HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

4191

۴۱۹۱: وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ أَیْضًا ، قَالَ : ثَنَا آدَم بْنُ أَبِیْ اِیَاسٍ ، قَالَ : ثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیْرَۃِ ، قَالَا : ثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِیْ سَلْمَۃَ ، عَنْ أُمِّ سَلْمَۃَ قَالَتْ دَخَلَ عَلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بَعْدَ وَفَاۃِ أَبِیْ سَلْمَۃَ ، فَخَطَبَنِیْ اِلَی نَفْسِی .فَقُلْتُ :یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنَّہٗ لَیْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِیَائِی شَاہِدًا ، فَقَالَ اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْہُمْ شَاہِدٌ وَلَا غَائِبٌ یَکْرَہُ ذٰلِکَ .قَالَتْ : قُمْ یَا عُمَرُ ، فَزَوِّجْ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَتَزَوَّجَہَا .فَکَانَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَہَا اِلَی نَفْسِہَا ، فَفِیْ ذٰلِکَ دَلِیْلٌ أَنَّ الْأَمْرَ فِی التَّزْوِیْجِ اِلَیْہَا دُوْنَ أَوْلِیَائِہَا .فَاِنَّمَا قَالَتْ لَہُ اِنَّہٗ لَیْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِیَائِیْ شَاہِدًا قَالَ اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْہُمْ شَاہِدٌ وَلَا غَائِبٌ یَکْرَہُ ذٰلِکَ فَقَالَتْ قُمْ یَا عُمَرُ ، فَزَوِّجْ النَّبِیَّ عَلَیْہِ السَّلَامُ .وَعُمَرُ ہَذَا ابْنُہَا ، وَہُوَ یَوْمَئِذٍ طِفْلٌ صَغِیْرٌ غَیْرُ بَالِغٍ ، لِأَنَّہَا قَدْ قَالَتْ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ اِنِّیْ امْرَأَۃٌ ذَاتُ أَیْتَامٍ یَعْنِیْ عُمَرَ ابْنَہَا ، وَزَیْنَبَ بِنْتَہَا وَالطِّفْلُ لَا وِلَایَۃَ لَہٗ، فَوَلَّتْہُ ہِیَ أَنْ یَعْقِدَ النِّکَاحَ عَلَیْہَا ، فَفَعَلَ .فَرَآہٗ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَائِزًا ، وَکَانَ عُمَرُ بِتِلْکَ الْوَکَالَۃِ ، قَامَ مَقَامَ مَنْ وَکَّلَہٗ۔فَصَارَتْ أُمُّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، کَأَنَّہَا ہِیَ عَقَدَتِ النِّکَاحَ عَلٰی نَفْسِہَا لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .وَلَمَّا لَمْ یَنْتَظِرْ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حُضُوْرَ أَوْلِیَائِہَا ، دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ بُضْعَہَا اِلَیْہَا دُوْنَہُمْ .وَلَوْ کَانَ لَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ حَقٌّ ، أَوْ أَمْرٌ ، لَمَا أَقْدَمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی حَق ہُوَ لَہُمْ قَبْلَ اِبَاحَتِہِمْ ذٰلِکَ لَہٗ۔فَاِنْ قَالَ قَائِلٌ : اِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ أَوْلَی بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِہٖ۔ قِیْلَ لَہٗ : صَدَقْتُ ، ہُوَ أَوْلَی بِہٖ مِنْ نَفْسِہٖ، یُطِیْعُہٗ فِیْ أَکْثَرِ مِمَّا یُطِیْعُ فِیْہِ نَفْسَہٗ، فَأَمَّا أَنْ یَکُوْنَ ہُوَ أَوْلَی بِہٖ مِنْ نَفْسِہِ فِیْ أَنْ یَعْقِدَ عَلَیْہِ عَقْدًا بِغَیْرِ أَمْرِہٖ، مِنْ بَیْعٍ ، أَوْ نِکَاحٍ ، أَوْ غَیْرِ ذٰلِکَ فَلَا ، وَاِنَّمَا کَانَ سَبِیْلُہُ فِیْ ذٰلِکَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، کَسَبِیْلِ الْحُکَّامِ مِنْ بَعْدِہٖ، وَلَوْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، لَکَانَتْ وَکَالَۃُ عُمَرَ ، اِنَّمَا تَکُوْنُ مِنْ قِبَلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، لَا مِنْ قِبَلِ أُمِّ سَلْمَۃَ ، لِأَنَّہٗ ہُوَ وَلِیُّہَا .وَلَمَّا لَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، وَکَانَتِ الْوَکَالَۃُ اِنَّمَا کَانَتْ مِنْ قِبَلِ أُمِّ سَلْمَۃَ ، فَعَقَدَ بِہَا النِّکَاحَ ، فَقَبِلَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، دَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، اِنَّمَا کَانَ مَلَّکَ ذٰلِکَ الْبُضْعَ ، بِتَمْلِیکِ أُمِّ سَلْمَۃَ اِیَّاہٗ، لَا بِحَقِّ وِلَایَۃٍ کَانَتْ لَہُ فِیْ بُضْعِہَا .أَوَ لَا تَرَی أَنَّہَا قَدْ قَالَتْ اِنَّہٗ لَیْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِیَائِی شَاہِدًا فَقَالَ لَہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اِنَّہٗ لَیْسَ أَحَدٌ مِنْہُمْ شَاہِدٌ وَلَا غَائِبٌ ، یَکْرَہُ ذٰلِکَ .وَلَوْ کَانَ ہُوَ أَوْلَی بِہَا مِنْہُمْ لَمْ یَقُلْ لَہَا ذٰلِکَ ، وَلَقَالَ لَہَا أَنَا وَلِیُّک دُوْنَہُمْ وَلٰـکِنَّہٗلَمْ یُنْکِرْ مَا قَالَتْ وَقَالَ لَہَا اِنَّہُمْ لَا یَکْرَہُوْنَ ذٰلِکَ .فَہٰذَا وَجْہُ ہٰذَا الْبَابِ مِنْ طَرِیْقِ تَصْحِیْحِ مَعَانِی الْآثَارِ .وَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ عَقْدَ أُمِّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا النِّکَاحَ عَلَی بُضْعِہَا کَانَ جَائِزًا دُوْنَ أَوْلِیَائِہَا ، وَجَبَ أَنْ یُحْمَلَ مَعَانِی الْآثَارِ الَّتِی قَدَّمْنَا ذِکْرَہَا فِیْ ہٰذَا الْبَابِ عَلَی ہٰذَا الْمَعْنَی أَیْضًا ، حَتّٰی لَا یَتَضَادَّ شَیْء ٌ مِنْہَا وَلَا یَتَنَافٰی وَلَا یَخْتَلِفَ .وَأَمَّا النَّظْرُ فِیْ ذٰلِکَ ، فَاِنَّا قَدْ رَأَیْنَا الْمَرْأَۃَ قَبْلَ بُلُوْغِہَا ، یَجُوْزُ أَمْرُ وَالِدِہَا عَلَیْہَا فِیْ بُضْعِہَا وَمَالِہَا ، فَیَکُوْنُ الْعَقْدُ فِیْ ذٰلِکَ کُلِّہِ اِلَیْہِ لَا اِلَیْہَا ، وَحُکْمُہٗ فِیْ ذٰلِکَ کُلِّہٖ، حُکْمٌ وَاحِدٌ غَیْرُ مُخْتَلِفٍ ، فَاِذَا بَلَغَتْ فَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّ وِلَایَتَہُ عَلٰی مَالِہَا قَدْ ارْتَفَعَتْ .وَأَنَّ مَا کَانَ اِلَیْہِ مِن الْعَقْدِ عَلَیْہَا فِیْ مَالِہَا فِیْ صِغَرِہَا ، قَدْ عَادَ اِلَیْہَا ، فَالنَّظْرُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ کَذٰلِکَ الْعَقْدُ عَلَی بُضْعِہَا یَخْرُجُ ذٰلِکَ مِنْ یَدِ أَبِیْھَا بِبُلُوْغِہَا .فَیَکُوْنُ مَا کَانَ اِلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ قَبْلَ بُلُوْغِہَا ، قَدْ عَادَ اِلَیْہَا ، وَیَسْتَوِی حُکْمُہَا فِیْ مَالِہَا وَفِیْ بُضْعِہَا بَعْدَ بُلُوْغِہَا ، فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ اِلَیْہَا دُوْنَ أَبِیْھَا ، وَیَکُوْنُ حُکْمُہَا مُسْتَوِیًا بَعْدَ بُلُوْغِہَا ، کَمَا کَانَ مُسْتَوِیًا قَبْلَ بُلُوْغِہَا .فَہٰذَا حُکْمُ النَّظَرِ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ ، وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ أَیْضًا ، اِلَّا أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ : اِنْ زَوَّجَتِ الْمَرْأَۃُ نَفْسَہَا مِنْ غَیْرِ کُفْئٍ فَلِوَلِیِّہَا فَسْخُ ذٰلِکَ عَلَیْہَا ، وَکَذٰلِکَ اِنْ قَصَّرَتْ فِیْ مَہْرِہَا ، فَتَزَوَّجَتْ بِدُوْنِ مَہْرِ مِثْلِہَا ، فَلِوَلِیِّہَا أَنْ یُخَاصِمَ فِیْ ذٰلِکَ ، حَتّٰی یَلْحَقَ بِمَہْرِ مِثْلِ نِسَائِہَا .وَقَدْ کَانَ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ کَانَ یَقُوْلُ : اِنَّ بُضْعَ الْمَرْأَۃِ اِلَیْہَا الْوَلَائُ فِیْ عَقْدِ النِّکَاحِ عَلَیْہِ لِنَفْسِہَا ، دُوْنَ وَلِیِّہَا .یَقُوْلُ : اِنَّہٗ لَیْسَ لِلْوَلِیِّ أَنْ یَعْتَرِضَ عَلَیْہَا فِیْ نُقْصَانِ مَا تَزَوَّجَتْ عَلَیْہِ، عَنْ مَہْرِ مِثْلِہَا ، ثُمَّ رَجَعَ عَنْ قَوْلِہٖ ہَذَا کُلِّہِ اِلَی قَوْلِ مَنْ قَالَ لَا نِکَاحَ اِلَّا بِوَلِی .وَقَوْلُہٗ الثَّانِیْ ہٰذَا، قَوْلُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ .
حاصل روایت : اس روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذاتی طور پر ان کو پیغام نکاح دیا یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ نکاح کے معاملہ کا اختیار عورت کو حاصل ہے اس کے اولیاء کو نہیں۔ چنانچہ جب امّ سلمہ (رض) نے یہ گزارش کی کہ میرے اولیاء میں سے کوئی بھی یہاں موجود نہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ان میں سے کوئی حاضر و غائب اس بات کو ناپسند نہ کرے گا اس کے بعد امّ سلمہ (رض) نے اپنے بیٹے عمر کو فرمایا اے عمر اٹھو ! اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ میرا نکاح کر دو اور یہ عمر (رض) امّ سلمہ کے بیٹے تھے اور وہ ان دنوں ابھی بالغ بھی نہ تھے کیونکہ اسی روایت میں یہ بات بھی موجود ہے کہ امّ سلمہ (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کیا کہ میں ایسی عورت ہوں جس کے یتیم بچے ہیں یعنی عمر اور زینب اور بچوں کو ولایت حاصل نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود انھوں نے عمر بن سلمہ کو نکاح کرنے کا اختیار دیا۔ چنانچہ انھوں نے نکاح کردیا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو جائز قرار دیا۔
پس عمر بن سلمہ اس نکاح میں وکیل کے قائم مقام قرار پائے تو گویا حضرت امّ سلمہ (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنا نکاح خود کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس کے کسی ولی کا انتظار نہ کرنا۔ اس بات کی دلیل ہے۔ کہ امّ سلمہ اپنی بضع کی خود مالک تھیں ان کے ولی مالک نہ تھے اور اگر اس سلسلہ میں ان ولیاء کا کوئی حق یا اختیار ہوتا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان اولیاء کی اجازت سے پہلے ان کے حق کا اقدام نہ فرماتے۔
سوال : اس مقام پر ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ہر مؤمن پر اس کے اپنے نفس سے زیادہ حق والے ہیں۔
جواب تمہاری یہ بات بالکل درست ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حق مسلمانوں کی جان سے بھی زیادہ ہے اور ہر مؤمن اپنی بات کی نسبت آپ کی بات کو زیادہ مانتا ہے مگر آپ کے اولیٰ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کسی کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح یا خریدو فروخت کرسکتے ہیں اس سلسلہ میں آپ کا معاملہ وہی ہے جو آپ کے بعد والے حکام کا ہے اور اگر یہ بات اسی طرح ہوتی (جس طرح تم نے سمجھی) تو حضرت عمر بن سلمہ (رض) کی وکالت جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ہوتی حضرت امّ سلمہ (رض) کی طرف سے نہ ہوتی کیونکہ آپ ہی امّ سلمہ (رض) کے ولی ہوتے حالانکہ بات اس طرح نہیں اور یہ وکالت حضرت امّ سلمہ (رض) کی طرف سے تھی تو انھوں نے نکاح کیا اور جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس نکاح کو قبول فرمایا تو یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی ملکیت بضع ان کے مالک بنانے سے حاصل ہوئی اس وجہ سے نہیں کہ آپ کو سب مؤمنوں پر حق ولایت حاصل تھا۔
کیا اس بات پر تم نے غور نہیں کیا کہ امّ سلمہ (رض) نے عرض کیا کہ میرا کوئی ولی یہاں موجود نہیں تو آپ نے ان سے فرمایا کہ ان میں سے کوئی بھی حاضر و غائب اس نکاح کو ناپسند نہ کرے گا۔ تو اگر جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان اولیاء سے زیادہ ولایت رکھتے تو یہ بات نہ فرماتے بلکہ اس طرح فرماتے کہ تمہارا ولی میں ہوں۔ وہ نہیں ہیں۔ لیکن آپ نے حضرت امّ سلمہ (رض) کی بات کا انکار نہیں فرمایا اور ان کے جواب میں یہ فرمایا کہ تمہارے اولیاء اس کو ناپسند نہ کریں گے۔
آثار کے معانی کی تصحیح کے لحاظ سے تو یہ وضاحت ہے پس جب یہ بات ثابت ہوچکی کہ حضرت امّ سلمہ (رض) کا نکاح اولیاء کے بغیر اجازت جائز تھا تو ضروری ہے کہ جن روایات کو فریق اوّل نے) شروع میں ذکر کیا ہے ان کے معانی کو بھی اس پر محمول کیا جائے تاکہ ان روایات میں تضاد اور اختلاف اور منافات نہ رہے۔
نظر طحاوی (رح) :
اس مسئلہ پر غور و فکر کا تقاضا یہ ہے کہ ہم نے عورت کے بارے میں دیکھا کہ بلوغت سے پہلے اس کے بضع اور مال میں اس کے والد کو ولایت حاصل ہوتی ہے اور اس وقت عقد کا اختیار مکمل طور پر باپ کو حاصل ہوتا ہے نابالغہ کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ اس سلسلہ میں تمام معاملات کا حکم ایک ہی ہوتا ہے اس میں اختلاف نہیں ہوتا پھر جب وہ بالغ ہوجاتی ہے تو اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اس کے مال سے باپ کی ولایت اٹھ جاتی ہے اور اس کے مال کا عقد جو بچپن کی وجہ سے باپ کے اختیار میں تھا اب اس کی طرف لوٹ آتا ہے تو قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ عقد بضع بھی اسی طرح ہو کہ بالغ ہونے کی وجہ سے باپ کے ہاتھ سے نکل جائے اور بلوغت سے پہلے جو اختیار والد کو حاصل تھا اب اس لڑکی کی طرف لوٹ آئے اور بلوغت کے بعد اس کے مال اور بضع کے سلسلہ میں اس کا حکم برابر ہو پس یہ اختیار خود اسے حاصل ہوگا والد کو نہیں اور جس طرح بلوغت سے پہلے اس کا حکم (مال و بضع) میں یکساں تھا بلوغت کے بعد بھی برابر ہو نظر کے اعتبار سے اس باب کا یہی حکم ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی مسلک ہے البتہ وہ اتنی بات مزید فرماتے ہیں کہ اگر عورت غیر کفو میں خود اپنا نکاح کرے تو ولی کو فسخ کا حق حاصل ہے اسی طرح اگر مہر کم رکھا جائے اور مہر مثل سے کم پر نکاح کرے تو ولی اس سلسلے میں مخاصمت کرسکتا ہے اس وقت تک وہ جھگڑا کرسکتا ہے یہاں تک کہ اس کا مہر اس کی ہم مثل لڑکیوں کے برابر ہوجائے۔
امام ابو یوسف (رح) کہا کرتے تھے کہ عورت کو اپنے بضع کی ولایت اپنا نکاح کرنے کے سلسلہ میں حاصل ہے پھر اگر وہ مہر مثل سے کم پر نکاح کرلیتی ہے تو ولی کو اعتراض کا حق حاصل نہیں ہے پھر انھوں نے اپنے اس قول سے رجوع کر کے ان لوگوں کے قول کو اختیار کرلیا جو لا نکاح الابولی کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا کے قائل ہیں۔ امام محمد (رح) کا قول بھی انہی کے موافق ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔