HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

3411

۳۴۱۱ : مَا حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیْلُ بْنُ یَحْیَی الْمُزَنِیّ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِیْسَ الشَّافِعِیُّ قَالَ : ثَنَا سُفْیَانُ عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ یَحْیَی بْنِ طَلْحَۃَ عَنْ عَمَّتِہِ عَائِشَۃَ بِنْتِ طَلْحَۃَ عَنْ (عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتْ دَخَلَ عَلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنَّا قَدْ خَبَّأْنَا لَکَ حَیْسًا فَقَالَ أَمَا إِنِّیْ کُنْتُ أُرِیْدُ الصَّوْمَ وَلٰـکِنْ قَرِّبِیْہِ سَأَصُوْمُ یَوْمًا مَکَانَ ذٰلِکَ) قَالَ مُحَمَّدٌ ہُوَ ابْنُ إِدْرِیْسَ سَمِعْتُ سُفْیَانَ عَامَّۃَ مُجَالَسَتِی إِیَّاہُ لَا یَذْکُرُ فِیْہِ (سَأَصُوْمُ یَوْمًا مَکَانَ ذٰلِکَ) ثُمَّ إِنِّیْ عَرَضْتُ عَلَیْہِ الْحَدِیْثَ قَبْلَ أَنْ یَمُوْتَ بِسَنَۃٍ فَأَجَازَ فِیْہِ (سَأَصُوْمُ یَوْمًا مَکَانَ ذٰلِکَ) .فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ ذَکَرَ وُجُوْبَ الْقَضَائِ وَفِیْ حَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مَا قَدْ وَافَقَ ذٰلِکَ وَلَیْسَ فِیْ حَدِیْثِ أُمِّ ہَانِئٍ مَا یُخَالِفُ مَا قَدْ ذَکَرْنَا فَأَقَلُّ أَحْوَالِ حَدِیْثِ عُرْوَۃَ وَعَمْرَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنْ یَّکُوْنَ مَوْقُوْفًا عَلٰی مَنْ ہُوَ دُوْنَہُمَا وَقَدْ وَافَقَہُ حَدِیْثٌ مُتَّصِلٌ وَہُوَ حَدِیْثُ عَائِشَۃَ بِنْتِ طَلْحَۃَ فَالْقَوْلُ بِذٰلِکَ مِنْ جِہَۃِ الْحَدِیْثِ أَوْلَی مِنَ الْقَوْلِ بِخِلَافِہِ وَأَمَّا النَّظَرُ فِیْ ذٰلِکَ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا أَشْیَائَ تَجِبُ عَلَی الْعِبَادِ بِإِیْجَابِہِمْ إِیَّاہَا عَلٰی أَنْفُسِہِمْ مِنْہَا الصَّلَاۃُ وَالصَّدَقَۃُ وَالصِّیَامُ وَالْحَجُّ وَالْعُمْرَۃُ فَکَانَ مَنْ أَوْجَبَ شَیْئًا مِنْ ذٰلِکَ عَلٰی نَفْسِہِ فَقَالَ (لِلّٰہِ عَلَیَّ کَذَا وَکَذَا) وَجَبَ عَلَیْہِ الْوَفَائُ بِذٰلِکَ .وَرَأَیْنَا أَشْیَائَ یَدْخُلُ فِیْہَا الْعِبَادُ فَیُوْجِبُوْنَہَا عَلٰی أَنْفُسِہِمْ بِدُخُوْلِہِمْ فِیْہَا مِنْہَا الصَّلَاۃُ وَالصِّیَامُ وَالْحَجُّ وَمَا ذَکَرْنَا فَکَانَ مَنْ دَخَلَ فِیْ حَجَّۃٍ أَوْ عُمْرَۃٍ ثُمَّ أَرَادَ اِبْطَالَہَا وَالْخُرُوْجَ مِنْہَا لَمْ یَکُنْ لَہٗ ذٰلِکَ وَکَانَ بِدُخُوْلِہِ فِیْہَا فِیْ حُکْمِ مَنْ قَالَ (لِلّٰہِ عَلَیَّ حَجَّۃٌ) فَعَلَیْہِ الْوَفَائُ بِہَا فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : إِنَّمَا مَنَعْنَاہُ مِنَ الْخُرُوْجِ مِنْہُمَا لِأَنَّہٗ لَا یُمْکِنُہُ الْخُرُوْجُ مِنْہَا إِلَّا بِتَمَامِہَا وَلَیْسَتِ الصَّلَاۃُ وَالصِّیَامُ کَذٰلِکَ لِأَنَّہُمَا قَدْ یَبْطُلَانِ وَیَخْرُجُ مِنْہُمَا بِالْکَلَامِ وَالطَّعَامِ وَالشَّرَابِ وَالْجِمَاعِ قِیْلَ لَہٗ : إِنَّ الْحَجَّۃَ وَالْعُمْرَۃَ وَإِنْ کَانَا کَمَا ذَکَرْتُ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَاک تَزْعُمُ أَنَّ مَنْ جَامَعَ فِیْہِمَا فَعَلَیْہِ قَضَاؤُہُمَا وَالْقَضَائُ یَدْخُلُ فِیْہِ بَعْدَ خُرُوْجِہٖ مِنْہُمَا فَقَدْ جَعَلْتُ عَلَیْہِ الدُّخُوْلَ فِیْ قَضَائِہِمَا إِنْ شَائَ أَوْ أَبَی مِنْ أَجْلِ إِفْسَادِہٖ لَہُمَا فَھٰذَا الَّذِیْ یَقْضِیْہِ بَدَلٌ مِنْہُ مِمَّا کَانَ وَجَبَ عَلَیْہِ بِدُخُوْلِہٖ فِیْہِ لَا بِإِیْجَابٍ کَانَ مِنْہُ قَبْلَ ذٰلِکَ فَلَوْ کَانَ الْعِلَّۃُ فِیْ لُزُوْمِ الْحَجَّۃِ وَالْعُمْرَۃِ إِیَّاہُ حِیْنَ أَحْرَمَ بِہِمَا وَبُطْلَانِ الْخُرُوْجِ مِنْہُمَا ہِیَ مَا ذَکَرْتُ مِنْ عَدَمِ رَفْضِہِمَا وَلَوْلَا ذٰلِکَ کَانَ لَہُ الْخُرُوْجُ مِنْہُمَا کَمَا کَانَ لَہُ الْخُرُوْجُ مِنَ الصَّلَاۃِ وَالصِّیَامِ بِمَا ذَکَرْنَا مِنَ الْأَشْیَائِ الَّتِیْ تَخْرُجُ مِنْہُمَا اِذًا لَمَا وَجَبَ عَلَیْہِ قَضَاؤُہُمَا لِأَنَّہٗ غَیْرُ قَادِرٍ عَلٰی أَنْ لَا یَدْخُلَ فِیْہِ فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ غَیْرَ مُبْطِلٍ عَنْہُ وُجُوْبَ الْقَضَائِ وَکَانَ فِیْ ذٰلِکَ کَمَنْ عَلَیْہِ قَضَائُ حَجَّۃٍ قَدْ أَوْجَبَہَا لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی نَفْسِہِ بِلِسَانِہِ کَانَ کَذٰلِکَ أَیْضًا فِی النَّظَرِ مَنْ دَخَلَ فِیْ صَلَاۃٍ أَوْ صِیَامٍ فَأَوْجَبَ ذٰلِکَ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی نَفْسِہِ بِدُخُوْلِہِ فِیْہِ ثُمَّ خَرَجَ مِنْہُ فَعَلَیْہِ قَضَاؤُہُ وَیُقَالُ لَہٗ أَیْضًا : وَقَدْ رَأَیْنَا الْعُمْرَۃَ مِمَّا قَدْ یَجُوْزُ رَفْضُہَا بَعْدَ الدُّخُوْلِ فِیْہَا فِیْ قَوْلِنَا وَقَوْلِکَ وَبِذٰلِکَ جَائَ تِ السُّنَّۃُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ (قَوْلِہِ لِعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا دَعِیْ عَنْکَ الْعُمْرَۃَ وَأَہِلِّیْ بِالْحَجِّ) وَسَنَذْکُرُ ذٰلِکَ بِإِسْنَادِہٖ فِیْ مَوْضِعِہٖ مِنْ کِتَابِنَا ھٰذَا إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی فَلَمْ یَکُنْ لِلدَّاخِلِ فِی الْعُمْرَۃِ اِذَا کَانَ قَادِرًا عَلٰی رَفْضِہَا وَالْخُرُوْجِ مِنْہَا أَنْ یَخْرُجَ مِنْہَا فَیُبْطِلَہَا ثُمَّ لَا یَجِبُ عَلَیْہِ قَضَاؤُہَا .وَکَانَ مَنْ دَخَلَ فِیْہَا بِغَیْرِ إِیْجَابٍ مِنْہُ لَہَا قَبْلَ ذٰلِکَ لَیْسَ لَہُ الْخُرُوْجُ مِنْہَا قَبْلَ تَمَامِہَا إِلَّا مِنْ عُذْرٍ فَإِنْ خَرَجَ مِنْہَا فَأَبْطَلَہَا بِعُذْرٍ أَوْ بِغَیْرِ عُذْرٍ فَعَلَیْہِ قَضَاؤُہَا فَالصَّلَاۃُ وَالصَّوْمُ أَیْضًا فِی النَّظَرِ کَذٰلِکَ لَیْسَ لِمَنْ دَخَلَ فِیْہِمَا الْخُرُوْجُ مِنْہُمَا وَإِبْطَالُہُمَا إِلَّا مِنْ عُذْرٍ وَإِنْ خَرَجَ مِنْہُمَا قَبْلَ إِتْمَامِہٖ إِیَّاہُمَا بِعُذْرٍ أَوْ بِغَیْرِ عُذْرٍ فَعَلَیْہِ قَضَاؤُہُمَا فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَأَبِیْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ وَقَدْ رُوِیَ مِثْلُ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ غَیْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
٣٤١١: طلحہ بن یحییٰ بن طلحہ نے اپنی پھوپھی عائشہ بنت طلحہ سے انھوں نے عائشہ (رض) سے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ہاں تشریف لائے تو میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کے لیے حلوا چھپا کر رکھا ہے آپ نے فرمایا میں روزے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن لاؤ (میں استعمال کرتا ہوں) میں اس کے بدلے کسی اور دن روزہ رکھ لوں گا۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ میں نے سفیان سے عام طور پر مجالس میں یہ روایت سنی وہ اس میں : ” ساصوم یوما مکان ذلک “ کے الفاظ بیان نہیں کرتے تھے پھر میں نے وفات سے ایک سال پہلے ان کو یہ روایت سنائی تو انھوں نے ساصوم یوما فکان ذلک “ کے اضافہ کو درست قرار دیا۔ اس روایت میں قضاء کے واجب ہونے کا ذکر ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت بھی اس کے موافق ہے اور ام ہانی (رض) کی روایت میں اس کے خلاف کوئی بات نہیں باقی حضرت عروہ اور عمرہ والی حضرت عائشہ صدیقہ (رض) والی روایت کم ازکم ان سے نیچے والے روات پر موقوف ہے اور اس کے موافق حضرت عائشہ بنت طلحہ (رض) کی متصل روایت ہے۔ پس حدیث کے اصول کے لحاظ سے یہ اس کے خلاف قول اختیار کرنے سے اولیٰ ہے۔ اس سلسلہ میں نظر وفکر کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ بعض امور بندے پر لازم کرنے سے لازم ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے نماز ‘ روزہ ‘ حج ‘ عمرہ اور صدقہ ہے۔ تو جو شخص اس میں سے کسی چیز کے متعلق یہ کہے کہ ” للہ علی ّ کذا وکذا “ کہ مجھ پر اللہ کے لیے ان میں سے فلاں چیز اس طرح اس طرح ہے۔ تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس نذر کو پورا کرے اور بعض ایسے امور ہیں کہ بندے ان میں داخل ہو کر ان کو اپنے اوپر واجب کرنے والے ہیں مثلاً نماز ‘ ‘ حج اور جن کا ہم نے ذکر کیا ۔ پس جو شخص حج یا عمرہ میں داخل ہو کر پھر ان کو باطل کرنے کا ارادہ کرے یا ان سے نکلنا چاہے۔ تو اس کے لیے اس کا اختیار نہیں۔ تو اس کو شروع کرنے سے اس آدمی کے حکم میں ہوگیا جس نے کہا : ” للہ علی حجۃ ‘ ‘ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے مجھ پر حج لازم ہے۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ ہم نے اس کو نکلنے سے اس وجہ سے روکتے ہیں کیونکہ ان کو مکمل کرنے کے بغیر وہ اس سے باہر نہیں آسکتا اس کے بخلاف روزے اور نماز کی یہ صورت نہیں اس لیے کہ وہ بعض اوقات گفتگو ‘ کھانے ‘ پینے اور جماع کے ساتھ بھی ان سے خارج ہوجاتا ہے۔ اس کے جواب میں ہم کہیں گے اگرچہ حج وعمرہ کی صورت تو اسی طرح ہے جیسا تم کہتے ہو ۔ مگر ہم یہ جانتے ہیں۔ کہ بقول تمہارے جو شخص ان میں جماع کرے اس پر ان کی قضاء لازم ہے اور قضاء میں اس وقت داخل ہوگا جب کہ وہ ان سے نکلے تم نے اس پر قضاء کرنا لازم کردیا خواہ وہ چاہے یا نہ چاہے اس لیے کہ اس نے دونوں کو فاسد کردیا ہے۔ یہ قضاء تو اس کا بدل ہے جو اس میں داخل ہونے کی وجہ سے اس کے ذمہ واجب ہوچکا تھا ۔ اس کے محض واجب کردینے سے نہیں۔ اگر حج وعمرہ کا احرام باندھنے کے بعد حج وعمرہ کے اس کے ذمہ لازم ہونے اور ان سے الگ نہ ہونے کا سبب وہی ہے جو تم نے ذکر کیا کہ وہ ان کو ترک نہیں کرسکتا اور اگر یہ علت مذکورہ نہ ہوتی تو اسے فراغت جائز تھی جیسا کہ وہ نماز ‘ روزے وغیرہ اشیاء کو چھوڑ سکتا ہے۔ تو اس صورت میں اس پر ان کی قضاء لازم نہ ہوگی کیونکہ وہ اس قضاء کو شروع کرنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ پس جب اس کی عدم قدرت اس کے ذمہ سے قضاء کو باطل نہیں کرتی اور اس کا حال اس آدمی کی طرح ہے کہ جس کے ذمہ ایسے حج کی قضاء ہو جس کو اس نے اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے اوپر زبان سے لازم کیا ہو۔ نظرکا بھی یہی تقاضا ہے کہ جو آدمی نماز ‘ روزے کو شروع کرے اور ان کو شروع کر کے رضائے الٰہی کے لیے اپنے اوپر لازم کرے پھر ان سے نکل جائے تو اس پر قضاء لازم ہوگی اور اس کو یہ کہا جائے گا کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ عمرہ ان کاموں میں سے ہے جس کو ہمارے اور تمہارے نزدیک شروع کرنے کے بعد چھوڑنا






جائز ہے۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو فرمایا عمرہ چھوڑ کر حج کا احرام باندھو۔ تو یہ چیز جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت سے ثابت ہے۔ ہم اس روایت کو اسی کتاب میں اس کے مقام پر ذکر کریں گے ‘ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ پس یہ بات نہیں ہے کہ جو شخص عمرہ میں داخل ہو اور عمرہ کرنے کی قدرت بھی ہو اور وہ اسے جان بوجھ چھوڑ دے تو اس پر قضاء لازم نہ ہو اور وہ شخص جو اپنے اوپر لازم کرنے کے بغیر اس کو شروع کرے تو وہ بغیر عذر کے اسے مکمل کرنے کے بغیر چھوڑ نہیں سکتا اور اگر وہ کسی عذر یا بلا عذر اسے ترک کردے تو اس پر قضاء ہے۔ تو نظر کا تقاضا یہی چاہتا ہے کہ نماز اور روزے کا یہی حکم ہو کہ جو شخص ان کو شروع کر دے اس کو بلا عذر چھوڑنا جائز نہیں اور بلا عذر چھوڑنے سے قضاء لازم ہوگی ۔ اس باب میں نظر کا یہی تقاضا ہے اور امام ابوحنیفہ ابو یوسف ‘ محمد (رح) کا قول بھی اسی طرح ہے اور بہت سے صحابہ کرام (رض) سے یہ مروی ہے۔
تخریج : مسلم فی الصیام ١٦٩؍١٧٠‘ ابو داؤد فی الصوم باب ٧١‘ نسائی فی الصیام باب ٦٧‘ مسند احمد ٦؍٤٩‘ ٢٠٧۔
حاصل روایت : اس روایت میں قضا کا لازم ہونا ثابت ہو رہا ہے اور یہ حدیث عائشہ (رض) کے موافق ہے اور ام ہانی (رض) والی روایت میں اس کے خلاف کوئی چیز موجود نہیں ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ یہ روایت موقوف ہے تو اس میں کچھ قباحت نہیں جبکہ مرفوع روایت عائشہ بنت طلحہ اس کے موافق ہے پس یہ قول اس کے مخالف قول سے بہتر ہے جبکہ وہاں نہ مرفوع روایت ہے اور نہ موقوف۔ دوسری بات یہ ہے کہ جریر بن حازم کی روایت سے موقوف ہونے میں جو جہالت تھی اس کا ازالہ ہونے کی وجہ سے یہ روایت مرفوع کی طرح ہوگئی پس اس پر اشکال درست نہیں اب نظر کے لحاظ سے اس بات کو بیان کیا جاتا ہے۔
نظر طحاوی (رض) :
بندوں پر اشیاء کے وجوب کی دو صورتیں ہیں نمبر ١ وجوب قولی اور وجوب فعلی اور یہ ان عبادات ‘ نماز ‘ صدقہ ‘ روزہ ‘ حج ‘ عمرہ سب میں درست ہے چنانچہ جو آدمی اس طرح کہے : للہ علی کذا و کذا تو سب کے ہاں اس پر اس کی ادائیگی لازم ہوجاتی ہے یہ تو قول سے اپنے اوپر لازم کرنا ہے بالکل اسی طرح ان افعال میں داخل ہو کر ان کو لازم کرلینا مثلاً حج ‘ عمرہ ان میں جو احرام باندھ کر داخل ہوجائے اس کی تکمیل سب مانتے ہیں اور ان کی تکمیل اسی طرح ضروری قرار دیتے ہیں جس طرح کوئی ۔۔۔علی حجۃ کہہ کر اس پر لازم ہوجاتا ہے اب نماز اور روزے کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے کہ جب عملاً ان میں داخل ہوجائے تو توڑ دینے سے اس پر تکمیل لازم ہونی چاہیے۔
ایک اشکال :
حج وعمرہ جن کی ابتداء کے بعد تکمیل کو لازم کیا جاتا ہے کیونکہ ان کو شروع کرنے کے بعد نکلنے کی اور کوئی صورت نہیں سوائے اس کے کہ وہ ان کو پورا کرے مثلاً احرام باندھنے والا اگر حج کو فاسد کردیتا ہے تو اسے حج کے ارکان میں آخر تک شرکت کرنا لازم ہے اسی جگہ احرام کو توڑ نہیں سکتا۔ اگرچہ اگلے سال اس پر حج کی قضا بھی لازم ہے۔
باقی رہی نماز و روزہ تو ان میں نکلنے کا راستہ موجود ہے جب چاہے نکل جائے پس ان کو اس پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے جو کسی طرح درست نہیں۔
u: حج وعمرہ کا حکم اگرچہ ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ نے ذکر کیا تاہم اس بات کو آپ بخوبی جانتے ہیں کہ جس شخص نے جماع کر کے اپنے حج وعمرہ کو فاسد کردیا ہے اس پر دونوں کی قضا لازم ہے اور قضا کا لازم ہونا اور قضا میں اس کا مصروف ہونا اسی وقت ممکن ہے جبکہ پہلے ان سے خارج ہو یقیناً آپ نے حاجی اور معتمر کے ہر فاسد شدہ حج یا عمرہ کی قضا کو لازم کردیا ہے حاجی یا عمرہ کرنے والے کے حج یا عمرہ کو فاسد کردینے کی وجہ سے حاجی یا عمرہ کرنے والا قضا کرنا چاہتا ہو یا نہ چاہتا ہو بہرصورت اس کو قضا کرنا پڑے گا فلہذا حج وعمرہ جن کو وہ قضا کررہا ہے یہ اس اصل حج وعمرہ کا بدل ہے جو اس پر داخل ہونے یا شروع کرنے کی وجہ سے لازم ہوچکا تھا۔ بطور نذر داخل ہونے سے پہلے اپنے اوپر واجب کرنے کی وجہ سے نہیں ہے یعنی لزوم قول کی وجہ سے لازم نہیں ہوا بلکہ فعلی طور پر لازم کرنے کی وجہ سے لازم ہوا ہے۔
پس جس وقت حج وعمرہ کا احرام باندھا تھا اس وقت سے حج یا عمرہ اس پر لازم ہوجائے اور ان دونوں کو چھوڑ دینے کے عدم جواز کی علت وہی ہوئی جو تم نے ذکر کی اور اگر علت مذکورہ نہ ہوتی تو حج یا عمرہ کرنے والے کو حج وعمرہ سے اسی وقت خارج ہوجانا جائز ہوتا جس طرح نمازی کے لیے نماز سے اور روزہ دار کے لیے روزہ سے امور مفسدہ کے پیش آنے پر نکلنا جائز ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں تو اس کی قضا بھی اس پر لازم نہ ہوئی اس لیے کہ وہ ارکان حج یا عمرہ سے نکلنے کی قدرت نہیں رکھتا۔
پس جب فاسد کرنے والے معاملات سے حج یا عمرہ کو فاسد کرنے کے بعد رکان حج کی تکمیل میں باقی رہنا اس پر قضا کے وجوب کو باطل نہیں کرتا اور وہ اس شخص کے حکم میں ہوجاتا ہے جس نے نذر وغیرہ سے اپنے اوپر اس کو لازم یا واجب کرلیا ہو جس کی وجہ سے اس پر حج کی تکمیل لازم ہوچکی ہے ۔
بالکل اسی طرح نظر و قیاس کا تقاضہ یہ ہے کہ جس نے نماز و روزہ کو شروع کے بعد فاسد کردیا ہو اس پر قضا لازم واجب ہوجائے۔

ایک اور انداز سے :
عمرہ کا احرام باندھ لینے کے بعد سب کے ہاں اس کا چھوڑ دینا درست ہے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات ثابت ہے جیسا کہ روایت عائشہ (رض) میں وارد ہے کہ آپ نے اس کو فرمایا تم عمرہ کو ترک کر دو اور حج کے ارکان مکمل کرنے کے بعد احرام کھول دو چنانچہ انھوں نے اسی طرح کیا مگر اس کے باوجود جو آدمی عمرہ ادا کرسکتا ہے اس کو عمرہ ترک کرنے کی اجازت نہیں ہے اگر اس نے ترک کردیا تو قضا لازم ہوجائے گی پس معلوم ہوا کہ نفلی عمرہ شروع کرنے کے بعد فاسد کرنے سے قضا لازم ہوجاتی ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اعذار مختلف ہیں بعض اعذار طبعیہ اور فطریہ ہیں جس طرح حیض و نفاس تو اس قسم کے عذر پیش آنے کی صورت میں ترک عمرہ سے قضا لازم نہیں ہے دوسری قسم کے وہ اعذار ہیں جو خارجی اسباب سے پیش آئیں اژدحام ‘ بھیڑ کی وجہ سے طواف و سعی کی قدرت نہ پاسکا اور عرفات کا دن آگیا اور یہ عمرہ چھوڑ کر چلا گیا تو اس قسم کے اعذار کی صورت میں ترک عمرہ قضا کو لازم کرنے والا ہے۔ پس اس قسم کے اعذار پیش آجائیں اور عمرہ ترک ہوجائے تو عمرہ کی قضا لازم ہوگی۔ تیسری قسم کے عذر وہ ہیں جو اپنے اختیار میں ہیں مثلاً نفلی عمرہ کا احرام باندھا پھر شہوت نے غلبہ کیا عمرہ ادا کرنے سے قبل جماع کرلیا تو قضا واجب ہے تو بالکل اسی پر قیاس کرتے ہوئے نفل نماز و نفل روزہ بھی شروع سے واجب ہوجاتے ہیں پس جو شخص ان دونوں کو شروع کرے اس کے لیے بلاعذر شدید کے باطل کرنا جائز نہیں ہے اور اگر عذر یا بلاعذر تکمیل سے پہلے باطل کر دے گا تو اس پر قضا و لازم ہوجائے گی نظر کا تقاضاہ بھی یہی ہے اور ہمارے علماء امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ تعالیٰ کا قول بھی یہی ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔