HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

2238

۲۲۳۸: وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُو الْوَلِیْدُ‘ قَالَ : ثَنَا شُعْبَۃُ‘ عَنْ أَبِیْ بِشْرٍ .فَذَکَرَ مِثْلَہٗ بِإِسْنَادِہٖ‘ غَیْرَ أَنَّہٗ قَالَ : (وَأَمَرَہُمْ اِذَا أَصْبَحُوْا أَنْ یَخْرُجُوْا إِلَی مُصَلَّاہُمْ) .فَمَعْنَیْ ذٰلِکَ أَیْضًا مَعْنَیْ مَا رَوٰی یَحْیٰی وَسَعِیْدٌ‘ عَنْ ہُشَیْمٍ‘ وَھٰذَا ہُوَ أَصْلُ الْحَدِیْثِ .وَلَمَّا لَمْ یَکُنْ فِی الْحَدِیْثِ‘ مَا یَدُلُّ عَلَی حُکْمِ مَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الصَّلَاۃِ فِی الْغَدِ‘ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ فَرَأَیْنَا الصَّلَوَاتِ عَلٰی ضَرْبَیْنِ .فَمِنْہَا مَا الدَّہْرُ کُلُّہُ لَہَا وَقْتٌ‘ غَیْرَ الْأَوْقَاتِ الَّتِیْ لَا یُصَلِّیْ فِیْہَا الْفَرِیْضَۃَ‘ فَکَانَ مَا فَاتَ مِنْہَا فِیْ وَقْتِہِ‘ فَالدَّہْرُ کُلُّہُ لَہَا وَقْتٌ یُقْضَی فِیْہِ‘ غَیْرَ مَا نُہِیَ عَنْ قَضَائِہَا فِیْہِ مِنَ الْأَوْقَاتِ .وَمِنْہَا مَا جُعِلَ لَہٗ وَقْتٌ خَاصٌّ‘ وَلَمْ یُجْعَلْ لِأَحَدٍ أَنْ یُصَلِّیَہُ فِیْ غَیْرِ ذٰلِکَ الْوَقْتِ .مِنْ ذٰلِکَ الْجُمُعَۃُ‘ حُکْمُہَا أَنْ یُصَلِّیَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ مِنْ حِیْنِ تَزُلْ الشَّمْسِ إِلٰی أَنْ یَدْخُلَ وَقْتُ الْعَصْرِ‘ فَإِذَا خَرَجَ ذٰلِکَ الْوَقْتُ فَاتَتْ وَلَمْ یَجُزْ أَنْ یُصَلِّیَ بَعْدَ ذٰلِکَ فِیْ یَوْمِہَا ذٰلِکَ‘ وَلَا فِیْمَا بَعْدَہٗ .فَکَانَ مَا لَا یُقْضَی فِیْ بَقِیَّۃِ یَوْمِہِ بَعْدَ فَوَاتِ وَقْتِہِ‘ لَا یُقْضَیْ بَعْدَ ذٰلِکَ .وَمَا یُقْضَیْ بَعْدَ فَوَاتِ وَقْتِہِ فِیْ بَقِیَّۃِ یَوْمِہِ ذٰلِکَ‘ قُضِیَ مِنَ الْغَدِ‘ وَبَعْدَ ذٰلِکَ‘ وَکُلُّ ھٰذَا مُجْمَعٌ عَلَیْہِ .وَکَانَتْ صَلَاۃُ الْعِیْدِ جُعِلَ لَہَا وَقْتٌ خَاصٌّ‘ فِیْ یَوْمِ الْعِیْدِ‘ آخِرُہُ زَوَالُ الشَّمْسِ‘ وَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ عَلٰی أَنَّہَا اِذَا لَمْ تُصَلَّ یَوْمَئِذٍ حَتَّی زَالَتِ الشَّمْسُ أَنَّہَا لَا تُصَلّٰی فِیْ بَقِیَّۃِ یَوْمِہَا .فَلَہَا ثَبَتَ أَنَّ صَلَاۃَ الْعِیْدِ‘ لَا تُقْضَیْ بَعْدَ خُرُوْجِ وَقْتِہَا فِیْ یَوْمِہَا ذٰلِکَ‘ ثَبَتَ أَنَّہَا لَا تُقْضَیْ بَعْدَ ذٰلِکَ فِیْ غَدٍ وَلَا غَیْرِہِ‘ لِأَنَّا رَأَیْنَا مَا لِلَّذِیْ فَاتَہُ أَنْ یَقْضِیَہُ مِنْ غَدٍ یَوْمِہِ جَائِزٌ لَہٗ أَنْ یَقْضِیَہُ مِنْ بَقِیَّۃِ الْیَوْمِ الَّذِیْ وَقْتُہُ فِیْہِ وَمَا لَیْسَ‘ لِلَّذِیْ فَاتَہُ أَنْ یَقْضِیَہُ مِنْ بَقِیَّۃِ یَوْمِہِ ذٰلِکَ‘ فَلَیْسَ لَہٗ أَنْ یَقْضِیَہُ مِنْ غَدِہِ .فَصَلَاۃُ الْعِیْدِ کَذٰلِکَ‘ لَمَّا ثَبَتَ أَنَّہَا لَا تُقْضَی اِذَا فَاتَتْ فِیْ بَقِیَّۃِ یَوْمِہَا‘ ثَبَتَ أَنَّہَا لَا تُقْضَی فِیْ غَدِہِ .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالَی‘ فِیْمَا رَوَاہُ عَنْ بَعْضِ النَّاسِ‘ وَلَمْ نَجِدْہُ فِیْ رِوَایَۃِ أَبِیْ یُوْسُفَ عَنْہٗ، ھٰکَذَا کَانَ فِیْ رِوَایَۃِ أَحْمَدَ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ تَعَالٰی .
٢٢٣٨: شعبہ نے ابو بشر سے پھر اس نے اپنی سند سے روایت کی البتہ یہ فرق ہے یہ الفاظ زائد ہیں وامرہم اذا اصبحوا ان یخرجوا الی مصلاہم یہ اصل روایت ہے۔ یہ اس روایت کی اصل ہے اب جبکہ روایت میں کوئی ایسی بات نہیں جو اگلے دن میں عید کی نماز ادا کرنے پر دلالت کرے تو اب اس میں ہم نے غور و فکر کیا تو نماز کو دو قسموں میں تقسیم پایا۔ ان میں بعض تو وہ ہیں کہ جس کے لیے ہر زمانہ وقت ہے۔ البتہ ان اوقات میں ان کو ادا نہ کریں گے جن میں فرائض کی ممانعت ہے۔ پس ان میں سے جو اپنے وقت سے رہ جائے تو تمام زمانہ اس کے لیے وقت ہے۔ اس میں اسے ادا کیا جائے گا صرف ان اوقات میں نہ پڑھیں گے جن میں قضاء کی ممانعت ہے اور بعض وہ نمازیں ہیں کہ جن کا خاص وقت مقرر ہے۔ ان میں کسی کو جائز نہیں ہے کہ ان کو دوسرے وقت میں ادا کرے ان میں سے ایک جمعہ ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اسے جمعہ کے دن ادا کیا جائے جبکہ سورج ڈھل جائے اور اس کا وقت عصر کے وقت تک رہتا ہے۔ پس جب ظہر کا وقت ختم ہوجائے تو جمعہ فوت ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد اس کو اس دن یا اگلے دن یا بعد میں قضاء نہیں کرسکتا اور وہ نمازیں جن کو فوت ہونے کے بعد اسی دن کے بقیہ وقت اور اگلے دن اور اس کے بعد جب چاہے قضاء کرسکتا ہے۔ یہ سب کے ہاں مسلّم ہے۔ نماز عید کو دیکھیں اس کا ایک مقررہ وقت ہے اور وہ عید والا دن زوال سے پہلے تک کا وقت ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر نماز عید اس دن زوال تک ادا نہ کی تو بقیہ دن کے حصہ میں بھی ادا نہ کی جائے گی۔ پس اس سے اس قدر بات ثابت ہوگئی کہ نماز عید وقت نکل جانے کے بعد اس دن بھی قضاء نہیں کی جاسکتی۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ وہ اگلے روز اور نہ کسی دوسرے دن قضاء ہوسکتی ہے۔ کیونکہ یہ بات تو وہ نماز جو فوت ہونے کے بعد اگلے قضاء کی جاسکے وہ قضاء کے بعد اس دن کے بقیہ میں بھی ادا ہوسکتی ہے جس میں اس کی ادائیگی کا وقت تھا اور جو اس طرح نہیں ‘ پس اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اگلے روز قضاء کرے تو نماز بھی یہی حکم رکھتی ہے۔ جب ی بات ثابت ہوگئی کہ عید دن کے بقیہ حصہ میں قضاء نہیں کی جاسکتی تو اگلے دن قضائج نہ کیا جانا خود ثابت ہوگیا۔ اس باب میں نظر کا تقاضا یہی ہے۔ بعض علماء کی روایت کے مطابق امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی قول ہے۔ امام ابو یوسف (رح) کی روایات میں تو ہمیں نہیں مل سکا۔ یہ امام احمد (رح) کی روایت میں اسی طرح تھا۔
اس روایت کی وہی تاویل ہے جو اوپر یحییٰ والی روایت کی ذکر کردی اب جب کہ اس کے لیے صریح روایت موجود نہیں بلکہ مختلف فیہ ہے تو ہم قیاس و نظر کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
نظر طحاوی (رح) :
عقلی جواب : غور سے دیکھتے ہیں تو نمازوں کو دو قسم پر پاتے ہیں۔
نمبر 1: جو ہر وقت پڑھی جاسکتی ہے فقط ان اوقات کا استثناء ہے جن میں فرض جائز ہی نہیں پس ان میں سے جو فوت ہوجائے تو تمام زمانہ اس کا ٹائم ہے یعنی قضا کرسکتے ہیں۔
نمبر 2: جن نمازوں کا خاص وقت مقرر کیا گیا اور کسی دوسرے وقت میں وہ پڑھی نہیں جا سکتیں جب یہ وقت نکل جائے تو جمعہ کا دن باقی ہونے کے باوجود اس کو پڑھا نہیں جاسکتا اور نہ ہی کسی دوسرے وقت میں اس کی قضا ہوسکتی ہے۔
پس قاعدہ یہ ہوا کہ جو اپنے وقت سے فوت ہونے کے بعد اس دن میں بھی قضا نہ کی جاسکے تو وہ بعد میں بھی قضا نہیں کی جاسکتی اور جو وقت گزرنے کے بعد اسی دن میں قضا ہو سکے وہ اگلے روز بھی قضا ہوسکتی ہے اور بعد میں بھی یہ مسلمہ قاعدہ ہے۔
اب نماز عید اس کا ایک خاص وقت ہے اور وہ یوم عید ہے اور اس کی انتہا زوال آفتاب ہے اور اصولاً جب اپنے وقت سے رہ گئی اور بقیہ دن موجود ہوتے ہوئے پڑھی نہیں جاسکتی تو اس سے ظاہر ہوا کہ یہ اگلے روز بھی قضا نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کی مشابہت ان نمازوں سے ہے جو وقت نکل جانے کے بعد دن موجود ہونے کے باوجود اس دن قضا نہیں کی جاسکتی تو اگلے روز تو قضا نہ کرنا بدرجہ اولیٰ ہے پس اگلے دن عید کی قضا نہیں۔
حاصل روایات :: امام طحاوی (رح) کا اپنا جھکاؤ دوسرے قول کی طرف معلوم ہوتا ہے۔
امام طحاوی (رح) کا اعتراف :
امام ابوحنیفہ (رح) کی طرف بعض لوگوں نے منسوب کیا وہی ہم نے لکھ دیا مگر امام ابو یوسف کی روایات میں امام صاحب کی طرف اس کی نسبت نہیں پائی جاتی اور امام احمد کی روایت میں اسی طرح ہے۔ (واقعۃً تلاش بسیار پر بھی امام صاحب کا یہ قول کتب احناف میں میسر نہیں ہوا۔ احناف کا فتویٰ امام ابو یوسف (رح) کے قول پر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فریق دوم کے پاس نقلی دلیل موجود نہیں اور عقلی قرائن سے کام نہیں چلتا فریق اوّل کی نقل میں بہت سے عقلی قرائن ثبوت عید کو ظاہر کرتے ہیں ادھر نظری دلیل میں کمزوری ہے کہ جمعہ و عید میں فرق ہے جمعہ کا بدل ہے عید کا بدل نہیں فتدبر۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔