HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

2465

۲۴۶۵: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ بْنُ الرَّبِیْعِ‘ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ‘ قَالَ : ثَنَا إِسْمَاعِیْلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِی التَّحَرِّیْ فِی الشَّکِّ فِی الصَّلَاۃِ بِمِثْلِ مَا فِیْ حَدِیْثِ ابْنِ وَہْبٍ‘ عَنْ مَالِکٍ‘ عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ وَعَنِ ابْنِ وَہْبٍ‘ عَنْ عُمَرَ نَفْسِہٖ۔ وَأَمَّا وَجْہُ ذٰلِکَ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا رَأَیْنَا الْأَصْلَ الْمُتَّفَقَ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ‘ أَنَّ ھٰذَا الرَّجُلَ قَبْلَ دُخُوْلِہٖ فِی الصَّلَاۃِ‘ قَدْ کَانَ عَلَیْہِ أَنْ یَّأْتِیَ بِأَرْبَعِ رَکَعَاتٍ‘ فَلَمَّا شَکَّ فِیْ أَنْ یَّکُوْنَ جَائَ بِبَعْضِہَا‘ وَجَبَ النَّظَرُ فِیْ ذٰلِکَ‘ لِیُعْلَمَ کَیْفَ کَانَ حُکْمُہٗ .فَرَأَیْنَاہُ لَوْ شَکَّ فِیْ أَنْ یَّکُوْنَ قَدْ صَلَّی‘ لَکَانَ عَلَیْہِ أَنْ یُصَلِّیْ حَتّٰی یَعْلَمَ یَقِیْنًا أَنَّہٗ قَدْ صَلَّی‘ وَلَا یَعْمَلُ فِیْ ذٰلِکَ بِالتَّحَرِّیْ .فَکَانَ النَّظَرُ عَلٰی ھٰذَا أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ ہُوَ فِیْ کُلِّ شَیْئٍ مِنْ صَلَاتِہِ کَانَ ذٰلِکَ عَلَیْہِ فَرْضًا‘ وَعَلَیْہِ أَنْ یَّأْتِیَ بِہٖ حَتّٰی یَعْلَمَ یَقِیْنًا أَنَّہٗ قَدْ جَائَ بِہٖ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : إِنَّ الْفَرْضَ عَلَیْہِ غَیْرُ وَاجِبٍ‘ حَتّٰی یَعْلَمَ یَقِیْنًا أَنَّہٗ وَاجِبٌ عَلَیْہِ .قِیْلَ لَہٗ: لَیْسَ ھٰکَذَا وَجَدْنَا الْعِبَادَاتِ کُلَّہَا‘ لِأَنَّا قَدْ تَعَبَّدْنَا أَنَّہٗ اِذَا أُغْمِیَ عَلَیْنَا فِیْ یَوْمِ ثَلاَثِیْنَ مِنْ شَعْبَانَ‘ فَاحْتَمَلَ أَنْ یَّکُوْنَ مِنْ رَمَضَانَ‘ فَیَجِبُ عَلَیْنَا صَوْمُہٗ، وَاحْتَمَلَ أَنْ یَّکُوْنَ مِنْ شَعْبَانَ‘ فَلاَ یَکُوْنُ عَلَیْنَا صَوْمُہٗ، أَنَّہٗ لَیْسَ عَلَیْنَا صَوْمُہٗ، حَتّٰی نَعْلَمَ یَقِیْنًا أَنَّہٗ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ فَنَصُوْمُہُ .وَکَذٰلِکَ رَأَیْنَا آخِرَ شَہْرِ رَمَضَانَ اِذَا أُغْمِیَ عَلَیْنَا فِیْ یَوْمِ الثَّلَاثِیْنَ‘ فَاحْتَمَلَ أَنْ یَّکُوْنَ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ‘ فَیَکُوْنَ عَلَیْنَا صَوْمُہُ .وَاحْتَمَلَ أَنْ یَّکُوْنَ مِنْ شَوَّالٍ فَلاَ یَکُوْنُ عَلَیْنَا صَوْمُہٗ، أُمِرْنَا بِأَنْ نَصُوْمَہٗ، حَتّٰی نَعْلَمَ یَقِیْنًا أَنَّہٗ لَیْسَ عَلَیْنَا صَوْمُہُ .فَکَانَ مَنْ دَخَلَ فِیْ شَیْئٍ بِیَقِیْنٍ لَمْ یَخْرُجْ مِنْہُ إِلَّا بِیَقِیْنٍ .فَالنَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ مَنْ دَخَلَ فِیْ صَلَاۃٍ بِیَقِیْنٍ‘ أَنَّہَا عَلَیْہِ لَمْ یَحِلَّ لَہٗ الْخُرُوْجُ مِنْہَا إِلَّا بِیَقِیْنٍ أَنَّہٗ قَدْ حَلَّ لَہٗ الْخُرُوْجُ مِنْہَا .وَقَدْ جَائَ مَا اسْتَشْہَدْنَا بِہٖ مِنْ حُکْمِ الْاِغْمَائِ فِیْ شَعْبَانَ‘ وَشَہْرِ رَمَضَانَ‘ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُتَوَاتِرًا کَمَا ذَکَرْنَاہُ .فَمِمَّا رُوِیَ عَنْہُ فِیْ ذٰلِکَ ۔
٢٤٦٥: نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے اس آدمی کے متعلق پوچھا جس کو نماز میں شک ہو کہ آیا وہ تحری کرے انھوں نے سابقہ روایت ٢٤٦٢ میں مذکور جواب دیا۔ غور و فکر کے انداز سے اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ ہمارے پاس متفقہ اصول موجود ہے کہ نماز کی ابتداء سے پہلے اس پر چار رکعات لازم تھیں۔ اب داخلہ کے بعد اس کو شک ہوا تو اس کا حکم جاننے کی غرض سے غور و فکر لازم ہوگیا۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ اگر اسے نماز کی ادائیگی اور عدم ادائیگی میں شبہ ہوتا تو اس کے لیے پڑھنا ضروری تھا۔ تاکہ یقین سے ادائیگی ثابت ہوجائے۔ فقط تحری کام نہ دے گی۔ پس اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ تمام فرائض نماز میں فکر یہی فیصلہ کرتی ہے تاکہ ادائیگی یقین سے ثابت ہوجائے۔ اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ فرض اس کے ذمہ اس وقت تک لازم نہیں ہوتا جب تک اس کے فرض ہونے کا یقین نہ ہو۔ تو اس کے جواب میں عرض کریں گے کہ تمام عبادات اس طرح نہیں پائی جاتیں کیونکہ ہم اس طرح پاتے ہیں کہ اگر تیس شعبان والی رات چاند نظر نہ آیا تو اس میں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ یہ رمضان المبارک کا دن ہو تو اس لحاظ سے اس کا روزہ فرض ہوگا اور یہ احتمال ہے کہ یہ شعبان کا آخری دن ہو۔ اس اعتبار سے اس کا روزہ لازم نہ ہوگا۔ تو اس سے یہ واضح ہوا کہ رمضان المبارک کا مہینہ ہونے کا کامل یقین نہ ہو تو ہم پر روزہ رکھنا فرض نہ ہوگا۔ بالکل اسی طرح رمضان المبارک کی تیسویں شب چاند نظر نہ آیا تو اس احتمال کی وجہ سے کہ رمضان المبارک کا تیسواں روزہ ہے روزہ رکھنا فرض ہے اور دوسری طرف اس کے یکم شوال ہونے کا احتمال ہے جس کی وجہ سے اس دن کا روزہ ہم پر لازم نہیں۔ مگر اس احتمال کے باوجود روزے کا حکم دیا گیا اور اس کا رکھنا اس وقت تک فرض ہے ‘ جب تک یقین سے اس کی عدم فرضیت کا علم نہ ہوجائے۔ پس جو شخص کسی چیز میں یقین سے داخل ہو تو اس سے یقین ہی کے ساتھ نکلنا ممکن ہے۔ پس اس پر قیاس اس بات کو چاہتا ہے کہ جو آدمی اپنی نماز میں اس یقین سے داخل ہوا کہ وہ اس پر لازم ہے ‘ تو اس کو اس سے اس یقین کے بغیر نکلنا حلال نہیں کہ اب اس کے لیے نکلنا جائز ہوچکا اور ہم نے شعبان کے آخر میں اور رمضان کے اواخر میں چاند نہ نکلنے کے سلسلہ سے جو استدلال کیا ہے اس کے متعلق جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کثیر روایات وارد ہوئی ہیں۔ روایات درج ذیل ہیں۔
نظر طحاوی (رح) بدلیل فریق ثانی :
اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ نماز میں داخلے سے پہلے نمازی پر چار رکعت لازم تھیں اور نماز میں داخل ہونے کے بعد بھی چار لازم رہیں اور نماز کے دوران شک پیدا ہوا تو نظر و فکر کے لحاظ سے اس کا حکم معلوم کرنے کی حاجت پڑی پس ہم نے ایک جز پر غور کیا کہ اگر نماز پڑھنے اور نہ پڑھنے میں شک پیدا ہوجائے تو حکم یہ ہے کہ وہ نماز کو دوبارہ پڑھے تاکہ یقیناً ادائیگی ہوجائے اس صورت میں تحری سے کام لینا جائز نہیں تو غور سے جب نماز کے ہر جز پر یہ حکم جاری ہو تو اس پر یقین کی صورت اقل پر عمل ہوسکتا ہے نہ کہ تحری۔
اشکال :
نفس نماز کی فرضیت کا علم ہونا یقینی علم کی حد تک ہر نمازی پر واجب نہیں ہے تو جز نماز کے بارے میں بھی یہی حکم باقی رہنا چاہیے اور تحری کی گنجائش ہونی چاہیے۔
جواب : عبادات کی فرضیت کا علم تمام عبادات میں لازم نہیں بلکہ امر تعبدی کے طور پر لازم ہے البتہ بعض عبادات میں علم الیقین کے لازم ہونے کا انکار نہیں کیا جاسکتا مثلاً رویت ہلال میں علم الیقین کا حاصل ہونا ضروری ہے۔ اگر ٢٩ شعبان کو بادل کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے تو تیس کی گنتی پوری کرنی ضروری اور روزہ رکھنا لازم نہیں ہے۔ اسی طرح اگر ٢٩ رمضان کو بادل وغیرہ کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے تو روزوں کی گنتی تیس پوری کرنی لازم ہے افطار ہرگز درست نہیں بلکہ اقل کو مدار بنا کر ایک روزہ ملا کر تیس پورے کئے جائیں گے بالکل اسی طرح جب تعداد رکعات میں اگر تین یا چار میں شک ہو تو اقل پر عمل ہوگا۔ اگرچہ یہ احتمال ہے کہ وہ شوال کا دن ہو جس کا روزہ ہمارے ذمہ لازم نہیں ہے مگر ہم کو اس کا روزہ رکھنے کا حکم ہے تاکہ یہ یقین ہوجائے کہ ہمارے ذمہ اس کا روز نہیں پس جو شخص یقین کے ساتھ کسی چیز میں داخل ہوا وہ اس سے یقین کے ساتھ نکلے گا۔
پس تقاضا نظریہ ہے کہ جو نماز میں یقین سے داخل ہوا اس کو نماز سے یقین سے خروج درست ہے کہ اب وہ نکلنے کے لائق ہوگیا ہے۔ تائید نظر کی روایات۔
اور رمضان کے چاند کے سلسلہ میں جو مثال پیش کی ہے وہ متواتر روایات میں وارد ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔