HADITH.One

Urdu

Support
hadith book logo

HADITH.One

Urdu

System

صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Al Tahawi

.

الطحاوي

4550

۴۵۵۰: حَدَّثَنَا رَبِیْعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ : ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْأَوْزَاعِیُّ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَجَاوَزَ اللّٰہُ لِیْ عَنْ أُمَّتِی ، الْخَطَأَ وَالنِّسْیَانَ ، وَمَا اُسْتُکْرِہُوْا عَلَیْہِ .قَالَ أَبُوْجَعْفَرٍ : فَذَہَبَ قَوْمٌ اِلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا أُکْرِہَ عَلَی طَلَاقٍ ، أَوْ نِکَاحٍ ، أَوْ یَمِیْنٍ ، أَوْ اِعْتَاقٍ ، أَوْ مَا أَشْبَہَ ذٰلِکَ حَتَّی فَعَلَہُ مُکْرَہًا ، أَنَّ ذٰلِکَ کُلَّہٗ بَاطِلٌ ، لِأَنَّہٗ قَدْ دَخَلَ فِیْمَا تَجَاوَزَ اللّٰہُ فِیْہِ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ أُمَّتِہٖ، وَاحْتَجُّوْا فِیْ ذٰلِکَ بِہٰذَا الْحَدِیْثِ وَخَالَفَہُمْ فِیْ ذٰلِکَ آخَرُوْنَ ، فَقَالُوْا : بَلْ یَلْزَمُہٗ مَا حَلَفَ بِہٖ فِیْ حَالِ الْاِکْرَاہٖ، مِنْ یَمِیْنٍ ، وَیَنْفُذُ عَلَیْہِ طَلَاقُہٗ، وَعَتَاقُہٗ، وَنِکَاحُہٗ، وَمُرَاجَعَتُہُ لِزَوْجَتِہِ الْمُطَلَّقَۃِ ، اِنْ کَانَ رَاجَعَہَا .وَتَأَوَّلُوْا فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ ، مَعْنًی غَیْرَ الْمَعْنَی الَّذِیْ تَأَوَّلَہٗ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی فَقَالُوْا : اِنَّمَا ذٰلِکَ فِی الشِّرْکِ خَاصَّۃً ، لِأَنَّ الْقَوْمَ کَانُوْا حَدِیْثِیْ عَہْدٍ بِکُفْرٍ ، فِیْ دَارٍ کَانَتْ دَارَ کُفْرٍ ، فَکَانَ الْمُشْرِکُوْنَ اِذَا قَدَرُوْا عَلَیْہِمْ ، اسْتَکْرَہُوْھُمْ عَلَی الْاِقْرَارِ بِالْکُفْرِ ، فَیُقِرُّوْنَ بِذٰلِکَ بِأَلْسِنَتِہِمْ ، قَدْ فَعَلُوْا ذٰلِکَ بِعَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَبِغَیْرِہِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَرَضِیَ عَنْہُمْ ، فَنَزَلَتْ فِیْہِمْ اِلَّا مَنْ أُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ وَرُبَّمَا سَہْوًا ، فَتَکَلَّمُوْا بِمَا جَرَتْ عَلَیْہِ عَادَتُہُمْ قَبْلَ الْاِسْلَامِ ، وَرُبَّمَا أَخْطَئُوْا فَتَکَلَّمُوْا بِذٰلِکَ أَیْضًا ، فَتَجَاوَزَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لَہُمْ عَنْ ذٰلِکَ ، لِأَنَّہُمْ غَیْرُ مُخْتَارِیْنَ لِذٰلِکَ ، وَلَا قَاصِدِیْنَ اِلَیْہِ .وَقَدْ ذَہَبَ أَبُوْ یُوْسُفَ رَحِمَہُ اللّٰہُ اِلَی ہَذَا التَّفْسِیْرِ أَیْضًا حَدَّثَنَاہُ الْکَیْسَانِیُّ ، عَنْ أَبِیْھَا.فَالْحَدِیْثُ یَحْتَمِلُ ہٰذَا الْمَعْنَی ، وَیَحْتَمِلُ مَا قَالَ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی ، فَلَمَّا احْتَمَلَ ذٰلِکَ ، احْتَجْنَا اِلَیْ کَشْفِ مَعَانِیْہِ، لِیَدُلَّنَا عَلٰی أَحَدِ التَّأْوِیْلَیْنِ ، فَنَصْرِفُ مَعْنٰی ہٰذَا الْحَدِیْثِ اِلَیْہِ .فَنَظَرْنَا فِیْ ذٰلِکَ ، فَوَجَدْنَا الْخَطَأَ ، ہُوَ مَا أَرَادَ الرَّجُلُ غَیْرَہٗ، فَفَعَلَہٗ، لَا عَنْ قَصْدٍ مِنْہُ اِلَیْہِ، وَلَا اِرَادَۃٍ مِنْہُ اِیَّاہٗ، وَکَانَ السَّہْوُ مَا قَصَدَ اِلَیْہِ، فَفَعَلَہٗ عَلَی الْقَصْدِ مِنْہُ اِلَیْہِ، عَلٰی أَنَّہٗ سَاہٍ عَنِ الْمَعْنَی الَّذِیْ یَمْنَعُہٗ مِنْ ذٰلِکَ الْفِعْلِ وَکَانَ الرَّجُلُ اِذَا نَسِیَ أَنْ تَکُوْنَ ہٰذِہِ الْمَرْأَۃُ لَہُ زَوْجَۃً ، فَقَصَدَ اِلَیْہَا ، فَطَلَّقَہَا ، فَکُلٌّ قَدْ أَجْمَعَ أَنَّ طَلَاقَہُ عَامِلٌ وَلَمْ یُبْطِلُوْا ذٰلِکَ لِسَہْوِہٖ، وَلَمْ یَدْخُلْ ذٰلِکَ السَّہْوُ فِی السَّہْوِ الْمَعْفُوِّ عَنْہُ فَاِذَا کَانَ السَّہْوُ الْمَعْفُوُّ عَنْہُ، لَیْسَ فِیْہِ مَا ذَکَرْنَا مِنِ الطَّلَاقِ وَالْأَیْمَانِ ، وَالْعَتَاقِ ، کَانَ کَذٰلِکَ الْاَسْتِکْرَاہُ الْمَعْفُوُّ عَنْہُ، لَیْسَ فِیْہِ أَیْضًا مِنْ ذٰلِکَ شَیْء ٌ فَثَبَتَ بِذٰلِکَ ، فَسَادُ قَوْلِ الَّذِیْنَ أَدْخَلُوْا الطَّلَاقَ وَالْعَتَاقَ وَالْأَیْمَانَ فِیْ ذٰلِکَ .وَاحْتَجَّ أَہْلُ الْمَقَالَۃِ الْأُوْلٰی أَیْضًا لِقَوْلِہِمْ ، بِمَا رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ ، قَالَ :
٤٥٥٠: عبید بن عمیر (رح) نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے میری امت کو خطاء ‘ نسیان اور جس پر ان کو مجبور کیا جائے ان کا گناہ معاف کردیا۔ امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ جب کسی کو طلاق پر مجبور کیا جائے یا زبردستی نکاح یا قسم لی جائے یا آزاد کیا جائے یا اس کے مشابہہ جو دیگر افعال ہیں وہ کرائے جائیں اور اس نے ان کو مجبوری میں کرلیا۔ تو یہ سب باطل ہیں نافذ نہ ہوں گے۔ کیونکہ یہ اس چیز میں داخل ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اس امت کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے معاف کردیا اور اس کی دلیل یہ روایت ہے۔ دوسروں نے ان سے اختلاف کیا ہے کہ اکراہ کی حالت میں جو اس نے اپنے اوپر لازم کیا وہ نافذ ہوجائے گا۔ مثلاً قسم ‘ طلاق ‘ عتاق ‘ نکاح ‘ مطلقہ کی مراجعت اگر وہ اس سے رجوع کرنے والا ہو۔ اس حدیث کا وہ مفہوم نہیں جو تم نے لیا ہے بلکہ اس ارشاد کا تعلق شرک وغیرہ سے ہے کیونکہ وہ لوگ دارالکفر میں مقیم تھے اور نئے نئے اسلام لانے والے تھے اس لیے کفار کا جب بھی ان پر بس چلتا وہ انھیں اقرار کفر پر مجبور کرتے۔ چنانچہ بسا اوقات وہ اپنی زبانوں سے اس کا اقرار کرتے۔ چنانچہ حضرت عمار بن یاسر (رض) اور بعض دیگر صحابہ کرام (رض) سے یہی معاملہ کیا گیا۔ اس وقت ان کے حق میں قرآن مجید کی آیت نازل ہوئی ” الا من اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان “ اور بعض اوقات وہ بھول کر اسلام سے پہلے کی عادت کے مطابق کلمہ کفر زبان سے نکال بیٹھتے اور کبھی غلطی سے بھی اس قسم کا کلام ہوجاتا۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے ان سے درگزر فرمایا کیونکہ اس میں ان کو کوئی اختیار نہ تھا اور نہ ہی وہ ایسا ارادہ سے کرتے تھے۔ امام ابو یوسف (رح) نے یہی تفسیر بیان فرمائی ہے اور ہم نے کیسانی کی سند سے امام ابو یوسف (رح) سے یہ بات نقل کی ہے۔ پس حدیث میں اس معنی کا احتمال بھی ہے اور دوسرا احتمال وہ ہے جس کو فریق اوّل نے ذکر کیا ہے جب احتمال ہوا تو اس روایت کے معنی کی پڑتال ضروری ہوئی تاکہ دونوں میں سے ایک مفہوم کی طرف راہنمائی ہو اور پھر ہم اس روایت کو اس معنی کی طرف پھیر دیں۔ ہم نے اس سلسلہ میں غور کیا تو معلوم ہوا کہ جب کوئی آدمی کسی کام کا ارادہ کرے مگر اس کام کی بجائے جس کا ارادہ ہو دوسرے کام کو کر ڈالے تو یہ خطاء ہے کیونکہ اس نے اس کام کا قصد نہیں کیا اور سہو و نسیان یہ ہے کسی کام کو تو ارادہ سے کرے مگر اس میں جو رکاوٹ تھی وہ بھول گیا۔ (مثلاً روزہ کی حالت میں بھول کر کھا پی لیا) اب اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے متعلق بھول جائے کہ وہ اس کی بیوی ہے لیکن اس کے باوجود قصداً اس کو طلاق دے دے تو سب اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی یہ طلاق واقع ہوجائے گی اور وہ بھول کی وجہ سے اس طلاق کو باطل قرار نہیں دے سکتا اور یہ بھول اس بھول میں داخل شمار نہیں ہوتی جس کو معاف کردیا گیا تو جب بھول کردی جانے والی طلاق قسم اور آزادی سب میں بھول کا دخل نہیں اور اس بھول میں شامل نہیں جو معاف کردی گئی تو جبر کے موقعہ پر مندرجہ امور بھی اس اکراہ میں شامل نہ ہوں گے جو معاف کردیا گیا ہے۔ پس اس سے ان لوگوں کے قول کی غلطی ظاہر و ثابت ہوگئی جنہوں نے طلاق ‘ آزادی اور قسم کو اس میں شامل کیا۔ دلیل میں فریق اوّل کہتے ہیں کہ مندرجہ ذیل روایت بھی تو اس مؤقف کی تائید کرتی ہے روایت جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ ہے۔
تخریج : ابن ماجہ فی الطلاق باب ١٦۔
امام طحاوی (رح) کا قول : بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ جب کسی کو طلاق پر مجبور کیا جائے یا زبردستی نکاح یا قسم لی جائے یا آزاد کیا جائے یا اس کے مشابہہ دیگر افعال ہیں وہ کرائے جائیں اور اس نے ان کو مجبوری میں کرلیا۔ تو یہ سب باطل ہیں نافذ نہ ہوں۔ کیونکہ یہ اس چیز میں داخل ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اس امت کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے معاف کردیا اور اس کی دلیل یہ روایت ہے۔
فریق ثانی کا مؤقف : اکراہ کی حالت میں جو اس نے اپنے اوپر لازم کیا وہ نافذ ہوجائے گا۔ مثلاً قسم ‘ طلاق ‘ عتاق ‘ نکاح ‘ مطلقہ کی مراجعت اگر وہ اس سے رجوع کرنے والا ہو۔
اول فریق کے مؤقف کا جواب : اس حدیث کا وہ مفہوم نہیں جو تم نے لیا ہے بلکہ اس ارشاد کا تعلق شرک وغیرہ سے ہے کیونکہ وہ لوگ دارالکفر میں مقیم تھے اور نئے نئے اسلام لانے والے تھے اس لیے کفار کا جب بھی ان پر بس چلتا وہ انھیں اقرار کفر پر مجبور کرتے۔ چنانچہ بسا اوقات وہ اپنی زبانوں سے اس کا اقرار کرتے۔ چنانچہ حضرت عمار بن یاسر (رض) اور بعض دیگر صحابہ کرام (رض) سے یہی معاملہ کیا گیا۔ اس وقت ان کے حق میں قرآن مجید کی آیت نازل ہوئی ” الا من اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان “ اور بعض اوقات وہ بھول کر اسلام سے پہلے کی عادت کے مطابق کلمہ کفر پر زبانی سے نکال بیٹھتے اور کبھی غلطی سے بھی اس قسم کا کلام ہوجاتا۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے ان سے درگزر فرمایا کیونکہ اس میں ان کو کوئی اختیار نہ تھا اور نہ ہی وہ ایسا ارادہ سے کرے تھے۔
امام ابو یوسف (رح) سے یہی تفسیر بیان فرمائی ہے اور ہم نے کیسانی کی سند سے امام ابو یوسف (رح) سے یہ بات نقل کی ہے۔
پس حدیث میں اس معنی کا احتمال بھی ہے اور دوسرا احتمال وہ جس کو فریق اوّل نے ذکر کیا ہے جب احتمال ہوا تو اس روایت کے معنی کی پڑتال ضروری ہوئی تاکہ دونوں میں سے ایک مفہوم کی طرف راہنمائی ہو اور پھر ہم اس روایت کو اس معنی کی طرف پھیر دیں۔
خطاء و نسیان کے معانی پر غور : ہم نے اس سلسلہ میں غور کیا تو معلوم ہوا کہ جب کوئی آدمی کسی کا مکا ارادہ کرے مگر اس کام کی بجائے جس کا ارادہ ہو دوسرے کام کو کر ڈالے تو یہ خطاء ہے کیونکہ اس نے اس کام کا قصد نہیں کیا اور سہو و نسیان یہ ہے کسی کام کو تو رادہ سے کرے مگر اس میں جو رکاوٹ تھی وہ بھول گیا۔ (مثلاً روزہ کی حالت میں بھول کا کھا پی لیا) اب اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے متعلق بھول جائے کہ وہ اس کی بیوی ہے لیکن اس کے باوجود قصداً اس کو طلاق دے دے تو سب اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی یہ طلاق واقع ہوجائے گی اور وہ بھول کی وجہ سے اس طلاق کو باطل قرار نہیں دے سکتا اور یہ بھول اس بھول میں داخل شمار نہیں ہوتی جس کو معاف کردیا گیا تو جب بھول کردی جانے والی طلاق قسم اور آزادی سب میں بھول کا دخل نہیں اور اس بھول میں شامل نہیں جو معاف کردی گئی تو جبر کے موقعہ پر مندرجہ امور بھی اس اکراہ میں شامل نہ ہوں گے جو معاف کردیا گیا ہے۔
پس اس سے ان لوگوں کے قول کی غلطی ظاہر و ثابت ہوگئی جنہوں نے طلاق ‘ آزادی اور قسم کو اس میں شامل کیا۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔