HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

2556

۲۵۵۶: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ قَالَ : ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی اللَّیْثُ‘ قَالَ : حَدَّثَنِی ابْنُ عَجْلَانَ‘ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ‘ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ‘ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ ڑ الْخُدْرِیِّ‘ (أَنَّ رَجُلًا سَلَّمَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ عَلَیْہِ بِإِشَارَۃٍ وَقَالَ کُنَّا نَرُدُّ السَّلَامَ فِی الصَّلَاۃِ‘ فَنُہِیْنَا عَنْ ذٰلِکَ) .قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ : فَفِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ مَا قَدْ دَلَّ أَنَّ الْاِشَارَۃَ لَا تَقْطَعُ الصَّلَاۃَ‘ وَقَدْ جَائَ تْ مَجِیْئًا مُتَوَاتِرًا‘ غَیْرَ مَجِیْئِ الْحَدِیْثِ الَّذِیْ خَالَفَہَا‘ فَہِیَ أَوْلٰی مِنْہُ .وَلَیْسَتَ الْاِشَارَۃُ فِی النَّظَرِ مِنَ الْکَلَامِ فِیْ شَیْئٍ لِأَنَّ الْاِشَارَۃَ‘ إِنَّمَا ہِیَ حَرَکَۃُ عُضْوٍ‘ وَقَدْ رَأَیْنَا حَرَکَۃَ سَائِرِ الْأَعْضَائِ غَیْرَ الْیَدِ فِی الصَّلَاۃِ‘ لَا تَقْطَعُ الصَّلَاۃَ‘ فَکَذٰلِکَ حَرَکَۃُ الْیَدِ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَإِذَا کَانَتَ الْاِشَارَۃُ فِی الصَّلَاۃِ عِنْدَکُمْ‘ قَدْ ثَبَتَ أَنَّہَا بِخِلَافِ الْکَلَامِ وَأَنَّہَا لَا تَقْطَعُ الصَّلَاۃَ کَمَا یَقْطَعُہَا الْکَلَامُ‘ وَاحْتَجَجْتُمْ فِیْ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ الَّتِیْ رَوَیْتُمُوْہَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ فَلِمَ کَرِہْتُمْ رَدَّ السَّلَامِ مِنَ الْمُصَلِّیْ بِالْاِشَارَۃِ‘ وَقَدْ فَعَلَ ذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا رَوَیْتُمُوْہُ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ؟ وَلَئِنْ کَانَ ذٰلِکَ حُجَّۃً لَکُمْ فِیْ أَنَّ الْاِشَارَۃَ لَا تَقْطَعُ الصَّلَاۃَ‘ فَإِنَّہٗ حُجَّۃٌ عَلَیْکُمْ فِیْ أَنَّ الْاِشَارَۃَ لَا بَأْسَ بِہَا فِی الصَّلَاۃِ .قِیْلَ لَہٗ : أَمَّا مَا احْتَجَجْنَا بِھٰذِہِ الْآثَارِ مِنْ أَجْلِہٖ، وَہُوَ أَنَّ الْاِشَارَۃَ لَا تَقْطَعُ الصَّلَاۃَ‘ فَقَدْ ثَبَتَ ذٰلِکَ بِھٰذِہِ الْآثَارِ عَلٰی مَا احْتَجَجْنَا بِہٖ مِنْہَا .وَأَمَّا مَا ذَکَرْتُ مِنْ اِبَاحَۃِ الْاِشَارَۃِ فِی الصَّلَاۃِ فِیْ رَدِّ السَّلَامِ؟ فَلَیْسَ فِیْہَا دَلِیْلٌ عَلٰی ذٰلِکَ .وَذٰلِکَ أَنَّ الَّذِیْ فِیْہَا ہُوَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَشَارَ إِلَیْہِمْ .فَلَوْ قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّ تِلْکَ إِشَارَۃٌ أَرَدْتُ بِہَا رَدَّ السَّلَامِ عَلٰی مَنْ سَلَّمَ عَلَیَّ‘ ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ کَذٰلِکَ حُکْمَ الْمُصَلِّیْ اِذَا سُلِّمَ عَلَیْہِ فِی الصَّلَاۃِ .وَلٰـکِنَّہٗ لَمْ یَقُلْ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا‘ فَاحْتَمَلَ أَنْ تَکُوْنَ تِلْکَ الْاِشَارَۃُ کَانَتْ رَدًّا مِنْہُ لِلسَّلَامِ کَمَا ذَکَرْتُمْ .وَاحْتَمَلَ أَنْ یَّکُوْنَ کَانَتْ مِنْہُ لَہْیًا لَہُمْ عَنِ السَّلَامِ عَلَیْہٖ‘ وَہُوَ یُصَلِّیْ‘ فَلَمَّا لَمْ یَکُنْ فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ مِنْ ھٰذَا شَیْئٌ ‘ وَاحْتَمَلَتْ مِنَ التَّأْوِیْلِ مَا ذَہَبَ إِلَیْہِ کُلُّ وَاحِدٍ مِنَ الْفَرِیْقَیْنِ‘ لَمْ یَکُنْ مَا تَأَوَّلَ أَحَدُ الْفَرِیْقَیْنِ أَوْلٰی مِنْہَا‘ مِمَّا تَأَوَّلَ الْآخَرُ إِلَّا بِحُجَّۃٍ یُقِیْمُہَا عَلٰی مُخَالِفِہِ‘ إِمَّا مِنْ کِتَابٍ‘ وَإِمَّا مِنْ سُنَّۃٍ‘ وَإِمَّا مِنْ إِجْمَاعٍ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَمَا دَلِیْلُکُمْ عَلٰی کَرَاہَۃِ ذٰلِکَ؟ قِیْلَ لَہٗ ۔
٢٥٥٦: عطاء بن یسار نے ابو سعید (رض) سے نقل کیا ہے کہ ایک آدمی نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اشارہ سے جواب دیا ہم نماز میں سلام کا جواب دے لیتے تھے پھر ہمیں اس سے روک دیا گیا۔ امام طحاوی (رح) کہتے ہیں یہ آثار اس بات پر دلالت کر رہے ہیں کہ اشارے سے نماز نہیں ٹوٹتی اور کثیر روایات اس سلسلہ میں آئی ہیں صرف ایک ہی روایت نہیں جیسا کہ روایت بالا ہے جو ان کے خلاف ہے۔ اشارہ عضو کی ایک حرکت ہے۔ یہ کلام نہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ دیگر اعضاء جو ہاتھ کے علاوہ ہیں وہ جب حرکت کی وجہ سے نماز کو نہیں توڑتے تو ہاتھ کی حرکت کا بھی یہی حکم ہے۔ اگر کوئی شخص معترض ہو کہ تمہارے نزدیک جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اشارہ کلام سے الگ چیز ہے اور کلام کی طرح یہ نماز کے لیے قاطع نہیں ہے اور تم نے ان آثار کو دلیل میں پیش کیا۔ تو جناب اشارہ سے نمازی کو سلام کا جواب دینے کو تم مکروہ قرار دیتے ہو ‘ حالانکہ یہ ان آثار میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے جن کو آپ نے اپنی دلیل میں پیش کیا ہے کہ اشارہ نماز کے لیے قاطع نہیں ہے۔ تو یہی روایات تمہارے خلاف شاہد ہیں کہ نماز میں اشارہ کرنے میں کچھ قباحت نہیں۔ ان کے جواب میں کہا جائے گا۔ کہ ہم نے مندرجہ بالا روایات سے یہ استدلال کیا ہے کہ اشارہ نماز کو نہیں توڑتا اور یہ بات ان روایات سے ثابت ہے جس طرح ہم نے استدلال کیا ہے۔ رہی وہ بات جو تم نے نکالی ہے کہ سلام کا جواب دینے کے لیے اشارہ ہاتھ سے جائز ہے۔ تو اس روایت میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں۔ وہ اس طرح کہ اس روایت میں تو اس طرح ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف اشارہ فرمایا۔ پس اگر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں یہ فرماتے کہ میں نے اس میں اشارہ اس لیے کیا ہے تاکہ اس آدمی کے سلام کا جواب دوں جس نے مجھے سلام کیا ہے ‘ تو اس سے ثابت ہوجائے گا کہ نمازی کو جب نماز میں سلام دیا جائے تو اس کا حکم یہ ہے۔ مگر آپ نے اس سلسلہ میں تو کوئی بات نہیں فرمائی۔ پس اس میں یہ احتمال ہے کہ یہ اشارہ آپ کی طرف سے سلام کا جواب ہو جیسا کہ تم نے کہا اور دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ نماز کے دوران سلام کی ممانعت ہو۔ جب ان روایات میں ان میں سے کوئی بات ثابت نہیں ‘ ہر جماعت کے قول کے مطابق تاویل کا احتمال موجود ہے تو کسی ایک فریق کی تاویل کو قرآن و سنت و اجماع کی دلیل کے بغیر بہتر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اس کی کراہیت کا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے۔ تو جواب میں یہ روایت پیش کردیں گے۔
تخریج : عزاہ العینی الی البزاز۔
حاصل روایات : اس سے معلوم ہوگیا کہ اشارہ قاطع صلوۃ نہیں ہے اور بہت سی روایات میں وارد ہے کہ اشارہ کلام کی جگہ نہیں یہ ایک عضو کی حرکت ہے نماز میں ہاتھ کے علاوہ اعضاء کی حرکات پائی جاتی ہیں اور ان سے نماز منقطع نہیں ہوتی اسی طرح ہاتھ کی حرکت سے بھی نماز منقطع نہیں ہوتی۔
ایک سوال :
جب ان روایات سے اشارہ کلام کے حکم میں نہیں اور اس سے نماز منقطع نہیں ہوتی جیسا کہ روایات مذکورہ سے آپ نے استدلال کیا جب آپ نے اشارہ کیا تو تم اسے جائز کہنے کی بجائے مکروہ کیوں کر قرار دیتے ہو اگر یہ عدم قطع صلوۃ میں حجۃ ہیں تو پھر اشارہ میں کوئی حرج نہ ہونا چاہیے اور تم اس کو مکروہ کہتے ہو۔
جواب : ہم نے جو آثار پیش کئے ان میں یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ اشارہ قاطع صلوۃ نہیں اور ہم نے ان آثار سے اتنی ہی دلیل چاہی ہے باقی نماز میں رد سلام کے اشارے کو ان سے مباح ثابت کیا جائے تو اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے اس میں صرف اتنی بات ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف اشارہ کیا۔
اگر آپ فرماتے کہ میرا مقصد اس اشارے سے سلام کا جواب ہے تو پھر اشارے کا مباح ہونا ثابت ہوسکتا تھا کہ ہر نمازی کو جب سلام کیا جائے تو اس کا یہی حکم ہے مگر آپ نے یہ نہیں فرمایا تو اس میں یہ احتمال پیدا ہوگیا کہ اس اشارے سے مقصود سلام کا جواب مقصود ہو جیسا تم کہتے ہو۔
دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ سلام نہ کرنے کا اشارہ ہو کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں مجھے سلام مت کرو اب ہر دو احتمالوں میں سے ایک کو متعین کرنے کے لیے کتاب و سنت یا اجماع سے دلیل چاہیے اور بعض روایات سے رد سلام کی نفی ثابت ہوتی ہے اس لیے ممانعت کا نچلا درجہ کراہت کو قرار دینا ضروری ٹھہرا۔
(رح) : کراہت کی دلیل پیش کرو۔
جواب : یہ دلیل کراہت کو ثابت کرتی ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔