HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

2698

۲۶۹۸ : وَقَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوَ الْیَمَانِ‘ الْحَکَمُ بْنُ نَافِعٍ الْبَہْرَانِیُّ‘ فَقَالَ : ثَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ‘ عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ‘ عَنْ نَافِعٍ‘ قَالَ : خَرَجَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَأَنَا مَعَہُ عَلٰی جَنَازَۃٍ فَرَأٰی مَعَہَا نِسَائً ‘ فَوَقَفَ ثُمَّ قَالَ : رُدَّہُنَّ‘ فَإِنَّہُنَّ فِتْنَۃُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ ثُمَّ مَضَی‘ فَمَشٰی خَلْفَہَا .فَقُلْتُ : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘ کَیْفَ الْمَشْیُ فِی الْجَنَازَۃِ ؟ .أَمَامَہَا أَمْ خَلْفَہَا ؟ .فَقَالَ : أَمَا تَرَانِیْ أَمْشِیْ خَلْفَہَا ؟ .فَھٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ لَمَّا سُئِلَ عَنِ الْمَشْیِ فِی الْجَنَازَۃِ‘ أَجَابَ سَائِلَہٗ، إِنَّہٗ خَلْفَہَا‘ وَہُوَ الَّذِیْ رَوَیْنَا عَنْہُ فِی الْبَابِ الْأَوَّلِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَمْشِیْ أَمَامَہَا .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ عَلَی جِہَۃِ التَّخْفِیْفِ عَلَی النَّاسِ‘ لِیُعَلِّمَہُمْ أَنَّ الْمَشْیَ خَلْفَ الْجَنَازَۃِ‘ وَإِنْ کَانَ أَفْضَلَ مِنَ الْمَشْیِ أَمَامَہَا‘ لَیْسَ ہُوَ مِمَّا لَا بُدَّ مِنْہُ‘ وَلَا مِمَّا یُحْرَجُ تَارِکُہُ‘ وَلٰکِنَّہٗ مِمَّا لَہٗ أَنْ یَفْعَلَہٗ، وَیَفْعَلَ غَیْرَہُ .وَکَذٰلِکَ مَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ مِنْ ذٰلِکَ‘ ‘ فَرَوٰی عَنْہُ سَالِمٌ أَنَّہٗ کَانَ یَمْشِیْ أَمَامَ الْجَنَازَۃِ .فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلَی اِبَاحَۃِ الْمَشْیِ أَمَامَہَا‘ لَا عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ أَفْضَلُ مِنَ الْمَشْیِ خَلْفَہَا‘ ثُمَّ رَوٰی عَنْہُ نَافِعٌ أَنَّہٗ مَشٰی خَلْفَہَا .فَدَلَّ ذٰلِکَ أَیْضًا عَلَی اِبَاحَتِہِ الْمَشْیَ خَلْفَہَا‘ لَا عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ أَفْضَلُ مِنْ غَیْرِہٖ۔ فَلَمَّا سَأَلَہٗ، أَخْبَرَہٗ بِالْمَشْیِ الَّذِیْ یَنْبَغِیْ لَہٗ أَنْ یَفْعَلَ فِی الْجَنَازَۃِ خَلْفَہَا‘ عَلٰی أَنَّہٗ ہُوَ الَّذِیْ ھُوَ أَفْضَلُ مِنْ غَیْرِہٖ۔ وَقَدْ رَوَیْنَا فِیْ حَدِیْثِ الْبَرَائِ (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَہُمْ بِاتِّبَاعِ الْجَنَازَۃِ) ، وَالْأَغْلَبُ مِنْ مَعْنٰی ذٰلِکَ‘ ہُوَ الْمَشْیُ خَلْفَہَا أَیْضًا .فَصَارَ بِذٰلِکَ مِنْ حَقِّ الْجَنَازَۃِ‘ اتِّبَاعُہَا وَالصَّلَاۃُ عَلَیْہِ إِنْ کَانَ یُصَلِّیْ عَلَیْہَا یَکُوْنُ فِیْ صَلَاتِہٖ عَلَیْہَا مُتَأَخِّرًا عَنْہَا .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ الْمُتَّبِعُ لَہَا فِی اتِّبَاعِہِ لَہَا‘ مُتَأَخِّرًا عَنْہَا‘ فَھٰذَا ہُوَ النَّظْرُ مَعَ مَا قَدْ وَافَقَہٗ مِنَ الْآثَارِ .
٢٦٩٨: نافع نے عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل کیا کہ میں ایک جنازہ کے لیے ان کے ساتھ نکلا انھوں نے جنازے کے ساتھ عورتوں کو پایا تو وہ رک گئے پھر فرمایا ان کو واپس کر دو یہ زندہ اور مردہ دونوں کے لیے فتنہ ہیں پھر چل دیئے اور پیچھے چلے میں نے کہا اے ابو عبدالرحمن ! جنازے کے پیچھے چلنا کیسا ہے ؟ آگے یا پیچھے چلیں۔ فرمایا کیا تم مجھے پیچھے چلتا نہیں دیکھ رہے۔ تو یہ عبداللہ بن عمر (رض) ہیں کہ جب ان سے جنازہ کے ساتھ چلنے کے متعلق سوال ہو انھوں نے سائل کو اپنے چلنے کا عمل مسائل کے سامنے رکھ دیا ۔ یہ ابن عمر (رض) ہیں باب کے شروع میں روایت کر رہے تھے کہ آپ جنازے لے کر آگے آگے چلتے ۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ آپ کا آگے چلنا لوگوں کے لیے حکم میں تخفیف کی غرض سے تھا تاکہ لوگوں کو سکھا دیا جائے اصل تو جنازے کے پیچھے چلنا آگے چلنے سے افضل ہے ‘ مگر وہ لازم نہیں اور نہ ہی اس کا ترک کرنے والا گناہ کا مرتکب ہے بلکہ وہ ان کاموں سے ہے جس کو اختیار کرنا یا اس کے علاوہ کا اختیار کرنا درست ہے۔ ابن عمر (رض) سے اس کے متعلق اسی طرح مروی ہے۔ سالم (رح) بیان کرتے ہیں کہ وہ جنازے کے آگے چلتے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آگے چلنا مباح ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ یہ پیچھے چلنے سے افضل ہے۔ پھر ان سے نافع نے بیان کیا کہ وہ جنازے کے پیچھے چلتے تھے ۔ اس سے بھی یہ دلالت میسر آئی کہ پیچھے چلنا مباح ہے۔ یہ معنیٰ نہیں کہ یہ آگے چلنے سے افضل ہے۔ پھر جب ان سے پوچھا گیا تو انھوں نے بتلایا کہ جنازے ساتھ کس طرح چلنا چاہیے تو انھوں نے پیچھے چلنا بتلایا اور یہ کہ دوسری طرح چلنے سے یہ افضل ہے۔ ہم نے حضرت براء (رض) کی حدیث میں یہ نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو جنازہ میں پیچھے چلنے کا حکم فرمایا اور اس کا غالب مفہوم پیچھے چلنا ہے۔ پس یہ جنازے کا حق بن گیا ۔ کہ پیچھے چلا جائے اور نماز جنازہ پڑھی جائے اور نماز جنازہ میں اس سے پیچھے رہے ۔ پس اس پر غور و فکر کا تقاضہ یہ ہے کہ پیچھے جانے والا بھی جناے کے پیچھے چلے ۔ قیا س کا تقاض یہی ہے اس کے ساتھ ساتھ کہ آثار بھی اس کے مؤید ہیں ‘
لیجئے یہ عبداللہ بن عمر (رض) ہیں جن کے قول کو فریق اوّل سے پیش کیا تھا خود ان کا فتویٰ اور عمل جنازہ میں پیچھے چلنے کا ہے اس سے بھی یہ بات ثابت ہوئی کہ ابن عمر (رض) نے فصل اول میں جو بات نقل کی ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آگے چلنے سے لوگوں کو سہولت ہوجائے نہ یہ کہ یہ افضل ہے اور اگر اس کا مطلب یہ نہ بھی مانو۔ تب بھی اس قدر تو ثابت ہوگا کہ آگے نہ چلنے والا گناہ گار نہیں کبھی اس کو کرے کبھی دوسرا عمل کرے بالکل اسی طرح سالم والی روایت کا مفہوم بھی یہی ہے کہ آگے چلنا بھی جائز و مباح ہے اور ثبوت یہ ہے کہ نافع ان کا پیچھے چلنا ثابت کر رہے ہیں اس سے بس اباحیت ثابت ہوگی نہ کہ افضلیت۔ پھر جب ان سے سوال ہوا تو انھوں نے پیچھے چلنے کا حکم فرمایا اس سے معلوم ہوا کہ یہی ان کے ہاں افضل ہے۔ اور ہم نے براء بن عازب (رض) سے اتباع جنائز والی روایت نقل کردی جس کا معنی جنازے کے پیچھے چلنا متبادر ہے پس اس سے جنازہ کا یہ حق بن گیا کہ وہ اس کے پیچھے جائے اس پر نماز ادا کرے اور نماز میں بھی جنازہ مقدم ہوگا اور یہ متأخر ہوگا۔
نظر طحاوی (رض) :
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اتباع جنازہ کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ جنازے کا پیچھا کیا جائے پیچھے چلا جائے۔ متبع متأخر ہوتا ہے اور متبع مقدم ہوتا ہے تو اس سے معلوم ہے کہ جب جنازے کو متبع کیا گیا تو چلنے والا پیچھے چلے گا تو وہ متبع بنے گا اور جنازہ متبع ہوگا پس نظر کے اعتبار سے بھی پیچھے چلنا افضل ہوا۔
اس کی تائید میں ابن عمر (رض) کا فرمان ملاحظہ کرلیں۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔