HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

4135

۴۱۳۵ : حَدَّثَنَا فَہْدٌ قَالَ : ثَنَا أَبُوْ نُعَیْمٍ‘ قَالَ : ثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ‘ عَنْ مَیْمُوْنَ بْنِ مِہْرَانَ‘ قَالَ : (کُنْتُ عِنْدَ عَطَائٍ ‘ فَجَائَ ہٗ رَجُلٌ فَقَالَ : ہَلْ یَتَزَوَّجُ الْمُحْرِمُ ؟ فَقَالَ عَطَاء ٌ : مَا حَرَّمَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ النِّکَاحَ‘ مُنْذُ أَحَلَّہٗ .قَالَ مَیْمُوْنُ : فَقُلْتُ لَہٗ : إِنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیْزِ کَتَبَ إِلَیَّ : أَنْ سَلْ یَزِیْدَ بْنَ الْأَصَمِّ‘ أَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ تَزَوَّجَ مَیْمُوْنَۃَ‘ حَلَالًا‘ أَوْ حَرَامًا ؟ فَقَالَ یَزِیْدُ : تَزَوَّجَہَا وَہُوَ حَلَالٌ .فَقَالَ عَطَاء ٌ : مَا کُنَّا نَأْخُذُ ھٰذَا إِلَّا عَنْ مَیْمُوْنَۃَ‘ کُنَّا نَسْمَعُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَہَا وَہُوَ مُحْرِمٌ) .فَأَخْبَرَ جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ عَنْ مَیْمُوْنَ بْنِ مِہْرَانَ‘ بِالسَّبَبِ الَّذِیْ لَہٗ وَقَعَ إِلَیْہِ ھٰذَا الْحَدِیْثُ‘ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ الْأَصَمِّ‘ وَأَنَّہٗ إِنَّمَا کَانَ ذٰلِکَ مِنْ قَوْلِ یَزِیْدَ‘ لَا عَنْ مَیْمُوْنَۃَ‘ وَلَا عَنْ غَیْرِہَا ثُمَّ حَاجَّ مَیْمُوْنُ بِہٖ عَطَائً ‘ فَذَکَرَہٗ عَنْ یَزِیْدَ‘ وَلَمْ یُجَوِّزْہٗ بِہٖ۔ فَلَوْ کَانَ عِنْدَہٗ‘ عَمَّنْ ہُوَ أَبْعَدُ مِنْہُ‘ لَاحْتَجَّ بِہٖ عَلَیْہٖ‘ لِیُؤَکِّدَ بِذٰلِکَ حُجَّتَہٗ۔ فَھٰذَا ہُوَ أَصْلُ ھٰذَا الْحَدِیْثِ أَیْضًا عَنْ یَزِیْدَ بْنِ الْأَصَمِّ‘ لَا عَنْ غَیْرِہٖ وَاَلَّذِیْنَ رَوَوْا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَہَا وَہُوَ مُحْرِمٌ‘ أَہْلُ عِلْمٍ .وَأَثْبَتَ أَصْحَابُ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ سَعِیْدُ بْنُ جُبَیْرٍ‘ وَعَطَاء ٌ‘ وَطَاوٗسٌ‘ وَمُجَاہِدٌ‘ وَعِکْرِمَۃُ‘ وَجَابِرُ بْنُ زَیْدٍ .وَہٰؤُلَائِ کُلُّہُمْ أَئِمَّۃٌ فُقَہَائُ یَحْتَجُّ بِرِوَایَاتِہِمْ وَآرَائِہِمْ الَّذِیْنَ نَقَلُوْا عَنْہُمْ .فَکَذٰلِکَ أَیْضًا مِنْہُمْ‘ عَمْرُو بْنُ دِیْنَارٍ‘ وَأَیُّوْبُ السِّخْتِیَانِیُّ‘ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ نَجِیْحٍ .فَہٰؤُلَائِ أَیْضًا أَئِمَّۃٌ یُقْتَدَیْ بِرِوَایَتِہِمْ .ثُمَّ قَدْ رُوِیَ عَنْ عَائِشَۃَ أَیْضًا‘ وَمَا قَدْ وَافَقَ مَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا‘ وَرُوِیَ ذٰلِکَ عَنْہَا‘ مَنْ لَا یَطْعَنُ أَحَدٌ فِیْہٖ‘ أَبُوْ عَوَانَۃَ‘ عَنْ مُغِیْرَۃَ‘ عَنْ أَبِی الضُّحَی‘ عَنْ مَسْرُوْقٍ .فَکُلُّ ہٰؤُلَائِ أَئِمَّۃٌ یُحْتَجُّ بِرِوَایَتِہِمْ .فَمَا رَوَوْا مِنْ ذٰلِکَ أَوْلَی مِمَّا رَوَی‘ مَنْ لَیْسَ کَمِثْلِہِمْ فِی الضَّبْطِ‘ وَالثَّبَتِ‘ وَالْفِقْہِ‘ وَالْأَمَانَۃِ .وَأَمَّا حَدِیْثُ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘ فَإِنَّمَا رَوَاہُ نَبِیْہُ بْنُ وَہْبٍ‘ وَلَیْسَ کَعَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ‘ وَلَا کَجَابِرِ بْنِ زَیْدٍ‘ وَلَا کَمَنْ رَوٰی مَا یُوَافِقُ ذٰلِکَ‘ عَنْ مَسْرُوْقٍ‘ عَنْ عَائِشَۃَ‘ وَلَیْسَ لِنَبِیْہٍ أَیْضًا مَوْضِعٌ فِی الْعِلْمِ‘ کَمَوْضِعِ أَحَدٍ مِمَّنْ ذَکَرْنَا .فَلاَ یَجُوْزُ اِذْ کَانَ کَذٰلِکَ أَنْ یُعَارِضَ بِہٖ جَمِیْعُ مَنْ ذَکَرْنَا‘ مِمَّنْ رَوٰی بِخِلَافِ الَّذِیْ رَوَیْ ھُوَ .فَھٰذَا حُکْمُ ھٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ .فَأَمَّا النَّظَرُ فِیْ ذٰلِکَ‘ فَإِنَّ الْمُحْرِمَ‘ حَرَامٌ عَلَیْہِ جِمَاعُ النِّسَائِ ‘ فَاحْتُمِلَ أَنْ یَّکُوْنَ عَقْدُ نِکَاحِہِنَّ کَذٰلِکَ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ‘ فَوَجَدْنَاہُمْ قَدْ أَجْمَعُوْا أَنَّہٗ لَا بَأْسَ عَلَی الْمُحْرِمِ بِأَنْ یَبْتَاعَ جَارِیَۃً‘ وَلٰـکِنْ لَا یَطَؤُہَا حَتّٰی یَحِلَّ .وَلَا بَأْسَ بِأَنْ یَشْتَرِیَ طِیْبًا لِیَتَطَیَّبَ بِہٖ بَعْدَمَا یَحِلُّ‘ وَلَا بَأْسَ بِأَنْ یَشْتَرِیَ قَمِیْصًا لِیَلْبَسَہٗ‘ بَعْدَمَا یَحِلُّ .وَذٰلِکَ الْجِمَاعُ وَالتَّطَیُّبُ وَاللِّبَاسُ‘ حَرَامٌ عَلَیْہِ کُلُّہٗ، وَہُوَ مُحْرِمٌ .فَلَمْ یَکُنْ حُرْمَۃُ ذٰلِکَ عَلَیْہِ تَمْنَعُہُ عَقْدَ الْمِلْکِ عَلَیْہِ .وَرَأَیْنَا الْمُحْرِمَ لَا یَشْتَرِیْ صَیْدًا‘ فَاحْتُمِلَ أَنْ یَّکُوْنَ حُکْمُ عَقْدِ نِکَاحٍ‘ کَحُکْمِ عَقْدِ شِرَائِ الصَّیْدِ‘ أَوْ حُکْمِ عَقْدِ شِرَائِ مَا وَصَفْنَا مَا سِوٰی ذٰلِکَ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ‘ فَإِذَا مَنْ أَحْرَمَ وَفِیْ یَدِہِ صَیْدٌ‘ أَمَرَ أَنْ یُطْلِقَہٗ‘ وَمَنْ أَحْرَمَ وَعَلَیْہِ قَمِیْصٌ ، وَفِیْ یَدِہِ طِیْبٌ أَمَرَ أَنْ یَطْرَحَہُ عَنْہُ وَیَرْفَعَہُ .وَلَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ‘ کَالصَّیْدِ الَّذِیْ یُؤْمَرُ بِتَخْلِیَتِہٖ، وَیُتْرَکُ حَبْسُہُ .وَرَأَیْنَاہُ اِذَا أَحْرَمَ وَمَعَہُ امْرَأَۃٌ‘ لَمْ یُؤْمَرْ بِإِطْلَاقِہَا‘ بَلْ یُؤْمَرُ بِحِفْظِہَا وَصَوْنِہَا فَکَانَتَ الْمَرْأَۃُ فِیْ ذٰلِکَ‘ کَاللِّبَاسِ وَالطِّیْبِ‘ لَا کَالصَّیْدِ .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ‘ أَنْ یَّکُوْنَ فِی اسْتِقْبَالِ عَقْدِ النِّکَاحِ عَلَیْہَا‘ فِیْ حُکْمِ اسْتِقْبَالِ عَقْدِ الْمِلْکِ عَلَی الثِّیَابِ وَالطِّیْبِ‘ الَّذِیْ یَحِلُّ لَہٗ بِہِ لُبْسُ ذٰلِکَ‘ وَاسْتِعْمَالُہٗ بَعْدَ الْخُرُوْجِ مِنَ الْاِحْرَامِ .فَقَالَ قَائِلٌ : فَقَدْ رَأَیْنَا مَنْ تَزَوَّجَ أُخْتَہُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ کَانَ نِکَاحُہُ بَاطِلًا‘ وَلَوْ اشْتَرَاہَا‘ کَانَ شِرَاؤُہُ جَائِزًا‘ فَکَانَ الشِّرَائُ یَجُوْزُ أَنْ یُعْقَدَ عَلٰی مَا لَا یَحِلُّ وَطْؤُہٗ‘ وَالنِّکَاحُ لَا یَجُوْزُ أَنْ یُعْقَدَ إِلَّا عَلَی مَنْ یَحِلُّ وَطْؤُہَا‘ وَکَانَتَ الْمَرْأَۃُ حَرَامًا عَلَی الْمُحْرِمِ جِمَاعُہَا .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَحْرُمَ عَلَیْہِ نِکَاحُہَا .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ لِلْآخَرِیْنَ عَلَیْہِمْ فِیْ ذٰلِکَ‘ أَنَّا رَأَیْنَا الصَّائِمَ وَالْمُعْتَکِفَ‘ حَرَامٌ عَلٰی کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا الْجِمَاعُ .وَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّ حُرْمَۃَ الْجِمَاعِ عَلَیْہِمَا‘ لَا یَمْنَعُہُمَا مِنْ عَقْدِ النِّکَاحِ‘ لِأَنْفُسِہِمَا‘ اِذْ کَانَ مَا حَرَّمَ الْجِمَاعَ عَلَیْہِمَا مِنْ ذٰلِکَ‘ إِنَّمَا ہُوَ حُرْمَۃُ دِیْنٍ کَحُرْمَۃِ حَیْضِ الْمَرْأَۃِ الَّذِیْ لَا یَمْنَعُہَا مِنْ عَقْدِ النِّکَاحِ عَلٰی نَفْسِہَا .فَحُرْمَۃُ الْاِحْرَامِ فِی النَّظَرِ أَیْضًا کَذٰلِکَ .وَقَدْ رَأَیْنَا الرَّضَاعَ الَّذِیْ لَا یَجُوْزُ تَزْوِیْجُ الْمَرْأَۃِ لِمَکَانِہِ اِذَا طَرَأَ عَلَی النِّکَاحِ فَسَخَ النِّکَاحَ‘ وَکَذٰلِکَ لَا یَجُوْزُ اسْتِقْبَالُ النِّکَاحِ عَلَیْہِ .وَکَانَ الْاِحْرَامُ اِذَا طَرَأَ عَلَی النِّکَاحِ‘ لَمْ یَفْسَخْہُ .فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا أَنْ یَّکُوْنَ لَا یَمْنَعُ اسْتِقْبَالَ عُقْدَۃِ النِّکَاحِ‘ وَحُرْمَۃُ الْجِمَاعِ بِالْاِحْرَامِ کَحُرْمَتِہٖ بِالصِّیَامِ سَوَاء ٌ .فَإِذَا کَانَتْ حُرْمَۃُ الصِّیَامِ لَا تَمْنَعُ عَقْدَ النِّکَاحِ‘ فَکَذٰلِکَ حُرْمَۃُ الْاِحْرَامِ‘ لَا تَمْنَعُ عُقْدَۃَ النِّکَاحِ أَیْضًا .فَھٰذَا ہُوَ النَّظَرُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ‘ وَہُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘ وَأَبِیْ یُفَ‘ وَمُحَمَّدٍ‘ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی .
٤١٣٥: جعفر بن برقان نے میمون بن مہران سے نقل کیا کہ میں عطاءؒ کے ہاں تھا تو ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا کیا محرم شادی کرسکتا ہے ؟ عطاء کہنے لگے اللہ تعالیٰ نے جب سے نکاح حلال کیا ہے پھر حرام نہیں کیا۔ میمون کہنے لگے۔ میں نے کہا عمر بن عبدالعزیز نے میری طرف لکھا کہ یزید بن اصم سے پوچھا گیا۔ کیا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب میمونہ (رض) سے نکاح کیا تو کیا آپ حلال کی حالت میں تھے یا حالت احرام میں تھے ؟ میمون کہنے لگے کہ یزید نے جواب دیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے حلال ہونے کی حالت میں نکاح کیا۔۔ عطاءؒ نے کہا ہم تو یہ روایت میمونہ (رض) سے نقل کرتے تھے ہم سنا کرتے تھے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے احرام کی حالت میں نکاح کیا۔ جعفر بن برقان (رح) نے میمون بن مہران (رح) سے نقل کرتے ہوئے وہ سبب ذکر کیا جس سے یہ روایت یزید بن اصم (رح) سے ان تک پہنچی ۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ یزید کا قول ہے۔ حضرت میمونہ (رض) کا قول نہیں ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کا ہے۔ پھر میمونہ (رح) نے عطاء (رح) سے بحث کرتے وقت یزید کی یہ روایت نقل کی تو انھوں نے اس کو قبول نہ کیا۔ اگر یہ ان کے ہاں اوپر تک روایت جاتی تو میمون اس سے ضرور استدلال کرتے اور اس سے اپنی دلیل کو مضبوط بنا لیتے ۔ پس اس روایت کی اصل اتنی ہے کہ یہ صرف یزید بن اصم (رح) سے مروی ہے اور کسی سے نہیں۔ اور جن لوگوں نے یہ روایت کی ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حالت احرام میں نکاح کیا وہ اہل علم ہیں اور حضرت ابن عباس (رض) کے معتبرشاگرد سعید بن جبیر اور عطاء طاؤس ‘ مجاہد عکرمہ ‘ جابربن زید رحمہم اللہ ہیں یہ تمام فقاہت کے ائمہ ہیں ان کی آراء سے استدلال کیا جاتا ہے۔ ان سے نقل کرنے والے ایوب سختیانی اور عبداللہ بن ابی نجیح رحمہم اللہ ہیں۔ یہ بھی ائمہ ملا مقتداء علم ہیں ان کی روایات کو مسلم مانا جاتا ہے۔ جن کی اقتداء کی جاتی ہے۔ پھر حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے بھی روایت ابن عباس (رض) کی موافقت میں روایت آتی ہے اور اس روایت کے روات وہ حضرات ہیں جو کسی کے ہاں بھی مطعون نہیں ‘ حضرت ابو عوانہ مغیرہ سے وہ ابو الضحیٰ سے اور وہ مسروق (رح) سے روایت کرتے ہیں یہ تمام ایسے ائمہ ہیں جن کی روایت سے استدلال کیا جاتا ہے۔ پس ان کی روایات ان حضرات کی روایات کے مقابل اولیٰ ہیں جو کہ ضبط پختگی ‘ فقاہت اور امانت میں ان کے برابر نہیں ہیں۔ رہی حضرت عثمان (رض) کی روایت اس کو نبیہ بن وھب نے روایت کیا جو کہ درجہ میں عمرو بن دینار کے برابر نہیں اور اسی وہ جابر بن زید کو بھی نہیں پہنچ سکتے اور نہ ان کو پہنچ سکتے ہیں ‘ جو ان کے موافق مسروق کی وساطت سے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کرتے ہیں اور نبیہ بن وھب کا کوئی علمی مقام نہیں جیسا مذکورۃ الصدر لوگوں کا ہے۔ جب کہ روایت کی صورت حال یہ ہے تو پھر وہ حضرات ان مذکورہ روات کے مقابل نہیں ہوسکتے ۔ ر وایات کو سامنے رکھ کر یہ اس باب کی صورت ہے۔ باقی قیاس تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ محرم پر عورتوں سے جماع حرام ہے۔ تو اس کا احتمال ہے کہ عقد نکاح کا حکم اسی طرح ہو ۔ جب ہم نے اس سلسلہ میں غور وخوض کیا تو ان کو اس سلسلہ میں متفق پایا کہ محرم پر لونڈی خریدنے میں چنداں حرج نہیں مگر احرام سے نکلنے تک اس سے جماع نہیں کرسکتا۔ خوشبو کی خریداری میں کچھ حرج نہیں مگر احرام میں استعمال نہیں کرسکتا بلکہ بعد میں کرے گا۔ قمیص کی خرید میں کچھ حرج نہیں مگر اس کا پہننا احرام سے فراغت کے بعد ہوگا ۔ یہ جماع ‘ خوشبو ‘ لباس تمام اس پر حرام ہیں مگر ان کی حرمت عقد ملکیت کے لیے رکاوٹ نہیں ہے۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ محرم شکار کی خریداری نہیں کرسکتا پس اس سے یہ احتمال پیدا ہوسکتا ہے کہ نکاح کا حکم شکار کے خریدنے کی طرح ہو یامطلق خریدو فروخت کا ہو۔ جیسا کہ ہم نے بیان کیا۔ پس ہم نے اس میں غور کیا تو ہمارے سامنے یہ بات آئی کہ جو شخص احرام باندھے اور اس وقت اس کے قبضہ میں شکارہو۔ تو اسے چھوڑنے کا حکم دیا جائے گا۔ اسی طرح جس نے احرام باندھا اور اس نے قمیص زیب تن کر رکھی ہو اور اس کے ہاتھ میں خوشبو ہو۔ تو اسے حکم کیا جائے گا کہ وہ اسے پھینک دے اور قمیص کو اتار دے اور یہ شکار کی طرح نہیں ہے کہ جس کا چھوڑنے کا حکم کیا جائے گا اور اسے قید بھی نہ کیا جائے گا اور ہم یہ بھی پاتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے احرام باندھا اور اس کے ساتھ بیوی تھی تو اسے اس کو آزاد کرنے کا حکم نہ دیا جائے گا بلکہ اس کی حفاظت دصیانت کا حکم دیا جائے گا عورت کی حیثیت اس کے لیے لباس و خوشبو جیسی ہوگی شکار جسی نہ ہوگی۔ پس نظر و فکر کا تقاضا تو یہی ہے کہ عقد نکاح کرنا کپڑے اور خوشبو کی خریداری کے عقد کی طرح ہے۔ وہ کپڑا کہ جس کا استعمال احرام سے خروج کے بعد اس کو درست ہے۔ ایک معترض کا کہنا یہ ہے ہم نے دیکھا کہ جس شخص نے رضاعی بہن سے نکاح کرلیا تو اس کا نکاح باطل ہے اور اگر اس نے اس کو خرید لیا تو اس کی خریداری درست ہے اور یہ عقد شراء درست ہے اور عقد شراء اس لونڈی کا بھی درست ہے جس سے قربت حلال نہ ہو حالانکہ نکاح کا عقد اسی سے منعقد ہوتا ہے جس سے وطی حلال ہو۔ اور محرم کو بیوی سے حالت احرام میں جماع حرام ہے۔ پس نظر وفکر کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس سے نکاح بھی حرام ہو۔ فریق اوّل کے خلاف فریق ثانی کی دلیل یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ روزہ دار ‘ معتکف ہر دو کے لیے بیوی سے جماع حرام ہے اور سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ان کے لیے جماع کی حرمت اپنے عقد نکاح سے مانع نہیں ہے۔ اس لیے کہ ان پر جماع کی حرمت وہ دینی حرمت ہے جیسا کہ حیض کی حالت میں عورت کی حرمت ہے اور یہ حیض عقد نکاح سے عورت کو مانع نہیں ہے۔ تو قیاس و نظر میں احرام کی حرمت بھی اسی طرح ہے۔ ہم نے نگاہ دوڑائی تو ہم نے دیکھا کہ رضاع کے ہوتے ہوئے اس عورت سے نکاح درست نہیں ۔ اگر وہ نکاح پر طاری ہوجائے تو نکاح فسخ ہوجائے گا ۔ اسی طرح اس پر نکاح کا کرنا درست نہیں اور احرام جب نکاح پر طاری ہو تو وہ نکاح کو فسخ نہیں کرتا پس نظر وفکر کا تقاضا یہ ہے کہ وہ عقد نکاح کے پیش آنے سے مانع نہیں ہے اور جماع کی حرمت احرام کے ساتھ روزے کی حرمت کی طرح ہے اور دونوں برابر ہیں۔ پس جب حرمت روزہ عقد نکاح سے رکاوٹ نہیں تو حرمت احرام کا حکم بھی یہی ہے کہ وہ بھی عقد نکاح سے مانع نہیں ہے۔ اس باب میں تقاضا نظر یہی ہے اور یہی امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ومحمد رحمہم اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔
حاصل روایات : پس جعفر بن برقان نے میمون بن مہران سے تو وہ سبب بیان کیا ہے جس کی وجہ سے ان تک یہ روایت یزید بن اصم سے پہنچی ہے اور واقعہ میں یزید کا قول ہے۔ پھر میمون نے اسی کو عطاءؒ کے بالمقابل بطور حجت پیش کیا۔ تو یزید ہی سے نقل کیا اور عطاءؒ نے اس کو تسلیم نہیں کیا۔ اگر میمون کے پاس اس سے اوپر کا واسطہ ہوتا تو وہ عطاءؒ کے خلاف اس کو حجت میں پیش کرتے تاکہ ان کی دلیل پختہ ہوجاتی۔ یہ اس روایت کی یزید بن اصم سے اصل ہے کسی اور سے اس طرح مروی نہیں۔
نمبر 2: جو حضرات حالت احرام میں عقد نکاح کی روایت نقل کرتے ہیں وہ تمام اعلیٰ درجہ کے اہل علم ہیں اور ابن عباس (رض) کے ثقہ ‘ قابل اعتماد شاگردوں سے ہیں مثلاً سعید بن جبیر عطاء ‘ طاؤس ‘ مجاہد ‘ عکرمہ ‘ جابر بن زید رحمہم اللہ یہ ائمہ حدیث و فقہ و تفسیر و حدیث ہیں ان کی روایات کو حجت قرار دیا جاتا ہے۔ ان کے بالمقابل یزید بن اصم کی کیا حیثیت ہے۔
نمبر 3: ان سے نیچے جن روات نے اس روایت کو بیان کیا وہ عمرو بن دینار ‘ ایوب سختیانی ‘ عبداللہ بن ابی نجیح رحمہم اللہ ہیں یہ بھی ائمہ حدیث و فقہ ہیں۔
نمبر 4: پھر حضرت عائشہ (رض) سے بھی روایت منقول ہے جو روایت ابن عباس (رض) کی موید ہے اور اس روایت کے راوی مطعون نہیں ہیں ابو عوانہ عن مغیرہ عن ابی الضحیٰ عن مسروق یہ تمام ائمہ حدیث ہیں جن کی روایت مانی جاتی ہے۔ تو ان کی روایت ان سے بڑھ کر قابل حجت ہے جو ان کی طرح ضابط ‘ ثقہ ‘ فقیہ و امین نہیں ہیں۔
ان ترجیحات سے ثابت ہوا کہ روایت ابن عباس (رض) قابل اخذ ہے نہ کہ اس کے بالمقابل روایت۔
فریق اوّل کی پیش کردہ روایت کا جواب :
اب ہم فریق اوّل کی پیش کردہ دوسری روایت کو پرکھتے ہیں نبیہ بن وہب کا علم میں وہ مقام نہیں جو کہ عمرو بن دینار اور جابر بن زید کا ہے پس اس کے بالمقابل اس کے روات ثقہ تر ہیں اس لیے ان کی روایت ان کے بالمقابل اثقہ و افضل ہوگی اور فریق اوّل کی روایت معتبر نہ ہوگی۔ آثار کے لحاظ سے اس باب کا یہ حکم ہے۔
دلیل ثانی۔ نظر طحاوی (رض) :
محرم کے لیے بالاتفاق جماع حرام ہے اب احتمال یہ ہے کہ عقد نکاح بھی اسی طرح حرام ہو تو اس سلسلہ میں قیاس کر کے دیکھا کہ اس پر تمام متفق ہیں کہ محرم کو حالت احرام میں باندی خریدنے کی اجازت ہے مگر اس سے وطی حرام ہے۔ حلال ہونے کے بعد استعمال کے لیے خوشبو کا خریدنا درست ہے اگرچہ وقتی استعمال خوشبو ناجائز ہے۔ اسی طرح حلال ہونے کے بعد پہننے کے لیے لباس کا خریدنا جائز ہے البتہ پہننا جائز نہیں۔
لباس ‘ خوشبو کا استعمال جماع یہ تمام حالت احرام میں ممنوع ہیں اس کے باوجود ان اشیاء کو خریدنا جائز ہے۔ ان کے استعمال کا حرام ہونا ان کے عقد ملکیت کے خلاف نہیں ہے۔
محرم کو حالت احرام میں شکار کا خریدنا ناجائز ہے۔ عقد نکاح کے متعلق دو احتمال سامنے آئے۔ اگر یہ شکار خریدنے کی طرح ہو تو ناجائز ہونا چاہیے دوسرا عقد شراء جاریہ کی طرح ہو تو جائز ہونا چاہیے۔
غور کرنے سے معلوم ہوا کہ عقد نکاح شراء عبد و جاریہ کی طرح ہے۔ شراء صید کی طرح نہیں ہے۔ اب ہم نے دیکھا کہ اگر کوئی احرام باندھ رہا ہے اور اس کے ہاتھ میں شکار ہے تو اسے شکار کو آزاد کردینا ضروری ہے اور اگر اس کے جسم پر کرتا ہے یا خوشبو ہے تو وہ کرتے کو اتار دے خوشبو رکھ دے شکار کی طرح پھینکنے کا حکم نہیں ہے بلکہ ان کی حفاظت کا حکم ہے اور شکار کی حفاظت جائز نہیں ہے اسی طرح کسی کے پاس بیوی ہو تو اسے چھوڑنے کا حکم نہیں بلکہ اس کی حفاظت کا حکم ہے۔
پس قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ عقد نکاح کا حکم شراء عبد و جاریہ اور شراء لباس کی طرح ہو۔ شکار کی خریداری جیسا نہ ہو۔ فلہذا جس طرح احرام سے نکلنے کے بعد وطی کے لیے باندی خریدنا اور حلال ہو کر استعمال میں لانے کے لیے خوشبو اور لباس کا خریدنا جائز ہے بالکل اسی طرح احرام کی حالت میں نکاح کرنا تاکہ حلال ہونے کے بعد حقوق زوجیت ادا کرے یہ جائز ہے۔
سرسری اشکال :
آپ کا لونڈی ‘ لباس ‘ خوشبو کے شراء پر عقد نکاح کو قیاس کرنا درست نہیں کیونکہ عقد شراء میں بعض ایسی عورتیں ہیں کہ جن کی خریداری درست ہونے کے باوجود ان سے جماع حرام ہے تو جو پہلے ہی حرام ہے اس کو وقتی حرام پر قیاس کرنا درست نہیں مثلاً رضاعی بہن کی خریداری تو درست ہے مگر اس سے جماع و نکاح پہلے ہی حرام ہے۔ حرمت ابدیہ ہے تو اجنبیہ کے نکاح کی وقتی حرمت کو اس پر کس طرح قیاس کرنا درست ہوگا۔
حل اشکال لفرع الاثقال :
ذرا توجہ تو فرمائیں روزہ دار اور معتکف پر جماع حرام ہے مگر حرمت جماع روزہ دار اور معتکف پر عقد نکاح کی حرمت کو لازم قرار نہیں دیتا بلکہ حالت صوم اور حالت اعتکاف میں عقد نکاح بالاتفاق جائز ہے یہ حرمت حرمت دین کی قسم سے ہے جیسا کہ حیض کی حالت میں عورت سے جماع حرام ہے مگر عقد نکاح حرام نہیں ہے۔
تو جس طرح روزہ دار اور معتکف پھر جماع کی حرمت ‘ حرمت عقد کو لازم نہیں کرتی اسی طرح محرم پر جماع کی حرمت عقد نکاح کی حرمت کو لازم نہیں کرے گی اور جس طرح حالت حیض میں جماع کا حرام ہونا حائضہ عورت کے ساتھ عقد نکاح کو حرام قرار نہیں دیتا بالکل اسی طرح محرم پر جماع کا حرام ہونا اس کے عقد نکاح کو حرام نہ کرے گا۔

مزید توجہ سے نگاہ ڈالنے سے سمجھ آیا کہ وہ رضاعت جس کی وجہ سے عورت سے نکاح جائز نہیں ہوتا جب یہی رضاعت حالت نکاح میں ثابت ہوجائے گی تو اس سے نکاح قائم نہ رہے گا بلکہ فسخ ہوجائے گا اور ازسرنو نکاح کرنا بھی جائز نہ ہوگا جیسا کہ صغیرہ بیوی کو شوہر کی ماں دودھ پلا دے تو عقد نکاح فسخ ہوجاتا ہے۔
مگر جب نکاح کی حالت میں احرام ثابت ہوجائے تو اس سے نکاح فسخ نہ ہوگا تو اس پر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ احرام مستقل طور پر عقد نکاح کے لیے بھی رکاوٹ نہیں ہے اور احرام کی وجہ سے وقتی طور پر جماع کی حرمت اس طرح ہے جس طرح کہ روزے کی وجہ سے جماع کی حرمت ہوجاتی ہے تو جس طرح حرمت روزہ عقد نکاح کو روکنے والا نہیں ہے تو اسی طرح حرمت احرام بھی عقد نکاح کے لیے مانع نہیں ہے۔ قیاس و نظر کے موافق یہی بات ہے اور ہمارے ائمہ ثلاثہ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد رحمہم اللہ کا قول یہی ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔