب نمازی قعدہ اخیرہ چھوڑ کر پانچیوں رکعت کے لیے کھڑا ہوجاتا ہے تو پانچویں رکعت نہ سنت ہے نہ واجب نہ فرض اس لیے نمازی کو قعدہ اخیرہ کی طرف لوٹ آنا ہوتا ہے تو قعدہ اخیرہ میں لوٹ آنے کا حکم تمہاری بیان کردہ دلیل سے نہیں (تقاضہ نظر سے معلوم ہوتا ہے کہ امام طحاوی (رح) کا رجحان بھی فریق اوّل کی طرف ہے) ۔
اسی لیے فرماتے ہیں کہ بطریق نظر تو فریق اوّل کی بات راجح ہے۔
مگر امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول یہ ہے کہ قعدہ اخیرہ بمقدار تشہد فرض ہے کیونکہ اس کا ثبوت نص سے ہے جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں۔ بلکہ تابعین کا عمل بھی اس کی تائید کرتا ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔