HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

26

۲۶: وَکَمَا حَدَّثَنَا رَبِیْعُ الْمُؤَذِّنُ قَالَ : ثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ قَالَ : ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، فَذَکَرَ بِإِسْنَادِہٖ مِثْلَہُ ، غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَرْفَعْہُ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَأَوْقَفَہُ عَلَی ابْنِ عُمَرَ .فَقَالَ : ہَؤُلَائِ الْقَوْمُ اِذَا بَلَغَ الْمَائُ ھٰذَا الْمِقْدَارَ ، لَمْ یَضُرَّہٗ مَا وَقَعَتْ فِیْہِ مِنَ النَّجَاسَۃِ ، إِلَّا مَا غَلَبَ عَلٰی رِیْحِہِ أَوْ طَعْمِہٖ أَوْ لَوْنِہٖ. وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِحَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ ھٰذَا ، فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الَّتِیْ صَحَّحْنَاہَا أَنَّ ہَاتَیْنِ الْقُلَّتَیْنِ لَمْ یُبَیِّنْ لَنَا فِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ مَا مِقْدَارُہُمَا .فَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَکُوْنَ مِقْدَارُہُمَا ، قُلَّتَیْنِ مِنْ قِلَالِ ہَجَرَ ، کَمَا ذَکَرْتُمْ ، وَیُحْتَمَلُ أَنْ تَکُوْنَا قُلَّتَیْنِ ، أُرِیْدَ بِہَا قُلَّتَا الرَّجُلِ ، وَہِیَ قَامَتْہٗ، فَأُرِیْدَ اِذَا کَانَ الْمَائُ قُلَّتَیْنِ أَیْ قَامَتَیْنِ لَمْ یَحْمِلْ نَجَسًا لِکَثْرَتِہٖ وَلِأَنَّہٗ یَکُوْنُ بِذٰلِکَ فِیْ مَعْنَی الْأَنْہَارِ .فَإِنْ قُلْتُمْ : إِنَّ الْخَبَرَ عِنْدَنَا عَلٰی ظَاہِرِہِ ، وَالْقِلَالُ ہِیَ قِلَالُ الْحِجَازِ الْمَعْرُوْفَۃِ .قِیْلَ لَکُمْ : فَإِنْ کَانَ الْخَبَرُ عَلٰی ظَاہِرِہٖ کَمَا ذَکَرْتُمْ ، فَإِنَّہٗ یَنْبَغِیْ أَنْ یَکُوْنَ الْمَائُ اِذَا بَلَغَ ذٰلِکَ الْمِقْدَارَ لَا یَضُرُّہُ النَّجَاسَۃُ ، وَإِنْ غَیَّرَتْ لَوْنَہٗ أَوْ طَعْمَہُ أَوْ رِیْحَہٗ، لِأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَذْکُرْ ذٰلِکَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ ، فَالْحَدِیْثُ عَلٰی ظَاہِرِہٖ فَإِنْ قُلْتُمْ ، فَإِنَّہٗ وَإِنْ لَمْ یَذْکُرْ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ ، فَقَدْ ذَکَرَہُ فِیْ غَیْرِہِ ، فَذَکَرْتُمْ مَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ قَالَ : ثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ ثَنَا عِیْسَی بْنُ یُوْنُسَ عَنِ الْأَحْوَصِ بْنِ حَکِیْمٍ ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ( الْمَائُ لَا یُنَجِّسُہُ شَیْئٌ ، إِلَّا مَا غَلَبَ عَلٰی لَوْنِہِ أَوْ طَعْمِہِ أَوْ رِیْحِہِ).قِیْلَ لَکُمْ : ھٰذَا مُنْقَطِعٌ ، وَأَنْتُمْ لَا تُثْبِتُوْنَ الْمُنْقَطِعَ وَلَا تَحْتَجُّوْنَ بِہٖ فَإِنْ کُنْتُمْ قَدْ جَعَلْتُمْ قَوْلَہُ فِی الْقُلَّتَیْنِ عََلٰی خَاصٍّ مِنَ الْقُلَالِ جَازَ لِغَیْرِکُمْ أَنْ یَجْعَلَ الْمَائَ عََلٰی خَاصٍّ مِنَ الْمِیَاہِ ، فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ عِنْدَہُ عَلٰی مَا یُوَافِقُ مَعَانِیَ الْآثَارِ الْأَوَّلِ وَلَا یُخَالِفُہَا .فَإِذَا کَانَتَ الْآثَارُ الْأُوَلِ الَّتِیْ قَدْ جَائَ تْ فِی الْبَوْلِ فِی الْمَائِ الرَّاکِدِ وَفِیْ نَجَاسَۃِ الْمَائِ الَّذِیْ فِی الْاِنَائِ مِنْ وُلُوْغِ الْہِرِّ فِیْہِ عَامًّا ، لَمْ یُذْکَرْ مِقْدَارُہٗ، وَجَعَلَ عَلٰی کُلِّ مَائٍ لَا یَجْرِیْ ثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّ مَا فِیْ حَدِیْثِ الْقُلَّتَیْنِ ہُوَ عَلَی الْمَائِ الَّذِیْ یَجْرِی وَلَا یُنْظَرُ فِیْ ذٰلِکَ إِلَی مِقْدَارِ الْمَائِ کَمَا لَمْ یُنْظَرْ فِیْ شَیْئٍ مِمَّا ذَکَرْنَا إِلٰی مِقْدَارِہٖ، حَتّٰی لَا یَتَضَادَّ شَیْئٌ مِنَ الْآثَارِ الْمَرْوِیَّۃِ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ .وَھٰذَا الْمَعْنَی الَّذِیْ صَحَّحْنَا عَلَیْہِ مَعَانِی ھٰذِہِ الْآثَارِ ، ہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ، وَمُحَمَّدٍ .وَقَدْ رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ عَمَّنْ تَقَدَّمَہُمْ مَا یُوَافِقُ مَذْہَبَہُمْ .فَمِمَّا رُوِیَ فِیْ ذٰلِکَ مَا۔
٢٦ : حماد بن سلمہ نے پہلی روایت جیسی سند سے نقل کیا ہے مگر اس روایت کو ابن عمر سے موقوف نقل کیا ہے مرفوع نہیں کیا۔ علماء کی اس جماعت نے یہ فرمایا جب پانی اتنی مقدار کو پہنچ جائے تو اس میں جتنی بھی نجاست پڑجائے اسے نقصان نہیں دے گی سوائے اس کے جب نجاست کی بو ‘ ذائقہ یا رنگ پانی پر غالب آجائے اور انھوں نے اس سلسلے میں ابن عمر (رض) کی اسی روایت کو دلیل بنایا ہے ان کے خلاف پہلے قول والے علماء کی دلیل یہ ہے جس کو ہم نے صحیح قرار دیا کہ ان آثار میں ان دو قلوں کی مقدار ہمارے سامنے صحیح واضح نہیں ہوتی جیسا کہ تم نے بیان کیا دوسری طرف اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد آدمی کا قد ہو تو اس صورت میں یہ مراد لیا جائے گا کہ پانی کی مقدار آدمی کے دو قد کے برار ہو تو وہ نجاست کو کثرت کی وجہ سے نہیں اٹھاتا اور اس لیے بھی کہ وہ نہر کے معنی میں ہوجائے گا اگر تم یوں کہتے ہو کہ یہ روایات ہمارے نزدیک ظاہر پر ہیں اور اس سے مرا د حجاز کے معروف مٹکے ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا اگر تمہارے کہنے کے مطابق روایات اپنے ظاہر پر ہے تو پھر مناسب یہ ہوگا کہ جب پانی اس مقدار کو پہنچ جائے تو اس کو نجاست نقصان نہ دے اگرچہ اس کا رنگ ‘ ذائقہ اور بو بدل جائے کیونکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حدیث میں ان چیزوں کا ذکر نہیں فرمایا تو حدیث اپنے ظاہر پر ہوگی پس اگر تم یہ کہو کہ اگرچہ اس روایت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ذکر نہیں فرمایا مگر اور جگہ میں تو اس کا ذکر فرمایا ہے اور تم اس روایت کو ذکر کرو کہ راشد ابن سعد نے کہا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : (الماء لا ینجسہ شئ۔۔۔) یعنی پانی کو کوئی چیز پلید نہیں کرسکتی جو چیز اس کے رنگ ‘ ذائقہ اور بو کو بدل دے تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ منقطع روایت ہے اور منقطع کو جب تم ثابت تسلیم نہیں کرتے اور نہ اس سے استدلال کو درست مانتے ہو۔ پس اگر تم نے قلتین والی روایت میں خاص قلے مرادلیے ہیں تو تمہارے علاوہ دوسروں کو بھی حق ہے کہ پانی کو وہ خاص پانی قرار دیں پس یہ اس طرح پہلے آثار کے معانی کے موافق ہوجائے گا اور مخالف نہ رہے گا اگر پہلے آثار جو کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کے سلسلہ میں اور اس پانی کے نجس ہونے کے سلسلہ میں جو برتن میں ہو اور اس میں بلی منہ ڈال دے عام ہیں اور ان میں مقدار کا تذکرہ نہیں اور پانی کو ہر رکے ہوئے پانی کے سلسلہ میں قرار دیا جائے گا تو اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ قلتین والی روایت میں بہتا ہوا پانی مراد ہے اور اس میں بھی پانی کی مقدار کو اسی طرح پیش نظر نہ رکھیں گے جیسا کہ پہلی روایت میں پیش نظر نہیں رکھا گیا تاکہ اس باب میں آنے والی روایات آپس میں متضاد نہ ہوں۔ یہ مفہوم وہ ہے جس سے آثار کے معانی ہمارے نزدیک صحیح رہ سکتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف اور محمد (رح) کا قول ہے اور اس سلسلے میں پہلے ہی رواۃ سے جو ان کے مذہب کے موافق روایات گذری ہیں ایک اور روایت اس سلسلے میں وارد ہے جو مندرجہ ذیل ہے۔
تخریج : حسب سابق روایت ٢٢ میں ملاحظہ کریں۔
توجہ طلب بات :
ان چھ روایات میں مدار سند تین راوی ہیں نمبر ١ ولید بن کثیر نمبر ٢ محمد بن اسحاق نمبر ٣ حماد بن سلمہ۔ چنانچہ حماد بن سلمہ ‘ حماد بن سلمہ سے تین اور محمد بن اسحاق سے دو اور ولید بن کثیر سے ایک روایت منقول ہے ان میں دو ضعیف اور حماد بن سلمہ معتبر راوی ہیں۔
حاصل روایان : ان روایات کا ماحصل یہ ہے کہ جب پانی اس مقدار کو پہنچ جائے تو نجاست سے اس کو ضرر نہ ہوگا اور وہ ناپاک نہ ہوگا مگر صرف اس صورت میں جبکہ گندگی کی بدبو ‘ رنگ ‘ ذائقہ غالب آجائے۔ احتجوا سے مسلک راجح (احناف) کی طرف سے جوابات دے رہے ہیں۔
جواب : ان آثار میں قلتین کی مقدار کی تعیین نہیں کی گئی لغت سے اس کی تعیین مشکل ہے ممکن ہے کہ قلتین سے مقام حجر کے دو قلے مراد ہوں جیسا تم کہتے ہو اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس سے دو قد انسانی کے برابر پانی مراد ہو تو روایت ابن عمر کا مطلب یہ ہوگا کہ جب پانی دو قد انسانی کے برابر ہوجائے تو کثرت کی وجہ سے نجاست کو نہ اٹھائے گا یعنی نجاست اس پر اثر انداز نہ ہوگی کیونکہ وہ اس وقت نہر جاری کے حکم میں ہوگا اور اس میں کسی کو بھی کلام نہیں۔
سوال : اس حدیث میں اگرچہ مقدار کا تذکرہ موجود نہیں ہے مگر روایت سے اپنے ظاہر کے مطابق قلال حجاز مراد لیے جائیں گے جن کی طرف ذہن فوراً منتقل ہوتا ہے۔
جواب : ہم عرض کریں گے کہ اگر تمہارے بقول خبر اپنے ظاہر پر ہے تو پھر یہ کہنا مناسب ہوگا کہ پانی جب اس مقدار کو پہنچ جائے تو نجاست اس کے لیے قطعاً کسی صورت بھی مضر نہیں خواہ اس کا رنگ ‘ بو ‘ ذائقہ ہی کیوں نہ بدل جائے کیونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو بھی اس روایت میں ذکر نہیں فرمایا۔ پس حدیث اپنے ظاہر پر ہوئی (حالانکہ آپ اس کے قائل نہیں) ۔
ایک اور سوال :
یہ تسلیم کرلیا کہ اگرچہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس روایت میں اس کو ذکر نہیں کیا مگر دیگر روایات میں تو مذکور ہے راشد بن سعد کی روایت ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ((الماء لا ینجسہ شیٔ الا ما غلب علی لونہ اوطعمہ اور یحہ)) اس روایت کو ابن ماجہ نے باب ٧٦ فی الطہارت اور دارقطنی نے اپنی سنن ١؍٢٨‘ ٢٩ پر ذکر کیا ہے اب آپ کا جواب درست نہ رہا ۔
جواب : راشد بن سعد کی روایت منقطع ہونے کی وجہ سے قابل استدلال نہیں اور شوافع کے ہاں جب منقطع قابل استدلال نہیں تو اسے آگے بطور حجت پیش کرنا کیسے درست ہوگا۔
ایک اور انداز سے :
اگر قلتین والی روایت میں قلال سے خاص قسم کے قلال حجریہ مراد لیے گئے ہیں تو دوسروں کے لیے بھی راستہ مل گیا کہ وہ قلہ کے پانی سے خاص پانی یعنی جاری پانی مراد لیں جو کہ کثیر ہے اور اس سے پہلے حضرت ابوہریرہ (رض) اور جابر (رض) والی روایات میں ماء راکد اور دائم سے ماء قلیل مراد ہو تاکہ روایات کا باہمی تعارض ختم ہوجائے۔ واللہ اعلم۔ ماء راکد میں پیشاب کی ممانعت والی روایات اور برتن میں کتے کے منہ ڈالنے والی روایات عام ہیں ان میں مقدار کا تذکرہ پایا نہیں جاتا مگر ان کو قلیل مقدار کھڑے پانی پر محمول کیا ہے جو کہ بالاتفاق ہے تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ حدیث قلتین کو ہم جاری پانی پر محمول کریں اور پانی کی مقدار سے یہاں بھی قطع نظر کرلیں جیسا کہ ماء راکد والی روایات میں اس سے قطع نظر کی گئی ہے تاکہ روایات میں تضاد باقی نہ رہے۔
حاصل یہ ہے :
کہ روایات کا یہ تطبیقی معنی ہمارے ائمہ احناف حضرت ابوحنیفہ (رح) ‘ ابو یوسف (رح) اور محمد (رح) کا قول ہے کہ ماء کثیر کا دارومدار مبتلا ہونے والے کی رائے پر ہے اور کنوئیں کا پانی نجاست گرنے سے بلاتغیر اوصاف بھی ناپاک ہوجائے گا تو ماء قلتین کیونکر ناپاک نہ ہوگا اس کے لیے مندرجہ ذیل آثار شاہد ہیں۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔