HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

3997

۳۹۹۷ : حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوْقٍ‘ قَالَ : ثَنَا الْخَصِیْبُ‘ قَالَ : ثَنَا وُہَیْبٌ‘ عَنْ أَیُّوْبَ‘ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ‘ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مِثْلَہٗ .فَھٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ‘ یُوْجِبُ عَلٰی مَنْ قَدَّمَ شَیْئًا مِنْ نُسُکِہٖ أَوْ أَخَّرَہٗ دَمًا‘ وَہُوَ أَحَدُ مَنْ رَوٰی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ مَا سُئِلَ یَوْمَئِذٍ عَنْ شَیْئٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ مِنْ أَمْرِ الْحَجِّ إِلَّا قَالَ " لَا حَرَجَ " .فَلَمْ یَکُنْ مَعْنٰی ذٰلِکَ عِنْدَہٗ مَعْنَی الْاِبَاحَۃِ فِیْ تَقْدِیْمِ مَا قَدَّمُوْا‘ وَلَا فِیْ تَأْخِیْرِ مَا أَخَّرُوْا‘ مِمَّا ذَکَرْنَا‘ اِذْ کَانَ یُوْجِبُ فِیْ ذٰلِکَ دَمًا .وَلٰـکِنْ کَانَ مَعْنٰی ذٰلِکَ عِنْدَہٗ‘ عَلٰی أَنَّ الَّذِیْ فَعَلُوْہُ فِیْ حَجَّۃَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ کَانَ عَلَی الْجَہْلِ مِنْہُمْ بِالْحُکْمِ فِیْہِ کَیْفَ ہُوَ ؟ فَعَذَرَہُمْ بِجَہْلِہِمْ وَأَمَرَہُمْ فِی الْمُسْتَأْنَفِ أَنْ یَتَعَلَّمُوْا مَنَاسِکَہُمْ .وَتَکَلَّمَ النَّاسُ بَعْدَ ھٰذَا فِی الْقَارِنِ اِذَا حَلَقَ قَبْلَ أَنْ یَذْبَحَ .فَقَالَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ (عَلَیْہِ دَمٌ) وَقَالَ زَفَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (عَلَیْہِ دَمَانِ) .وَقَالَ أَبُوْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٌ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ (لَا شَیْئَ عَلَیْہِ) وَاحْتَجَّا فِیْ ذٰلِکَ بِقَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلَّذِیْنَ سَأَلُوْہُ عَنْ ذٰلِکَ‘ عَلٰی مَا قَدْ رَوَیْنَا فِی الْآثَارِ الْمُتَقَدِّمَۃِ‘ وَبِجَوَابِہٖ لَہُمْ أَنْ لَا حَرَجَ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ .وَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمَا فِیْ ذٰلِکَ لِأَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَزَفَرَ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ‘ مَا ذَکَرْنَا مِنْ شَرْحِ مَعَانِیْ ھٰذِہِ الْآثَارِ .وَحَجَّۃٌ أُخْرَی‘ وَہِیَ أَنَّ السَّائِلَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ لَمْ یَعْلَمْ‘ ہَلْ کَانَ قَارِنًا أَوْ مُفْرِدًا‘ أَوْ مُتَمَتِّعًا فَإِنْ کَانَ مُفْرِدًا فَأَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ‘ وَزَفَرُ‘ لَا یُنْکِرَانِ أَنْ یَّکُوْنَ لَا یَجِبُ عَلَیْہِ فِیْ ذٰلِکَ دَمٌ‘ لِأَنَّ ذٰلِکَ الذَّبْحَ الَّذِیْ قَدَّمَ عَلَیْہِ الْحَلْقَ‘ ذَبْحٌ غَیْرُ وَاجِبٍ‘ وَلٰـکِنْ کَانَ أَفْضَلَ لَہٗ أَنْ یُقَدِّمَ الذَّبْحَ قَبْلَ الْحَلْقِ‘ وَلٰکِنَّہٗ اِذَا قَدَّمَ الْحَلْقَ أَجْزَأَہٗ‘ وَلَا شَیْئَ عَلَیْہِ .وَإِنْ کَانَ قَارِنًا‘ أَوْ مُتَمَتِّعًا‘ فَکَانَ جَوَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ‘ عَلٰی مَا ذَکَرْنَا .فَقَدْ ذَکَرْنَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی التَّقْدِیْمِ فِی الْحَجِّ وَالتَّأْخِیْرِ‘ أَنَّ فِیْہِ دَمًا‘ وَأَنَّ قَوْلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا حَرَجَ " لَا یَدْفَعُ ذٰلِکَ .فَلَمَّا کَانَ قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ذٰلِکَ " لَا حَرَجَ " لَا یَنْفِیْ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وُجُوْبَ الدَّمِ‘ کَانَ کَذٰلِکَ أَیْضًا لَا بِنَفْیِہِ‘ عِنْدَ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَزَفَرَ‘ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ‘ وَکَانَ الْقَارِنُ ذَبْحُہُ ذَبْحٌ وَاجِبٌ عَلَیْہٖ‘ یَحِلُّ بِہٖ۔ فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِی الْأَشْیَائِ الَّتِیْ یَحِلُّ بِہَا الْحَاجُّ اِذَا أَخَّرَہَا‘ حَتّٰی یَحِلَّ‘ کَیْفَ حُکْمُہَا .فَوَجَدْنَا اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ قَالَ (وَلَا تَحْلِقُوْا رُئُ وْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗ) فَکَانَ الْمُحْصَرُ یَحْلِقُ بَعْدَ بُلُوْغِ الْہَدْیِ مَحِلَّہٗ، فَیَحِلُّ بِذٰلِکَ‘ وَإِنْ حَلَقَ قَبْلَ بُلُوْغِہِ مَحِلَّہٗ، وَجَبَ عَلَیْہِ دَمٌ وَھٰذَا إِجْمَاعٌ .فَکَانَ النَّظَرُ عَلٰی ذٰلِکَ عَلٰی أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ‘ الْقَارِنُ اِذَا قَدَّمَ الْحَلْقَ قَبْلَ الذَّبْحِ‘ الَّذِیْ یَحِلُّ بِہٖ أَنْ یَّکُوْنَ عَلَیْہِ دَمٌ‘ قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا ذَکَرْنَا مِنْ ذٰلِکَ .فَبَطَلَ بِھٰذَا مَا ذَہَبَ إِلَیْہِ أَبُوْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٌ رَحِمَہُمَا اللّٰہُ‘ وَثَبَتَ مَا قَالَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ‘ أَوْ مَا قَالَ زَفَرُ رَحِمَہُ اللّٰہُ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ‘ فَإِذَا ھٰذَا الْقَارِنُ قَدْ حَلَقَ رَأْسُہٗ فِیْ وَقْتٍ‘ الْحَلْقُ عَلَیْہِ حَرَامٌ‘ وَہُوَ فِیْ حُرْمَۃِ حَجَّۃٍ‘ وَفِیْ حُرْمَۃِ عُمْرَۃٍ .وَکَانَ الْقَارِنُ مَا أَصَابَ فِیْ قِرَانَہٗ‘ مِمَّا لَوْ أَصَابَہُ وَہُوَ فِیْ حَجَّۃٍ مُفْرَدَۃٍ‘ أَوْ عُمْرَۃٍ مُفْرَدَۃٍ‘ وَجَبَ عَلَیْہِ دَمٌ‘ فَإِذَا أَصَابَہُ وَہُوَ قَارِنٌ‘ وَجَبَ عَلَیْہِ دَمَانِ‘ فَاحْتُمِلَ أَنْ یَّکُوْنَ حَلْقُہُ أَیْضًا قَبْلَ وَقْتِہٖ، یُوْجِبُ عَلَیْہِ أَیْضًا دَمَیْنِ‘ کَمَا قَالَ زَفَرُ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ‘ فَوَجَدْنَا الْأَشْیَائَ الَّتِیْ تُوْجِبُ عَلَی الْقَارِنِ دَمَیْنِ‘ فِیْمَا أَصَابَ فِیْ قِرَانِہِ ہِیَ الْأَشْیَائَ الَّتِیْ لَوْ أَصَابَہَا وَہُوَ فِیْ حُرْمَۃِ حَجَّۃٍ‘ أَوْ فِیْ حُرْمَۃِ عُمْرَۃٍ وَجَبَ عَلَیْہِ دَمٌ .فَإِذَا أَصَابَہَا فِیْ حُرْمَتِہِمَا وَجَبَ عَلَیْہِ دَمَانِ‘ کَالْجِمَاعِ‘ وَمَا أَشْبَہَہُ وَکَانَ حَلْقُہُ قَبْلَ أَنْ یَذْبَحَ‘ لَمْ یَحْرُمْ عَلَیْہِ بِسَبَبِ الْعُمْرَۃِ خَاصَّۃً‘ وَلَا بِسَبَبِ الْحَجِّ خَاصَّۃً‘ إِنَّمَا وَجَبَ عَلَیْہِ بِسَبَبِہِمَا‘ وَبِحُرْمَۃِ الْجَمْعِ بَیْنَہُمَا‘ لَا بِحُرْمَۃِ الْحَجَّۃِ خَاصَّۃً‘ وَلَا بِحُرْمَۃِ الْعُمْرَۃِ خَاصَّۃً .فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِیْ حُکْمِ مَا یَجِبُ بِالْجَمْعِ‘ ہَلْ ہُوَ شَیْئَانِ أَوْ شَیْء ٌ وَاحِدٌ ؟ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ‘ فَوَجَدْنَا الرَّجُلَ اِذَا أَحْرَمَ بِحَجَّۃٍ مُفْرَدَۃٍ‘ أَوْ بِعُمْرَۃٍ مُفْرَدَۃٍ‘ لَمْ یَجِبْ عَلَیْہِ شَیْء ٌ‘ وَإِذَا جَمَعَہُمَا جَمِیْعًا‘ وَجَبَ عَلَیْہِ لِجَمْعِہِ بَیْنَہُمَا شَیْء ٌ لَمْ یَکُنْ یَجِبُ عَلَیْہِ فِیْ إِفْرَادِہِ کُلُّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا‘ فَکَانَ ذٰلِکَ الشَّیْئُ دَمًا وَاحِدًا .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ‘ أَنْ یَّکُوْنَ کَذٰلِکَ الْحَلْقُ‘ قَبْلَ الذَّبْحِ الَّذِیْ مَنَعَ مِنْہُ الْجَمْعُ بَیْنَ الْعُمْرَۃِ وَالْحَجِّ‘ فَلاَ یَمْنَعُ مِنْہُ وَاحِدَۃٌ مِنْہُمَا‘ لَوْ کَانَتْ مُفْرَدَۃً أَنْ یَّکُوْنَ الَّذِیْ یَجِبُ بِہٖ فِیْہِ دَمٌ وَاحِدٌ .فَیَکُوْنُ أَصْلُ مَا یَجِبُ عَلَی الْقَارِنِ فِی انْتِہَاکِہِ الْحَرَمَ فِیْ قِرَانِہِ‘ أَنْ نَنْظُرَ فِیْمَا کَانَ مِنْ تِلْکَ الْحُرُمِ‘ تُحَرَّمُ بِالْحَجَّۃِ خَاصَّۃً‘ وَبِالْعُمْرَۃِ خَاصَّۃً .فَإِذَا جُمِعَتَا جَمِیْعًا‘ فَتِلْکَ الْحُرْمَۃُ مُحَرَّمَۃٌ لِشَیْئَیْنِ مُخْتَلِفَیْنِ‘ فَیَکُوْنُ عَلٰی مَنْ انْتَہَکَہُمَا کَفَّارَتَانِ .وَکُلُّ حُرْمَۃٍ لَا تُحَرِّمُہَا الْحَجَّۃُ عَلَی الِانْفِرَادِ‘ وَلَا الْعُمْرَۃُ عَلَی الِانْفِرَادِ‘ یُحَرِّمُہَا الْجَمْعُ بَیْنَہُمَا‘ فَإِذَا اُنْتُہِکَتْ‘ فَعَلَی الَّذِی انْتَہَکَہَا دَمٌ وَاحِدٌ‘ لِأَنَّہٗ انْتَہَکَ حُرْمَۃً حَرُمَتْ عَلَیْہِ بِسَبَبٍ وَاحِدٍ .فَھٰذَا ہُوَ النَّظْرُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَبِہٖ نَأْخُذُ۔
٣٩٩٧: ایوب نے سعید بن جبیر (رض) سے انھوں نے ابن عباس (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ یہ ابن عباس (رض) ہیں جو اس آدمی پر قربانی کو لازم کر رہے ہیں جس نے حج کے اعمال میں تقدیم و تاخیر کرے اور آپ ان حضرات میں سے ایک ہیں جنہوں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ اس حجۃ الوداع کے دن اگر آپ سے کسی حکم حج کی تاخیر و تقدیم کا پوچھا گیا تو یہی جواب دیا لا حرج “ تو گویا ان کے ہاں اس کا یہ معنیٰ نہیں کہ تقدیم و تاخیر مباح ہے۔ اس لیے کہ وہ فتوی میں اس پر قربانی لازم کر رہے ہیں۔ بلکہ ان کے ہاں اس کا مطلب یہ تھا کہ جن حضرات نے حجۃ الوداع کے موقع پر ایسا کیا وہ حکم سے ناواقف تھے آپ نے علم نہ ہونے کی وجہ سے ان کو معذور قرار دیا اور ان کو حکم فرمایا کہ وہ مناسک کو آئندہ سیکھ لیں۔ لوگوں نے قارن سے متعلق گفتگو کی ہے جو کہ ذبح سے پہلے سرمنڈائے۔ ! امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا اس پر ایک قربانی ہوگی ۔ " امام زفر (رح) اس پر دو قربانی لازم کرتے ہیں ۔# ابو یوسف ومحمد (رح) فرماتے ہیں اس پر کچھ بھی لازم نہیں۔ امام ابو یوسف ‘ محمد (رح) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد سے استدلال کیا ہے جو آپ نے سائلین سے لا حرج ‘ ‘ فرمایا ۔ گزشتہ سطور میں ہم اس کو ذکر کر آئے۔ امام ابوحنیفہ اور زفر (رح) کی طرف سے ان کے خلاف وہ دلیل ہے جو ہم نے آثار کی تشریح میں ذکر کی ہے ‘ اور مزید دلیل یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کرنے والے کے متعلق یہ علم نہیں ہے کہ وہ قارن ‘ متمتع ‘ مفرد میں سے کون سا تھا۔ اگر مفرد تھا تو امام ابوحنیفہ وزفر اس پر عدم وجوب قربانی کے منکر نہیں کیونکہ جس قربانی پر اس نے حلق کو مقدم کیا وہ لازم نہ تھی بلکہ اسے افضل یہ تھا کہ وہ ذبح کے بعد حلق کرے مگر جب اس نے حلق کو پہلے کرایا تو یہ اس کے لیے کافی ہے اور اس پر کچھ ازم نہ ہوگا اور اگر وہ قارن یا متمتع ہے۔ تو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جواب وہی معنیٰ رکھتا ہے جو ہم پہلے ذکر کر آئے کہ تقدیم و تاخیر احکام حج میں ابن عباس (رض) دم کو لازم فرماتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان لا حرج میں اس کی نفی نہیں جب ابن عباس (رض) کے ہاں آپ کا قول ” لا حرج “ وجوب قربانی کی نفی نہیں کرتا ۔ تو امام ابوحنیفہ وزفر کے ہاں بھی وہ نفی نہ کرے گا۔ اور قارن کا ذبیحہ واجب ذبیحہ تھا وہ اس کے ذریعہ احرام سے نکلتا ہے۔ اب ہم اس پر غور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا امور ہیں۔ جن کے ذریعہ حاجی احرام سے باہر آتا ہے۔ کہ اگر وہ ان کو مؤخر کرے اور احرام سے نکل گیا تو پھر اس کا کیا حکم ہوگا ۔ ہم نے قرآن میں فرمان الٰہی پایا ولا تحلقوا رء وْسکم حتی یبلغ الھدی محلہ۔۔۔ کہ قربانی کے قربان گاہ تک پہنچنے سے پہلے تم سر نہ منڈواؤ۔ پس وہ شخص جس کو حج میں رکاوٹ آجائے وہ ھدی کے قربان گاہ تک پہنچنے پر حلق کرواتا ہے اور اس کے ساتھ وہ احرام سے فارغ ہوجاتا ہے اور اگر اس نے قربانی کے حرم تک پہنچنے سے پہلے حلق کروالیا تو اس پر دم لازم ہے اور اس پر تمام کا اتفاق ہے۔ پس ہم نے اس میں غور وفکر کیا تو معلوم ہوا کہ اس قارن نے ایسے وقت سرمنڈوایا ہے جب سر منڈوانا اس پر حرام تھا یعنی وہ حج یا عمرہ کے احرام کی حالت میں ہو۔ قارن جب ایسا عمل کرے کہ اگر وہ حج مفرد والا کرتا تو اس پر ایک قربانی لازم ہوتی یا فقط عمرہ کرتا تو ایک دم آتا جب وہ قارن اس کا مرتکب ہوا تو اس پر دو قربانیاں لازم ہوں گی ۔ اب اس میں یہ احتمال ہوا کہ وقت سے پہلے حلق پر بھی اسے دو قربانیاں لازم ہونی چاہئیں۔ جیسا کہ امام زفر (رح) کا قول ہے اب ہم نے اس میں غور وفکر کیا کہ بعض امور میں قارن پر دو قربانیاں لازم کرتے ہیں جبکہ وہ قران کے احرام میں کرے اور اگر وہ اشیاء احرام حج یا فقط عمرہ والا کرے تو اس پر ایک قربانی لازم ہے۔ پس اب قارن نے اس کا ارتکاب دونوں احراموں میں کیا تو اس پر دو دم ہیں مثلاً جماع اور اس کے مشابہ امور اور اس کا حلق ذبح سے پہلے عمرہ کی وجہ سے حرام نہیں ہوتا اور نہ حج کی وجہ سے حرام ہوتا ہے۔ بلکہ یہ دونوں کی وجہ سے لازم ہوا بلکہ جمع کرنے کی حرمت سے حرام ہوا ۔ فقط حج یا فقط عمرہ اس کو حرام نہیں کرتے۔ اب ہم حج وعمرہ کے جمع کرنے کی صورت میں کیا چیز لازم آتی ہے۔ اس پر غور کرنا چاہتے ہیں ‘ کیا یہ دو چیزیں ہیں یا ایک ہی ہے۔ غور سے معلوم ہوا کہ جب کوئی حج یا عمرہ کا صرف احرام باندھے تو اس پر کچھ لازم نہیں ہے اور جب اس نے دونوں کو جمع کرلیا۔ تو اس کے جمع کی وجہ سے وہ چیز لازم آتی ہے جو انفرادی طور پر ان کی ادائیگی نے لازم نہیں ہے۔ اور وہ ایک قربانی ہے۔ پس نظر و فکر چاہتے ہیں کہ حلق جو ذبح سے پہلے ہو جس کو حج وعمرہ کے اکٹھ نے منع کیا ہے۔ اگر ان میں سے ایک ہوتا تو وہ اس سے منع نہ کرتا۔ اگر وہ افراد ہوتا تو اس پر ایک دم لازم ہوتا ۔ تو وہ اصل جس کی بےحرمتی پر قران میں جو چیز لازم ہوتی ہے۔ تو اس پر غور کرنا ہوگا کہ وہ حرمت حج اور عمرہ جب جمع ہوں تو ان کی وجہ سے خاص ہے۔ اور یہ حرمت دو مختلف چیزوں کی وجہ سے ہوئی پس ان دونوں کی خلاف ورزی پر دو کفارے لازم ہوں گے ‘ اور ہر وہ حرمت جو صرف حج یا صرف عمرہ سے نہیں ہوتی وہ ان دونوں کے اجتماعی طور پر کرنے سے پیدا ہوتی ہے ‘ پس جو شخص اسے توڑ دے گا اس پر ایک قربانی لازم ہوگی۔ اس لیے کہ اس نے ایسی حرمت کو پائمال کیا ہے جو ایک سبب سے حرام ہوتی تھی۔ نظر کا اس باب میں یہی تقاضا ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی قول ہے اور ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں۔
امام طحاوی (رح) کا قول :
یہ ابن عباس (رض) ہیں جو تقدیم و تاخیر کرنے والے پر دم کو لازم قرار دے رہے ہیں اور یہ بھی ان روات میں سے ہیں جو جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہر پوچھی جانے والی چیز کا جواب ” لاحرج “ نقل کرنے والے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ” لاحرج “ کا معنی ان کے ہاں مباح کرنے کا نہ تھا بلکہ گناہ کی نفی کا تھا اور جرمانے کا لازم ہونا گناہ کے اٹھائے جانے کے خلاف نہیں ہے ورنہ وہ اس میں دم کو لازم قرار نہ دیتے اسی لیے تو ان کی ناواقفی کی بناء پر گناہ کو اٹھا لیا گیا اور لوٹاتے ہوئے فرمایا اپنے حج کے احکام سیکھو۔
قارن کے متعلق اختلاف کی وضاحت :
نمبر 1: امام ابوحنیفہ (رح) نے قارن کے مناسک کو آگے پیچھے کرنے کی صورت میں اس پر ایک دم لازم کیا ہے یعنی ایک دم جرمانہ دوسرا دم شکرانہ۔
نمبر 2: امام زفر (رح) اس پر جرمانے کے دو دم لازم قرار دیتے ہیں۔
نمبر 3: امام ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ اس پر کسی چیز کو لازم قرار نہیں دیتے ان کے دلائل فصل اول میں مندرج ” لاحرج “ والی روایات ہیں۔
مگر امام ابوحنیفہ اور زفر رحمہم اللہ کی جانب سے ایک روایت ابن عباس (رض) ہی دلیل کے طور پر کافی ہے کہ جس میں انھوں نے دم کو لازم قرار دیا ہے۔
دوسری دلیل یہ ہے ماقبل جو روایات گزریں ان میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسئلہ دریافت کرنے والے لوگوں کے متعلق یہ قطعاً وضاحت نہیں ہے کہ وہ مفرد ‘ متمتع ‘ قارن میں سے کس قسم میں ہیں۔
پس اگر وہ مفرد بالحج ہے تو ابوحنیفہ (رح) اور زفر (رح) اس کے منکر نہیں ہیں کہ ان پر دم لازم نہیں ہوتا کیونکہ جس قربانی پر حلق کو مقدم کیا گیا وہ غیر واجب قربانی ہے البتہ اس کو بھی افضل یہی ہے کہ وہ حلق سے پہلے ذبح کرے اور اگر اس نے مقدم کر ہی لیا تو کفایت کر جائے گا اور اس پر دم لازم نہ ہوگا۔
اور اگر وہ قارن یا متمتع ہے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جواب ” لاحرج “ اس سے گناہ کی نفی کرنا مقصود ہوگی اور رہا جرمانہ اس کا تذکرہ ان روایات میں نہیں بلکہ ابن عباس (رض) کی روایات میں ہے اور یہ دونوں روایات ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہیں۔ پس ” لاحرج “ دم کی نفی نہیں کرنا اور وجوب دم سے ” لاحرج “ کی مخالفت لازم نہیں آتی۔ پس قارن پر دم لازم ہوگا۔
نظر اوّل :
ہم جب ان اشیاء پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ جن سے حاجی حلال ہوجاتا ہے اگر ان کو مؤخر کر دے کہ ان کا حکم کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ : ” ولا تحلقو رؤسکم حتی یبلغ الہدی محلہ “ (البقرہ : ١٩٦) اس آیت میں دم احصار کا ذکر ہے کہ محصر اس وقت تک حلق نہیں کرسکتا جب تک کہ ہدی حدود حرم میں نہ پہنچ جائے جب پہنچ گیا تو وہ حلال ہوجائے اور اگر اس نے ہدی کے حرم میں پہنچنے سے پہلے حلق کروا دی تو اس پر دم لازم ہوجائے گا اس پر سب کا اتفاق ہے۔
پس نظر کا تقاضا یہ ہے کہ قارن کا حکم بھی یہی ہونا چاہیے جبکہ وہ حلق کو ذبح پر مقدم کر دے پس بتقاضائے نظر فریق ثالث یعنی صاحبین کا دعویٰ درست نہ رہے گا اور فریق اوّل و دوم کا دعویٰ قائم و ثابت ہوجائے گا۔
نظرثانی۔ فنظرنا فی ذلک سے اسی کو ذکر کیا :
جب قارن ایسے وقت میں حلق کرے گا جس میں حلق کرنا اس پر حرام ہے تو ارتکاب حرمت کی وجہ سے اس پر جرمانہ لازم ہوگا مگر جب وہ حرام کا ارتکاب کررہا تھا اس وقت وہ دو حرمتوں کے دائرہ میں داخل تھا۔ ایک حرمت حج اور دوسرا حرمت عمرہ۔ پس اکیلے حج یا عمرہ کرنے والے پر جب ایک دم لازم ہوتا ہے تو قارن پر دو حرمتوں کی وجہ سے دو دم لازم ہوں گے۔ اب توجہ طلب یہ ہے کہ وقت سے پہلے حلق کرنے کی وجہ سے ایک دم لازم ہوگا یا دو ۔ تو جب حرمتیں دو ہیں تو دم بھی دو ہوں گے۔ حج کے اعمال پر غور سے معلوم ہوتا ہے کہ جن کاموں میں مفرد بالحج یا معتمر پر ایک دم لازم ہوتا ہے مثلاً جماع وغیرہ تو قارن پر ان صورتوں میں دو دم لازم آتے ہیں کیونکہ وہ تو ایک حرمت کی مخالفت کرنے والا ہے اور یہ دو حرمتوں کی مخالفت کرنے والا ہے اور قارن نے ذبح سے پہلے حلق کر کے حرمت عمرہ اور حرمت حج دونوں کو پامال کیا اس لیے اس پر دو دم ہی لازم ہونے چاہئیں۔
نظر ثالث ‘ فاردنا ان ننظر سے اسی کو بیان فرمایا :
غور فرمائیں کہ حج وعمرہ اکٹھا ایک چیز ہے یا الگ الگ دو چیزیں ہیں معلوم ہوا کہ اگر فقط حج کا احرام باندھتا یا فقط عمرہ کا احرام باندھتا تو اس پر کوئی قربانی لازم نہ تھی اور اگر دونوں کو جمع کرلیا خواہ ایک احرام میں یا دو احراموں میں تو اس پر ایک قربانی واجب ہوجاتی ہے اور اس کا سبب دونوں کو جمع کرنا ہے۔ پس معلوم ہوا حج وعمرہ کو جمع کرنا سبب ہے اور جمع کی وجہ سے قارن پر ایک دم شکر ضروری ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح ذبح سے پہلے حلق کرنے میں حرمت بھی جمع ہوگئی اس لیے ایک دم ہی لازم ہوگا کیونکہ مفرد بالحج یا معتمر پر تو حلق و ذبح میں تقدیم و تاخیر سے کوئی چیز لازم نہیں آتی۔ تو قارن پر دو تاوان کیسے لازم کردیئے جائیں گے حرمت جمع کی وجہ سے اس پر صرف ایک ہی جرمانہ لازم آئے گا۔
ایک کلیہ : ہر وہ حرمت جس کی مخالفت کی وجہ سے مفرد یا معتمر پر ایک دم واجب ہوتا ہے اس کو خراب کرنے اور اس کی مخالفت کی وجہ سے قارن پر دو مختلف حرمتوں کی وجہ سے دو کفارے واجب ہوں گے۔ اور ہر وہ حرمت جس کو صرف حج یا صرف عمرہ حرام نہیں کرتا اس کی مخالفت کی وجہ سے مفرد یا معتمر پر کوئی جرمانہ لازم نہیں ہوتا ہے مگر حج وعمرہ کو جمع کرنا اس کو حرام کررہا ہے تو اس کی مخالفت کی وجہ سے جمع بین الحج والعمرہ کرنے والے قارن پر صرف ایک جرمانہ اور ایک دم لازم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جمع کا سبب ایک سبب ہے اس لیے جرمانہ بھی ایک ہی ہونا چاہیے اور حلق کو ذبح پر مقدم کرنے میں مفرد بالحج پر کوئی جرمانہ عائد نہیں ہوتا ہے اس وجہ سے قارن پر صرف ایک جرمانہ لازم ہوسکتا ہے۔ اس باب میں نظر کا یہی تقاضا ہے۔
اور امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی قول ہے۔
حاصل کلام : اس باب میں امام طحاوی (رح) نے ابوحنیفہ (رح) کے قول کو پہلے ذکر کیا اور دلائل میں اپنے سابقہ طرز سے امام صاحب کے مسلک کی ترجیح کے لیے آخر میں لا کر اس کو راجح قرار دیا۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔