HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

4505

۴۵۰۵: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ، قَالَ : ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ ، قَالَ : ثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا خَالِدٌ ، عَنْ عِکْرَمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : لَمَّا خُیِّرَتْ بَرِیْرَۃُ رَأَیْنَا زَوْجَہَا یَتْبَعُہَا فِیْ سِکَکِ الْمَدِیْنَۃِ وَدُمُوْعُہُ تَسِیْلُ عَلَی لِحْیَتِہٖ۔ فَکَلَّمَ لَہُ الْعَبَّاسُ ، النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنْ یَطْلُبَ اِلَیْہَا فَقَالَ لَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَوْجُکَ وَأَبُوْ وَلَدِک ؟ فَقَالَتْ : أَتَأْمُرُنِیْ بِہٖ یَا رَسُوْلَ اللّٰہٖ؟ فَقَالَ اِنَّمَا أَنَا شَافِعٌ قَالَتْ : اِنْ کُنْتُ شَافِعًا ، فَلَا حَاجَۃَ لِیْ فِیْہِ، وَاخْتَارَتْ نَفْسَہَا ، وَکَانَ یُقَالُ لَہُ مُغِیْثٌ ، وَکَانَ عَبْدًا لِآلِ الْمُغِیْرَۃِ مِنْ بَنِیْ مَخْزُوْمٍ قَالُوْا : فَاِنَّمَا خَیَّرَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِنْ أَجْلِ أَنَّ زَوْجَہَا کَانَ عَبْدًا .فَکَانَ مِنَ الْحُجَّۃِ عَلَیْہِمْ لِأَہْلِ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی أَنَّ أَوْلَی الْأَشْیَائِ بِنَا - اِذَا جَائَ تِ الْآثَارُ ہٰکَذَا ، فَوَجَدْنَا السَّبِیْلَ اِلٰی أَنْ نَحْمِلَہَا عَلٰی غَیْرِ طَرِیْقِ التَّضَادِّ - أَنْ نَحْمِلَہَا عَلٰی ذٰلِکَ ، وَلَا نَحْمِلُہَا عَلَی التَّضَادِّ وَالتَّکَاذُبِ ، وَیَکُوْنُ حَالُ رُوَاتِہَا - عِنْدَنَا - عَلَی الصِّدْقِ وَالْعَدَالَۃِ فِیْمَا رَوَوْا ، حَتّٰی لَا نَجِدَ بُدًّا مِنْ أَنْ نَحْمِلَہَا عَلٰی خِلَافِ ذٰلِکَ .فَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ مَا ذَکَرْنَا کَذٰلِکَ - وَکَانَ زَوْجُ بَرِیْرَۃَ قَدْ قِیْلَ فِیْہِ : اِنَّہٗ کَانَ عَبْدًا ، وَقِیْلَ فِیْہِ : اِنَّہٗ کَانَ حُرًّا - جَعَلْنَاہُ عَلٰی أَنَّہٗ قَدْ کَانَ عَبْدًا فِیْ حَالٍ ، حُرًّا فِیْ حَالٍ أُخْرَی .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ تَأَخُّرُ اِحْدَی الْحَالَتَیْنِ عَنِ الْأُخْرَی فَکَانَ الرِّقُّ ، قَدْ یَکُوْنُ بَعْدَہُ الْحُرِّیَّۃُ ، وَالْحُرِّیَّۃُ لَا یَکُوْنُ بَعْدَہَا رِقٌّ فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، جَعَلْنَا حَالَ الْعُبُوْدِیَّۃِ مُتَقَدِّمَۃً ، وَحَالَ الْحُرِّیَّۃِ مُتَأَخِّرَۃً .فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ کَانَ حُرًّا فِیْ وَقْتِ مَا خُیِّرَتْ بَرِیْرَۃُ ، عَبْدًا قَبْلَ ذٰلِکَ ، ہٰکَذَا تَصْحِیْحُ الْآثَارِ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ وَلَوْ اتَّفَقَتْ الرِّوَایَاتُ کُلُّہَا - عِنْدَنَا - عَلٰی أَنَّہٗ کَانَ عَبْدًا ، لَمَا کَانَ فِیْ ذٰلِکَ مَا یَنْفِیْ أَنْ یَکُوْنَ اِذَا کَانَ حُرًّا ، زَالَ حُکْمُہُ عَنْ ذٰلِکَ ، لِأَنَّہٗ لَمْ یَجِئْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ قَالَ اِنَّمَا خَیَّرْتُہٗ َا لِأَنَّ زَوْجَہَا عَبْدٌ وَلَوْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، لَانْتَفَی أَنْ یَکُوْنَ لَہَا خِیَارٌ اِذَا کَانَ زَوْجُہَا حُرًّا .فَلَمَّا لَمْ یَجِئْ مِنْ ذٰلِکَ شَیْء ٌ ، وَجَائَ عَنْہُ أَنَّہٗ خَیَّرَہَا ، وَکَانَ زَوْجُہَا عَبْدًا - نَظَرْنَا - ہَلْ یَفْتَرِقُ فِیْ ذٰلِکَ حُکْمُ الْحُرِّ وَحُکْمُ الْعَبْدِ ؟ فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ، فَرَأَیْنَا الْأَمَۃَ فِیْ حَالِ رِقِّہَا لِمَوْلَاہَا ، أَنْ یَعْقِدَ النِّکَاحَ عَلَیْہَا لِلْحُرِّ وَالْعَبْدِ ، وَرَأَیْنَاہَا بَعْدَمَا تَعْتِقُ ، لَیْسَ لَہٗ أَنْ یَسْتَأْنِفَ عَلَیْہَا عَقْدَ نِکَاحٍ لِحُر وَلَا لِعَبْدٍ ، فَاسْتَوَی حُکْمُ مَا اِلَی الْمَوْلَی فِی الْعَبِیْدِ وَالْأَحْرَارِ وَمَا لَیْسَ اِلَیْہِ فِی الْعَبِیْدِ وَالْأَحْرَارِ فِیْ ذٰلِکَ فَلَمَّا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ ، وَرَأَیْنَاہَا اِذْ أُعْتِقَتْ بَعْدَ عَقْدِ مَوْلَاہَا نِکَاحَ الْعَبْدِ عَلَیْہَا یَکُوْنُ لَہَا الْخِیَارُ فِیْ حِلِّ النِّکَاحِ عَلَیْہَا ، کَانَ کَذٰلِکَ فِی الْحُرِّ ، اِذَا أُعْتِقَتْ یَکُوْنُ لَہَا حِلُّ نِکَاحِہِ عَنْہَا ، قِیَاسًا وَنَظَرًا عَلٰی مَا بَیَّنَّا مِنْ ذٰلِکَ .وَہٰذَا قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ، وَأَبِیْ یُوْسُفَ ، وَمُحَمَّدٍ ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْنَ .وَقَدْ رُوِیَ ذٰلِکَ أَیْضًا عَنْ طَاوٗسٍ
٤٥٠٥: عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب بریرہ (رض) کو اختیار ملا تو ہم نے ان کے خاوند کو دیکھا کہ وہ مدینہ کی گلیوں میں مارا مارا اس کے پیچھے پھرتا ہے اور اس کے آنسو اس کی داڑھی پر بہتے ہیں اس کی طرف سے ابن عباس (رض) نے جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات کی کہ وہ بریرہ (رض) کو بلا بھیجیں (وہ آئیں) تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو فرمایا وہ تمہارا خاوند اور تمہارے بیٹے کا والد ہے ؟ (یعنی تم رجوع کرلو) تو بریرہ (رض) کہنے لگیں یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ مجھے حکم فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا میں سفارشی ہوں۔ بریرہ (رض) کہنے لگیں اگر آپ سفارش فرمانے والے ہیں تو مجھے مغیث کی کوئی ضرورت نہیں۔ پس اس نے اپنے نفس کو اختیار کرلیا۔ ان کے خاوند کو مغیث کہا جاتا تھا اور یہ آل مغیرہ جو بنی مخزوم کا خاندان ہے اس کا غلام تھا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اختیار دیا کیونکہ اس کا خاوند غلام تھا۔ اگر وہ غلام نہ ہوتا تو ہرگز اس کو اختیار نہ ہوتا۔ قول اوّل والے کہتے ہیں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسے مواقع میں جہاں آثار میں اختلاف ہوجائے تو وہاں موافقت کی راہ اختیار کریں تضاد و تکاذب کی راہ نہ اپنائیں کیونکہ روات کے صدق و عدالت پر ہم نے اعتماد کیا ہے اور اسی پر قائم رہتے ہوئے ہم اس کے خلاف کی طرف نہ لے جائیں۔ اب ہم عرض کرتے ہیں کہ جب یہ بات ثابت ہوچکی جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ بریرہ (رض) کا خاوند ایک قول کے مطابق غلام تھا اور دوسرے قول کے مطابق وہ آزاد تھا تو اس کو اس طرح ٹھہرائیں گے کہ وہ ایک حالت میں غلام تھا اور دوسری حالت میں آزاد تھا۔ اس سے ایک حالت کا دوسری سے متأخر ہونا ثابت ہوگا یہ تو ہوتا ہے کہ غلامی کے بعد آزادی آئے مگر آزادی کے بعد غلامی نہیں آتی جب یہ بات اسی طرح ہے تو ہم غلامی والی حالت کو مقدم قرار دیں گے اور حریت والی حالت کو متاخر مانیں گے۔ اس سے اب خود ثابت ہوگیا کہ جب بریرہ (رض) کو اختیار دیا گیا تو اس وقت وہ آزاد تھا اور اس سے پہلے غلام تھا۔ اس سے اس باب میں تمام آثار کا معنی درست رہتا ہے۔ اگر تمام روایات ہمارے ہاں اس بات پر متفق ہوجائیں کہ وہ غلام تھے تب بھی اس میں ایسی بات نہیں ہے جو ان کے آزاد ہونے کی صورت میں اس حکم کو زائل کر دے کیونکہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات نہیں فرمائی کہ میں نے اس کو (بریرہ) اس لیے اختیار دیا ہے کہ اس کا خاوند غلام ہے۔ اگر یہ بات اس طرح ہوتی تو خاوند کے آزاد ہونے کی صورت میں اختیار کی نفی ہوجاتی۔ پس جب اس قسم کی کوئی چیز مروی نہیں ہے اور یہ روایات میں وارد ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اختیار دیا اس حال میں کہ اس کا خاوند غلام تھا (عندنا) پس دیکھنا یہ ہے کہ آیا خیار کی حالت میں خاوند کے آزاد و غلام ہونے کی وجہ سے کچھ فرق ہوگا ؟ چنانچہ ہم نے غور و فکر کیا کہ کیا آزاد و غلام ہونے کی وجہ سے خیار کے موقعہ پر کچھ فرق پڑتا ہے تو دیکھا کہ لونڈی کا مالک اس کی غلامی کی حالت میں اس کا نکاح آزاد سے بھی کرسکتا ہے اور غلام سے بھی کرسکتا ہے اور ہم نے یہ بھی غور سے پایا کہ اس کی آزادی کے بعد تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی خاوند خواہ آزاد ہو یا غلام مگر لونڈی کے مالک کا اختیار آزاد یا غلام دونوں کے لیے ایک جیسا ہے اور جو اختیار اس کو حاصل نہیں اس میں بھی آزاد اور غلام برابر ہیں۔ تو جب بات پھر اسی طرح ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ جب مالک نے اس کا نکاح کسی غلام کے ساتھ کیا تو آزاد ہونے کے بعد اسے نکاح توڑنے کا اختیار ہوتا ہے تو اس قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ آزاد مرد کے ساتھ نکاح کی صورت میں بھی آزادی کے بعد اس کو نکاح توڑنے کا اختیار ہو۔ امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) اجمعین کا قول یہی ہے اور طاوس (رح) کا قول بھی یہی ہے۔
طریق استدلال : جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اختیار دیا کیونکہ اس کا خاوند غلام تھا۔ اگر وہ غلام نہ ہوتا تو ہرگز اس کو اختیار نہ ہوتا۔
فریق اوّل کا جواب : سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسے مواقع میں جہاں آثار میں اختلاف ہوجائے تو وہاں موافقت کی راہ اختیار کریں تضاد و تکاذب کی راہ نہ اپنائیں کیونکہ روات کے صدق و عدالت پر ہم نے اعتماد کیا ہے اور اسی پر قائم رہتے ہوئے ہم اس کے خلاف کی طرف نہ لے جائیں۔
اب ہم عرض کرتے ہیں کہ جب یہ بات ثابت ہوچکی جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ بریرہ (رض) کا خاوند ایک قول کے مطابق غلام تھا اور دوسرے قول کے مطابق وہ آزاد تھا تو اس کو اس طرح ٹھہرائیں گے کہ وہ ایک حالت میں غلام تھا اور دوسری حالت میں آزاد تھا۔ اس سے ایک حالت کا دوسری سے متأخر ہونا ثابت ہوگا یہ تو ہوتا ہے کہ غلامی کے بعد آزادی آئے مگر آزادی کے بعد غلامی نہیں آتی جب یہ بات اسی طرح ہے تو ہم غلامی والی حالت کو مقدم قرار دیں گے اور حریت والی حالت کو متاخر مانیں گے۔
اس سے اب خود ثابت ہوگیا کہ جب بریرہ (رض) کو اختیار دیا گیا تو اس وقت وہ آزاد تھا اور اس سے پہلے غلام تھا۔ اس سے اس باب میں تمام آثار کا معنی درست رہتا ہے۔ اگر تمام روایات ہمارے ہاں اس بات پر متفق ہوجائیں کہ وہ غلام تھا تب بھی اس میں ایسی بات نہیں ہے جو ان کے آزاد ہونے کی صورت میں اس حکم کو زائل کر دے کیونکہ جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات نہیں فرمائی کہ میں نے اس کو (بریرہ) اس لیے اختیار دیا ہے کہ اس کا خاوند غلام ہے۔ اگر یہ بات اس طرح ہوتی تو خاوند کے آزاد ہونے کی صورت میں اختیار کی نفی ہوجاتی۔
پس جب اس قسم کی کوئی چیز مروی نہیں ہے اور یہ روایات میں وارد ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو اختیار دیا اس حال میں کہ اس کا خاوند غلام تھا (عندنا) پس دیکھنا یہ ہے کہ آیا خیار کی حالت میں خاوند کے آزاد و غلام ہونے کی وجہ سے کچھ فرق ہوگا ؟ چنانچہ ہم نے غور کیا۔
نظر طحاوی (رح) :
غور و فکر کیا کہ کیا آزاد و غلام ہونے کی وجہ سے خیار کے موقعہ پر کچھ فرق پڑتا ہے تو دیکھا کہ لونڈی کا مالک اس کی غلامی کی حالت میں اس کا نکاح آزاد سے بھی کرسکتا ہے اور غلام سے بھی کرسکتا ہے اور ہم نے یہ بھی غور سے پایا کہ اس کی آزادی کے بعد تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی خاوند خواہ آزاد ہو یا غلام مگر لونڈی کے مالک کا اختیار آزاد یا غلام دونوں کے لیے ایک جیسا ہے اور جو اختیار اس کو حاصل نہیں اس میں بھی آزاد اور غلام برابر ہیں۔ تو جب بات پھر اسی طرح ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ جب مالک نے اس کا ناح کسی غلام کے ساتھ کیا تو آزاد ہونے کے بعد اسے نکاح توڑنے کا اختیار ہوتا ہے تو اس قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ آزاد مرد کے ساتھ نکاح کی صورت میں بھی آزادی کے بعد اس کو نکاح توڑنے کا اختیار ہو۔
امام ابوحنیفہ ‘ ابو یوسف ‘ محمد (رح) اجمعین کا قول یہی ہے اور طاوس (رح) کا قول بھی یہی ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔