HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

3953

۳۹۵۳ : وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ عَاصِمٍ‘ عَنْ سُفْیَانَ‘ عَنْ سَلْمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ‘ عَنِ الْحَسَنِ الْعُرَنِیِّ‘ عَنِ (ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ اِذَا رَمَیْتُمَ الْجَمْرَۃَ‘ فَقَدْ حَلَّ لَکُمْ کُلُّ شَیْئٍ إِلَّا النِّسَائَ .فَقَالَ لَہٗ رَجُلٌ : وَالطِّیْبُ .فَقَالَ : أَمَّا أَنَا فَقَدْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُضَمِّخُ رَأْسَہٗ بِالْمِسْکِ‘ أَفَطِیْبٌ ہُوَ) ؟ فَفِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ مِنْ قَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مَا قَدْ ذَکَرْنَا مِنْ اِبَاحَۃِ کُلِّ شَیْئٍ إِلَّا النِّسَائَ ‘ اِذْ رَمَیْتُ الْجَمْرَۃَ‘ وَلَا یَذْکُرُ فِیْ ذٰلِکَ الْحَلْقَ .وَفِیْہِ أَنَّہٗ رَأَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُضَمِّخُ رَأْسَہُ بِالْمِسْکِ وَلَمْ یُخْبِرْ بِالْوَقْتِ الَّذِیْ فَعَلَ فِیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ .وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَبْلَ الْحَلْقِ‘ وَیَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ بَعْدَہُ إِلَّا أَنَّ أَوْلَی الْأَشْیَاء بِنَا‘ أَنْ نَحْمِلَ ذٰلِکَ‘ عَلٰی مَا یُوَافِقُ مَا قَدْ ذَکَرْنَاہُ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا لَا عَلٰی مَا یُخَالِفُ ذٰلِکَ .فَیَکُوْنُ مَا رَأَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُہٗ مِنْ ذٰلِکَ کَانَ بَعْدَ رَمْیِہِ الْجَمْرَۃَ وَحَلْقِہِ‘ عَلٰی مَا فِیْ حَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا .ثُمَّ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یُعَدُّ بِرَأْیِہِ اِذَا رَمَی فَقَدْ حَلَّ لَہٗ بِرَمْیِہِ أَنْ یَحْلِقَ‘ حَلَّ لَہٗ أَنْ یَلْبَسَ وَیَتَطَیَّبَ .وَھٰذَا مَوْضِعٌ یَحْتَمِلُ النَّظَرَ‘ وَذٰلِکَ أَنَّ الْاِحْرَامَ یَمْنَعُ مِنْ حَلْقِ الرَّأْسِ وَاللِّبَاسِ وَالطِّیْبِ‘ فَیُحْتَمَلُ أَنْ یَّکُوْنَ حَلْقُ الرَّأْسِ اِذَا حَلَّ‘ حَلَّتْ ھٰذِہِ الْأَشْیَائُ ‘ وَاحْتُمِلَ أَنْ لَا یَحِلَّ حَتّٰی یَکُوْنَ الْحَلْقُ .فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ‘ فَرَأَیْنَا الْمُعْتَمِرَ‘ یَحْرُمُ عَلَیْہِ بِإِحْرَامِہٖ فِیْ عُمْرَتِہٖ‘ مَا یَحْرُمُ عَلَیْہِ بِإِحْرَامِہٖ فِیْ حَجَّتِہٖ۔ثُمَّ اِذَا رَأَیْنَاہُ اِذَا طَافَ : بِالْبَیْتِ وَسَعَیْ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ فَقَدْ حَلَّ لَہٗ أَنْ یَحْلِقَ وَلَا یَحِلُّ لَہٗ النِّسَائُ ‘ وَلَا الطِّیْبُ‘ وَلَا اللَّبَائِسُ حَتّٰی یَحْلِقَ .فَلَمَّا کَانَتْ حُرْمَۃُ الْعُمْرَۃِ قَائِمَۃً حَلَّ لَہٗ أَنْ یَحْلِقَ‘ وَلَا یَکُوْنُ اِذَا حَلَّ لَہٗ أَنْ یَحْلِقَ فِیْ حُکْمِ مَنْ حَلَّ لَہٗ‘ مَا سِوٰی ذٰلِکَ مِنَ اللِّبَاسِ وَالطِّیْبِ‘ کَانَ کَذٰلِکَ فِی الْحَجَّۃِ‘ لَا یَجِبُ لِمَا حَلَّ لَہُ الْحَلْقُ فِیْہَا أَنْ یَحِلَّ لَہٗ شَیْء ٌ مِمَّا سِوَاہُ‘ مِمَّا کَانَ حَرُمَ عَلَیْہِ بِہَا حَتّٰی یَحْلِقَ‘ قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا أَجْمَعُوْا عَلَیْہِ فِی الْعُمْرَۃِ .ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَی النَّظَرِ بَیْنَ ہٰذَیْنِ الْفَرِیْقَیْنِ جَمِیْعًا وَبَیْنَ أَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی الَّذِیْنَ ذَہَبُوْا إِلٰی حَدِیْثِ عُکَّاشَۃَ .فَرَأَیْنَا الرَّجُلَ قَبْلَ أَنْ یُحْرِمَ یَحِلُّ لَہٗ النِّسَائُ ‘ وَالطِّیْبُ‘ وَاللِّبَاسُ‘ وَالصَّیْدُ‘ وَالْحَلْقُ‘ وَسَائِرُ الْأَشْیَائِ الَّتِیْ تَحْرُمُ عَلَیْہِ بِالْاِحْرَامِ‘ فَإِذَا أَحْرَمَ‘ حَرُمَ عَلَیْہِ ذٰلِکَ کُلُّہُ بِسَبَبٍ وَاحِدٍ‘ وَہُوَ الْاِحْرَامُ .فَاحْتَمَلَ أَنْ یَّکُوْنَ کَمَا حَرُمَتْ عَلَیْہِ بِسَبَبٍ وَاحِدٍ أَنْ یَحِلَّ مِنْہَا أَیْضًا‘ بِسَبَبٍ وَاحِدٍ‘ وَاحْتُمِلَ أَنْ یَحِلَّ مِنْہَا بِأَشْیَائَ مُخْتَلِفَۃٍ‘ إِحْلَالًا بَعْدَ إِحْلَالٍ .فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ‘ فَرَأَیْنَاہُمْ قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّہٗ اِذَا رَمَی‘ فَقَدْ حَلَّ لَہُ الْحَلْقُ‘ ھٰذَا مِمَّا لَا اخْتِلَافَ فِیْہِ بَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘ وَأَجْمَعُوْا أَنَّ الْجِمَاعَ حَرَامٌ عَلَیْہِ عَلٰی حَالَتِہِ الْأُوْلٰی‘ فَثَبَتَ أَنَّہٗ حَلَّ مِمَّا قَدْ کَانَ حَرُمَ عَلَیْہِ بِسَبَبٍ وَاحِدٍ بِأَسْبَابٍ مُخْتَلِفَۃٍ .فَبَطَلَ بِھٰذِہِ الْعِلَّۃِ الَّتِیْ ذَکَرْنَا .فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ الْحَلْقَ یَحِلُّ لَہٗ اِذَا رَمَی‘ وَأَنَّہٗ مُبَاحٌ لَہٗ بَعْدَ حَلْقِ رَأْسِہِ أَنْ یَحْلِقَ مَا شَائَ مِنْ شَعْرِ بَدَنِہِ‘ وَیَقُصَّ أَظْفَارَہٗ‘ أَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ‘ ہَلْ حُکْمُ اللِّبَاسِ حُکْمُ ذٰلِکَ أَوْ حُکْمُہٗ حُکْمُ الْجِمَاعِ‘ فَلاَ یَحِلُّ حَتّٰی یَحِلُّ الْجِمَاعُ ؟ فَاعْتَبَرْنَا ذٰلِکَ‘ فَرَأَیْنَا الْمُحْرِمَ بِالْحَجِّ اِذَا جَامَعَ قَبْلَ أَنْ یَقِفَ بِعَرَفَۃَ‘ فَسَدَ حَجَّہٗ‘ وَرَأَیْنَاہُ اِذَا حَلَقَ شَعْرَہٗ أَوْ قَصَّ أَظْفَارَہٗ‘ وَجَبَتْ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ فِدْیَۃٌ‘ وَلَمْ یَفْسُدْ بِذٰلِکَ حَجُّہٗ۔ وَرَأَیْنَا لَوْ لَبِسَ ثِیَابًا قَبْلَ وُقُوْفِہِ بِعَرَفَۃَ‘ لَمْ یَفْسُدْ عَلَیْہِ بِذٰلِکَ إِحْرَامُہٗ، وَوَجَبَتْ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ فِدْیَۃٌ .فَکَانَ حُکْمُ اللِّبَاسِ‘ قَبْلَ عَرَفَۃَ‘ مِثْلَ حُکْمِ قَصِّ الشَّعْرِ وَالْأَظْفَارِ‘ لَا مِثْلَ حُکْمِ الْجِمَاعِ .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ حُکْمُہٗ أَیْضًا بَعْدَ الرَّمْیِ وَالْحَلْقِ کَحُکْمِہَا‘ لَا کَحُکْمِ الْجِمَاعِ فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ذٰلِکَ .فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رَأَیْنَا الْقُبْلَۃَ حَرَامًا عَلَی الْمُحْرِمِ‘ بَعْدَ أَنْ یَحْلِقَ‘ وَہِیَ قَبْلَ الْوُقُوْفِ بِعَرَفَۃَ‘ فِیْ حُکْمِ اللِّبَاسِ‘ لَا فِیْ حُکْمِ الْجِمَاعِ‘ فَلِمَ لَا کَانَ اللِّبَاسُ بَعْدَ الْحَلْقِ أَیْضًا کَہِیَ ؟ قِیْلَ لَہٗ : إِنَّ اللِّبَاسَ بِالْحَلْقِ‘ أَشْبَہَ مِنْہُ بِالْقُبْلَۃِ‘ لِأَنَّ الْقُبْلَۃَ ہِیَ بَعْضُ أَسْبَابِ الْجِمَاعِ‘ وَحُکْمُہَا حُکْمُہٗ، تَحِلُّ حَیْثُ یَحِلُّ‘ وَتَحْرُمُ حَیْثُ یَحْرُمُ‘ فِی النَّظَرِ فِی الْأَشْیَائِ کُلِّہَا .وَالْحَلْقُ وَاللِّبَاسُ لَیْسَا مِنْ أَسْبَابِ الْجِمَاعِ إِنَّمَا ہُمَا مِنْ أَسْبَابِ إِصْلَاحِ الْبَدَنِ‘ فَحُکْمُ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا بِحُکْمِ صَاحِبِہٖ، أَشْبَہٗ مِنْ حُکْمِہٖ بِالْقُبْلَۃِ‘ فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا أَنَّہٗ لَا بَأْسَ بِاللِّبَاسِ بَعْدَ الرَّمْیِ وَالْحَلْقِ .وَقَدْ قَالَ ذٰلِکَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَہٗ.
٣٩٥٣: حسن عرنی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب تم جمرہ عقبہ کی رمی کرلو تو عورتوں کے علاوہ تمہارے لیے ہر چیز حلال ہوجاتی ہے ان کو ایک آدمی نے پوچھا کیا خوشبو بھی۔ تو انھوں نے فرمایا میں نے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ کا سر مبارک کستوری سے لت پت تھا۔ تم بتلاؤ کیا وہ خوشبو ہے ؟ اس روایات حضرت ابن عباس (رض) کا قول کہ عورتوں کے سواء ہر چیز حلال ہوگئی جب کہ جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماری ہیں “ ذکر کیا ہے۔ انھوں نے اس روایت سر منڈانے کا تذکرہ نہیں کیا اور اس روایت یہ بات بھی موجود ہے کہ انھوں نے جناب رسول اللہ کو دیکھا کہ آپ نے سر مبارک پر کستوری لگائی مگر اس روایت میں یہ اطلاع موجود نہیں کہ آپ نے یہ عمل کس وقت کیا ۔ عین ممکن ہے کہ آپ نے سرمنڈانے سے پہلے یہ فعل کیا ہو اور عین ممکن ہے کہ حلق کے بعد ایسا کیا ہو ۔ زیادہ بہتر بات یہ ہے کہ اس اجمال کو اسی وضاحت پر محمول کریں جو اس روایت عائشہ صدیقہ (رض) میں ہے۔ نہ کہ اس کے خلاف۔ پس اس صورت میں یہ جمرہ کی کنکریوں اور حلق کے بعد ہوگا جیسا حضرت صدیقہ (رض) نے ذکر کیا۔ پھر ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ میری رائے یہ ہے کہ جب رمی کرلی تو رمی سے ہی یہ حلال ہوگیا کہ وہ حلق کروائے اور اس کے لیے لباس و خوشبو درست ہوگئے۔ یہ موقعہ غور وفکر کا ہے۔ کہ احرام تو سرمنڈانے اور لباس پہننے اور خوشبو سے روکتا ہے۔ پس یہ اس بات پر محمول کیا جائے کہ جب سرمنڈانا جائز ہوگیا تو تمام چیزیں اسے جائز ہوگئیں اور یہ بھی احتمال ہے کہ وہ اس وقت تک حلال نہیں جب تک حلق کروا نہیں لیتا۔ جب اس بات کو جانچا تو یہ معلوم ہوا کہ عمرہ کرنے والے پر وہی چیزیں حرام ہوتی ہیں ‘ جو احرام حج سے حرام ہوتی ہیں۔ پھر دوسری بات یہ بھی پائی کہ جب اس نے طواف اور سعی صفا ومروہ کرلیا توا سے سرمنڈانا درست ہوجاتا ہے مگر عورتیں اس کے لیے حلال نہیں ہو تیں اور نہ خوشبو لگانا اور نہ لباس پہننا جائز ہوتا ہے جب تک سرنہ منڈوا لے۔ پس جب عمرہ کی حرمت قائم ہے تو حلق حلال ہوگیا ۔ مگر جواز حلق سے وہ اس آدمی کے حکم میں نہیں جس کو لباس اور خوشبو جائز ہو اور حج میں بھی اسی طرح ہے۔ کہ جب حلق جائز ہوا تو اس کی وجہ سے احرام کی وجہ سے جو امور حرام ہوتے تھے وہ سب جائز نہیں ہوجاتے ۔ وہ تب حلال ہوتے ہیں جب سرمنڈالے۔ یہ اس بات پر قیاس کیا ہے جو سب کے ہاں عمرہ میں اتفاقی ہے۔ اب ہم ان دونوں اول قول والے لوگوں کے اقوال کی طرف لوٹتے ہیں جنہوں نے حضرت عکاشہ (رض) کی روایت اختیار کی ہے۔ پس ہم نے یہ بات پائی کہ احرام سے پہلے آدمی کے لیے عورتوں کے پاس جانا ‘ خوشبو ملنا ‘ لباس پہننا اور شکار کرنا ‘ سرمنڈانا اور وہ تمام اشیاء کرنا جائز ہے۔ جو احرام کی وجہ سے حرام ہوجاتی ہیں۔ پھر جب وہ احرام باندھ لیتا ہے تو ایک سبب سے اس پر یہ تمام کام حرام ہوجاتے ہیں۔ اور وہ احرام ہے۔ پس یہ احتمال ہے کہ جیسا ایک سبب سے حرام ہوتے تو ایک سبب سے حلال ہوجاتے ہیں اور یہ بھی احتمال ہے کہ مختلف چیزوں سے حلال ہوں ہم نے اسے جانچا تو اس پرا جماع پایا کہ جب اس نے جمرہ عقبہ کی رمی کرلی تو اس کے لیے حلق جائز ہوگیا اس پر تو کسی بھی فرد مسلمان کو اختلاف نہیں اور اس پر اتفاق ہے کہ پہلی حالت میں اس کے لیے جماع حرام ہے۔ پس اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ امور جو اس پر ایک سبب سے حرام ہوتے ہیں مختلف اسباب سے وہ ان سے حلال ہوجاتا ہے۔ اس سے مذکورہ علت باطل ہوگئی۔ پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ رمی سے حلق درست ہوجاتا ہے تو سرمنڈانے کے بعد جسم کے ہر حصہ کے بال مونڈنا جائز ہوجاتے ہیں۔ اور اسی طرح ناخن ترشوانا بھی۔ اب ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آیا لباس کا حکم یہی ہے یا اس سے مختلف جماع کی طرح ہے۔ کہ وہ جماع کے جواز تک جائز نہ ہوگا۔ ہم نے غور کیا کہ حج کا احرام باندھنے والا اگر عرفات سے قبل جماع کرے تو اس کا حج فاسد ہوجاتا ہے اور یہ بھی معلوم و معروف ہے کہ اگر وہ اپنے بال ‘ ناخن ترشوائے تو اس پر فدیہ ضروری ہوجائے گا مگر حج فاسد نہ ہوگا۔ اگر اس نے وقوف عرفات سے پہلے کپڑے پہن لیے تو اس سے اس کا احرام فاسدنہ ہوگا البتہ فدیہ لازم ہوجائے گا پس معلوم ہوگیا کہ لباس کا حکم وقوف عرفات سے پہلے پہلے بال کاٹنے اور ناخن تراشنے کی طرح ہے۔ جماع جیسا نہیں تو قیاس اس بات کا متقاضی ہے کہ رمی و حلق کے بعد اس کا حکم ان دونوں جیسا ہو جماع جیسا نہ ہو قیاس کا تقاضا یہی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ ہم جانتے ہیں کہ محرم کو حلق کے بعد بوسہ حرام ہے اور وقوف سے پہلے یہ لباس کی طرح ہے جماع کی طرح نہیں تو حلق کے بعد بھی مناسب یہ ہے کہ لباس بوسہ کے حکم جیسا ہو۔ تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا۔ کہ لباس بوسہ کے مقابلے میں سرمنڈانے کے ساتھ زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔ کیونکہ بوسہ اسباب جماع سے شمار ہوتا ہے تو اس کا حکم جماع کے حکم کی طرح ہوگا ۔ جب وہ حلال ہوگا تو یہ بھی حلال ہوگا ۔ جب وہ حرام ہوگا تو یہ بھی حرام ہوگا اور غور وفکر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حلق اور لباس دونوں جماع کے اسباب سے نہیں بلکہ وہ درستی بدن کے من جملہ اسباب سے ہیں تو ان میں سے ہر ایک کا حکم ایک دوسرے سے ملانا زیادہ مناسب ہے ‘ بجائے اس کے کہ اسے بوسہ کے ساتھ ملائیں ۔ اس تمام بحث سے ثابت ہوگیا کہ کنکریاں مارنے اور سرمنڈانے کے بعد لباس زیب تن کرنے میں کچھ حرج نہیں ۔ کئی صحابہ کرام (رض) سے بھی یہ منقول ہے ملاحظہ ہو۔
حاصل روایت : اس روایت میں رمی جمرہ کا تذکرہ ہے اور اس کے بعد ہر چیز سوائے عورتوں کے حلال ہونے کا ذکر ہے مگر حلق کا تذکرہ نہیں۔ اسی طرح آپ کے سر مبارک کے خوشبو سے لت پت ہونے کا ذکر کیا مگر اس کا وقت نہیں بتلایا۔ یہ حلق سے پہلے اور بعد دونوں امکان رکھتا ہے البتہ سابقہ روایت کی موافقت کا تقاضا یہ ہے کہ جمرہ عقبہ کی رمی اور حلق کے بعد کی بات ہے جیسا کہ روایت عائشہ (رض) میں مذکور ہے پھر ابن عباس (رض) نے اپنے خیال اور رائے سے یہ فرمایا کہ رمی کے بعد حلق درست ہے اور اس کے لیے لباس پہننا اور خوشبو لگانا جائز ہے۔
نظر کا تقاضا :
غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ احرام نے حلق سر ‘ لباس ‘ خوشبو سب کو حرام کردیا۔ پس یہ قرین قیاس ہے کہ جب سر منڈوانا جائز ہوجائے تو یہ سب جائز ہوجائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ حلق تک حلال نہ ہوں۔ ہم نے اعتبار کرتے ہوئے دیکھا کہ معتمر پر اس کے احرام سے وہ تمام چیزیں حرام ہوجاتی ہیں جو حج کے احرام سے حرام ہوتی ہیں عمرے میں غور کیا کہ سعی صفا ومروہ کے بعد حلق بھی حلال ہوگیا مگر عورتیں ‘ خوشبو ‘ لباس حلق کے بعد حلال ہوتا ہے۔
پس جب عمرہ کی حرمت باقی ہے تو اس کے لیے حلق کروانا تو حلال ہے مگر حلق کے حلال ہونے سے وہ حلال کے حکم میں نہیں ہوا کہ اس کو لباس و خوشبو حلال ہو۔ اسی طرح یہ بھی پسندیدہ نہیں کہ اب اس کو حلق درست ہوگیا اور اس کے ماسواء چیزیں بھی حلال ہوگئیں جب تک کہ وہ حلق نہ کر والے۔ نظر کا تقاضا یہی ہے۔
نظر ثانی : احرام سے پہلے اس کو عورتیں ‘ خوشبو ‘ لباس ‘ شکار ‘ حلق یہ سب چیزیں حلال تھیں جب احرام باندھ لیا تو احرام سے سب حرام ہوگئیں۔ اب احرام کھولتے وقت دو احتمال ہیں۔ نمبر ایک کہ تمام یکبارگی حلال ہوجائیں۔ نمبر دو یکے بعد دیگرے حلال ہوں۔ غور کرنے سے معلوم ہوا کہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ جب وہ رمی کرے تو اس کو حلق حلال ہوجاتا ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ جماع حرام ہے۔ پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ ایک سبب کے حرام ہونے والی اشیاء مختلف طور پر حلال ہوئیں پس یکبارگی حلال ہونے کا احتمال باطل ہوا۔
اب جبکہ رمی سے اس کو حلق حلال ہوا ہے تو اسے جسم کے تمام بال مونڈنے درست ہیں۔ اسی طرح ناخن کاٹنا نہانا وغیرہ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا اس کا حکم جماع کی طرح ہے یا نہیں کہ جب جماع حلال ہو تو یہ حلال ہو۔
غور کرنے سے معلوم ہوا کہ محرم بالحج وقوف عرفات سے پہلے جماع کرے تو اس کا حج فاسد ہوجاتا ہے مگر بال کاٹنے یا ناخن کاٹنے سے حج فاسد نہیں ہوتا صرف فدیہ لازم آتا ہے اسی طرح اگر اس نے کپڑا پہن لیا پھر بھی حج فاسد نہ ہوگا اور نہ احرام۔ البتہ فدیہ لازم ہوگا۔
حاصل روایت : اب نتیجہ یہ نکلا کہ لباس اور بال کاٹنے کا حکم وقوف عرفات سے پہلے برابر ہے مگر جماع کا حکم ان دونوں سے مختلف ہے۔ پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ رمی و حلق کے بھی ایک جیسا رہے گا جماع کی طرح نہ ہوگا۔ پس رمی و حلق کے بعد لباس و طیب کا ایک حکم ہوگا۔
ایک اشکال بارد :
محرم کو بیوی کا بوسہ حرام ہے اور حلق کے بعد بھی حرام ہے وقوف عرفات سے پہلے یہ لباس کے حکم میں تھا جماع کے حکم میں نہ تھا پس حلق کے بعد بھی لباس جائز نہ ہونا چاہیے۔ بلکہ بوسے کی طرح حرام ہونا چاہیے۔
لباس کی مشابہت حلق کے ساتھ بوسے کی بنسبت زیادہ ہے اور قبلہ کی مشابہت لباس کے مقابلہ میں جماع سے زیادہ ہے کیونکہ : قبلہ اسباب جماع سے ہے تو جب جماع حرام ہے تو اسباب جماع بھی حرام ہونے چاہئیں اور جہاں جماع حلال ہوگا وہاں قبلہ بھی حلال ہوگا۔ لباس و حلق یہ اسباب جماع سے نہیں ہے بلکہ اصلاح بدن کے اسباب سے ہے فلہذا لباس کو حلق کے ساتھ زیادہ مشابہت کی وجہ سے حلق کے بعد پہننے کا جواز ہونا چاہیے پس ثابت ہوا کہ حلق کے بعد لباس میں حرج نہیں بوسہ میں حرج ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔