HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

4110

۴۱۱۰ : حَدَّثَنَا یُوْنُسُ قَالَ : أَنَا ابْنُ وَہْبٍ‘ أَنَّ مَالِکًا حَدَّثَہٗ، عَنِ ابْنِ أَبِیْ بَکْرٍ‘ عَنْ عَمْرَۃَ‘ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مِثْلَہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَذْکُرْ الزِّیَادَۃَ الَّتِیْ فِیْہِ عَلٰی مَا قَبْلَہٗ۔فَقَدْ تَوَاتَرَتْ ھٰذِہِ الْآثَارُ‘ عَنْ عَائِشَۃَ بِمَا ذَکَرْنَا‘ بِمَا لَمْ یَتَوَاتَرْ عَنْ غَیْرِہَا‘ بِمَا یُخَالِفُ ذٰلِکَ .فَإِنْ کَانَ ھٰذَا یُؤْخَذُ مِنْ طَرِیْقِ صِحَّۃِ الْأَسَانِیْدِ‘ فَإِنَّ إِسْنَادَ حَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ھٰذَا‘ إِسْنَادٌ صَحِیْحٌ‘ لَا تَنَازُعَ بَیْنَ أَہْلِ الْعِلْمِ فِیْہِ . وَلَیْسَ حَدِیْثُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ کَذٰلِکَ‘ لِأَنَّ مَنْ رَوَاہُ‘ دُوْنَ مَنْ رَوَیْ حَدِیْثَ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا .وَإِنْ کَانَ ذٰلِکَ یُؤْخَذُ مِنْ طَرِیْقِ ظُہُوْرِ الشَّیْئِ ‘ وَتَوَاتُرِ الرِّوَایَۃِ بِہٖ، فَإِنَّ حَدِیْثَ عَائِشَۃَ أَیْضًا أَوْلَی‘ لِأَنَّ ذٰلِکَ مَوْجُوْدٌ فِیْہٖ‘ وَمَعْدُوْمٌ فِیْ حَدِیْثِ جَابِرٍ .وَإِنْ کَانَ ذٰلِکَ یُؤْخَذُ مِنْ طَرِیْقِ النَّظَرِ‘ فَإِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الَّذِیْنَ یَذْہَبُوْنَ إِلٰی حَدِیْثِ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُوْنَ (إِنَّ الْحُرْمَۃَ الَّتِیْ تَجِبُ عَلٰی بَاعِثِ الْہَدْیِ بِتَقْلِیْدِہِ إِیَّاہُ وَإِشْعَارِہِ‘ فَیَحِلُّ عَنْہُ اِذَا حَلَّ النَّاسُ بِغَیْرِ فِعْلٍ یَفْعَلُہٗ ہُوَ‘ فَیَحِلُّ بِہِ) .فَأَرَدْنَا أَنَّ نَنْظُرَ فِی الْاِحْرَامِ الْمُتَّفَقِ عَلَیْہٖ‘ ہَلْ ہُوَ کَذٰلِکَ أَمْ لَا ؟ فَرَأَیْنَا الرَّجُلَ اِذَا أَحْرَمَ بِحَجٍّ أَوْ عُمْرَۃٍ‘ فَقَدْ صَارَ مُحْرِمًا إِحْرَامًا مُتَّفَقًا عَلَیْہٖ‘ وَرَأَیْنَاہُ غَیْرَ خَارِجٍ مِنْ ذٰلِکَ الْاِحْرَامِ إِلَّا بِأَفْعَالٍ یَفْعَلُہَا‘ فَیَحِلُّ بِہَا مِنْہُ‘ وَلَا یَحِلُّ بِغَیْرِہَا .أَلَا تَرٰی أَنَّہٗ اِذَا کَانَ حَاجًّا‘ فَلَمْ یَقِفْ بِعَرَفَۃَ‘ حَتّٰی مَضَی وَقْتُہَا‘ أَنَّ الْحَجَّ قَدْ فَاتَہٗ‘ وَلَا یَحِلُّ إِلَّا بِفِعْلٍ یَفْعَلُہٗ مِنَ الطَّوَافِ بِالْبَیْتِ وَالسَّعْیِ بَیْنَ الصَّفَّا وَالْمَرْوَۃِ‘ وَالْحَلْقِ أَوْ التَّقْصِیْرِ .وَلَوْ وَقَفَ بِعَرَفَۃَ‘ وَفَعَلَ جَمِیْعَ مَا یَفْعَلُہٗ الْحَاجُّ‘ غَیْرَ الطَّوَافِ الْوَاجِبِ‘ لَمْ یَحِلَّ لَہٗ النِّسَائُ أَبَدًا حَتّٰی یَطُوْفَ الطَّوَافَ الْوَاجِبَ .وَکَذٰلِکَ الْعُمْرَۃُ لَا یَحِلُّ مِنْہَا أَبَدًا إِلَّا بِالطَّوَافِ بِالْبَیْتِ وَالسَّعْیِ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ‘ وَالْحَلْقِ الَّذِیْ یَکُوْنُ مِنْہُ بَعْدَ ذٰلِکَ .فَکَانَتْ ھٰذِہِ أَحْکَامَ الْاِحْرَامِ الْمُتَّفَقِ عَلَیْہٖ‘ لَا یُخْرِجُہُ مِنْہُ مُرُوْرُ مُدَّۃٍ‘ وَإِنَّمَا یُخْرِجُہُ مِنْہُ الْأَفْعَالُ .وَکَانَ مَنْ أَحْرَمَ بِعُمْرَۃٍ‘ وَسَاقَ الْہَدْیَ وَہُوَ یُرِیْدُ التَّمَتُّعَ‘ فَطَافَ لِعُمْرَتِہٖ وَسَعَی‘ لَمْ یَحِلَّ حَتّٰی یَفْرَغَ مِنْ حَجِّہِ وَیَنْحَرَ الْہَدْیَ .فَکَانَتْ ھٰذِہِ حُرْمَۃً زَائِدَۃً لِسَبَبِ الْہَدْیِ‘ لِأَنَّہٗ لَوْلَا الْہَدْیُ‘ لَکَانَ اِذَا طَافَ لِعُمْرَتِہٖ وَسَعَی‘ حَلَقَ وَحَلَّ لَہٗ‘ فَإِنَّمَا مَنَعَہُ مِنْ ذٰلِکَ الْہَدْیُ الَّذِی سَاقَہٗ‘ ثُمَّ کَانَ إِحْلَالُہٗ مِنْ تِلْکَ الْحُرْمَۃِ أَیْضًا إِنَّمَا یَکُوْنُ بِفِعْلٍ یَفْعَلُہُ‘ لَا بِمُرُوْرِ وَقْتٍ .فَکَانَ ھٰذَا الْاِحْرَامُ الْمُتَّفَقُ عَلَیْہِ لَا یَخْرُجُ مِنْہُ بِمُرُوْرِ الْأَوْقَاتِ وَلَا بِأَفْعَالٍ غَیْرِہِ‘ وَلٰـکِنْ بِأَفْعَالٍ یَفْعَلُہَا ہُوَ .وَکَأَنَّ مَنْ بَعَثَ بِہَدْیٍ‘ وَأَقَامَ فِیْ أَہْلِہٖ، وَأَمَرَ أَنْ یُقَلَّدَ وَیُشْعَرَ‘ فَوَجَبَ عَلَیْہِ بِذٰلِکَ التَّجْرِیْدُ‘ فِیْ قَوْلِ مَنْ یُوْجِبُ ذٰلِکَ‘ یَحِلُّ مِنْ تِلْکَ الْحُرْمَۃِ‘ لَا بِفِعْلٍ یَفْعَلُہُ‘ وَلٰـکِنْ فِیْ وَقْتِ مَا یَحِلُّ النَّاسُ .فَخَالَفَ ذٰلِکَ الْاِحْرَامَ الْمُتَّفَقَ عَلَیْہٖ‘ فَلَمْ یَجِبْ ثُبُوْتُہُ کَذٰلِکَ‘ لِأَنَّہٗ إِنَّمَا یَثْبُتُ الْأَشْیَائُ الْمُخْتَلَفُ فِیْہَا اِذَا أَشْبَہَتَ الْأَشْیَائَ الْمُجْتَمَعَ عَلَیْہَا .فَإِذَا کَانَتْ غَیْرَ مُشْبِہَۃٍ لَہَا‘ لَمْ یَثْبُتْ إِلَّا أَنْ یَّکُوْنَ مَعَہَا التَّوْقِیْتُ الَّذِیْ یَقُوْمُ بِہِ الْحُجَّۃُ‘ فَیَجِبُ الْقَوْلُ بِہَا لِذٰلِکَ .فَإِذَا وَجَبَ ذٰلِکَ‘ انْتَفَی الِاخْتِلَافُ‘ فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَا‘ صِحَّۃُ قَوْلِ مَنْ ذَہَبَ إِلٰی حَدِیْثِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا‘ وَفَسَادُ قَوْلِ مَنْ خَالَفَ ذٰلِکَ إِلٰی حَدِیْثِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ .وَھٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُوْسُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٤١١٠: عمرہ نے عائشہ (رض) اسی طرح روایت کی ہے البتہ ماقبل والا اضافہ نقل نہیں کیا۔ تو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے یہ روایات کثرت سے مروی ہیں ان کے خلاف دوسری روایات اس قدر کثرت سے وارد نہیں ہیں۔ اگر صحت سند کا لحاظ کیا جائے تو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایات صحیح السند نہیں ہیں۔ اس میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں۔ حضرت جابر (رض) والی روایت اس درجہ کی نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے روات حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی حدیث کے روات سے کم درجہ کے ہیں۔ اور اگر اسے کسی چیز کو صاف طور پر ظاہر ہونے اور کثرت روایت کا لحاظ کیا جائے تو پھر بھی حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت اولیٰ ہے۔ یہ چیز حضرت صدیقہ (رض) کی روایت میں موجود ہے اور روایت جابر (رض) میں موجود نہیں ہے اور اگر اس مسئلہ کو قیاس کے طور پر معلوم کریں تو ہم یہ بات پاتے ہیں کہ جو لوگ حضرت جابر (رض) کی روایت کو لیتے ہیں۔ ان الحرمۃ التی تجب۔ الحدیث کہ ھدی والے پر جو قلادہ ڈالنے اور اشعار کی وجہ سے حرمت حاصل ہوتی ہے۔ اس سے وہ کسی عمل کے بغیر باہر آجائے گا جب لوگ احرام سے فارغ ہوجائیں گے۔ پس ہم یہ نظر ڈالنا چاہتے ہیں کہ جس احرام پر اتفاق ہے اس کی کیا صورت ہے۔ چنانچہ ہم نے نظر ڈالی کہ جو شخص حج وعمرہ کا احرام باندھتا ہے۔ تو اس قسم کے احرام سے محرم بن جاتا ہے جس پر سب کا اتفاق ہے اور یہ بات جانی پہچانی ہے کہ وہ اس احرام سے بعض افعال سے باہر آتا ہے۔ ان کے علاوہ وہ احرام سے نکل نہیں سکتا ۔ کیا یہ بات نہیں کہ جب وہ حج کررہا ہو پس وہ عرفات میں وقوف نہ کرے یہاں تک کہ اس کا وقت گزر جائے تو اس کا حج فوت ہوجاتا ہے اور وہ اپنے احرام سے طواف بیت اللہ ‘ سعی صفا مروہ اور حلق یا قصر سے نکل سکتا ہے۔ اگر اس نے وقوف عرفات کرلیا اور حجاج کے تمام افعال انجام دیے۔ مگر طواف زیارت نہ کیا تو اس کے لیے عورتیں حلال نہ ہوں گی یہاں تک کہ وہ طواف کرے۔ اسی طرح عمرہ سے بھی اسی صورت میں فارغ ہوسکتا ہے جب بیت اللہ شریف کا طواف اور صفا مروہ کی سعی اور حلق کو کرلے ۔ یہ اس احرام کے احکام ہیں جس پر سب کا اتفاق ہے۔ وقت کا گزرنا احرام سے نکلنے کا باعث نہیں بن سکتا ۔ بلکہ اس سے نکلنے کے لیے مخصوص افعال ہیں جن کو انجام دینا پڑتا ہے۔ جو شخص عمرے کا احرام باندھ کر ھدی روانہ کرے اور اس کا ارادہ حج تمتع کا بھی ہو پس وہ عمرے کے لیے طواف وسعی کرے ۔ وہ جب تک حج سے فارغ نہ ہو لے اور قربانی نہ کرے وہ احرام سے نکل نہیں سکتا۔ تو یہ حرمت زائدہ ھدی کی وجہ سے آئی ہے۔ اگر ھدی نہ ہوتی تو جب اس نے طواف و سعی صفا مروہ کرلی اور سر منڈوالیتا تو وہ احرام سے نکل جاتا ۔ اس نکلنے سے اس کی روانہ کردہ ہدی رکاوٹ بنی۔ پھر اس احرام سے بھی خاص فعل کے ذریعہ نکلتا ہے فقط وقت گزرنے سے نہیں۔ یہ متفق علیہ احرام کے احکامات ہیں۔ جس سے باہر آنے کے لیے وقت کا گزر نا کافی نہیں اور نہ دیگر افعال جو مخصوص افعال سے باہر آتا ہے۔ جو شخص ہدی روانہ کر کے گھر میں مقیم رہے اور اسے قلادہ ڈالنے اور اشعار کا حکم دے تو ان لوگوں کے ہاں جو اس کی وجہ سے سلا ہوا لباس درست قرار نہیں دیتے اسے ان سلے لباس ( دو چادروں) میں رہنا ہوگا۔ اس حرمت سے وہ کسی عمل کے ذریعہ باہر نہیں آسکتا بلکہ لوگوں کے احرام میں نکلنے پر یہ بھی احرام سے نکل جائے گا ۔ تو یہ احرام اتفاقی احرام کے خلاف ہے۔ اس طرح اس احرام کا ثبوت لازم نہ ہوگا ۔ کیونکہ جن چیزوں میں اختلاف ہے وہ اس صورت میں ثابت ہوتی ہیں جب وہ اتفاقی اشیاء کے ساتھ مشابہت رکھتی ہوں۔ جب ان کے مشابہ نہ ہوں گی تو ثابت کیوں کر ہوں گی البتہ ان کے متعلق ایسی واقفیت ہونی چاہیے جو دلیل کا کام دے سکے۔ اس وقت اس کو ماننا لازم ہوگا۔ پس جب یہ بات واجب ہوگی تو پھر اختلاف والی بات کی نفی ہوجائے گی۔ ہماری مذکورہ بحث سے ان حضرات کا قول درست ثابت ہوا جنہوں نے روایت حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو اختیار کیا اور ان کے خلاف جن حضرات نے حضرت جابر (رض) کی روایت سے استدلال کیا ان کا قول نا درست ثابت ہوا ۔ حضرت امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا مسلک یہی ہے۔
حاصل روایات : وجوہ ترجیح حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت کو دو وجہ سے فضیلت حاصل ہے۔ نمبر ایک اسناد کی صحت کے اعتبار سے وہ روایات اصح ہیں جن کی صحت سند میں کسی کو اعتراض نہیں دوسرا جابر بن عبداللہ (رض) کی روایت اس درجہ کی نہیں۔ تیسرا شئی کے ظہور کے لحاظ سے اگر اس روایت کو دیکھا جائے تب بھی روایت عائشہ (رض) اولیٰ ہے۔
نظر طحاوی (رض) :
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ روایت جابر (رض) کی وجہ سے وہ آدمی جو ہدی روانہ کرے اس پر تمام محرمات احرام ثابت ہوجاتی ہیں وہ اس وقت ان محرمات سے نکلے گا جب ہدی کو ذبح کردیا جائے گا اور حجاج کرام طواف زیارت کر کے تمام محرمات سے نکل جائیں گے۔ وہ شخص بغیر کچھ کئے احرام کی پابندیوں سے نکل جائے گا۔
ذرا غور کی بات یہ ہے کہ اس احرام کو دیکھا جائے جس میں سب کا اتفاق ہے کہ اس میں بھی ایسا ہے یا نہیں۔ محرم بالحج یا بالعمرہ ایسے احرام میں داخل ہوتے ہیں جس میں کسی کو اختلاف نہیں۔ وہ اس احرام سے اس وقت نکلے گا جب کچھ خاص افعال کو انجام دے گا۔ ان افعال کو کرنے کے بغیر وہ احرام سے نکل نہیں سکتا۔
اب ذرا غور کریں کہ حاجی سے وقوف عرفات فوت ہوجائے تو اس سے حج فوت ہوجاتا ہے مگر وہ حلال نہیں ہوگا بلکہ دیگر حجاج کی طرح طواف زیارت سعی صفا ومروہ ‘ رمی جمار حلق وغیرہ کے افعال کرلے گا تو تب حلال ہوگا اور اگر وقوف میسر آگیا اور اس نے طواف زیارت کے علاوہ تمام افعال مکمل کر لیے تو طواف سے پہلے عورت حلال نہ ہوگی۔ عمرہ میں بھی طواف و سعی و حلق کے بغیر عمرہ سے حلال نہیں ہوسکتا۔
حاصل یہ ہے کہ وہ احرام جس کے متعلق سب کا اتفاق ہے اس میں زمانے کا گزرنا اور وقت کا چلے جانا حلال ہونے کا سبب نہیں بلکہ افعال مخصوصہ کی ادائیگی وہ حلال ہونے کا ذریعہ ہوگی۔ جو شخص حج تمتع کے ارادہ سے عمرہ کا احرام باندھ کر ہدی روانہ کرتا ہے اس کے بعد عمرہ کے لیے طواف و سعی سے فراغت حاصل کرلیتا ہے تو اس کے لیے ارکان حج اور ذبح ہدی سے پہلے حلال ہونا جائز نہیں ہے اور متمتع پر ہدی کے روانہ کرنے کی وجہ سے جو ایک زائد حرمت ہے۔ کیونکہ سوق ہدی نہ ہوتی تو حلال ہوجانا اس کے لیے جائز ہوتا پھر اس زائد حرمت سے بھی مخصوص افعال کی ادائیگی اختیار کرنے کے بعد حلال ہونا درست ہے۔ اوقات کے گزر جانے کی وجہ سے حلال نہ ہوگا۔
پس اس سے یہ معلوم ہوا کہ جب متفق علیہ احرام سے حلال ہونے کا دارومدار خاص افعال کی ادائیگی ہے۔ اوقات کا گزرنا نہیں تو اپنے وطن میں رہ کر ہدی روانہ کرنے کی وجہ سے تجرید اور محرمات احرام کا چھوڑنا فرق اول کے ہاں واجب ہے ہدی روانہ کرنے والا اس حرمت سے افعال مخصوصہ ادا کرنے کے بغیر محض وقت گزرنے سے حلال ہوجائے گا۔
اس اختلافی احرام کا یہ طریقہ متفق علیہ احرام کے طریقہ کے خلاف ہے اس لیے ہدی بھیجنے والے پر حرمت کا ثبوت نہ ہوگا۔ کیونکہ قاعدہ و اصول یہ ہے کہ مختلف فیہا اور مختلف فیہ احکام تب ثابت ہوتے ہیں جبکہ وہ احکام متفق علیہ کے ساتھ مشابہت اختیار کریں اور یہاں مشابہت کا وجود نہیں۔ اس لیے حرمت ثابت نہ ہوگی البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ احکام مختلف فیہا پر حجت قائم ہونے تک موقوف رہیں گے۔ جب ضابطہ سے یہ بات ثابت ہوگئی تو اختلاف بھی ختم ہوجائے گا اور فریق ثانی جو روایت حضرت عائشہ (رض) کو حجت پیش کرتے ہیں ان کا قول ثابت و صحیح ہوجائے گا۔ اور فریق اوّل کا قول دلیل نظری نادرست ٹھہرے گا۔
ہمارے علماء ثلاثہ یعنی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ و محمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔