HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

2320

۲۳۲۰: وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ بْنُ قُعْنُبٍ‘ قَالَا : ثَنَا سُلَیْمَانُ ابْنُ بِلَالٍ‘ قَالَ : ثَنَا عَمْرُو بْنُ یَحْیَی الْمَازِنِیُّ‘ عَنْ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَۃَ الزُّرَقِیُّ‘ (أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِیْ سَلِمَۃَ یُقَالُ لَہٗ سَلِیْمٌ أَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَقَالَ : إِنَّا نَظَلُّ فِیْ أَعْمَالِنَا‘ فَنَأْتِی حِیْنَ نُمْسِیْ، فَنُصَلِّیْ فَیَأْتِی مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ‘ فَیُنَادَیْ بِالصَّلَاۃِ‘ فَنَأْتِیْہِ فَیُطَوِّلُ عَلَیْنَا .فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا مُعَاذُ لَا تَکُنْ فَتَّانًا‘ إِمَّا أَنْ تُصَلِّیَ مَعِیْ، وَإِمَّا أَنْ تُخَفِّفَ عَنْ قَوْمِکَ) .فَقَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ھٰذَا لِمُعَاذٍ‘ یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ - عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - کَانَ یَفْعَلُ أَحَدَ الْأَمْرَیْنِ‘ إِمَّا الصَّلَاۃَ مَعَہٗ، أَوْ بِقَوْمِہٖ، وَأَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ یَجْمَعُہَا‘ لِأَنَّہٗ قَالَ : (إِمَّا أَنْ تُصَلِّیَ مَعِیْ) أَیْ وَلَا تُصَلِّ بِقَوْمِکَ (وَإِمَّا أَنْ تُخَفِّفَ بِقَوْمِکَ) أَیْ وَلَا تُصَلِّ مَعِی .فَلَمَّا لَمْ یَکُنْ فِی الْآثَارِ الْأُوَلِ مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئٌ ‘ وَکَانَ فِیْ ھٰذَا الْأَثَرِ مَا ذَکَرْنَا‘ ثَبَتَ بِھٰذَا الْأَثَرِ أَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ لِمُعَاذٍ شَیْئٌ مُتَقَدِّمٌ‘ وَلَا عَلِمْنَا أَنَّہٗ کَانَ فِیْ ذٰلِکَ أَیْضًا مِنْہُ شَیْئٌ مُتَأَخِّرٌ‘ فَیَجِبُ بِہٖ الْحُجَّۃُ عَلَیْنَا .وَلَوْ کَانَ فِیْ ذٰلِکَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمْرٌ‘ کَمَا قَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی لَاحْتُمِلَ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ کَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ وَقْتٍ مَا کَانَتَ الْفَرِیْضَۃُ تُصَلّٰی مَرَّتَیْنِ‘ فَإِنَّ ذٰلِکَ قَدْ کَانَ یُفْعَلُ فِیْ أَوَّلِ الْاِسْلَامِ حَتّٰی نَہٰی عَنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ وَقَدْ ذَکَرْنَا ذٰلِکَ بِأَسَانِیْدِہِ فِیْ بَابِ صَلَاۃِ الْخَوْفِ .فَفِعْلُ مُعَاذٍ‘ الَّذِیْ ذَکَرْنَا‘ یُحْتَمَلُ أَنْ یَّکُوْنَ قَبْلَ النَّہْیِ عَنْ ذٰلِکَ‘ ثُمَّ کَانَ النَّہْیُ فَنَسَخَہٗ‘ وَیَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُوْنَ کَانَ بَعْدَ ذٰلِکَ .فَلَیْسَ لِأَحَدٍ أَنْ یَجْعَلَہُ فِیْ أَحَدِ الْوَقْتَیْنِ إِلَّا کَانَ لِمُخَالِفِہِ أَنْ یَجْعَلَہُ فِی الْوَقْتِ الْآخَرِ .فَھٰذَا حُکْمُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ. وَأَمَّا حُکْمُہٗ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا صَلَاۃَ الْمَأْمُوْمِیْنَ مُضَمَّنَۃً بِصَلَاۃِ إِمَامِہِمْ بِصِحَّتِہَا وَفَسَادِہَا یُوْجِبُ ذٰلِکَ النَّظَرُ الصَّحِیْحُ .مِنْ ذٰلِکَ أَنَّا رَأَیْنَا الْاِمَامَ اِذَا سَہَا وَجَبَ عَلٰی مَنْ خَلْفَہُ لِسَہْوِہِ‘ مَا وَجَبَ عَلَیْہٖ‘ وَلَوْ سَہَوْا ہُمْ‘ وَلَمْ یَسْہُ ہُوَ‘ لَمْ یَجِبْ عَلَیْہِمْ مَا یَجِبُ عَلَی الْاِمَامِ اِذَا سَہَا .فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ الْمَأْمُوْمِیْنَ یَجِبُ عَلَیْہِمْ حُکْمُ السَّہْوِ لِسَہْوِ الْاِمَامِ‘ وَیَنْتَفِیْ عَنْہُمْ حُکْمُ السَّہْوِ بِانْتِفَائِہِ عَنِ الْاِمَامِ‘ ثَبَتَ أَنَّ حُکْمَہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ‘ حُکْمُ الْاِمَامِ فِیْ صَلَاتِہٖ، وَکَأَنَّ صَلَاتَہُمْ مُضَمَّنَۃٌ بِصَلَاتِہٖ .وَلَمَّا کَانَتْ صَلَاتُہُمْ مُضَمَّنَۃً بِصَلَاتِہٖ، لَمْ یَجُزْ أَنْ یَّکُوْنَ صَلَاتُہُمْ خِلَافَ صَلَاتِہٖ .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ‘ أَنَّ الْمَأْمُوْمَ لَا یَجُوْزُ أَنْ تَکُوْنَ صَلَاتُہُ خِلَافَ صَلَاۃِ إِمَامِہٖ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَاہُمْ لَمْ یَخْتَلِفُوْا أَنَّ لِلرَّجُلِ أَنْ یُصَلِّیَ تَطَوُّعًا خَلْفَ مَنْ یُصَلِّیْ فَرِیْضَۃً‘ فَکَمَا کَانَ الْمُصَلِّیْ تَطَوُّعًا‘ یَجُوْزُ لَہٗ أَنْ یَأْتَمَّ بِمَنْ یُصَلِّیْ فَرِیْضَۃً‘ کَانَ کَذٰلِکَ‘ یَجُوْزُ لِلْمُصَلِّیْ فَرِیْضَۃً أَنْ یُصَلِّیَہَا خَلْفَ مَنْ یُصَلِّیْ تَطَوُّعًا .قِیْلَ لَہٗ : إِنَّ سَبَبَ التَّطَوُّعِ‘ ہُوَ بَعْضُ سَبَبِ الْفَرِیْضَۃِ‘ وَذٰلِکَ أَنَّ الَّذِیْ یَدْخُلُ فِی الصَّلَاۃِ‘ وَلَا یُرِیْدُ شَیْئًا غَیْرَ ذٰلِکَ‘ مِنْ نَافِلَۃٍ وَلَا فَرِیْضَۃٍ‘ یَکُوْنُ بِذٰلِکَ دَاخِلًا فِیْ نَافِلَۃٍ‘ وَإِذَا نَوَی الدُّخُوْلَ فِی الصَّلَاۃِ‘ وَنَوَی الْفَرِیْضَۃَ کَانَ بِذٰلِکَ دَاخِلًا فِی الْفَرِیْضَۃِ‘ فَصَارَ یَکُوْنُ ذٰلِکَ دَاخِلًا فِی الْفَرِیْضَۃِ‘ بِالسَّبَبِ الَّذِیْ دَخَلَ بِہٖ فِی النَّافِلَۃِ‘ وَبِسَبَبٍ آخَرَ‘ فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ‘ کَانَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ تَطَوُّعًا‘ وَہُوَ یَأْتَمُّ بِمُصَلٍّ فَرِیْضَۃً‘ ہُوَ فِیْ صَلَاۃٍ لَہٗ فِیْ کُلِّہَا إِمَامٌ‘ وَالَّذِیْ یُصَلِّیْ فَرِیْضَۃً‘ وَیَأْتَمُّ بِمِنْ یُصَلِّیْ تَطَوُّعًا ہُوَ فِیْ صَلَاۃِ لَہٗ فِیْ بَعْضِ سَبَبِہَا الَّذِیْ بِہٖ دَخَلَ فِیْہَا إِمَامٌ‘ وَلَیْسَ لَہٗ فِیْ بَقِیَّتِہِ إِمَامٌ‘ فَلَمْ یَجُزْ ذٰلِکَ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ صَلّٰی بِالنَّاسِ جُنُبًا‘ فَأَعَادَ وَلَمْ یُعِیْدُوْا‘ فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ صَلَاتَہُمْ لَمْ تَکُنْ مُضَمَّنَۃً بِصَلَاتِہٖ. فَقَالَ مُخَالِفُہُمْ : إِنَّمَا فَعَلَ ذٰلِکَ لِأَنَّہٗ لَمْ یَتَیَقَّنْ بِالْجَنَابَۃِ کَانَتْ مِنْہُ قَبْلَ الصَّلَاۃِ‘ فَأَخَذَ لِنَفْسِہٖ بِالْحَوْطَۃِ‘ فَأَعَادَ وَلَمْ یَأْمُرْ غَیْرَہٗ بِالْاِعَادَۃِ .وَذَکَرُوْا فِیْ ذٰلِکَ
٢٣٢٠: معاذ بن رفاعہ زرقی کہتے ہیں کہ بنی سلمہ کا ایک آدمی جس کو سلیم کہا جاتا تھا وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا ہم اپنے کام کاج میں دن گزارتے ہیں شام کے وقت ہم لوٹتے ہیں تو ہم نماز پڑھتے ہیں معاذ آ کر اذان دیتے پس ہم نماز کے لیے آتے ہیں تو وہ طویل قراءت کرتے ہیں تو اس پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے معاذ ! تم لوگوں کو فتنے میں مبتلا کرنے والے مت بنو یا تو تم میرے ساتھ نماز پڑھو۔ یا اپنی قوم پر قراءت میں تخفیف کرو۔ پس جناب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاذ (رض) کو یہ فرمانا اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دو باتوں میں سے ایک کو اختیار کریں یا تو میرے ساتھ نماز پڑھیں یا اپنی قوم کے ساتھ نماز پڑھیں اور ان دونوں کو جمع نہ کریں کیونکہ آپ نے فرمایا : ” اما ان تصلی معی “ یا تو میرے ساتھ نماز پڑھ یعنی اپنی قوم کے ساتھ نماز نہ پڑھ ” و اما ان تخفف بقومک “ یعنی میرے ساتھ نماز نہ پڑھ اور اپنی قوم کو ہلکی نماز پڑھاؤ۔ جب اس اثر اوّل میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد میں سے کوئی چیز نہیں ہے اور ہم نے جو روایت ذکر کی اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے معاذ (رض) کو کوئی بات پہلے نہیں کہی گئی تھی اور جہاں تک ہمارا علم ہے بعد میں بھی کوئی بات معاذ کو نہیں فرمائی کہ جس سے ہمارے خلاف کچھ ثبوت ملتا ہو۔ اگر اس میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے کوئی حکم ہوتا جیسا پہلے قول والوں کا دعویٰ ہے تو اس میں یہ احتمال لازم ہے کہ یہ اس زمانے کی بات ہو جب فرض کو دو مرتبہ پڑھنا درست تھا ابتداء اسلام میں ایسا تھا پھر آپ نے اس کی ممانعت کردی۔ جیسا کہ تفصیل کے ساتھ مستند روایات ہم ” باب صلوۃ الخوف “ میں ذکر کر آئے۔ پس حضرت معاذ (رض) کا یہ عمل جس کا شروع باب میں ہم نے تذکرہ کیا اس میں اس بات کا احتمال پیدا ہوگیا کہ یہ ممانعت سے پہلے کا معاملہ ہو۔ پھر نہی نے آ کر اسے منسوخ کردیا اور یہ احتمال بھی ہے کہ یہ اس کے بعد کا واقعہ ہو کسی فریق کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس کو ایک وقت میں مقرر کر کے اپنی دلیل بنائے۔ بلکہ ہر ایک دلیل بنانا برابر ہے۔ آثار کے پیش نظر تو اس باب کا حکم یہی ہے۔ مگر اس کا نظر و فکر کے لحاظ سے جو حکم بنتا ہے وہ پیش خدمت ہے۔ یہ بات تو ہمارے سامنے ہے کہ مقتدیوں کی نماز تو اپنے امام کی نماز سے صحت و فساد کے لحاظ سے ملی ہوئی ہے۔ یہ صحیح فکر کو اس طرح لازم کرتی ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب امام بھول جائے تو اس کا یہ بھولنا اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے پر اس چیز کو لازم کر دے گا جو خود امام پر لازم ہوئی۔ حالانکہ مقتدیوں کو خود بھول تو نہیں ہوئی اور مقتدی بھول جائے تو اس پر اور اس کے امام پر کچھ لازم نہیں۔ پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ امام کے بھول جانے سے مقتدیوں پر سہو کا حکم لگ جاتا ہے اور بھول کا حکم امام سے اٹھ جائے تو مقتدیوں پر بھی نہیں رہتا۔ اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ مقتدیوں کا حکم ان کی اپنی نماز میں ان کے امام کی نماز کا حکم ہے۔ گویا کہ مقتدیوں کی نماز کا وہ ضامن ہے۔ تو جب مقتدیوں کی نماز امام کی نماز سے ملی ہوئی ہے تو پھر یہ درست نہ رہا کہ مقتدیوں کی نماز امام کی نماز کے مخالف ہو۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مقتدی کی نماز امام کی نماز کے مخالف نہ ہونی چاہیے۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ ہم یہ بات اتفاقی طور پر پاتے ہیں کہ نفل نماز فرض پڑھنے والے کی اقتداء میں درست ہے۔ پس جس طرح نفل پڑھنے والے کے لیے جائز ہے کہ وہ فرض پڑھنے والے کی اقتداء کرے تو اسی طرح فرض پڑھنے والے کے لیے جائز ہے کہ وہ ان کو نوافل پڑھنے والے کی اقتداء میں ادا کرلے۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ نفل کا سبب فرض کے سبب کا بعض حصہ ہے اور وہ اس طرح کہ جو شخص نماز میں داخل ہو اور اس کی نیت نفل و فرض میں سے کسی کی نہ ہو تو اسے نفل پڑھنے والا شمار کیا جائے گا اور جب اس نے نماز میں داخل ہونے کی نیت کی اور فرض کی نیت کی تو اسے فرض میں داخل ہونے والا شمار کیا جائے گا۔ تو گویا جس سبب سے نفل سے میں داخل ہوا اس سبب سے بھی وہ فرض میں داخل ہونے والا ہوگا اور دوسرے سبب سے بھی۔ پس جب یہ بات اسی طرح ہی ہے تو وہ شخص جو نفل پڑھ رہا ہو اور وہ فرض ادا کرنے والے کا مقتدی بن جائے تو وہ گویا وہ ایسی نماز میں ہے جس کی تمام رکعات میں وہ مقتدی ہے اور وہ شخص جو فرض پڑھ رہا ہو اور وہ ایسے شخص کی اقتداء اختیار کرے جو نفل پڑھ رہا ہے تو وہ ایسی نماز میں مشغول ہے کہ جس کے بعض سبب کو اس کا امام پانے والا ہے اس میں تو یہ اس کی اقتداء کرنے والا ہے اور جو سبب اس میں موجود نہیں اس میں یہ اس کا مقتدی نہیں۔ پس یہ اقتداء جائز نہیں۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے لوگوں کو جنابت کی حالت میں نماز پڑھائی ‘ انھوں نے تو نماز کا اعادہ کیا مگر لوگوں نے اعادہ نہیں کیا۔ اس سے یہ دلالت میسر آگئی کہ امام کی نماز مقتدی کی نماز کی ضامن نہیں ہے۔ اس کا جواب قول اوّل والوں کو یہ دیا گیا کہ ان کو جنابت پر یقین نہ تھا کہ وہ نماز سے قبل پیش آئی یا نماز کے بعد۔ تو انھوں نے اپنی ذات کے لیے احتیاطی پہلو کو اختیار کیا اور نماز کا اعادہ کرلیا اور لوگوں کو عدم تیقن کی وجہ سے اعادہ کا حکم نہ فرمایا۔ آثار ذیل ملاحظہ ہوں۔
: المعجم الکبیر ٧؍٦٧۔
حاصل کلام :
نمبر 1: پس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں دو میں سے ایک کام کرتے تھے۔
نمبر آپ کے ساتھ نماز یا قوم کے ساتھ نماز۔ وہ ان کو جمع نہ کرتے تھے کیونکہ آپ نے فرمایا : اما ان تصلی معی یعنی اپنی قوم کو مت نماز پڑھاؤ صرف میرے ساتھ پڑھو۔ واما تخفف بقومک یعنی میرے ساتھ نماز نہ پڑھو صرف ان کو نماز پڑھاؤ۔ پس جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں کوئی بات ایسی ثابت نہیں جس سے ہم پر حجت لازم ہو۔
بالفرض اگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلہ میں کوئی روایت مل جائے تو اس کا تعلق اس زمانے سے ہوگا جب ایک فرض کو دو مرتبہ ادا کیا جاسکتا تھا ابتداء اسلام میں یہ درست تھا پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع کردیا اور باب صلوۃ الخوف میں وہ روایات مذکور ہوئیں پس اس کے مطابق معاذ (رض) کا یہ فعل نسخ سے پہلے کا ہوگا۔
پھر نہی نے منسوخ کردیا اور بعد کا بھی احتمال ہے اس کو کسی ایک وقت سے متعلق کرنے کا اختیار کسی کو نہیں جب ایک فریق ایک وقت مقرر کرے گا تو دوسرے فریق کو دوسرا متعین کرنے کا حق ہے۔
آثار کے پیش نظر تو اس باب کا یہ حکم ہے۔
نظر طحاوی (رح) :
غور سے دیکھا کہ مقتدیوں کی نماز کے درست و فاسد ہونے کا مدار امام کی نماز پر ہے چنانچہ ہم نے دیکھا کہ جب امام بھول جائے تو مقتدیوں پر سجدہ سہو لازم ہے جو امام پر لازم ہوا اور اگر مقتدی بھول جائیں اور امام کو بھول نہ ہوئی تو امام پر کچھ بھی لازم نہیں اور نہ مقتدیوں پر۔
پس جب یہ ثابت ہوگیا کہ مقتدیوں کے سہو کا مدار امام کے سہو پر ہے اور امام پر سہو نہ ہو تو مقتدیوں پر سہو نہیں اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ان کی نماز کا وہی حکم ہے جو ان کے امام کی نماز کا حکم ہے گویا ان کی نماز امام کی نماز میں متضمن ہے جب امام کی نماز ان کی نماز کو متضمن ہے تو پھر یہ درست نہ ہوا کہ ان کی نماز امام کی نماز کے خلاف ہو پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مقتدی کے لیے یہ جائز نہیں کہ اس کی نماز اپنے امام کی نماز کے خلاف ہو۔
ایک سرسری اشکال : اس میں تو کسی کا اختلاف نہیں کہ متنفل تو مفترض کے پیچھے اقتداء کرسکتا ہے تو اسی طرح متنفل کے پیچھے بھی مفترض کی اقتداء درست ہونی چاہیے۔
جواب : نوافل کا سبب فرائض کے سبب کا بعض حصہ ہے وہ اس طرح کہ جو شخص مطلقاً نماز کی نیت کرے فرض و نفل کی خاص نیت نہ ہو تو وہ نفل پڑھنے والا شمار ہوتا ہے جب فرض نماز میں داخل ہوا تو تب داخل سمجھا جائے گا پس وہ اس سبب اور دیگر سبب سے فرض میں داخل ہونے والا شمار ہوگا جب یہ بات مسلم ہے تو نفل پڑھنے والا جب فرض پڑھنے والے کی اقتداء کرے گا تو وہ مفترض مکمل نماز میں اس کا امام ہوگا اور جو متنفل مفترض کی اقتداء کرے تو وہ بعض نماز میں تو اپنے امام کا مقتدی ہے اور وہ صرف وہی سبب ہے جس سے وہ نماز میں داخل ہوا اور بقیہ میں امام نہ بنے گا تو اس کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔
ایک اور اشکال :
ہم نے روایات میں یہ بات پائی کہ حضرت عمر (رض) سے لوگوں کو جنابت کی حالت میں نماز پڑھا دی تھی معلوم ہونے پر انھوں نے نماز کا اعادہ کیا مگر لوگوں نے اعادہ نہیں کیا اس سے ثابت ہوا کہ عمر (رض) کی نماز ان کی نماز کو متضمن نہ تھی۔
جواب : آپ نے احتیاطاً نماز کو دھرایا تھا ان کو یقین نہ تھا کہ یہ جنابت نماز سے پہلے واقع ہوئی یا بعد میں اسی وجہ سے دوسروں کو اعادہ کرنے کا حکم نہیں فرمایا روایت آگے ملاحظہ ہو۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔